بدھ، 30 دسمبر، 2020

دو لوگوں کا ایک دوسرے کو ایک ساتھ سلام کرنا

سوال :

مفتی صاحب ! و آدمیوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو سلام کہا تو دونوں پر سلام کا جواب دینا واجب ہوگا یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جب دو لوگ ملاقات کے وقت یا فون کال پر ایک ساتھ ایک دوسرے کو "السلام علیکم" کہیں تو دونوں پر سلام کا جواب دینا یعنی "وعلیکم السلام" کہنا واجب ہوجائے گا۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: حق المسلم علی المسلم خمس : رد السلام … الخ۔ (صحیح البخاري، رقم: ۱۲۴۰)

إن السلام سنۃ واستماعہ مستحب، وجوابہ أي ردہ فرض کفایۃ، وإسماع ردہ واجب۔ (شامي / کتاب الحظر والإباحۃ، ۹؍۵۹۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 جمادی الاول 1442

مخصوص طرز پر رومال وغیرہ لٹکاکر نماز پڑھنا

سوال :

مفتی صاحب ! سردیوں کا موسم چل رہا ہے، مسجدوں میں بعض ایسے نمازی دیکھنے کو ملتے ہیں جو شال یا بڑے رومال سر یا کاندھے پر ڈالے ہوئے نماز ادا کرتے ہیں۔ (ہماری مسجد میں ایک شخص ہر سال سردیوں میں تولیہ کاندھے پر ڈالے، تولیہ کا دونوں کنارہ دائیں بائیں جانب لٹکتا ہوا چھوڑ کر نماز ادا کرتا تھا، سمجھانے پر پہلے الجھا، پھر مان گیا۔ اب تولیہ صف میں رکھ کر نماز ادا کرتا ہے۔) سوال آپ سے یہ ہے کہ سدل کا معنیٰ، حکم اور مصداق وغیرہ کیا ہے؟ وضاحت فرما دیں گے تو ایک سند بھی مل جائے گی، بہتوں کو فائدہ بھی ہوگا۔بینوا توجروا۔
(المستفتی : توصیف اشتیاق، مسجد بھاؤ میاں، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں بحالت نماز سدل کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔

سدل یہ ہے کہ کپڑا اپنے سر پر اور کندھے پر ڈال دے اور اسکے تمام کنارے کو نیچے لٹکتا چھوڑ دے۔ لیکن اگر چادر کو یا رومال کو ایک پیچ دے دیا جائے تو اب سدل نہیں رہے گا، اسکے مکروہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ یہود کا طریقہ ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح کپڑا لٹکا رہے تو نماز میں بار بار اسکو سمیٹنا پڑتا ہے جس سے خشوع خضوع میں فرق پڑے گا، اور ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ بار بار کپڑے کو سمیٹنا مکروہ ہے، اس لئے بھی سدل مکروہ ہے۔

کتاب المسائل میں ہے :
عرب اپنے جبے کے اندر سے رومال پہنتے ہیں، اور ہمارے یہاں رومال اوڑھنے والے ایک طرف رومال کو کندھے پر ڈال دیتے ہیں، لہٰذا یہ مکروہ نہیں ہے۔ نماز کی حالت میں چادر یا رومال سر یا دونوں کندھوں پر رکھ کر اس کے دونوں سرے ایک دوسری جانب لپیٹے بغیر دونوں جانب چھوڑ دینا مکروہ تحریمی ہے، اس کو ’’سدل ‘‘ کہا جاتا ہے، یہی حکم اس صورت میں بھی ہے، جب کہ کوٹ یا شیروانی کو آستینوں میں ہاتھ دیئے بغیر کندھے پر ڈال لیا جائے (خارجِ نماز یہ کیفیت مکروہ تنزیہی ہے)

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں آپ نے جس شخص کے عمل کا ذکر کیا ہے وہ سدل کی ہی صورت ہے، لہٰذا آپ کا منع کرنا درست ہوا۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَھٰی عَنِ السَّدْلِ فِی الصَّلَاۃِ وَاَنْ یُغَطِّیَ الرَّجُلُ فَاہُ۔ (ابوداؤد، باب ما جاء فی السدل فی الصلوة، ص ١٠١ نمبر ٦٤٣)

وکرہ الخ۔ سدل تحریماً للنہی ثوبہ أی إرسالہ بلا لبس معتاد، وکذا القباء بکم إلی وراء ذکرہ الحلبی کشد ومندیل یرسلہ من کتفیہ فلو من أحدہما لم یکرہ کحالۃ عذر وخارج صلوۃ في الأصح۔ (درمختار) قال الشامی: أی إذا لم یکن للتکبّر فالأصحّ أنہ لایکرہ، قال فی النہر أی تحریماً وإلاَّ فمقتضی ما مر أنہ یکرہ تنزیہاً۔ (شامی بیروت ۲؍۳۴۹، زکریا ۲؍۴۰۵، شرح وقایۃ ۱؍۱۶۷، بدائع الصنائع ۱؍۵۱۳، ہدایۃ ۱؍۱۴۱، کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 جمادی الاول 1442

منگل، 29 دسمبر، 2020

قبرستان کے درختوں کے پھل کھانا

سوال :

مفتی صاحب قبرستان میں پھلوں کے درخت سے پھل ٹوڑ کر کھانا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : شفیق الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبرستان کے درختوں کے پھل اگر باقاعدہ فصل آنے پر فروخت کئے جاتے ہیں، تو بغیر خریدے اُن کا کھانا جائز نہیں ہے، اور اگر پھل دار درختوں کو خیرات کے طور پر سایہ کے لیے لگایا گیا ہے، اُن سے آمدنی مقصود نہیں، تو پھر انہیں توڑ کر کھانا جائز ہے، عموماً قبرستانوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، لہٰذا ایسے پھلوں کا کھانا درست ہے۔ نیز قبرستان کے درختوں پر لگنے والے پھلوں میں مذکورہ بالا شرط کے علاوہ اور کوئی پابندی نہیں۔

غَرَسَ فِي الْمَسْجِدِ أَشْجَارًا تُثْمِرُ إنْ غَرَسَ لِلسَّبِيلِ فَلِكُلِّ مُسْلِمٍ الْأَكْلُ وَإِلَّا فَتُبَاعُ لِمَصَالِحِ الْمَسْجِدِ۔ (شامي : ٤/٤٣٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 جمادی الاول 1442

پیر، 28 دسمبر، 2020

دولہے کی استطاعت سے زیادہ مہر طے کرنا

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب! جان بوجھ کر اگر کوئی اپنی بیٹی کا مہر دولہے کی بساط سے زیادہ اس لئے طے کرے تاکہ وہ طلاق نہ دے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ نیز اس صورت میں مہر کتنا واجب ہوگا؟
(المستفتی : مولوی افضال احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لی جائے کہ مہر باہمی رضامندی سے طے ہوتی ہے، مہر کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ لڑکی والے جتنا کہہ دیں اور وہ مہر متعین ہوجائے، بلکہ یہ لڑکے کی رضامندی پر موقوف ہے، اگر لڑکی والوں کی طرف سے بہت زیادہ مہر مقرر کرنے کا مطالبہ آئے تو لڑکے کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ صاف کہہ دے کہ مجھے یہ مقدار منظور نہیں ہے، بلکہ فلاں فلاں مقدار مقرر کی جائے کہ میں اسی کی استطاعت رکھتا ہوں، اس کے بعد باہمی رضامندی سے جس مقدار پر اتفاق ہوجائے اسی مقدار کا ذکر ایجاب وقبول کے وقت کیا جائے، البتہ اگر اپنی رضامندی سے لڑکا مہر زیادہ کردے تو کوئی حرج نہیں۔

نیز مہر کے سلسلے میں شرعی ضابطہ بھی یہی ہے کہ مہر بہت زیادہ مقرر نہ کیا جائے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے کہ مہر زیادہ مقرر نہ کی جائے کہ یہ کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ مہر مقرر کرتے وقت لڑکے کی حیثیت کو بھی ملحوظ رکھا جائے لڑکے کی استطاعت سے زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے، اور مہر تو بہرصورت لڑکے کو ادا کرنا ہی ہے خواہ وہ اس لڑکی کو زندگی بھر اپنے نکاح میں رکھے یا طلاق دے دے، شوہر کے طلاق دینے کے ڈر سے زیادہ مہر متعین کرنا کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے۔

البتہ ایجاب وقبول کے وقت نکاح خواں نے مہر کی جس مقدار کا ذکر کیا اور دولہے نے اسے قبول کرلیا تو اب اس پوری رقم کا ادا کرنا شوہر پر واجب ہوگا۔

عن العجفاء السلمي قال : خطبنا عمر رضي اللّٰہ فقال: ألا لا تغالوا بصُدُق النساء؟ فإنہا لو کانت مکرمۃ في الدنیا أو تقویٰ عند اللّٰہ، کان أولاکم بہا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما أصدق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امرأۃ من نسائہ ولا أُصدقت امرأۃ من بناتہ أکثر من ثنتي عشر أوقیۃ۔ (سنن أبي داؤد، رقم: ۲۱۰۶)

عن الشعبي عن علي رضي اللّٰہ عنہ: لا مہر أقل من عشرۃ دراہم۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي : ۷؍۲۴۰)

ولو سمی أقل من عشرۃ دراہم فلہا العشرۃ عندنا۔ (الہدایۃ : ۲؍۳۲۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 جمادی الاول 1442

اتوار، 27 دسمبر، 2020

بیوی سے چار مہینہ یا اس سے زیادہ دور رہنے کی قسم کھانا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ اللہ کی قسم میں تیرے پاس چار مہینے تک نہیں آؤں گا تو کیا اس سے طلاق واقع ہو جائیگی؟
2) بہت سارے لوگ باہر ملک میں ملازمت کررہے ہیں اور پانچ سال تین سال وہاں رہتے ہیں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ان کا نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جو پہلی صورت بیان کی گئی ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں ایلاء کہا جاتا ہے، اس کا مکمل مفصل حکم ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے تاکہ یہ مسئلہ مکمل طور پر سمجھ میں آجائے۔

ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں، اور شریعت میں اس کی تعریف یہ ہے کہ شوہر الله تعالی کا نام یا الله تعالی کی صفات میں سے کسی صفت کا ذکر کرکے قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی سے چار مہینے یا اس سے زیادہ عرصے تک جماع نہیں کرے گا۔

ایلاء کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر نے چار مہینے میں اپنی بیوی سے رجوع نہیں کیا، نہ بالفعل (یعنی جماع کرکے) اور نہ بالقول (یعنی صرف زبان سے کہدے کہ میں نے رجوع کیا) اس صورت میں اگر مرد عورت سے جماع نہ کرسکتا ہو خود بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کے بیمار ہونے کی وجہ سے یا دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو کہ وہ اس عرصے میں پہنچ نہ سکتا ہو تو بیوی کو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ اور اگر شوہر نے اس عرصہ میں رجوع کرلیا بالفعل یا بالقول تو وہ حانث (قسم کو پورا نہ کرنے والا) ہوگا۔ لہٰذا اس کے ذمے قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے یا ان کو پہننے کے لئے ایک ایک جوڑا دے، یا ایک غلام آزاد کرے اور اگر دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانے یا ایک ایک جوڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو مسلسل تین دن روزے رکھے۔ اگر الگ الگ کرکے تین روزے رکھے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزہ رکھنا ہوگا۔

قسم کے کفارہ میں دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، البتہ گھر میں کھانے کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں دس مسکینوں کو دو وقت کے کھانے کی قیمت ادا کرنے کی شرعاً اجازت ہے، اسی کے ساتھ اس کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ مالی کفارہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے روزہ رکھ کر کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ کفارہ ادا کرنے کی آسان شکل یہ ہے کہ الگ الگ دس مسکینوں کو دونوں وقتوں کے کھانے کا پیسہ دے دیا جائے۔

ایلاء زمانہ جاہلیت میں ظہار کی طرح طلاق شمار ہوتا تھا لیکن عرب کے لوگ ایلاء اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کی نیت سے کرتے تھے وہ اس طرح سے کہ ان میں سے کوئی مرد اپنی بیوی سے ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک جماع نہ کرنے کی قسم کھا لیتا تھا اور جب اس مدت کے ختم ہونے کا وقت آتا تو پھر وہ اپنی قسم کو دھراتا اور اس طرح ساری زندگی گزر جاتی نہ تو وہ اپنی بیو ی کو بیوی رکھنے کیلئے تیار ہوتا تھا اور نہ اس کو طلاق دیتا تاکہ کوئی دوسرا اس سے نکاح کرے تو شریعت نے ایلاء کے ذریعے سے طلاق ہونے کو تو برقرار رکھا، لیکن اس میں وقت مقرر کردیا کہ اگر کوئی چار مہینے یا اس سے زیادہ عرصہ تک اپنی بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم کھالے پھر اگر اس عرصے میں رجوع نہ کرے تو اس کی بیوی کو ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی، اس طرح شریعت نے اس غلط رسم ورواج کو ختم کردیا جس میں عورت پر ظلم کیا جاتا تھا۔

صورت مسئولہ میں اگر یہ شخص چار مہینے سے پہلے اپنی بیوی سے جماع کرلے تو اس پر قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہوگا، (قسم کے کفارہ کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے) اور اگر چار ماہ تک صحبت نہ کرے گا یا زبان سے نہیں کہے گا کہ میں رجوع کرتا ہوں تو چار ماہ بعد بیوی پر ایک طلاق بائن پڑ جائے گی، اس کے بعد اگر دونوں ساتھ رہنے پر رضا مند ہوں تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ احناف کے نزدیک ایلاء کرنا مکروہ تحریمی اور سخت گناہ کی بات ہے، کیونکہ اس میں بیوی کو تکلیف دینا اور ایک واجب عمل یعنی بیوی کا حق ادا نہ کرنے کی قسم کھانا پایا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے ایسی قسم کھا لی ہے تو اسے یہ قسم توڑ دینا چاہیے اور قسم کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔

2) اگر کسی نے مذکورہ بالا طریقہ پر کوئی قسم نہیں کھائی ہے یعنی ایلاء نہیں کیا ہے تو پھر میاں بیوی کا ایک دوسرے سے دور رہنا خواہ کتنے ہی عرصہ کے لیے ہو اس کی وجہ سے کوئی طلاق نہیں ہوگی۔

قَالَ اللہ تعالٰی : لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوْا فَإِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (۲۲۶) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ(۲۲۷)۔ (سورۃ البقرة : ۲۲۶)

لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ…قال ابن عباس رضی الله عنھما: كان إيلاء أهل الجاهلية السّنة والسّنتين وأكثر من ذلك ، فوقّت الله أربعة أشهر ، فمن كان إيلاؤه أقل من أربعة أشهر فليس بإيلاء. وقال سعيد بن المسيب : كان الإيلاء ضرار أهل الجاهلية ، كان الرجل لا يريد المرأة ولا يحبّ أن يتزوجها غيره ، فيحلف أن لا يقربها أبدا ، وكان يتركها كذلك ، لا أيّما ولا ذات بعل ، فجعل الله تعالى الأجل الذي يعلم به ما عند الرجل في المرأة أربعة أشهر ، وأنزل الله تعالى : لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسائِهِمْ الآية۔ (التفسیر المنیر، سورۃ البقرۃ، ۳۱۲/۲)

الإيلاء منع النفس عن قربان المنكوحة منعا مؤكدا باليمين بالله أو غيره من طلاق أو عتاق أو صوم أو حج أو نحو ذلك مطلقا أو مؤقتا بأربعة أشهر في الحرائر وشهر ین في الإماء من غير أن يتخللها وقت يمكنه قربانها فيه من غير حنث كذا في فتاوى قاضي خان فإن قربها في المدة حنث وتجب الكفارة في الحلف بالله سواء كان الحلف بذاته أو بصفة من صفاته يحلف بها عرفا وفي غيره الجزاء ويسقط الإيلاء بعد القربان وإن لم يقربها في المدة بانت بواحدة كذا في البرجندي شرح النقاية ۔ (الفتاویٰ الھندیۃ : ۴۷۶/۱/نجم الفتاویٰ)

قال اللہ تعالیٰ : فَکَفَّارَتُہُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ۔ (سورہ مائدہ، آیت : ۸۹)

وإن شاء أطعم عشرۃ مساکین کالإطعام فی کفارۃ الظہار۔ (ہدایۃ، الأیمان، باب ما یکون یمینا و مالایکون یمینا، ۲/۴۸۱)

ولو غدی مسکینا و أعطاہ قیمۃ العشاء أجزأہ و کذا إذا فعلہ فی عشرۃ مساکین۔ (شامی، کتا ب الأیمان، مطلب : کفارۃ الیمین، ۵/۵۰۳)

وإن عجز عنہا کلہا وقت الأداء صام ثلاثۃ أیام ولاء۔ (در مختار مع الشامی : ۵/۵۰۵)

أو إطعام عشرۃ مساکین، قال فی الشامیۃ: وفی الإطعام إما التملیک أو الإباحۃ فیعشیہم ویغدیہم (إلی قولہ) وإذا غدی مسکینا وعشی غیرہ عشرۃ أیام لم یجزہ لأنہ فرق طعام العشرۃ علی عشرین کما إذا فرق حصۃ المسکین علی مسکینین (وقولہ تحقیقا أو تقدیراً) حتی لو أعطی مسکینا واحدا فی عشرۃ أیام کل یوم نصف صاع یجوز۔ (شامی : ۵/۵۰۳)

ویجوز دفع القیمۃ … ولو غداہم و عشاہم فی یوم واحد أو عشاہم فی یوم آخر أو غداہم فی یومین أو غداہم و أعطاہم قیمۃ عشائہم الخ۔ (تاتارخانیۃ ۶/۳۰۲-۳۰۳، رقم: ۹۴۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الاول 1442

ریاض الجنہ میں نماز پڑھنے کی فضیلت

سوال :

مفتی صاحب! مسجد نبوی میں جو جگہ ریاض الجنہ ہے، وہاں نماز پڑھنے کی کیا فضیلت ہے؟ کوئی حدیث اس بارے میں ہو تو رہنمائی فرمائیں۔
( المستفتی : مصدق سر، مالیگاؤں)
-----------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد نبوی کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جو روضۂ اقدس اور منبر نبوی کے درمیان میں ہے، جس کو ’’ریاض الجنۃ‘‘ کہا جاتا ہے، اس کے ستونوں پر سفید پتھر لگے ہوئے ہیں، اور ہرے پھولوں کا سفید کارپیٹ بچھا ہوا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : مرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔

مسجد نبوی میں منبر اور حجرۂ مبارکہ کے درمیانی حصہ کو جنت کی کیاری کہنے کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں اقوال مختلف ہیں: (۱) بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ زمین کا ٹکڑا بعینہٖ جنت میں چلا جائے گا (۲) یا یہ مطلب ہے کہ اس حصہ میں عبادت کرنے والوں کو آخرت میں جنت کے باغات نصیب ہوں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ (البحر العمیق : ۱؍۲۵۲)

البتہ جنت کی کیاری میں نماز پڑھنے کی کوئی مخصوص فضیلت آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے، لیکن چونکہ اس جگہ کی بڑی اہمیت ہے جیسا کہ مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے، لہٰذا اس بات کی قوی امید کی جاسکتی ہے کہ یہاں نماز پڑھنے والے کو جنت نصیب ہوجائے، لیکن یہاں نماز پڑھنے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس فضیلت کے حاصل کرنے میں دوسروں کو ہماری وجہ سے کوئی ایذا اور تکلیف نہ پہونچے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ۔ (بخاری شریف : ۱؍۱۵۹ حدیث : ۱۱۹۵/بحوالہ، کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الاول 1442

ہفتہ، 26 دسمبر، 2020

مخنث کا مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا

سوال :

کیا مخنث مسجد میں جماعت کی نماز میں شریک ہو سکتا ہے؟ کیا اور اس پر مردوں یا عورتوں کے مسائل لاگو ہوں گے؟ برائے مہربانی تفصیلی جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : ایاز بھائی، ایولہ)
------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے یہاں جنہیں مخنث کہا جاتا ہے ان کی مختلف قسمیں ہیں، چنانچہ یہاں ان کی تمام قسموں کے احوال مفصل مدلل لکھ دیئے جاتے ہیں۔

ایسا مخنث جس میں مردوں کی علامات ہوں لیکن عورتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہو، ان کے جیسے کپڑے پہنتا ہو اور بناؤ سنگھار نیز ناچنا گانا کرتا ہو، ایسا شخص شرعاً مخنث نہیں ہے، بلکہ بالغ مرد ہے، لہٰذا وہ مسجد آسکتا ہے اور مردوں کے لباس میں مردوں کی صف میں کھڑے ہوکر اس کے لئے نماز پڑھنا جائز ہے، البتہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے اور ناچنے گانے کا عمل سخت گناہ ہے، اس سے توبہ کرنا اس پر بہرحال لازم ہے۔

ایسا مخنث جس کے بارے میں یہ طے کرنا دشوار ہو کہ وہ مرد ہے یا عورت، تو وہ بھی نماز باجماعت میں شریک ہوسکتا ہے، لیکن وہ نابالغ بچوں کی صف کے پیچھے کھڑا ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ وہ دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھے۔ لیکن اگر یہ مردوں کی صف میں کھڑا ہوجائے تب بھی اس کی وجہ سے مردوں کی یا خود اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ وہ عورت کے حکم میں نہیں ہے۔

جس عورت نے تبدیل جنس کرائی ہے وہ یا تو عورت ہی ہے یا خنثی کے حکم میں ہے، لہٰذا اس کے لئے مردوں کی صف میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، بلکہ یا تو وہ عورت کی صف میں کھڑی ہو یا اگر خنثی کے حکم میں ہے، تو عورتوں سے آگے مردوں کے پیچھے الگ صف بنائی جائے گی۔ اب چونکہ نماز کے لیے مساجد میں عورتوں کا آنا ممنوع ہے، لہٰذا ایسی عورت کو مسجد نہیں آنا چاہیے۔

ویصف … الرجال ثم الصبیان ثم النساء۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۸۹)

فإن بالغ وجامع بذکرہ فہو رجل، وکذا إذا لم یجامع بذکرہ ولکن خرجت لحیتہ فہو رجل، وکذا إذا احتلم کما یحتلم الرجال فہو رجل۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ : ۲۰؍۱۹۴، زکریا)

وإذا وقف خلف الإمام قام بین صف الرجال والنساء لاحتمال أنہ امرأۃ فلا یتخلل الرجال کیلا تفسد صلاتہم۔ (ہدایۃ : ۴؍۶۸۶)

وأحب إلینا أن یصلی بقناع لأنہ یحتمل أنہ امرأۃ۔ (ہدایہ ۴؍۶۸۶)

فیقف بین صف الرجال والنساء (وتحتہ في الشامیۃ) إذ لو وقف مع الرجال احتمل أنہ أنثی، أو مع النساء احتمل أنہ رجل۔ (الدرالمختار مع الشامي : ۱۰؍۴۴۸)

الأصل في الخنثی المشکل أن یؤخذ بالأحوط والأوثق في أمور الدین … وإذا وقف خلف الإمام، قام بین صف الرجال والنساء لاحتمال أنہ امرأۃ فلا یتخلل الرجال، کي لا تفسد صلاتہم، ولا النساء لاحتمال أنہ رجل فیفسد صلا تہ۔ (ہدایۃ مع الفتح ۱۰؍۵۱۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 جمادی الاول 1442

منگل، 22 دسمبر، 2020

ضحوۂ کبری کی حقیقت اور اس کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ضحوۂ کبری کی کیا حقیقت ہے؟ جیسا کہ ایک تقویم میں لکھا ہے کہ اس کا وقت چالیس سے پینتالیس منٹ ہے، اور اس درمیان نماز پڑھنا منع ہے، آپ سے درخواست ہے کہ اس کی وضاحت فرمادیں۔
(المستفتی : حافظ رئیس جمالی، مالیگاؤں)
------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ضحوۂ کبری کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ دن دو طرح کا ہوتا ہے، ایک شرعی دن، دوسرے عرفی دن جسے شمسی دن بھی کہا جاتا ہے۔

شرعی دن صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں، جبکہ عرفی اور شمسی دن طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کا وقت کہلاتا ہے۔

اس کو مثال کے ساتھ سمجھ لی‍ں کہ آج 21 دسمبر کو 05 بجکر 43 منٹ پر صبح صادق ہوئی، اور غروب آفتاب 05 بج کر 56 منٹ پر ہوا ہے، تو آج کا پورا شرعی دن 12 گھنٹہ 13 منٹ کا ہوا، اس پورے وقت میں روزہ رکھا جاتا ہے۔ اور اس شرعی دن کا آدھا نصف النہار شرعی کہلائے گا، اور آدھے میں 06 گھنٹہ 07 منٹ ہوا تو اس حساب سے نصف النہار شرعی 11 بجکر 50 منٹ پر ہوگا، اسی کو ’’ضحوۂ کبری‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے تقریباً چالیس منٹ کے بعد زوال کا وقت ہوتا ہے جسے نصف النہار عرفی بھی کہا جاتا ہے۔ اب اسے بھی مثال کے ذریعے سمجھ لیں۔

طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب کے درمیان کا وقت جس میں ہر چیز کا سایۂ اصلی اس چیز کے ٹھیک برابر نیچے ہوتا ہے اور ذرا سا بھی ڈھل جائے تو اسے زوال کا وقت کہا جاتا ہے، لہٰذا آج 21 دسمبر کو 07 بجکر 02 منٹ پر سورج طلوع ہوا اور 05 بجکر 56 منٹ پر غروب ہوا ہے، تو آج کا پورا عرفی اور شمسی دن 10 گھنٹہ 53 منٹ کا ہوگا، تو اس کا نصف ٹھیک 12 بجکر 30 منٹ پر ہوگا۔ لہٰذا 12 بجکر 30 منٹ پر زوال کا وقت ہوگا، جسے نصف النہار عرفی بھی کہتے ہیں۔ اس وقت کوئی بھی نماز پڑھنا جائز نہیں، یہ وقت اصلاً صرف ایک ڈیڑھ منٹ کا ہوتا ہے، جس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا، البتہ احتیاطاً دو منٹ پہلے اور دو منٹ بعد تک کوئی بھی نماز نہیں پڑھنا چاہیے۔ اس وقت سے پہلے پہلے کوئی بھی نماز پڑھنا جائز ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ضحوۂ کبری جس کو نصف النہار شرعی کہا جاتا ہے ایک مستقل وقت ہوتا ہے، اس سے ہٹ کر وقت زوال جس کو نصف النہار عرفی بھی کہا جاتا ہے، بالکل الگ دوسرا وقت ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان تقریباً چالیس منٹ کا فاصلہ ہوتا ہے، اور ضحوۂ کبری کا تعلق نماز سے نہیں، بلکہ روزہ سے ہے، یعنی اگر کسی شخص نے صبح صادق کے بعد روزہ توڑنے والا کوئی عمل نہ کیا ہو تو ایسا شخص ضحوۃ الکبری سے پہلے پہلے کسی بھی روزہ (خواہ نفل ہو یا فرض) کی نیت کرلے تو اس کا روزہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن اگر ضحوۂ کبری کے بعد روزہ کی نیت کرے تو اس کا روزہ نہیں ہوگا۔

چنانچہ اگر کسی تقویم میں ضحوۂ کبری کا خانہ بنا بھی ہوتو وہاں اس بات کی وضاحت ہونی چاہیے کہ اس کا تعلق نماز سے نہیں بلکہ روزہ سے ہے۔ اور جس تقویم میں اس وقت نماز سے منع کیا گیا ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بات راجح اور مفتی بہ قول کے خلاف ہے، لہٰذا اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

(فَيَصِحُّ) أَدَاءُ (صَوْمِ رَمَضَانَ وَالنَّذْرِ الْمُعَيَّنِ وَالنَّفَلِ بِنِيَّةٍ مِنْ اللَّيْلِ) فَلَا تَصِحُّ قَبْلَ الْغُرُوبِ وَلَا عِنْدَهُ (إلَى الضَّحْوَةِ الْكُبْرَى لَا) بَعْدَهَا وَلَا (عِنْدَهَا) اعْتِبَارًا لِأَكْثَرِ الْيَوْمِ۔ (وتحتہ في الشامیۃ) الْمُرَادُ بِهَا نِصْفُ النَّهَارِ الشَّرْعِيِّ وَالنَّهَارُ الشَّرْعِيُّ مِنْ اسْتِطَارَة الضَّوْءِ فِي أُفُقِ الْمَشْرِقِ إلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ -إلی قولہ- لِأَنَّ الزَّوَالَ نِصْفُ النَّهَارِ مِنْ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَوَقْتِ الصَّوْمِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ كَمَا فِي الْبَحْرِ عَنْ الْمَبْسُوطِ قَالَ فِي الْهِدَايَةِ وَفِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ قَبْلَ نِصْفِ النَّهَارِ وَهُوَ الْأَصَحُّ؛ لِأَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ وُجُودِ النِّيَّةِ فِي أَكْثَرِ النَّهَارِ وَنِصْفُهُ مِنْ وَقْتِ طُلُوعِ الْفَجْرِ إلَى وَقْتِ الضَّحْوَةِ الْكُبْرَى لَا وَقْتَ الزَّوَالِ فَتُشْتَرَطُ النِّيَّةُ قَبْلَهَا لِتَتَحَقَّقَ فِي الْأَكْثَرِ. -إلی قولہ- قَدْ عَلِمْت أَنَّ النَّهَارَ الشَّرْعِيَّ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ إلَى الْغُرُوبِ وَاعْلَمْ أَنَّ كُلَّ قُطْرٍ نِصْفُ نَهَارِهِ قَبْلَ زَوَالِهِ بِنِصْفِ حِصَّةِ فَجْرِهِ فَمَتَى كَانَ الْبَاقِي لِلزَّوَالِ أَكْثَرَ مِنْ هَذَا النِّصْفِ صَحَّ وَإِلَّا فَلَا تَصِحُّ النِّيَّةُ -وقولہ- وَإِذَا نَوَى الصَّوْمَ مِنْ النَّهَارِ يَنْوِي أَنَّهُ صَائِمٌ مِنْ أَوَّلِهِ حَتَّى لَوْ نَوَى قَبْل الزَّوَالِ أَنَّهُ صَائِمٌ فِي حِينِ نَوَى لَا مِنْ أَوَّلِهِ لَا يَصِيرُ صَائِمًا۔ (شامي : ٢/ ۳۷۷)

(قَوْلُهُ: وَاسْتِوَاءٍ) التَّعْبِيرُ بِهِ أَوْلَى مِنْ التَّعْبِيرِ بِوَقْتِ الزَّوَالِ، -إلی قولہ- وَقَدْ وَقَعَ فِي عِبَارَاتِ الْفُقَهَاءِ أَنَّ الْوَقْتَ الْمَكْرُوهَ هُوَ عِنْدَ انْتِصَافِ النَّهَارِ إلَى أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ وَلَا يَخْفَى أَنَّ زَوَالَ الشَّمْسِ إنَّمَا هُوَ عَقِيبَ انْتِصَافِ النَّهَارِ بِلَا فَصْلٍ، وَفِي هَذَا الْقَدْرِ مِنْ الزَّمَانِ لَا يُمْكِنُ أَدَاءُ صَلَاةٍ فِيهِ، فَلَعَلَّ أَنَّهُ لَا تَجُوزُ الصَّلَاةُ بِحَيْثُ يَقَعُ جُزْءٌ مِنْهَا فِي هَذَا الزَّمَانِ، -إلی قولہ- فِي الْقُهُسْتَانِيِّ الْقَوْلَ بِأَنَّ الْمُرَادَ انْتِصَافُ النَّهَارِ الْعُرْفِيِّ إلَى أَئِمَّةِ مَا رَوَاهُ النَّهْرُ۔ (شامي : ۱/ ۳۷۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الاول 1442