ہفتہ، 12 دسمبر، 2020

زمین کے بدلے زمین فروخت کرنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان شرع متین مسئلہ مذکورہ کے بارے میں کچھ لوگ ایک سوال بار بار دریافت کرتے ہیں، کہ زمین کے جو دلال حضرات ہیں وہ ابھی کچھ اس طرح بہت کر رہے ہیں زمین کو زمین کے بدلے دے رہے ہیں دیانہ کی زمین بڑی مقدار میں، اور سٹی کی زمین چھوٹی مقدار میں ہیں، (ادل بدل) بہت چل رہا ہے تو کیا ہم نے جو حدیث سنی کھجور کو کھجور کے بدلے لینا جائز نہیں ہے تو زمین کو زمین کے بدلے لینا اور دینا کیسا ہے؟
(المستفتی : خالد انور، جعفر نگر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے چھ چیزوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپس میں ان کا تبادلہ برابر ہونا چاہئے، کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ وہ چھ چیزیں سونا، چاندی، گیہوں، جَو، کھجور اور انگور ہیں۔ لیکن یہ حکم صرف ان چھ اشیاء میں نہیں ہے۔ بلکہ ہر وہ ہم جنس اموال یا اشیاء جن کا تعلق مکیلی (برتن میں ناپی جانے والی اشیاء) یا موزونی (وزن کی جانے والی اشیاء) سے ہو ان کے باہم تبادلے کی صورت میں کمی زیادتی ربوٰا اور سود کہلاتی ہے، مثلاً ایک کلو گیہوں کے بدلہ دو کلو گیہوں لینا جائز نہیں ہے۔ اور جو اشیاء کیلی یا موزونی نہ ہو ان کا آپس میں تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے۔

زمین چونکہ کیلی اور موزونی نہیں ہے، چنانچہ اس کا شمار اموالِ ربویہ یعنی ان چیزوں میں سے نہیں ہے جن کی تبادلے کے ساتھ خریدوفروخت میں کمی بیشی ناجائز ہوتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شہر کی چھوٹی زمین کے بدلہ مضافات یعنی دیانہ وغیرہ علاقوں کی بڑی زمین فروخت کرنا جائز اور درست ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

قال الحصکفیؒ : الربا وشرھا فضل ولو حکمًا فدخل ربا النسیۃ والبیوع الفاسدۃ فکلہا من الربوا خال عن العوج بمیعار شرعی وھو الکیل والوزن مشروط لاحد المتعاقدین فی المعاوجۃ وعلۃ القدر مع الجنس وان وجد احرم الفضل والنساء وان وجد احدھما حل الفضل وحرم النّسأ۔ (الدرالمختارعلی ہامش ردالمحتار:ج؍۴،ص؍۱۷۶، باب الربوٰا)

وھو فی الشرع عبارۃ عن فضل مال لایقابلہ عوض فی معاوضۃ مال بمال وھو محرم فی کل مکیل وموزون بیع جنسہٖ وعلتہ القدروالجنس وان وجدالقدر والجنس حرم الفضل والنساء وان وجداحدھماوعدم الاٰخر حل الفضل وحرم النساء۔(الفتاوٰی الہندیۃ، باب الربوٰ، ۳؍۱۱۷)

(وعلته) أي علة تحريم الزيادة (القدر) المعهود بكيل أو وزن (مع الجنس فإن وجدا حرم الفضل) أي الزيادة (والنساء) بالمد التأخير فلم يجز بيع قفيز بر بقفيز منه متساويا وأحدهما نساء (وإن عدما) بكسر الدال من باب علم ابن مالك (حلا) كهروي بمرويين لعدم العلة فبقي على أصل الإباحة (وإن وجد أحدهما) أي القدر وحده أو الجنس (حل الفضل وحرم النساء) ولو مع التساوي، حتى لو باع عبدًا بعبد إلى أجل لم يجز لوجود الجنسية". (الدر المختار: ٥/ ١٧١،١٧٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ربیع الآخر 1442

2 تبصرے: