پیر، 14 دسمبر، 2020

عدت کے ایام مکمل ہونے پر بیوہ کیا کرے؟

سوال :

مفتی صاحب! ہندہ کی عدت پوری ہونے قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کے ہندہ کیا کرے؟ جیسا کہ ہمارے یہاں ماحول ہے کہ عدت پوری ہونے پر میکے سے نیا کپڑا لایا جاتا ہے اور اس کو پہننے کیلئے کہا جاتا ہے اور اپنے رشتے داروں کے یہاں لیجایا جاتا ہے اگر والدہ لیجانے پر اصرار کرے تو کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل تحریر فرمائیں کہ صحابیات کی عدت پوری ہوتی تھی تو انکا کیا عمل ہوتا تھا؟
(المستفتی : زبیر اختر عثمانی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عدت کے ایام مکمل ہوتے ہی عدت کی وجہ سے جو پابندیاں عورت پر لازم تھیں وہ ختم ہوجاتی ہیں، یعنی عدت کی مدت گزر جانے کے بعد نئے کپڑے پہننا اور زیب و زینت اختیار کرنا اس کے لیے جائز ہوجاتا ہے، بلکہ اگر عدت کے بعد زیب و زینت کو ناجائز سمجھے تو گناہ گار ہوگی۔ البتہ عدت کی مدت مکمل ہونے پر کوئی مخصوص عمل صحابیات رضی اللہ عنہن سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس وقت کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر اس موقع پر کسی چیز کو شرعاً ضروری سمجھ کر کیا جائے تو یہ عمل ناجائز اور بدعت کہلائے گا۔ چنانچہ عدت مکمل ہونے پر میکہ سے نیا کپڑا لانا اور اسے پہناکر بیوہ خاتون کو رشتہ داروں کے یہاں لے جانا اور اسے شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت اور گناہ کی بات ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے، والدہ کو اچھے انداز میں شریعت کا حکم بتا دیا جائے، امید ہے کہ وہ مان جائیں گے۔

فَإِذَا انْقَضَّتْ عِدَّتُهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهَا أَنْ تَتَزَيَّنَ وَتَتَصَنَّعَ وَتَتَعَرَّضَ لِلتَّزْوِيجِ، فَذَلِكَ المعروف. وروي عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ نَحْوَهُ، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ مُجَاهِدٍ فَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ قال: النِّكَاحُ الْحَلَالُ الطَّيِّبُ، وَرُوِيَ عَنِ الْحَسَنِ وَالزُّهْرِيِّ والسدي ونحو ذلك ۔ (تفسير ابن كثير : ١/٤٨٣)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ لَمَّا جَائَهَا نَعِيُّ أَبِيهَا دَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَحَتْ ذِرَاعَيْهَا وَقَالَتْ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا۔ (بخاری)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح البخاري، الصلح / باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم: ۲۶۹۷)

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۶۳۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ربیع الآخر 1442

2 تبصرے:

  1. الحَمْدُ ِلله آپ کا یہ مسٸلہ پڑھ علم میں اضافہ ھوگیا ۔اللٰہ آپ کو خوب جزاٸے خیر دے. آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ کا مسئلہ یہ مسئلہ پڑھ کر علم میں اضافہ ہو

    جواب دیںحذف کریں