جمعرات، 17 دسمبر، 2020

جادو اور سحر کی حقیقت

سوال :

مفتی صاحب ! سحر اور جادو کی کیا حقیقت ہے؟ کیا موجودہ زمانے میں ساحر اور جادوگر موجود ہیں؟ اور ان کے سحر کے اثرات انسانوں پہ پڑتے ہیں؟ کچھ حضرات کا ایسا کہنا ہے کہ یہ سب پچھلے زمانے کی باتیں ہیں۔ مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : آصف بھائی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سِحر بالکسر لغت میں ہر ایسے اثر کو کہتے ہیں جس کا سبب ظاہر نہ ہو (قاموس) خواہ وہ سبب معنوی ہو جیسے خاص خاص کلمات کا اثر یا غیر محسوس چیزوں کا ہو، جیسے جنات و شیاطین کا اثر یا مسمریزم میں قوت خیالیہ کا اثر یا محسوسات کا ہو مگر وہ محسوسات مخفی ہوں جیسے مقناطیس کی کشش لوہے کے لئے جبکہ مقناطیس نظروں سے پوشیدہ ہو، یا دواؤں کا اثر جبکہ وہ دوائیں مخفی ہوں یا نجوم وسیارات کا اثر۔ اسی لئے جادو کی اقسام بہت ہیں مگر عرف عام میں عموماً جادو ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جن میں جنات و شیاطین کے عمل کا دخل ہو یا قوت خیالیہ مسمریزم کا یا کچھ الفاظ و کلمات کا کیونکہ یہ بات عقلاً بھی ثابت ہے اور تجربہ و مشاہدہ سے بھی اور قدیم وجدید فلاسفہ بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ حروف و کلمات میں بھی بالخاصہ کچھ تاثرات ہوتے ہیں کسی خاص حرف یا کلمہ کو کسی خاص تعداد میں پڑھنے یا لکھنے وغیرہ سے خاص خاص تاثرات کا مشاہدہ ہوتا ہے یا ایسے تاثرات جو کسی انسانی بالوں یا ناخنوں وغیرہ اعضاء یا اس کے استعمالی کپڑوں کے ساتھ کچھ دوسری چیزیں شامل کرکے پیدا کی جاتی ہیں جن کو عرف عام میں ٹونہ ٹوٹکا کہا جاتا ہے اور جادو میں شامل سمجھا جاتا ہے، اور اصطلاح قرآن وسنت میں سحر ہر ایسے امر عجیب کو کہا جاتا ہے جس میں شیاطین کی مدح کی گئی ہو یا کواکب ونجوم کی عبادت اختیار کی گئی ہو جس سے شیطان خوش ہوتا ہے، کبھی ایسے اعمال اختیار کئے جاتے ہیں جو شیطان کو پسند ہیں مثلاً کسی کو ناحق قتل کرکے اس کا خون استعمال کرنا یا جنابت ونجاست کی حالت میں رہنا طہارت سے اجتناب کرنا وغیرہ، جس طرح اللہ تعالیٰ کے پاک فرشتوں کی مدد، ان اقوال و افعال سے حاصل کی جاتی ہے جن کو فرشتے پسند کرتے ہیں مثلا تقویٰ ، طہارت، اور پاکیزگی، بدبو اور نجاست سے اجتناب، ذکر اللہ اور اعمال خیر، اسی طرح شیاطین کی امداد ایسے اقوال و افعال سے حاصل ہوتی ہے جو شیطان کو پسند ہیں اسی لئے سحر صرف ایسے کاموں کے عادی ہوں عورتیں بھی ایام حیض میں یہ کام کرتی ہیں تو مؤثر ہوتا ہے، باقی شعبدے اور ٹوٹکے یا ہاتھ چالاکی کے کام یا مسمریزم وغیرہ ان کو مجازاً سحر کہہ دیا جاتا ہے۔ (روح المعانی/بحوالہ معارف القرآن)

سحر کے اقسام :
امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ سحر کی مختلف قسمیں ہیں ایک قسم تو محض نظر بندی اور تخییل ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت واقعیہ نہیں، جیسے بعض شعبدہ باز اپنی ہاتھ کی چالاکی سے ایسے کام کرلیتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظریں اس کو دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں یا قوت خیالیہ مسمریزم وغیرہ کے ذریعہ کسی کے دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے کہ وہ ایک چیز کو آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے مگر اس کی کوئی حقیقت واقعیہ نہیں ہوتی کبھی یہ کام شیاطین کے اثر سے بھی ہوسکتا ہے کہ مسحور کی آنکھوں اور دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے جس سے وہ ایک غیر واقعی چیز کو حقیقت سمجھنے لگے قرآن مجید میں فرعونی ساحروں کے جس سحر کا ذکر ہے وہ پہلی قسم کا سحر تھا جیسا کہ ارشاد ہے :
سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ (١١٦: ٧) انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔

اور ارشاد ہے :
قَالَ بَلْ أَلْقُوا فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى۔ (سورہ طہ : ٦٦)
ترجمہ : بس پھر اچانک ان کی (ڈالی ہوئی) رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے نتیجے میں موسیٰ کو ایسی محسوس ہونے لگیں جیسے دوڑ رہی ہیں۔

اس میں يُخَيَّلُ کے لفظ سے یہ بتلا دیا گیا کہ یہ رسیاں اور لاٹھیاں جو ساحروں نے ڈالی تھیں نہ درحقیقت سانپ بنی اور نہ انہوں نے کوئی حرکت کی بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوت متخیلہ متاثر ہو کر ان کو دوڑنے والے سانپ سمجھنے لگی۔

دوسری قسم اس طرح کی تخییل اور نظر بندی ہے جو بعض اوقات شیاطین کے اثر سے ہوتی ہے جو قرآن کریم کے اس ارشاد سے معلوم ہوئی :
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ تَنَزَّلُ عَلٰي كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِـيْمٍ (٢٢٢: ٢٢١: ٢٦) میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ کن لوگوں پر شیطان اترتے ہیں ہر بہتان باندھنے والے گناہگار پر اترتے ہیں۔
نیز دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ (١٠٢: ٢) یعنی شیاطین نے کفر اختیار کیا لوگوں کو جادو سکھانے لگے۔

تیسری قسم یہ ہے کہ سحر کے ذریعے ایک شے کی حقیقت ہی بدل جائے جیسے کسی انسان یا جاندار کو پتھر یا کوئی جانور بنادیں امام راغب اصفہانی ابوبکر جصاص وغیرہ حضرات نے اس سے انکار کیا ہے کہ سحر کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت بدل جائے بلکہ سحر کا اثر صرف تخییل اور نظر بندی ہی تک ہوسکتا ہے معتزلہ کا بھی یہی قول ہے، مگر جمہور علماء کی تحقیق یہ ہے کہ انقلاب اعیان میں نہ کوئی عقلی امتناع ہے نہ شرعی، مثلاً کوئی جسم پتھر بن جائے یا ایک نوع سے دوسری نوع کی طرف منقلب ہوجائے، اور فلاسفہ کا جو یہ قول مشہور ہے کہ انقلاب حقائق ممکن نہیں ان کی مراد حقائق سے محال ممکن واجب کی حقیقتیں ہیں کہ ان میں انقلاب عقلاً ممکن نہیں کہ کوئی محال ممکن بن جائے یا کوئی ممکن محال بن جائے۔ اور قرآن عزیز میں فرعونی ساحروں کے سحر کو جو تخییل قرار دیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر سحر تخییل ہی ہو اس سے زائد اور کچھ نہ ہو اور بعض حضرات نے سحر کے ذریعہ انقلاب حقیقت کے جواز پر حضرت کعب احبار کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو مؤطا امام مالک میں بروایت قعقاع بن حکیم منقول ہے،
لَوْلَا كَلِمَاتٌ أَقُولُهُنَّ لَجَعَلَتْنِي يَهُودُ حِمَارًا
اگر یہ چند کلمات نہ ہوتے جن کو میں پابندی سے پڑھتا ہوں تو یہودی مجھے گدھا بنا دیتے۔

گدھا بنا دینے کا لفظ مجازی طور پر بیوقوف بنانے کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے مگر بلاضرورت حقیقت کو چھوڑ کر مجاز مراد لینا صحیح نہیں، اس لئے حقیقی اور ظاہری مفہوم اس کا یہی ہے کہ اگر میں یہ کلمات روزانہ پابندی سے نہ پڑھتا تو یہودی جادوگر مجھے گدھا بنادیتے۔

اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ سحر کے ذریعے انسان کو گدھا بنا دینے کا امکان ہے دوسرے یہ کہ جو کلمات وہ پڑھا کرتے تھے ان کی تاثیر یہ ہے کہ کوئی جادو اثر نہیں کرتا حضرت کعب احبار سے جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ کلمات کیا تھے جو آپ نے یہ کلمات بتلائے۔

أَعُوْذُ بِوَجْهِ اللهِ الْعَظِيْمِ الَّذِيْ لَيْسَ شَيْءٌ أَعْظَمَ مِنْهُ، وَبِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الَّتِيْ لَايُجَاوِزُهُنَّ بَـرٌّ وَّلَا فَاجِرٌ، وَبِأَسْمَآءِ اللهِ الْحُسْنىٰ كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ۔ (اخرجہ فی المؤطاء باب التعوذ عند النوم)
ترجمہ : میں اللہ عظیم کی پناہ پکڑتا ہوں جس سے بڑا کوئی نہیں اور پناہ پکڑتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کی جن سے کوئی نیک وبد انسان آگے نہیں نکل سکتا اور پناہ پکڑتا ہوں اللہ کے تمام اسماء حسنیٰ کی جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا ہر اس چیز کے شر سے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور وجود دیا اور پھیلایا ہے۔ (معارف القرآن)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ بلاشبہ سحر اور جادو کی حقیقت ہے، یہ کوئی وہم نہیں ہے۔ اور مذکورہ بالا جادو کی تینوں قسموں کا واقع ہونا ممکن ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کے اثر کا ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، بخاری شریف ۲/۸۵۸، حدیث ۵۷۶۶میں روایت موجود ہے، جو مختصراً اس طرح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لبید یہودی اور اس کی بیوی نے جادو کردیا تھا اس کے بعد آپ کو ایسا لگنے لگا تھا کہ آپ کسی کام کو کرچکے ہیں جب کہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایک روز آپ نے حق تعالیٰ سے دعا کی اس پر سورة الناس اور سورة الفلق نازل ہوئیں جن میں ایک کی پانچ آیتیں اور ایک کی چھ آیتیں مجموعہ گیارہ آیتیں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے سحر کا موقعہ بھی معلوم کرادیا گیا تھا، چنانچہ وہاں سے مختلف چیزیں نکلیں جن میں سحر کیا گیا تھا اور اس میں ایک تانت کا ٹکڑا بھی نکلا جن میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں، حضرت جبرئیل علیہ السلام سورتیں پڑھنے لگے ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھلنے لگی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طور پر شفایاب ہوگئے۔

چنانچہ جب جادو کی حقیقت ہے تو موجودہ دور میں بھی جادوگروں کا ہونا ناممکن نہیں ہے۔ یہ چیز صرف پچھلے زمانے کے ساتھ خاص نہیں تھی، تاہم ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں جسے جادو اور میجک کہا جاتا وہ عموماً Trick اور ہاتھ کی صفائی سے انجام دیا جاتا ہے۔ نیز سبب کے درجہ میں سحر اور جادو کے اثرات انسانوں پر پڑتے بھی ہیں، لیکن ہر چیز کو سحر سے جوڑ کر دیکھنا بھی درست نہیں۔ جیسا کہ بعض دھوکہ باز عاملین بھولی بھالی عوام کو سحر کے نام پر ڈرا کر ان سے مالی فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور متعلقین سے بدگمان بھی کردیتے ہیں۔

لہٰذا اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ پوری کائنات کے خالق و مالک اللہ تبارک وتعالیٰ ہیں، ان کے حکم کے بغیر دنیا میں ایک ذرہ بھی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتا، اسباب کے خالق بھی وہی ہیں اور اسباب میں تاثیر پیدا کرنے والے بھی وہی ہیں، قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وہ لوگ کسی کو جادو کے ذریعے نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے مگر اللہ کے حکم سے۔ (البقرہ)

عموماً شیطانی وساوس، انسانی نفسیات، نظر بد اور حسد کے اثرات وغیرہ اور بعض اوقات پیشہ ور حضرات لوگوں کو جادو کے وہم میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ان شیطانی حملوں سے بچاؤ کا وہی طریقہ ہے جس کی تعلیم ہمیں دین نے دی ہے :

1) سب سے بنیادی بات کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور ان کی صفات پر کامل ایمان اور یقین ہو، اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ ہو تو قوتِ ایمانی سے ہی ان شاء اللہ بہت سی شیطانی قوتیں اور نفسیاتی حملے پسپا ہوجاتے ہیں۔

2) پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی، ان کی شرائط و احکام کی رعایت رکھ کر ادا کرنے کا اہتمام، جو درحقیقت خالق ومالک سے تعلق مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے، اور جب بندے کا تعلق اللہ سے مضبوط ہوتاہے تو شیطان کا بس اس پر نہیں چلتا۔

3) ہر وقت پاکی کا اہتمام کرنا، با وضو رہنا، اور تلاوتِ قرآنِ کریم کی کثرت، نیز ذکر کی پابندی۔

4) صبح وشام کی حفاظت کی مسنون دعائیں پڑھنے کا اہتمام، (جو مختلف مستند علماءِ کرام نے جمع کرکے شائع کردی ہیں، کسی بھی دینی کتب خانے سے حاصل کی جاسکتی ہیں) نیز درج ذیل اذکار صبح وشام سات سات مرتبہ پابندی سے یقین کے ساتھ پڑھ کر دونوں ہاتھوں میں تھتکار کر سر سے پیر تک اپنے پورے جسم پر  پھیر دیں ان شاء اللہ ہر قسم کےسحر، آسیب اور نظرِ بد کے اثراتِ بد سے حفاظت رہے گی :

درود شریف، سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی، سورہ الم نشرح، سورہ کافرون، سورہ اخلاص، سورہ فلق، سورہ ناس اور درود شریف۔ (مستفاد : دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن،
فتوی نمبر : 144012200638)

قال المحقق في الفتح : قال أصحابنا: للسحر حقیقۃ وتأثیر في الأجسام خلافًا لمن منع ذٰلک۔ (إعلاء السنن، کتاب السیر / حکم السحر وحقیقتہ ۱۲؍۶۰۰)

المراد بالسحر ما یستعان في تحصیلہ بالتقرب إلی الشیطان مما لا یستقل بہ الإنسان، وذٰلک لا یحصل إلا لمن یناسبہ في الشرارۃ وخبث النفس۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲۴؍۲۵۹)

والسحر في نفسہ حق أمر کائن إلا أنہ لا یصلح إلا للشر والضرر بالخلق۔ (شامي ۶؍۲۸۲ زکریا، ۴؍۲۴۱ کراچی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 جمادی الاول 1442

2 تبصرے: