منگل، 15 دسمبر، 2020

اشراق کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟

سوال :

مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ دائمی تقویم مالیگاؤں کے مطابق آج  مکروہ وقت سات بج کر انیس منٹ پر ہوتا ہے اور اس کے بعد اشراق کا وقت شروع ہوتا ہے، اگر کوئی شخص سات بج کر دس منٹ پر اشراق کی نماز پڑھے تو اس نماز کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : امتیاز احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیثِ مبارکہ میں طلوعِ آفتاب کے وقت نماز ادا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، اور جب سورج اچھی طرح روشن ہوجائے اس کے بعد نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب سورج کتنا روشن ہو تو نماز ادا کی جائے؟ تو اس کی مقدار بیان کرتے ہوئے بعض احادیث میں "قدر رمح أو رمحین" یعنی طلوع کے بعد سورج کے ایک یا دو نیزے بلند ہونے کو معیار قرار دیا ہے، چونکہ احادیث اور فقہی عبارات میں مذکورہ الفاظ میں مقدار بیان کی گئی ہے تو منٹ کے اعتبار سے وقت متعین کرنے میں بھی ہمارے اکابر علماء کی آراء مختلف ہوئیں، بعض مفتیان نے سورج طلوع ہونے کے تقریباً دس منٹ بعد ہی اشراق کا وقت لکھا ہے، اور بعض اکابر نے بارہ پندرہ منٹ بعد اشراق ادا کرنے کا لکھا ہے، جب کہ دیگر بعض علماء مثلاً حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً طلوعِ آفتاب کے بعد بیس منٹ سے پہلے اشراق ادا کرنے کو مکروہ لکھا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
طلوع کے بعد جب آفتاب میں اتنی تیزی آجائے کہ اس کو دیکھنے سے آنکھیں چندھاینے لگیں یعنی اس پر نظر جمانا مشکل ہوجائے، تو اشراق کی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے، اس کا اندازہ وقت کے اعتبار سے تقریباً گیارہ منٹ ہے، لیکن بعض علماء نے احتیاطاً ۱۴/ منٹ اور بعض نے زیادہ احتیاط کے پیش نظر طلوع کے بیس منٹ بعد نماز اشراق پڑھنے کی بات کہی ہے، یہی وقت اشراق کے لیے اولیٰ اور افضل ہے۔ (بہشتی زیور دوسرا حصہ/ ۳۰، احسن الفتاوی: ۲/۱۴۱، ۳/۴۶۷، فتاوی محمودیہ: ۵/ ۳۴۴۔ (رقم الفتوی : 155835)

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ دس منٹ والا قول اگرچہ درست ہے لیکن احتیاط کے خلاف ہے، معتدل قول چودہ منٹ گزرنے کے بعد ہے، اور زیادہ احتیاط بیس منٹ گزرنے کے بعد ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ طلوع آفتاب کے بیس منٹ بعد ہی نمازِ اشراق ادا کی جائے۔ تاہم اگر کسی نے کسی ضرورت کے تحت کبھی دس بارہ منٹ پر اشراق ادا کرلی تو اس کی نماز درست ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں گیارہ منٹ پر ادا کی گئی اشراق کی نماز درست ہوگئی، لیکن دس بارہ منٹ پر پڑھنے کا معمول نہ بنایا جائے۔

عن أنس رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: من صلی الفجر في جماعة ثم قعد بذکر اللّٰه حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین کانت له کأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم تامة تامة۔ (سنن الترمذي : ۱؍۱۳۰)

أولها عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع الشمس وتبیض قدر رمح أو رمحین۔ (حاشية الطحطاوي علی المراقي : ۱۰۰)

أي ثم صلی بعد أن ترتفع الشمس قدر رمح حتی یخرج وقت الکراهة، وهذه الصلاة تسمی صلاة الإشراق۔ (مرقاة المفاتیح : ۲؍۲۴)

وذکر فی الأصل مالم ترتفع الشمس قدر رمح فھی فی حکم الطلوع واختار الفضلی رحمہ اللہ ان الانسان مادام یقدر علی النظر الی قرص الشمس فی الطلوع فلا تحل الصلوۃ فاذا عجز عن النظر حلت۔ (البحر الرائق :۴۳۴/۱)

فالاوقات الخمسۃ ھی مایأتی، (۱) مابعد صلوۃ الصبح حتی تر تفع الشمس کرمح فی رأی العین ووقت طلوع الشمس حتی ترتفع قدر رمح ای بعد طلوعھا بمقدار ثلث ساعۃ۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ :۶۷۷/۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ربیع الآخر 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں