جمعرات، 30 نومبر، 2023

حضرت ابوبکر اور فرشتوں کا ٹاٹ کا لباس پہننا؟


سوال :

غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال جہاد کے لیے دے دیا تھا اور صرف ٹاٹ لباس کے ٹاٹ پہننے ہوئے تھے اور آپ کی مشابہت میں جبرئیل علیہ السلام اور فرشتوں نے ٹاٹ کا لباس پہن لیا تھا، مفتی صاحب اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت کا یہ حصہ کہ "حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک میں اپنا سارا مال صدقہ کردیا تھا" معتبر ہے جسے متعدد محدثین مثلاً ابن ابی عاصم، ابن جریر طبری اور حافظ ابن حجر رحمھم اللہ نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔

البتہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ٹاٹ کا لباس پہننے اور ان کی مشابہت میں حضرت جبریل علیہ السلام اور فرشتوں کا بھی ٹاٹ کا لباس پہننے والا واقعہ معتبر نہیں ہے، کیونکہ اس کے راوی علاء بن عمرو کو محدثین مثلاً حافظ ذہبی اور ابن حبان وغیرہ رحمھم اللہ نے جھوٹا اور ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔

مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری لکھتے ہیں :
حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ٹاٹ کا لباس پہن کر حاضر ہونے والی روایت قطعاً جھوٹی اورموضوع ہے، ایسی موضوع روایات کو عوام میں بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ (کتاب النوازل : ١٧/١١٩)

اسی طرح عالم اسلام کے متعدد مؤقر اور معتبر ادارے مثلاً جامعہ بنوریہ کراچی اور جامعۃ الرشید کراچی وغیرہ سے جاری ہونے والے فتاوی میں بھی اس واقعہ کو من گھڑت لکھا گیا ہے، لہٰذا اس واقعہ کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَدَبَ إِلَى الصَّدَقَةِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ بِجَمِيعِ مَالِهِ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟ قَالَ : اللَّهَ وَرَسُولَهُ. وَلَمْ يَفْعَلْ هَذَا أَحَدٌ مِنْهُمْ۔ (کتاب السنة لابن أبي عاصم : ٢/٦٤٥)

حدیث ہبط جبرئیل وعلیہ طنفسۃ وہو متجلل بہا، فقال النبي صلی اﷲ علیہ وسلم: یا جبرئیل! ما نزلت إلي في مثل ہذا الزی، فقال: إن اﷲ أمر الملائکۃ أن یتجلل في السماء لتجلل أبي بکر في الأرض۔ ورواہ الخطیب عن ابن عباس وہو موضوع۔ (فوائد المجموعۃ في بیان أحادیث الموضوعۃ ۱۱۸-۱۱۹ لاہور)

حديث ابن عمر: “بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس وعنده أبوبكر وعليه عباءة قد خللها على صدره بخلال إذ نزل جبريل عليه السلام فأقرأه عن الله السلام وقال له: يارسول الله! ما لي أرى أبابكر عليه عباءة قد خللها على صدره بخلال؟ فقال: أنفق ماله علي قبل الفتح، قال: فأقرئه من الله السلام وقل له: يقول لك ربك: أراض أنت عني في فقرك هذا أم ساخط؟ قال: فالتفت النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر وقال: يا أبابكر! هذا جبريل يقرئك السلام من الله ويقول: أراض أنت عني في فقرك هذا أم ساخط؟ قال: فبكى أبوبكر رضي الله عنه وقال:  أ على ربي أسخط؟ أنا عن ربي راض”( تخريج أحاديث الإحياء : ٦٢١)

قال الذهبي في الميزان : هو كذب.

وقال ابن حبان في المجروحين
العلاء بن عمرو شيخ يروي عن أبي إسحاق الفزاري العجائب لا يجوز الاحتجاج به بحال۔(٢/١٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 جمادی الاول 1445

ایک دن کا ناغہ چالیس دن کی بے برکتی کا سبب؟


سوال :

مفتی صاحب! یہ بات کثرت سے سننے میں آتی ہے کہ ایک دن کا ناغہ چالیس دنوں کی بے برکتی کا سبب ہے۔ یہ حدیث ہے یا کسی بزرگ کا قول؟ راہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : منیب الرحمن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پابندی اور تسلسل کے ساتھ کیا جانے والا عمل ناغہ اور غیرحاضری کے ساتھ کیے جانے والے عمل کی بہ نسبت زیادہ مؤثر اور بابرکت ہوتا ہے۔ نیز حدیث شریف میں پابندی سے کیے جانے والے عمل کو پسندیدہ کہا گیا ہے اور اس کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ لہٰذا یہ بات تو کہی جاسکتی ہے کہ درس وغیرہ میں تسلسل کے ٹوٹنے سے بے برکتی ہوتی ہے۔ لیکن ناغہ کی وجہ سے چالیس دنوں تک بے برکتی ہوتی ہے ایسی کوئی حدیث نہیں ہے، لہٰذا اسے حدیث کہہ کر بیان نہ کیا جائے بلکہ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تجربہ کی بات ہے کہ ناغہ کی وجہ سے چالیس دنوں تک بے برکتی ہوسکتی ہے۔

عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّهُ لَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ أَحَدًا عَمَلُهُ. قَالُوا : وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ، وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٨١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 جمادی الاول 1445

منگل، 28 نومبر، 2023

سکنیا سمردھی یوجنا کا شرعی حکم


سوال :

لڑکیوں کا اسٹیٹ بنک آف انڈیا ایک سکنیا یوجنا کے نام سے اسکیم چل رہی ہے اس میں بچوں کا اکاؤنٹ کھولنا ہے اور ایک ہزار روپے سال کے حساب سے چودہ سال تک چودہ ہزار ہوگا جب بچی چوبیس سال کی ہوگی تو بینک والے وہ رقم ساٹھ ہزار کے اماؤنٹ میں واپس دیں گے۔ کیا یہ اکاؤنٹ بنوانا جائز اور یہ رقم لینا جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اکرم، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سکنیا سمردھی نامی اسکیم تقریباً آٹھ سالوں سے جاری ہے، جس میں کئی لیول ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کے سوالات بھی آئے دن الگ الگ طرز کے آتے رہتے ہیں، چنانچہ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند سے ایک مفصل فتوی جاری کیا گیا ہے جس میں اس اسکیم کی مکمل تفصیل اور حکم بیان کیا گیا ہے جو درج ذیل ہے :

سُکَنْیا سمرِدِّھی یوجنا : بچیوں کی تعلیم اور ان کی شادی میں آسانی وسہولت کے مقصد سے جاری کی گئی ہے۔ اور یہ کئی سالوں سے جاری ہے، البتہ ۲۳/ جولائی ۲۰۱۸ء سے اس میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے۔ اس وقت یہ اسکیم درج ذیل شرائط وتفصیلات کے ساتھ جاری ہے :

۱) یہ اسکیم صرف دس سال سے کم عمر کی بچیوں کے لیے ہے۔

۲) اس اسکیم کی سالانہ قسطوں کی کم از کم مقدار ڈھائی سو روپے اور زیادہ سے زیادہ مقدار :ڈیرھ لاکھ روپے ہے، ان میں سے کوئی بھی مقدار منتخب کی جاسکتی ہے۔ اور اس میں متعینہ قسطیں ماہانہ اور سالانہ دونوں طرح جمع کی جاسکتی ہیں۔

۳) ۱۴/سال تک مسلسل متعینہ قسطیں جمع کی جائیں گی، اس کے بعد کوئی قسط جمع نہیں کی جاسکتی۔ اور جب بچی کی عمر ۲۱/ سال ہوجائے گی تو سالانہ ۵،۸٪ سے ،۱،۹٪/ فیصد انٹرسٹ کے ساتھ کل رقم ملے گی۔ اس اسکیم میں انٹرسٹ کا فیصد سب سے زیادہ ہے، عام طور پر بہت زیادہ ۸٪ فیصد تک انٹرسٹ دیا جاتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ ماہانہ ایک ہزار جمع کرنے کی صورت میں ۱۴/ سال تک جمع شدہ کل رقم: ۱۶۸۰۰۰ ہوگی اور ۲۱/ سال پر چھ لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ رقم ملے گی۔

۴) یہ اسکیم لڑکی کے ماں، باپ یا گود لی ہوئی بچی کا قانونی گارجین لے سکتا ہے۔

۵) اس اسکیم کا کھاتہ پوسٹ آفس یا کسی بھی سرکاری بینک میں کھلوایا جاسکتا ہے۔

۶) ا س اسکیم میں سارا پیسہ بہ ذریعہ چیک جمع کیا جائے گا، آن لائن وغیرہ نہیں۔

۷) اگر کسی سال متعینہ قسط جمع نہیں کی گئی تو پینالٹی لگے گی۔

۸) جب بچی کی عمر اٹھارہ سال ہوجائے تو جتنا جمع کیا جاچکا ہو، اس کا ۵۰/ فیصد نکال سکتے ہیں، مثلاً ۲۵۰/ ماہانہ والی اسکیم میں ایک لاکھ، دس ہزار، ۴۰۵ / روپے نکال سکتے ہیں۔ اور کل رقم ۲۱/ سال پر ملے گی۔

۹) ۲۱/ سال پر بہر صورت اکاوٴنٹ میچور ہوجائے گا اور جمع شدہ رقم پر مزید انٹرسٹ نہیں دیا جائے اگرچہ پیسہ کبھی بھی نکالا جائے۔ اور اگر ۲۱/ سال سے پہلے بچی کی شادی کردی گئی تو ۲۱/ سال سے پہلے ہی اکاوٴنٹ میچور ہوجائے گا اور انٹرسٹ کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔

۱۰) ایک آدمی صرف ۲/ بچیوں کے لیے اس طرح کا اکاوٴنٹ کھلواسکتا ہے، اُس سے زیادہ نہیں اگرچہ اس کی کئی بچیاں ہوں؛ البتہ اگر ۲/ جڑواں بچیاں ہوں تو تین تک کھلواسکتے ہیں؛ لیکن دونوں جڑواں بچیوں کا پڑماڑ پتر جمع کرنا ہوگا۔

درج بالا شرائط وتفصیلات کی روشنی میں یہ بات اچھی طرح واضح ہے کہ سکنیا سمردھی یوجنا میں ایک مدت کے بعد جو کئی گنا زائد رقم ملتی ہے، وہ سود کے اصول پر ملتی ہے اور بچی کے ماں باپ مختلف قسطوں میں بچی کے نام اس کے اکاوٴنٹ میں جو رقم جمع کرتے ہیں، اس کی حیثیت شرعاً قرض کی ہوتی ہے اور اس پر ایک مدت کے بعد ملنے والا اضافہ سود ہوتا ہے؛ اس لیے سکنیا سمردھی یوجنا نامی اسکیم بلاشبہ سودی اسکیم ہے، کسی مسلمان کے لیے اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا ہرگز جائز نہیں۔ (رقم الفتوی : 171049)

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں جو اسکیم بیان کی گئی ہے وہ بھی بلاشبہ سودی معاملات پر مبنی ہے جو ایک ملعون عمل ہے، لہٰذا اس اسکیم کے لیے اکاؤنٹ کھلوانا اور یہ رقم لینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔

وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا۔ (سورۃ البقرة، آیت : ۲۷۵)

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ. وَقَالَ : " هُمْ سَوَاءٌ "۔ (الصحیح المسلم، رقم : ١٥٩٨)

کل قرض جر منفعۃ فہو ربا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ۱۰؍۶۴۸)

وَهُوَ فِي الشَّرْعِ عِبَارَةٌ عَنْ فَضْلِ مَالٍ لَا يُقَابِلُهُ عِوَضٌ فِي مُعَاوَضَةِ مَالٍ بِمَالٍ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٣/١١٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 جمادی الاول 1445

پیر، 27 نومبر، 2023

ٹھنڈی جہنم اور ٹھنڈ پڑنے کی وجہ؟


سوال :

محترم مفتی صاحب ! سننے میں آیا ہے کہ جہنم کا کوئی حصہ بہت ٹھنڈا رہے گا اور اس کے سانس لینے سے سردی بڑھتی ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالرحمن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جہنم میں ایسی جگہ ہے جہاں کفار اور گناہ گاروں کو تکلیف اور عذاب دینے کے مختلف اذیت ناک طریقے مہیا ہوں گے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے سخت ٹھنڈ کا عذاب بھی رکھا ہے سخت ٹھنڈ کے عذاب کا نام حدیث شریف میں زمہریر آیا ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس کے سانس کی وجہ سے سردی یا گرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔

حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جہنم نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پروردگار میرا ایک حصہ دوسرے کو کھاجاتا ہے تو اللہ نے اسے یہ اجازت دی کہ وہ دو مرتبہ سانس لے سکتی ہے ایک مرتبہ گرمی کے موسم میں سانس لے اور ایک مرتبہ سردی کے موسم میں سانس لے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : یہ جو تمہیں شدید گرمی اور سردی محسوس ہوتی ہے یہ اس وجہ سے ہے۔

عن أبی ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قال : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : اشْتَکَتِ النَّارُ إِلَی رَبِّہَا فَقَالَتْ : رَبِّ أَکَلَ بَعْضِی بَعْضًا، فَأَذِنَ لَہَا بِنَفَسَیْنِ : نَفَسٍ فِی الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِی الصَّیْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْہَرِیرِ۔ (صحیح المسلم : ٦١٧)

قال النووی رحمہ اللہ " قَالَ الْعُلَمَاءُ : الزَّمْہَرِیرُ : شِدَّةُ الْبَرْدِ، وَالْحَرُورُ : شِدَّةُ الْحَرِّ "۔ (شرح مسلم : ٥/١٢٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 جمادی الاول 1445

اتوار، 26 نومبر، 2023

بجلی کڑکنے کے وقت کیا پڑھیں؟

سوال :

مفتی صاحب ! جس وقت تیز بارش ہورہی ہو اور بجلی خوب کڑک رہی ہو اس وقت پڑھنے کے لیے حدیث میں کوئی دعا ہوتو بتائیں۔ اللہ تعالٰی آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بجلی کی گرج اور کڑک سنتے تو درج ذیل دعا فرماتے :

اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ
ترجمہ : اے اللہ! ہمیں اپنے غضب سے ہلاک نہ فرما اپنے عذاب سے ہمیں ختم نہ فرما اور اس سے پہلے ہی ہمیں عافیت عطا فرما۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر جب گرج کی آواز سنتے تو بات کرنا چھوڑ دیتے اور کہتے :
سُبْحَانَ الَّذِي يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِيفَتِهِ
ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس کی "رعد" تسبیح کرتا ہے اس کی تعریف کے ساتھ اور فرشتے اس کے خوف سے۔

پھر کہتے تھے کہ یہ آواز زمین کے رہنے والوں کے واسطے سخت وعید ہے۔

"رعد" فرشتے کا نام ہے جو بادل ہنکانے پر مقرر ہے۔ چنانچہ گرج درحقیقت اس کی تسبیح کی آواز ہے حضرت عبداللہ ابن عباس کی یہ روایت منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت عمر کے ہمراہ سفر میں تھے گرج ، بجلی کی چمک اور سردی نے ہمیں آلیا، حضرت کعب نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ جو آدمی گرج کی آواز سن کر تین مرتبہ یہ پڑھے : سُبْحَانَ يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِيفَتِهِ۔
تو وہ ان چیزوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ چنانچہ ہم نے یہ پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا۔ (مشکوٰۃ مترجم)

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ حَدَّثَنِي أَبُو مَطَرٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ وَالصَّوَاعِقَ قَالَ اللَّهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ۔ (مسند احمد)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ کَانَ إِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ تَرَکَ الْحَدِيثَ وَقَالَ سُبْحَانَ الَّذِي يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِيفَتِهِ ثُمَّ يَقُولُ إِنَّ هَذَا لَوَعِيدٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ شَدِيدٌ۔ (مؤطا امام مالک)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الاول 1445

روایت "اسلام دنیا میں پندرہ سو سال رہے گا" کی تحقیق


سوال :

محترم مفتی صاحب کیا کوئی ایسی حدیث شریف موجود ہے؟ جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام دنیا میں تقریباً ١٥٠٠ سال تک رہے گا اسکے بعد جلد ہی فیصلے کا دن یعنی قیامت آ جائے گی۔ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مجتبی، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور یہ بات کہ "اسلام دنیا میں تقریباً ١٥٠٠ سال تک رہے گا اسکے بعد جلد ہی فیصلے کا دن یعنی قیامت آ جائے گی۔" ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دنیا کی عمر سے متعلق ایسی ہی روایت نقل کی گئی ہے، لیکن محدثین کرام نے اس روایت کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یا پھر کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا اور اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ قرآنِ کریم میں صراحتاً اس بات کا ذکر ہے کہ قیامت کا حقیقی اور درست علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ چنانچہ قیامت کے آنے کا بالکل صحیح اور متعین وقت کوئی نہیں بتا سکتا۔ لہٰذا ہمیں اس کی تحقیق میں بھی نہیں پڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں نیک اعمال میں لگے رہنا چاہیے، قیامت کو جب آنا ہے وہ بلاشبہ آکر رہے گی۔

يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ، قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيباً۔ (سورۃ الأحزاب، آیت : ٦٣)

١٥٢٢٢- قال ابن جرير: حدثنا ابن حميد، حدثنا يحيى بن واضح، حدثنا يحيى بن يعقوب عن حماد عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: «الدنيا جمعة من جمع الآخرة سبعة آلاف سنة، فقد مضى ستة آلاف سنة ومئو سنة وليأتين عليها مئو سنة ليس عليها موحد ١» ومنها: ١٣ مخالفة الحديث صريح القرآن كحديث مقدار الدنيا «وأنها سبعة آلاف ونحن في الألف السابعة» وهذا من أبين الكذب لأنه لو كان صحيحا لكان كل أحد عالما أنه قد بقي للقيامة من وقتنا هذا مئتان وأحد وخمسون سنة والله تعالى يقول: ﴿يَسْأَلونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَةً يَسْأَلونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ﴾ سورة الأعراف آية ١٨٧. (المنار المنيف في الصحيح والضعيف لابن القيم صفحة :٨٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الاول 1445

ہفتہ، 25 نومبر، 2023

قبرستان پہنچ کر میت رکھنے سے پہلے یا بعد میں بیٹھنا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! قبرستان پہنچ کر میت کو قبر میں اتارنے سے پہلے بیٹھے رہنا یا کھڑے رہنا چاہیے؟ مٹی دینے کے بعد دعا کے لیے بیٹھ جانا ہے یا کھڑے رہ کر دعا کرنا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبرستان پہنچنے کے بعد جنازہ کو قبر کے پاس زمین پر رکھنے سے پہلے لوگوں کا بیٹھ جانا ناجائز اور گناہ تو نہیں ہے۔ البتہ یہ عمل ادب کے خلاف ہے، لہٰذا جنازہ رکھنے سے پہلے نہ بیٹھنا بہتر ہے۔

جنازہ رکھ دینے کے بعد لوگوں کا بیٹھ جانا بلاتردد درست ہے، لہٰذا مٹی دینے کے بعد دعا بھی بیٹھ کر مانگ سکتے ہیں۔

وَإِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ عَلَى الْأَرْضِ عِنْدَ الْقَبْرِ فَلَا بَأْسَ بِالْجُلُوسِ وَإِنَّمَا يُكْرَهُ قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ عَنْ مَنَاكِبِ الرِّجَالِ، كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٦٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 جمادی الاول 1445

بدھ، 22 نومبر، 2023

حضرت حمزہ کا کلیجہ چبانے والا واقعہ؟


سوال :

مفتی صاحب! حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے واقعہ میں جو کلیجہ نکال کر چبا جانے کی بات کہی جاتی ہے وہ درست ہے یا نہیں؟ کسی روایت سے ثابت ہے یا من گھڑت ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : شیخ صادق، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضرت امام احمد ابن حنبل نے اپنی مسند میں اور بعض دیگر محدثین نے ایک طویل روایت (جو عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے) ذکر کی ہے جس میں ہے کہ "غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کر دیا گیا تھا اور ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے ان کا جگر نکال کر اسے چبایا تھا لیکن اسے کھا نہیں سکی تھی، نبی کریم ﷺ نے ان کی لاش دیکھ کر پوچھا کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا بھی ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا نہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ حمزہ رضی اللہ عنہ کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں کرنا چاہتا، پھر نبی کریم ﷺ نے ان کی لاش کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رکھ دیا گیا، آپ ﷺ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی، پھر اس کا جنازہ اٹھا لیا گیا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ یہیں رہنے دیا گیا، اس طرح اس دن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ستر مرتبہ ادا کی گئی۔"

اس روایت کی سند صحیح ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا بالکل درست ہے، اسے موضوع اور من گھڑت سمجھنا غلطی ہے۔ مزید تشفی کے لیے دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :
صحابہ کے احوال میں ”اسد الغابة“ معتبر کتاب مانی جاتی ہے۔ اس میں ہند بنت عتبہ کے حالات میں لکھا ہوا ہے۔ فلما قُتِل حمزة مَثَّلَتْ بہ وشَقَّت بطنہ واستخرجت کبدہ فلا کتہا فلم تطق إساغتہا ۔ فبلغ ذلک النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال لو أساغتہا لم تمسہا النار (اسد الغابة، ص: ۲۸۱، حرف الھاء)۔ اسی طرح حضرت ”حمزہ“ کے حالات میں صفحہ: ۶۸/ پر لکھا ہے ”وبقرت ہند بطن حمزة رضی اللہ عنہ فاخرجت کبدہ فجعلت تلوکہا فلم تسغہا فلفظتہا فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ”لو دخل بطنہا لم تمسہا النار“۔ (ص: ۶۸ ۶باب الحاء)

اسد العابة کی دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہند کا حضرت حمزہ کے جگر کا نکالنا اور اسے چبانا یہ واقعہ صحیح ہے۔ (رقم الفتوی : 600105)

نوٹ : خیال رہنا چاہیے کہ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے غلام (جن کا نام وحشی تھا)، ان کا کلیجہ چبانے والی ہندہ اور ان کے شوہر ابوسفیان سب نے بعد میں اسلام قبول کرلیا تھا اور اسلام پر ہی ان کی موت ہوئی تھی۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ

أنَّ النِّساءَ كنَّ يَومَ أُحُدٍ خلْفَ المسلمينَ، يُجهِزْنَ على جَرْحى المشركينَ، فلو حلَفتُ يَومئذٍ رجَوتُ أنْ أبَرَّ، إنَّه ليس أحدٌ منا يريدُ الدُّنْيا، حتى أنزَلَ اللهُ عزَّ وجلَّ: ﴿مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ﴾ [آل عمران: ١٥٢]، فلمّا خالَفَ أصحابُ النبيِّ ﷺ وعصَوْا ما أُمِروا به، أُفرِدَ رسولُ اللهِ ﷺ في تسعةٍ: سبعةٍ مِن الأنصارِ، ورجُلَينِ مِن قُرَيشٍ، وهو عاشرُهم، فلمّا رَهِقوه قال: رحِمَ اللهُ رجُلًا ردَّهم عنّا. قال: فقام رجُلٌ مِن الأنصارِ فقاتَلَ ساعةً، حتى قُتِل، فلمّا رَهِقوه أيضًا قال: يرحَمُ اللهُ رجُلًا ردَّهم عنّا، فلم يزَلْ يقولُ ذا حتى قُتِل السَّبْعةُ، فقال النبيُّ ﷺ لصاحبَيْه: ما أنصَفْنا أصحابَنا، فجاء أبو سُفْيانَ فقال: اعْلُ هُبَلُ، فقال رسولُ اللهِ ﷺ: قولوا: اللهُ أَعْلى وأجَلُّ. فقالوا: اللهُ أَعْلى وأجَلُّ. فقال أبو سُفْيانَ: لنا عُزّى، ولا عُزّى لكم. فقال رسولُ اللهِ ﷺ: قولوا: اللهُ مَوْلانا والكافرونَ لا مَوْلى لهم. ثمَّ قال أبو سُفْيانَ: يومٌ بيومِ بدرٍ، يومٌ لنا ويومٌ علينا، ويومٌ نُساءُ ويومٌ نُسَرُّ، حَنْظلةُ بحَنْظلةَ، وفلانٌ بفلانٍ، وفلانٌ بفلانٍ. فقال رسولُ اللهِ ﷺ: لا سواءَ، أمّا قَتْلانا فأحياءٌ يُرزَقونَ، وقَتْلاكم في النارِ يُعذَّبونَ. قال أبو سُفْيانَ: قد كانتْ في القومِ مُثْلةٌ، وإنْ كانتْ لعَنْ غيرِ ملأٍ منّا، ما أمَرتُ، ولا نهَيتُ، ولا أحبَبتُ، ولا كرِهتُ، ولا ساءَني، ولا سَرَّني. قال: فنظَروا فإذا حَمْزةُ قد بُقِر بَطنُه، وأخَذتْ هندٌ كَبِدَه فلاكَتْها، فلم تستطِعْ أنْ تأكُلَها. فقال رسولُ اللهِ ﷺ: أأكلَتْ منه شيئًا؟ قالوا: لا. قال: ما كان اللهُ ليُدخِلَ شيئًا مِن حَمْزةَ النارَ. فوضَعَ رسولُ اللهِ ﷺ حَمْزةَ، فصلّى عليه، وجيءَ برجُلٍ مِن الأنصارِ فوُضِعَ إلى جَنبِه، فصلّى عليه، فرُفِعَ الأنصاريُّ وتُرِكَ حَمْزةُ، ثمَّ جيءَ بآخَرَ فوضَعَه إلى جَنبِ حَمْزةَ، فصلّى عليه، ثمَّ رُفِع وتُرِك حَمْزةُ، حتى صلّى عليه يَومئذٍ سَبْعينَ صلاةً.
الراوي: عبدالله بن مسعود • أحمد شاكر، تخريج المسند لشاكر (٦/١٩١) • إسناده صحيح • أخرجه ابن أبي شيبة (٣٧٩٣٨) باختلاف يسير، وابن سعد في ((الطبقات الكبرى)) (٢٧٧٦) مختصراً۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 جمادی الاول 1445