پیر، 6 نومبر، 2023

ننگے سر نماز پڑھنے سے متعلق سوالات

سوال :

مفتی صاحب ! مسئلہ دریافت طلب ہے کہ کیا کسی مسجد میں ٹرسٹیان کی طرف سے ہدایت آویزاں کر دی جائے کہ "اس مسجد میں کسی بھی صورت بغیر ٹوپی کہ نماز ادا نہ کی جائے" اس ہدایت کی وجہ سے کیا کسی مصلی کو اجازت ہے کہ بغیر ٹوپی نماز پڑھنے والے نمازی کا نیت کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ کو پکڑ کر نیت باندھنے سے روک دے؟ بغیر ٹوپی والا بندہ اصرار کرتا ہے کہ ٹوپی نہیں ہے نماز پڑھ لینے دیجیئے لیکن دوبارہ ہاتھ پکڑ کر نیت باندھنے سے روک دینا اور اپنا رومال نکال کر دینا رومال باندھ لینے کے بعد ہی نماز پڑھنے دینا کہاں تک درست ہے؟ کیا ٹوپی نہیں ہے تو جماعت چھوڑ دیا جائے؟ اتنی سختی کرنا کہاں تک درست ہے؟ ٹرسٹیان کی طرف سے ہدایت آویزاں کرنا درست ہے؟ اس واقعے کے دوران جماعت کھڑی ہوئی تھی اس بندے کو جماعت میں شامل ہونے سے زیادہ دوسرے بندے کی ٹوپی کی فکر تھی۔
(المستفتی : جمال حامد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سر ڈھک کر نماز ادا فرماتے تھے، یہی وجہ ہے کہ بلاکسی شرعی عذر کے ننگے سر نماز پڑھنے کو فقہاء نے خلافِ سنت اور مکروہ لکھا ہے۔

مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں :
ننگے سر نماز پڑھنا اگر محض سستی کی وجہ سے ہے تو مکروہ تنزیہی ہے، اور اگر تکبّر کی وجہ سے ہے (جیساکہ آج کل بعض لوگوں نے ننگے سر نماز پڑھنا اپنا فیشن؛ بلکہ شعار بنالیا ہے، حتی کہ ٹوپی ہوتے ہوئے بھی ٹوپی باقاعدہ اتار کر نماز پڑھتے ہیں) تو یہ عمل قابلِ مذمت اور مکروہ تحریمی ہے، اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ عام حالات میں سر ڈھک کر نماز ادا فرمائی ہے، ننگے سر نہیں پڑھی۔ (کتاب المسائل : ١/٣٧٩)

جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتوی ہے :
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے  احرام کی حالت کے سوا بغیر ٹوپی کے نماز ادا کرنا ثابت نہیں، اس لیےکاہلی، سستی اور لاپرواہی کی بنا پر ٹوپی کے بغیر ننگے سر نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے، البتہ اگر کبھی ٹوپی ساتھ نہ ہو اور فوری طور پر کسی جگہ سے میسر بھی نہ ہوسکتی ہو تو اس صورت میں ننگے سر نماز پڑھنے کی وجہ سے کراہت نہیں ہوگی۔ (رقم الفتوی : 144004200676)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
نماز تو بنا ٹوپی کے بھی ہوجاتی ہے، لیکن سستی اور کاہلی کی بنا پر ایسا کرنا شرعاً مکروہ اورخلافِ اولیٰ ہے، اور اس کی عادت بنالینا تو اور بھی بُرا ہے۔ (رقم الفتوی : 607809)

معلوم ہوا کہ اگر غلطی سے کسی کی ٹوپی چھوٹ گئی ہو اور دوسری ٹوپی کا فوری نظم نہ ہوتو ننگے سر نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہے، لہٰذا کسی مسجد میں اس طرح بورڈ لگانا کہ "اس مسجد میں کسی بھی صورت بغیر ٹوپی کہ نماز ادا نہ کی جائے" درست نہیں ہے۔ البتہ یہ ہدایت لکھی جاسکتی ہے کہ بغیر ٹوپی کے نماز مکروہ ہوتی ہے، لہٰذا ننگے سر نماز نہ پڑھیں۔

ٹوپی نہ ہونے کی وجہ سے جماعت ترک کردینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، سوال نامہ میں مذکور شخص کا عمل شرعاً بالکل غلط اور ان کی لاعلمی کی دلیل ہے، لہٰذا انہیں اس عمل سے رجوع کرنا چاہیے اور آئندہ اس سے باز رہنا چاہیے۔ نیز آپ کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ ٹوپی ہمیشہ آپ کے پاس ہو تاکہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات سے حفاظت رہے۔

(وَ) كُرِهَ (كَفُّهُ) أَيْ رَفْعُهُ وَلَوْ لِتُرَابٍ كَمُشَمِّرِ كُمٍّ أَوْ ذَيْلٍ ..... (وَصَلَاتُهُ حَاسِرًا) أَيْ كَاشِفًا (رَأْسَهُ لِلتَّكَاسُلِ) وَلَا بَأْسَ بِهِ لِلتَّذَلُّلِ، وَأَمَّا لِلْإِهَانَةِ بِهَا فَكُفْرٌ وَلَوْ سَقَطَتْ قَلَنْسُوَتُهُ فَإِعَادَتُهَا أَفْضَلُ إلَّا إذَا احْتَاجَتْ لِتَكْوِيرٍ أَوْ عَمَلٍ كَثِيرٍ۔ (شامی : ١/٦٤٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الآخر 1445

1 تبصرہ: