اتوار، 19 نومبر، 2023

عشاء کے بعد دینی مشغولی کا حکم


سوال :

ابھی جلد ہی ایک عالم صاحب کا بیان سننے میں آیا کہ عشاء کے بعد دینی گفتگو کرنا بھی مکروہ ہے اور بعض فقہاء کے نزدیک حرام ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ جبکہ ہم نے سنا ہے کہ اگر کوئی دینی ضرورت ہے یا دینی گفتگو کرنا ہے تو سمر کی اجازت ہے۔
(المستفتی : حافظ ابوذر، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد بات چیت کرنے سے منع فرمایا ہے اور جلدی سونے کی ترغیب دی ہے۔ لیکن ممانعت کا یہ حکم مطلق نہیں ہے، بلکہ اس میں تفصیل ہے، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے باقاعدہ یہ باب "باب ماجاء فی رخصۃالسمر بعد العشاء" قائم فرمایا ہے، اور مقصد اس باب کے انعقاد سے یہ ہے کہ مطلق کلام بعد العشاء مکروہ نہیں، بلکہ اس سے دینی ضرورت کی باتیں مستثنی ہیں اور اس کے لئے دلیل کے طور پر حضرت عمر کی حدیث ذکر کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی سمر فرمایا کرتے تھے لامر من امور المسلمین، تو اس پر اطلاق سمر کا توسعاً ہے۔ دین سے متعلق بات ہو جیسے کہ مجاہدین کا مشورہ یا مطالعہ وتکرار یا حوائج کے لئے کلام تو یہ جائز ہے۔ دلیل اس کی ایک تو باب کی حدیث ہے۔ دوسری دلیل "لاسمر الالمصل او مسافر" ہے۔ مصلی سے مراد متہجد ہے کہ تہجد میں نشاط پیدا کرنے کے لئے باتیں کرے تو جائز ہے یا مسافر سفر کاٹنے کے لئے باتیں کرے، اسی کے حکم میں تکلم مع الزوجہ ہے، اسی طرح سمر مع الضیف والمریض بھی ضرورت میں داخل ہے۔ (مستفاد : تشریحات ترمذی : ١/٤١٧)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
عشاء کی نماز کے بعد بلاضرورت بات چیت کرنا مکروہ و نا پسندیدہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد بات کرنے کو نا پسند فرماتے تھے، ہاں البتہ کوئی ضرورت ہو جیسے کوئی دین کی بات، مہمان سے گفتگو یا نیک لوگوں کی حکایات یا اہلِ خانہ سے بات چیت وغیرہ امور کی وجہ سے عشاء کے بعد کچھ دیر جاگنا درست ہے۔ (رقم الفتوی : 607014)

معلوم ہوا کہ دینی امور (تعلیم، عبادت وغیرہ) یا اہم دنیاوی امور (مثلاً مسلمانوں کے اجتماعی نظم کے حوالے سے مشورہ وغیرہ) عشاء کے بعد انجام دینا، اسی طرح گھر والوں کے ساتھ گفتگو کرنا، یا گھر پر آئے ہوئے مہمانوں کی ضیافت وغیرہ میں عشاء کے بعد مشغول رہنا بلاکراہت درست ہے۔ جبکہ لایعنی اور فضول کاموں یا گفتگو میں لگنا مکروہ ہے، نیز کسی کام میں اس طرح  لگنا جس سے فجر کی نماز قضا ہونے کا غالب گمان ہو، ناجائز ہے۔

عشاء کے بعد کی مشغولی کے سلسلے میں ہم نے تمام باتیں وضاحت کے ساتھ لکھ دی ہیں، اب آپ اس میں بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ سوال نامہ میں مذکور عالم صاحب کی بات کہاں تک درست ہے؟

عَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٦٨)

وَقَالَ الزَّيْلَعِيُّ : وَإِنَّمَا كُرِهَ الْحَدِيثُ بَعْدَهُ؛ لِأَنَّهُ رُبَّمَا يُؤَدِّي إلَى اللَّغْوِ أَوْ إلَى تَفْوِيتِ الصُّبْحِ أَوْ قِيَامِ اللَّيْلِ لِمَنْ لَهُ عَادَةٌ بِهِ، وَإِذَا كَانَ لِحَاجَةٍ مُهِمَّةٍ فَلَا بَأْسَ، وَكَذَا قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ وَالذِّكْرِ وَحِكَايَاتِ الصَّالِحِينَ وَالْفِقْهِ وَالْحَدِيثُ مَعَ الضَّيْفِ. اهـ. وَالْمَعْنَى فِيهِ أَنْ يَكُونَ اخْتِتَامُ الصَّحِيفَةِ بِالْعِبَادَةِ، كَمَا جُعِلَ ابْتِدَاؤُهَا بِهَا لِيُمْحَى مَا بَيْنَهُمَا مِنْ الزَّلَّاتِ، وَلِذَاكِرِهِ الْكَلَامُ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَتَمَامُهُ فِي الْإِمْدَادِ.

وَيُؤْخَذُ مِنْ كَلَامِ الزَّيْلَعِيِّ أَنَّهُ لَوْ كَانَ لِحَاجَةٍ لَا يُكْرَهُ وَإِنْ خَشِيَ فَوْتَ الصُّبْحِ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ وَإِنَّمَا التَّفْرِيطُ عَلَى مَنْ أَخْرَجَ الصَّلَاةَ عَنْ وَقْتِهَا كَمَا فِي حَدِيثِ مُسْلِمٍ، نَعَمْ لَوْ غَلَبَ عَلَى ظَنِّهِ تَفْوِيتُ الصُّبْحِ لَا يَحِلُّ؛ لِأَنَّهُ يَكُونُ تَفْرِيطًا تَأَمَّلْ۔ (شامی : ١/٣٦٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 جمادی الاول 1445

1 تبصرہ: