جمعرات، 30 نومبر، 2023

حضرت ابوبکر اور فرشتوں کا ٹاٹ کا لباس پہننا؟


سوال :

غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال جہاد کے لیے دے دیا تھا اور صرف ٹاٹ لباس کے ٹاٹ پہننے ہوئے تھے اور آپ کی مشابہت میں جبرئیل علیہ السلام اور فرشتوں نے ٹاٹ کا لباس پہن لیا تھا، مفتی صاحب اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت کا یہ حصہ کہ "حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک میں اپنا سارا مال صدقہ کردیا تھا" معتبر ہے جسے متعدد محدثین مثلاً ابن ابی عاصم، ابن جریر طبری اور حافظ ابن حجر رحمھم اللہ نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔

البتہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ٹاٹ کا لباس پہننے اور ان کی مشابہت میں حضرت جبریل علیہ السلام اور فرشتوں کا بھی ٹاٹ کا لباس پہننے والا واقعہ معتبر نہیں ہے، کیونکہ اس کے راوی علاء بن عمرو کو محدثین مثلاً حافظ ذہبی اور ابن حبان وغیرہ رحمھم اللہ نے جھوٹا اور ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔

مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری لکھتے ہیں :
حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ٹاٹ کا لباس پہن کر حاضر ہونے والی روایت قطعاً جھوٹی اورموضوع ہے، ایسی موضوع روایات کو عوام میں بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ (کتاب النوازل : ١٧/١١٩)

اسی طرح عالم اسلام کے متعدد مؤقر اور معتبر ادارے مثلاً جامعہ بنوریہ کراچی اور جامعۃ الرشید کراچی وغیرہ سے جاری ہونے والے فتاوی میں بھی اس واقعہ کو من گھڑت لکھا گیا ہے، لہٰذا اس واقعہ کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَدَبَ إِلَى الصَّدَقَةِ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ بِجَمِيعِ مَالِهِ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟ قَالَ : اللَّهَ وَرَسُولَهُ. وَلَمْ يَفْعَلْ هَذَا أَحَدٌ مِنْهُمْ۔ (کتاب السنة لابن أبي عاصم : ٢/٦٤٥)

حدیث ہبط جبرئیل وعلیہ طنفسۃ وہو متجلل بہا، فقال النبي صلی اﷲ علیہ وسلم: یا جبرئیل! ما نزلت إلي في مثل ہذا الزی، فقال: إن اﷲ أمر الملائکۃ أن یتجلل في السماء لتجلل أبي بکر في الأرض۔ ورواہ الخطیب عن ابن عباس وہو موضوع۔ (فوائد المجموعۃ في بیان أحادیث الموضوعۃ ۱۱۸-۱۱۹ لاہور)

حديث ابن عمر: “بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس وعنده أبوبكر وعليه عباءة قد خللها على صدره بخلال إذ نزل جبريل عليه السلام فأقرأه عن الله السلام وقال له: يارسول الله! ما لي أرى أبابكر عليه عباءة قد خللها على صدره بخلال؟ فقال: أنفق ماله علي قبل الفتح، قال: فأقرئه من الله السلام وقل له: يقول لك ربك: أراض أنت عني في فقرك هذا أم ساخط؟ قال: فالتفت النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر وقال: يا أبابكر! هذا جبريل يقرئك السلام من الله ويقول: أراض أنت عني في فقرك هذا أم ساخط؟ قال: فبكى أبوبكر رضي الله عنه وقال:  أ على ربي أسخط؟ أنا عن ربي راض”( تخريج أحاديث الإحياء : ٦٢١)

قال الذهبي في الميزان : هو كذب.

وقال ابن حبان في المجروحين
العلاء بن عمرو شيخ يروي عن أبي إسحاق الفزاري العجائب لا يجوز الاحتجاج به بحال۔(٢/١٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 جمادی الاول 1445

1 تبصرہ:

  1. یہ واقعہ اتنا عام اور مشہور ہے کہ اب اُن کی اصلاح کرو تو وہ لوگ مانتے ہی نہیں

    جواب دیںحذف کریں