جمعرات، 29 جون، 2023

رات میں قربانی کرنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب ! 11 اور 12 ذی الحجہ کو قربانی کب کی جانی چاہئے؟ بہت سے لوگ فجر کی نماز سے پہلے ہی قربانی کرتے ہیں اور بعض لوگ بعد نماز فجرقربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اس بابت رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ڈاکٹر مختار، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قربانی کا وقت نماز عیدالاضحٰی کے بعد سے شروع ہوکر ۱۲؍ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے تک رہتا ہے۔ لہٰذا قربانی کے ان تین دنوں میں کسی بھی وقت قربانی کی جاسکتی ہے، نیز رات میں قربانی کرنا مطلقاً مکروہ نہیں ہے، بلکہ تاریکی کی وجہ سے غلطی کا احتمال اور اندیشہ ہوتا ہے کہ ذبح میں جن رگوں اور نالیوں کو کاٹنا ضروری ہے، وہ صحیح طور پر نہ کٹ سکیں گی، اس لئے فقہاء نے رات میں قربانی کو مکروہ لکھا ہے۔ لیکن فی زماننا بجلی ہونے کی وجہ سے روشنی کا ایسا معقول نظم ہوتا ہے جس کی وجہ سے ذبح میں غلطی کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں فجر سے پہلے یعنی رات میں بھی قربانی کرنا بلا کراہت جائز ہے۔

یوم النحر الیٰ آخر ایامہ وہی ثلاثۃ،  افضلہا اولہا ثم الثانی ثم الثالث۔(درمختار مع الشامی : ۹؍۴۵۸)

قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : إنما الأعمال بالنیات، وإنما لکل اَمرئٍ ما نوی۔   (صحیح البخاري، کتاب بدء الوحي / باب کیف کان بدئُ الوحي إلی رسول اللّٰہ رقم : ٠١)

ویجوز في نہارہا ولیلہا بعد طلوع الفجر من یوم النحر إلی غروب الشمس من الیوم الثاني عشر، إلا أنہ یکرہ الذبح في اللیل۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الأضحیۃ / الباب الثالث في وقت الأضحیۃ، ۵؍۲۹۵)

وکرہ تنزیہًا الذبح لیلاً لاحتمال الغلط۔ (الدر المختار / کتاب الأضحیۃ ۶؍۳۲۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ذی الحجہ 1444

بدھ، 28 جون، 2023

بقرعید کے دن قربانی کے گوشت سے پہلے کچھ نہ کھانا

سوال :

مفتی صاحب پوچھنا یہ تھا کہ بقرعید کا دوگانہ ادا ہونے کہ بعد کیا ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت کھانا چاہیے یا پہلے کچھ میٹھا کھا سکتے ہیں؟ اکثر یت سے بقرعید کے دن ذبح کرنے میں قریشی حضرات بہت تاخیر کرتے ہیں زیادہ عمر کے حضرات یا بچوں کا مسئلہ رہتا ہے۔
(المستفتی : فرید احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عیدالاضحٰی کے دن قربانی سے پہلے کچھ نہ کھانا خواہ میٹھا ہی کیوں نہ ہو، بلکہ قربانی کے گوشت سے کھانا مستحب ہے، یعنی اس پر عمل کرلیا تو اچھی بات ہے، عمل نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں۔ اس پر عمل کرنا فرض یا واجب نہیں ہے کہ اگر قربانی کے گوشت کے علاوہ کچھ اور کھالیا تو گناہ ملے گا، بلکہ اگر کوئی اسے ضروری سمجھے یا اس پر عمل نہ کرنے کو گناہ سمجھے تو اس کا یہ عمل بذات خود مکروہ ہوگا۔ لہٰذا اگر عمر دراز افراد اور بچوں بلکہ ان کے علاوہ کو بھی تاخیر کی وجہ سے تکلیف ہونے لگے جیسا کہ ہمارے یہاں معمول ہے کہ نماز عیدالاضحیٰ کے بعد کئی کئی گھنٹے جانور بننے میں لگ جاتے ہیں۔ تو ان کا کچھ کھالینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ اور نابالغ بچوں کو تو اس سے روکنا ہی نہیں چاہیے اس لیے کہ وہ شریعت مکلف ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا انہیں صبح سے بھوکا رکھنا اور یہ سمجھنا کہ یہ روزہ ہیں اور ان کا روزہ قربانی کے گوشت سے ہی کھلے گا یہ سب دین میں غلو اور زیادتی کی باتیں ہیں جس سے بچنا ضروری ہے۔

نوٹ : یہ استحبابی حکم صرف کھانے سے متعلق ہے، لہٰذا اگر کوئی مشروب مثلاً پانی چائے وغیرہ کچھ بھی پئے تو اس کی اجازت ہے۔ اور یہ حکم صرف قربانی کرنے والوں کے لیے ہے۔ قربانی نہ کرنے والوں کے لیے نہیں۔

عن بریدۃ أن النبی ﷺ کان لایخرج یوم الفطر حتی یطعم، وکان لایأکل یوم النحر شیئا حتی یذبح فیأکل من أضحیتہ۔ (سنن الدار قطنی، کتاب العیدین، ۲/۳۴، رقم : ۱۶۹۹، مسند أحمد بن حنبل ۵/۳۵۳، رقم : ۲۳۳۷۲)

الأکل من أضحیۃ التطوع والواجب غیر المنذور سنۃ لما ثبت عن النبی ﷺ فی حدیث بریدۃؓ أنہ ﷺ کان لایخرج یوم الفطر حتی یطعم وکان لایأکل یوم النحر شیئا حتی یذبح فیأکل من أضحیتہ۔ (إعلاء السنن، باب التصدق بلحوم الأضاحی وغیرہا، کراچی ۱۷/۲۶۷)

قال الطیبی رحمہ اللہ من أصر علیٰ أمر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال ۔ (مرقاۃ، باب الدعاء فی التشہد، الفصل الأول : ۲/۳۴۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ذی الحجہ 1444

منگل، 27 جون، 2023

عورت کا قربانی کا جانور ذبح کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا عورت جانور ذبح کرسکتی ہے؟ اور کیا قربانی کے جانور کو عورت ذبح کرے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت کی بات تو نہیں ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد آفاق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ذبیحہ حلال ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ذبح کرنے والا مرد ہی ہو، بلکہ عورت اگر صحیح طور پر جانور ذبح کرسکتی ہوتو اس کے لیے قربانی، عقیقہ یا عام دنوں میں کھانے کے لیے ذبح کیے جانے والے جانور کا ذبح کرنا بلاکراہت جائز ہے۔

بخاری شریف میں ہے :
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتون نے پتھر (کی نوک) سے بکری ذبح کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کے بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ نے اس کے کھانے کاحکم دیا۔

لیکن ہمارے یہاں چونکہ مرد یہ کام بہتر انداز میں کرلیتے ہیں، اور پھر قربانی کے وقت مردوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اس لیے عورت کے ذبح کرنے میں بے پردگی کا اندیشہ ہے، لہٰذا جہاں بے پردگی کا اندیشہ ہو وہ وہاں عورتوں کو اس سے بچنا چاہیے۔

عَنْ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ امْرَأَةً ذَبَحَتْ شَاةً بِحَجَرٍ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِکَ فَأَمَرَ بِأَکْلِهَا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٥٠٤)

(فَتَحِلُّ ذَبِيحَتَهُمَا، وَلَوْ) الذَّابِحُ (مَجْنُونًا أَوْ امْرَأَةً أَوْ صَبِيًّا يَعْقِلُ التَّسْمِيَةَ وَالذَّبْحَ) وَيَقْدِرُ۔ (شامی : ٦/٢٩٧)

قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - : (وَصَبِيٍّ وَامْرَأَةٍ وَأَخْرَسَ وَأَقْلَفَ) يَعْنِي تَحِلُّ ذَبِيحَةُ هَؤُلَاءِ وَالْمُرَادُ بِالصَّبِيِّ الَّذِي يَعْقِلُ التَّسْمِيَةَ وَيَضْبِطُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ لَا يَحِلُّ لِأَنَّ التَّسْمِيَةَ عَلَى الذَّبِيحَةِ شَرْطٌ بِالنَّصِّ وَذَلِكَ بِالْعَقْدِ وَصِحَّةُ الْعَقْدِ بِالْمَعْرِفَةِ وَالضَّبْطُ هُوَ أَنْ يَعْلَمَ شَرَائِطَ الذَّبْحِ مِنْ فَرْيِ الْأَوْدَاجِ وَالتَّسْمِيَةِ وَالْمَعْتُوهُ كَالصَّبِيِّ إذَا كَانَ ضَابِطًا وَالْقُلْفَةُ وَلَا الْفِرَاسَةُ لَا تَحِلُّ بِذَلِكَ فَيَحِلُّ وَالْأَخْرَسُ عَاجِزٌ عَنْ الذِّكْرِ فَيَكُونُ مَعْذُورًا وَتَقُومُ الْمِلَّةُ مَقَامَهُ كَالنَّاسِي بَلْ أَوْلَى لِأَنَّهُ أَلْزَمُ۔ (بحر الرائق : ٨/١٩١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 ذی الحجہ 1444

اتوار، 25 جون، 2023

سفید داغ کی بیماری والی لڑکی یا لڑکے سے نکاح


سوال :

محترم مفتی صاحب ! زید کی ہندہ سے رشتہ کی بات چلی۔ دونوں گھر والوں کو لڑکی لڑکا پسند آگیا، لیکن اس دوران معلوم ہوا کہ ہندہ کے جسم پر سفید داغ ہیں۔ جس کی وجہ سے اس رشتے کو زید کے والد نے منع کردیا۔ کیا زید کے والد کا عمل درست ہے؟ آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جن بیماریوں سے متعلق یہ رجحان ہو اور طبی نقطہ نظر سے بھی یہ بات کسی نہ کسی درجہ میں ثابت ہو کہ یہ بیماریاں متعدی اور پھیلنے والی ہیں تو ایسے مریضوں سے اختلاط کے سلسلے میں شریعتِ مطہرہ میں دونوں باتیں ملتی ہیں۔

مثلاً جذام کے مریض سے متعلق جو احادیث ملتی ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جذامی کی صحبت و ہم نشینی سے اجتناب و پرہیز کرنا چاہئے، جبکہ وہ احادیث ان کے برعکس ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ (1)

ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں بالکل متضاد ہیں، اس تضاد کو دور کرنے کے لئے اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء کے متعدد اقوال منقول ہیں۔
حضرت شیخ ابن عسقلانی نے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ احادیث کے اس باہمی تضاد کو دور کرنے کے لئے سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جن احادیث میں عدویٰ یعنی چھوت کی نفی کی گئی ہے ان کا حکم اپنے عموم و اطلاق کے ساتھ قائم و باقی ہے اور ان لوگوں کی مخالطت و مجالست جو جذام جیسے امراض میں مبتلا ہوں ان کی بیماری لگنے کا سبب ہرگز نہیں ہوتا اور جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو جذامی سے اجتناب و پرہیز کو ظاہر کرتی ہیں تو ان کا مقصد محض اوہام و وساوس کا سدباب ہے کہ کوئی شخص شرک کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔

اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اختیار کی، یعنی ان کے ساتھ اٹھا بیٹھا اور ان کے ساتھ ملنا جلنا جاری رکھا اور پھر اسی دوران اللہ کا یہ حکم ہوا کہ وہ شخص بھی جذام میں مبتلا ہوگیا تو بعیدنہیں کہ وہ اس وہم و اعتقاد میں مبتلا ہو جائے کہ میں اس جذامی کی مخالطت و مجالست ہی کی وجہ سے اس مرض میں گرفتار ہوا ہوں، لہٰذا آپ ﷺ نے لوگوں کو اس وہم و اعتقاد سے بچانے کے لئے جو کفر و شرک کی حد تک پہنچاتا ہے، جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم دیا، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات کو حکم سے مستثنیٰ رکھا کیونکہ آپ توکل واعتقاد علی اللہ کے اعلی مرتبہ پر فائز تھے اس کی بنا پر مذکورہ وہم وگمان میں آپ ﷺ کے مبتلا ہونے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، چنانچہ ایک دن آپ ﷺ ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لائے اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ (2)

حاصل یہ کہ جذامی سے اجتناب وپرہیز کرنے کا حکم اس شخص کے لئے ہے جو اپنے صدق و یقین کی طاقت نہ رکھے اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ کسی جذامی کی مخالطت ومجالست کے دوران خود اس مرض میں مبتلا ہوگیا تو اس وہم و اعتقاد کا شکار ہو کر شرک خفی کے گرداب میں پھنس جائے گا، اور جس شخص کا یقین و ایمان پختہ ہو اس شخص کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔

درج بالا تفصیلات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر زید کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ ہندہ سے نکاح کے بعد خدانخواستہ اگر اسے بھی برص (سفید داغ)  کا مرض لاحق ہوجائے تو وہ بدعقیدگی کا شکار نہیں ہوگا تو وہ بلاشبہ ہندہ سے نکاح کرسکتا ہے، زید کے والد کو اس رشتہ سے منع نہیں کرنا چاہیے، اور اگر زید کو اپنے اوپر اعتماد نہ ہوتو پھر وہ خود اس سے احتیاط کرے۔

1) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۵۳۴)

2) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ رَجُلٍ مَجْذُومٍ فَأَدْخَلَهَا مَعَهُ فِي الْقَصْعَةِ ثُمَّ قَالَ کُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَکُّلًا عَلَی اللَّهِ۔ (ابن ماجہ، رقم : ٣٥٤٢)
مستفاد : مشکوٰۃ المصابیح مترجم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ذی الحجہ 1444

ہفتہ، 24 جون، 2023

مریض کے لئے موت کی دعا کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک چیز مشاہدے میں آئی ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی بندہ بہت دنوں تک بیماری میں مبتلا رہے، بستر مرگ پر ہو، تو گھر والے، اولاد، بیوی اسکے لئے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ، میرے شوہر کو، میرے والد کو، میرے بھائی کو، میرے بیٹے کو عافیت کے ساتھ اپنے پاس بلا لے، اسے اس بیماری کے بدلے آسان موت عطا فرما۔ عرض یہ کرنا ہے کہ کیا اس طرح سے کسی کے لیے موت کی دعا کی جا سکتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مریض ہو یا تندرست، دوسروں کے لیے ہو یا خود اپنے لیے موت کی تمنا اور دعا کرنے کی ممانعت ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی تکلیف میں اگر کوئی شخص مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیئے اور اگر کوئی موت کی تمنا کرنے ہی لگے تو یہ کہنا چاہیئے « اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا کَانَتْ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا کَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي » اے اللہ ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب موت میرے لیے بہتر ہو تو مجھ کو اٹھا لے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو لوگ براہ راست اپنے مریض رشتہ دار یا متعلقین کے لیے موت کی دعا کرتے ہیں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ حدیث شریف میں جو دعا آئی ہے وہ کرنا چاہیے خواہ اردو میں ہی کیوں نہ ہو، یعنی اس طرح دعا کرے کہ اے اللہ ! جب تک زندگی فلاں کے لیے بہتر ہے تو انہیں زندہ رکھ اور جب موت ان کے لیے بہتر ہو تو انہیں موت دے دے۔ یا پھر اردو میں یہ دعا بھی کرنا مناسب ہے کہ اے اللہ ! ان کے حق میں جو بھی خیر ہو اسے جلد از جلد ظاہر فرما۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُکُمْ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ فَإِنْ کَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا کَانَتْ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا کَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٦٧١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1444

جانوروں کو خصی کرنے اور ان کی قربانی کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! خصّی جانوروں (بکروں) کی قربانی کا کیا حکم ہے؟ بعض افراد آج بھی کہتے ہیں کہ نہیں کرنا چاہیے، اور دوسرے یہ کہ ایسے جانوروں کو خصّی کرنا چاہیے یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خصی جانور کی قربانی نہ صرف جائز بلکہ افضل اور مسنون ہے، کیونکہ اس کا گوشت غیر خصی سے بہتر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خصی بکرے کی قیمت غیر خصی سے زیادہ ہوتی ہے۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے دن دو مینڈھے خصی سینگوں والے اور چتکبرے ذبح فرمائے۔

لہٰذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خصی جانور کی قربانی نہیں کرنا چاہیے وہ سخت غلطی پر ہیں، انہیں توبہ و استغفار کرکے اپنی اس بے بنیاد بات سے رجوع کرنا چاہیے۔

انسان کو خصی کرنا بالاتفاق ناجائز اور حرام ہے، اور جانوروں کو خصی کرنا جب کہ اس میں کوئی منفعت ہو یعنی اسے فربہ بنانا ہوتو حرج نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو انسانوں کے لیے ہی پیدا فرمایا ہے۔ اور جب کوئی منفعت نہ ہو اور نہ ہی کسی تکلیف کو دور کرنا مقصود ہو تو پھر جانوروں کو بھی خصی کرنا جائز نہیں۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ کَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٢٧٩٥)

خِصَاءُ بَنِي آدَمَ حَرَامٌ بِالِاتِّفَاقِ وَأَمَّا خِصَاءُ الْفَرَسِ فَقَدْ ذَكَرَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ فِي شَرْحِهِ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا وَذَكَرَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ فِي شَرْحِهِ أَنَّهُ حَرَامٌ وَأَمَّا فِي غَيْرِهِ مِنْ الْبَهَائِمِ فَلَا بَأْسَ بِهِ إذَا كَانَ فِيهِ مَنْفَعَةٌ وَإِذَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَنْفَعَةٌ أَوْ دَفْعُ ضَرَرٍ فَهُوَ حَرَامٌ كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٥٧)

وَالْخَصِيُّ أَفْضَلُ مِنْ الْفَحْلِ؛ لِأَنَّهُ أَطْيَبُ لَحْمًا، كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٢٩٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1444

غیرمسلموں کے تہوار کی وجہ سے پہلے دن قربانی نہ کرنا

سوال :

حضرت مفتی صاحب سوال یہ ہیکہ عیدالاضحیٰ کے اول دن میں ہندو قوم کا تہوار ہے، جس میں گوشت کھانے کاٹنے وغیرہ کا شدت سے احتیاط کیا جاتا ہے اور حالات کے پیش نظر فتینوں کی جانب سے فتنہ کا اندیشہ زیادہ ہے۔ قریہ دیہات میں مسلمان اقلیت میں ہونے کے وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات کے زیادہ امکانات نظر آرہے ہیں۔ اس صورت میں قوم کو پہلے دن قربانی کے بجائے دوسرے دن قربانی کی ترغیب دینا کیسا ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : سید رضوان موسی نعمانی، مہاراشٹر)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ۱۰؍ذی الحجہ کو قربانی کرنا افضل  ہے، اس کے بعد ۱۱؍اور ۱۲؍ذی الحجہ کا درجہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی پہلے دن کو چھوڑ کر دوسرے اور تیسرے دن قربانی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن باقاعدہ اجتماعی طور پر اس کی ترغیب دینا اور پورے گاؤں والوں کو پہلے دن کے بجائے دوسرے تیسرے دن قربانی کے لیے کہنا درست نہیں معلوم ہوتا، اس لیے کہ ۱۰؍ذی الحجہ کو قربانی کرنا شعائر اسلام میں سے ہے، اب اگر پورا گاؤں اسے ترک کردے گا تو بلاشبہ اس پر حرف آئے گا۔

موجودہ حالات میں مذہبی رواداری، بلاوجہ کے فتنے کے اندیشہ اور فسادات کے ڈر کی وجہ سے ہم نے بہت سے معاملات میں چاپلوسی اور بزدلی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے جو بلاشبہ تشویشناک روِش ہے جو آگے چل کر ہمیں مزید بزدلی اور گمراہی کی طرف لے جائے گی۔ معاذ اللہ

لہٰذا جو لوگ پہلے دن قربانی کرنا چاہیں وہ بلاخوف وخطر پہلے دن قربانی کریں، کیونکہ ہندوستانی قانون کے مطابق ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ البتہ اس میں احتیاط کا پہلو پیشِ نظر رہے کہ سڑکوں اور گلیوں کے بجائے متعینہ جگہوں یا گھروں کے آنگن میں اور خاموشی کے ساتھ قربانی کریں تاکہ فتینوں کو فتنہ کا موقع نہ ملے۔

یوم النحر الیٰ آخر ایامہ وہی ثلاثۃ، افضلہا اولہا ثم الثانی ثم الثالث۔ (درمختار مع الشامی : ۹؍۴۵۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1444

پیر، 19 جون، 2023

اجتماعی قربانی میں حرام آمدنی والے کی شرکت کا مسئلہ

سوال :

مفتی طارق مسعود کے بیان میں سننے ملا کہ اگر قربانی کے جانور میں کسی آدمی کا حصہ ہو جس کی کمائی حرام ہے تو کسی کی بھی قربانی قبول نہیں ہوتی تو اس طرح جو اجتماعی قربانی ہوتی ہے اس میں تو انجان آدمی کے ساتھ قربانی کی جاتی ہے۔ قربانی میں حصہ دار ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں، اگر ایسی صورت میں کسی ایسے آدمی کا حصہ ہمارے جانور کے اندر ہو اس کی کمائی حرام ہے تو قربانی کے اوپر کیا اثر پڑے گا؟ اور جو ادارے اجتماعی قربانیاں کرتے ہیں کیا وہ ان مسائل کا خیال رکھتے  ہیں یا نہیں؟ درست صورت کی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبیدالرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور مفتی صاحب کا بیان کیا ہوا مسئلہ بالکل درست ہے۔ یعنی اجتماعی قربانی میں اگرکوئی حرام آمدنی والا حصہ دار شامل ہو جس کی آمدنی کا اکثر یا مکمل حصہ حرام ہو تو شرکاء میں سے کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔

البتہ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم دیگر مسلمانوں کے بارے میں نیک گمان رکھیں اور یہ سمجھیں کہ ہماری طرح دوسرے مسلمان بھی حلال مال کماتے ہیں۔ اس لیے کہ عام طور پر مسلمان حرام نہیں کماتا، اور نہ ہی ہمیں مسلمان کی آمدنی کی تفتیش یا تجسس کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا جب تک یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ کوئی حصہ دار حرام آمدن والا ہے تب تک دیگر شرکاء کی قربانی کے نہ ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ لیکن اگر کسی کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اس کی کُل یا اکثر آمدنی حرام ہے تو پھر اسے قربانی کے جانور میں شریک نہ کیا جائے۔ اور اگر خدانخواستہ اجتماعی قربانی کا نظم کرنے والوں کو اس کا علم تھا اس کے باوجود انہوں نے حرام آمدنی والوں کو شریک کرلیا (جس کا گمان نہ کے برابر ہے) تو اس کا وبال انہیں پر ہوگا۔ دیگر شرکاء کو چونکہ اس کا علم ہی نہیں ہوگا، لہٰذا ان پر اس کا وبال نہیں ہوگا، پس انہیں تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، ان کی قربانی درست ہوگی۔

وَإِنْ كَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ صَبِيًّا أَوْ كَانَ شَرِيكُ السَّبْعِ مَنْ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ كَانَ نَصْرَانِيًّا وَنَحْوَ ذَلِكَ لَا يَجُوزُ لِلْآخَرَيْنِ أَيْضًا كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ.وَلَوْ كَانَ أَحَدُ الشُّرَكَاءِ ذِمِّيًّا كِتَابِيًّا أَوْ غَيْرَ كِتَابِيٍّ وَهُوَ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ يُرِيدُ الْقُرْبَةَ فِي دِينِهِ لَمْ يُجْزِئْهُمْ عِنْدَنَا؛ لِأَنَّ الْكَافِرَ لَا يَتَحَقَّقُ مِنْهُ الْقُرْبَةُ، فَكَانَتْ نِيَّتُهُ مُلْحَقَةً بِالْعَدَمِ، فَكَأَنْ يُرِيدَ اللَّحْمَ وَالْمُسْلِمُ لَوْ أَرَادَ اللَّحْمَ لَا يَجُوزُ عِنْدَنَا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٠٤)

الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)

وَقَالَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ : وَلَوْ نَوَى فِي الْمَالِ الْخَبِيثِ الَّذِي وَجَبَتْ صَدَقَتُهُ أَنْ يَقَعَ عَنْ الزَّكَاةِ وَقَعَ عَنْهَا اهـ أَيْ نَوَى فِي الَّذِي وَجَبَ التَّصَدُّقُ بِهِ لِجَهْلِ أَرْبَابِهِ، وَفِيهِ تَقْيِيدٌ لِقَوْلِ الظَّهِيرِيَّةِ: رَجُلٌ دَفَعَ إلَى فَقِيرٍ مِنْ الْمَالِ الْحَرَامِ شَيْئًا يَرْجُو بِهِ الثَّوَابَ يَكْفُرُ، وَلَوْ عَلِمَ الْفَقِيرُ بِذَلِكَ فَدَعَا لَهُ وَأَمَّنَ الْمُعْطِيَ كَفَرَا جَمِيعًا۔ (شامی : ٢/٢٩٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ذی القعدہ 1444