جمعرات، 29 جون، 2023

رات میں قربانی کرنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب ! 11 اور 12 ذی الحجہ کو قربانی کب کی جانی چاہئے؟ بہت سے لوگ فجر کی نماز سے پہلے ہی قربانی کرتے ہیں اور بعض لوگ بعد نماز فجرقربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اس بابت رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ڈاکٹر مختار، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قربانی کا وقت نماز عیدالاضحٰی کے بعد سے شروع ہوکر ۱۲؍ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے تک رہتا ہے۔ لہٰذا قربانی کے ان تین دنوں میں کسی بھی وقت قربانی کی جاسکتی ہے، نیز رات میں قربانی کرنا مطلقاً مکروہ نہیں ہے، بلکہ تاریکی کی وجہ سے غلطی کا احتمال اور اندیشہ ہوتا ہے کہ ذبح میں جن رگوں اور نالیوں کو کاٹنا ضروری ہے، وہ صحیح طور پر نہ کٹ سکیں گی، اس لئے فقہاء نے رات میں قربانی کو مکروہ لکھا ہے۔ لیکن فی زماننا بجلی ہونے کی وجہ سے روشنی کا ایسا معقول نظم ہوتا ہے جس کی وجہ سے ذبح میں غلطی کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں فجر سے پہلے یعنی رات میں بھی قربانی کرنا بلا کراہت جائز ہے۔

یوم النحر الیٰ آخر ایامہ وہی ثلاثۃ،  افضلہا اولہا ثم الثانی ثم الثالث۔(درمختار مع الشامی : ۹؍۴۵۸)

قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : إنما الأعمال بالنیات، وإنما لکل اَمرئٍ ما نوی۔   (صحیح البخاري، کتاب بدء الوحي / باب کیف کان بدئُ الوحي إلی رسول اللّٰہ رقم : ٠١)

ویجوز في نہارہا ولیلہا بعد طلوع الفجر من یوم النحر إلی غروب الشمس من الیوم الثاني عشر، إلا أنہ یکرہ الذبح في اللیل۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الأضحیۃ / الباب الثالث في وقت الأضحیۃ، ۵؍۲۹۵)

وکرہ تنزیہًا الذبح لیلاً لاحتمال الغلط۔ (الدر المختار / کتاب الأضحیۃ ۶؍۳۲۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ذی الحجہ 1444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں