اتوار، 28 فروری، 2021

شکیل رشید صاحب سے چند باتیں

✍️محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام! آج معروف صحافی جناب شکیل رشید صاحب کی ایک تحریر بنام "آج ایک عائشہ نے خودکشی کی کل کو۔۔" نظر سے گزری، جس میں انہوں نے خودکشی کرنے والی عائشہ نامی خاتون کا ذکر کرنے کے بعد علماء کرام اور مؤقر دینی وملی تنظیموں پر جارحانہ تبصرہ کیا ہے جس کا ہم زیر نظر مضمون میں منصفانہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

محترم قارئین ! یہ بات بالکل واضح ہے کہ مرحومہ عائشہ کی باتیں سن کر اور اس کی خودکشی والے عمل سے ہر درد مند دل تڑپ اٹھا ہے۔ اور ہر کسی کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہورہا ہے کہ آئندہ پھر کبھی کسی کے ساتھ ایسا ظلم نہ ہو، اس لیے جو لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں انہیں اس کی ضرور سزا ملنی چاہیے۔

لیکن آج کل تو جیسے ٹرینڈ ہی بن گیا ہے کہ کہیں کچھ بھی اونچ نیچ ہو، ایک طبقہ اس میں علماء کو ذمہ دار ٹھہرانے کی مذموم کوشش میں لگ جاتا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ شکیل رشید صاحب بھی علماء سے بدظن ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس تحریر میں انہوں نے علماء پر طعن وتشنیع کے تیر چلائے ہیں۔ ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ مولوی کیا کیا کرے؟
مولوی اذان دے
مولوی نماز پڑھائے
مدرسہ پڑھائے
اسکولیں چلائے
دین کی تبلیغ کرے
امت کے ایمان کی حفاظت کے لیے مکاتب کا جال بچھائے
نت نئے فتنوں کے سدباب کے لیے ہر وقت تیار رہے
نکاح پڑھائے
جنازہ پڑھائے
لوگوں کی شرعی مسائل میں رہنمائی کرے
دارالقضاء سے لوگوں کے مسائل حل کرے
فسادات اور دیگر حادثات کے مواقع پر بلاتفریق مذہب وملت ریلیف کا نظم کرے
اصلاح معاشرہ کی کوشش کرے
عصری اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طالبان کے لیے اسکالر شپ کا نظم کرے
وقتاً فوقتاً حکومت کی جانب سے بنائے جانے والے ظالمانہ قوانین کے خلاف آواز اٹھائے،
تحریک چلائے، دھرنا دے
بے گناہوں کے مقدمات لڑے
اجتماعی نکاح میں غریب بچیوں کے نکاح کے اخراجات کا انتظام کرے
ترغیب دے کر بغیر جہیز کے نکاح کا انعقاد کرے
سب کام مولوی ہی کرے گا تو آپ کیا کریں گے؟
آپ کس درد کی دوا ہیں؟
یا آپ کو صرف زخموں پر نمک پاشی کرنا آتا ہے؟
کیوں بلادلیل مولویوں کے خلاف لکھ کر اپنے اخبار کے ساتھ اپنا اعمال نامہ بھی سیاہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں؟
کیا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہے کہ جہیز پر علماء نے کیا کچھ نہیں کہا ہے؟ مولوی کیا کرے گا کہنے تک ہی کہا جائے گا نا؟ اسلامی حکومت تو ہے نہیں کہ مولوی خود سزا نافذ کردے۔ جہیز کے نام پر دولہن کو پریشان کرنے والوں کے خلاف ہندوستانی قانون موجود تو ہے۔ Indian Penal Code 1860
Section 304 B
یعنی شادی کے بعد سات سال کے عرصے میں شوہر یا سسرالی رشتہ داروں کے ذریعے جہیز کے مطالبے کو لے کر دلہن پر تشدد کیا جائے جس کی وجہ سے موت واقع ہوجائے تو مجرم کو کم از کم سات سال اور زائد از عمر قید کی سزا ہوگی۔ تو آپ خود کیوں نہیں حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس قانون کی گرفت کو مضبوط کیا جائے، خاطیوں کو قرارِ واقعی سزا دی جائے، آپ کے پاس تو اخبار بھی ہے اور ماشاء اللہ آپ کا قلم بھی چلتا ہے، تو پھر آپ کیوں رُکے ہوئے ہیں؟ اس نیک کام میں آپ کی مخالفت کون کرے گا؟ کون سی تنظیم آپ کی مخالفت کرے گی؟ ہر کام کے لیے علماء کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، کچھ کام آپ جیسے افراد کو بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

محترم ! امت کا ایک طبقہ پہلے ہی علماء سے بدظن ہے، آپ علماء کی تائید وحمایت نہیں کرسکتے تو خدارا انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بھی نہ بنائیں۔

امید کرتے ہیں کہ آپ اپنی تحریر پر نظر ثانی فرمائیں گے اور آئندہ علماء کرام پر بے جا تبصروں سے باز رہیں گے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو حق کہنے، لکھنے، سننے اور قبول کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین

لڑکی کے پہلے تین رشتوں کا حکم

سوال :

مفتی صاحب لڑکی کیلئے پہلے تین نکاح کے رشتے کا پیغام آنا اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اگر ہم ان میں سے کسی کو بھی پسند نہیں کرتے تو اس کے بعد لڑکی کا رشتہ لگنا بہت مشکل ہو جاتا ہے يا بہت مشکل سے رشتہ ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے یا نہیں؟
(المستفتی : عبداللہ انجینئر، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لی جائے کہ ہم مسلمانوں کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ دنیا میں موجود ایک پتہ اور ذرہ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا۔ تو پھر لڑکی کا رشتہ پہلا ہو، دسواں ہو یا ہزارواں سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اب رشتہ طے کرنے والوں کے لیے یہ شرعی رہنمائی ہے کہ وہ دینداری کو ترجیح دے کر رشتہ طے کردیں، ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ انہیں پہلے تین رشتوں میں سے ہی کسی کو منتخب کرنا پڑے گا خواہ وہ رشتہ کیسا ہی گیا گذرا ہو۔ ورنہ بعد میں کوئی رشتہ نہیں آئے گا۔ یہ بالکل بے بنیاد اور جاہلانہ سوچ ہے جس کا ترک لازم ہے۔

قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)

وکان القفّال یقول : فإن الأمور کلہا بید اللّٰہ ، یقضي فیہا ما یشاء ، ویحکم ما یرید ، لا مؤخر لما قدّم ولا مقدّم لما أخّر۔ (۱۹/۲۰۳ ، خطبۃ ، خامسًا، الخُطبۃ قبل الخِطبۃ، الموسوعۃ الفھیۃ)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاکَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۰۹۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رجب المرجب 1442

جمعہ، 26 فروری، 2021

دودھ پیتے بچوں کا جوٹھا کھانے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب مجھے اس بارے میں جاننا تھا کہ شیرخوار بچے کے جوٹھے کا کیا حکم ہے؟ اکثر عورتیں شیرخوار بچوں کے پانی کیلئے الگ گلاس استعمال کرتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا بڑا شخص اس گلاس سے پانی لینا چاہےتو انکو منع کیا جاتا ہے کہ اسمیں سے شیرخوار نے پانی پیا ہے اس لیے تم دوسرا گلاس لے لو۔ دوسری بات یہ کہ اگر ہم (مرد حضرات)کھانا کھا رہے ہوں تو کیا ہم اسی ہاتھ سے شیرخوار بچے کے منہ میں لقمہ ڈال سکتے ہیں؟
(المستفتی : مجاہد اقبال، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس طرح بڑوں کا جوٹھا پاک ہے اسی طرح شیرخوار یعنی دودھ پیتے بچوں کا بھی جوٹھا پاک ہے۔ البتہ اس وقت دودھ پیتے بچوں کا جوٹھا کھانا پینا جائز نہیں ہے جس وقت بچے کے منہ میں باقاعدہ ماں کا دودھ موجود ہو، کیونکہ اس میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ماں کے دودھ کا کچھ حصہ جوٹھا کھانے یا پینے والے کے منہ میں چلا جائے گا جو کہ اس کے لیے شرعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ ڈھائی سال کی عمر کے بعد کسی عورت کا دودھ پینا بالاتفاق حرام ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی وقت ان بچوں کا جوٹھا کھانا پینا جائز ہے۔ اس سلسلے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد غلو کا شکار ہے۔ لہٰذا انہیں صحیح مسئلہ سے واقف کرکے ان کی اصلاح کی جائے۔

فسوٴر آدمي مطلقاً ولو کافراً …… طاهر الفم، … طاهر۔ (الدر المختار مع رد المختار، کتاب الطهارة، باب المیاه، ۱/ ۳۸۱،۳۸۲)

عن علی رضی اللہ عنہ قال : لا رضاع بعد فصال۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، کتاب الرضاع، باب رضاع الکبیر، رقم : ۱۶۰۸۲)

وَإِذَا مَضَتْ مُدَّةُ الرَّضَاعِ لَمْ يَتَعَلَّقْ بِالرَّضَاعِ تَحْرِيمٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَا رَضَاعَ بَعْدَ الْفِصَالِ۔ (ہدایۃ، کتاب الرضاع، ۲/۳۵۰)

أَيْ الْمُدَّةِ (وَهِيَ) أَيْ مُدَّتُهُ (حَوْلَانِ وَنِصْفٌ) أَيْ ثَلَاثُونَ شَهْرًا مِنْ وَقْتِ الْوِلَادَةِ عِنْدَ الْإِمَامِ ۔۔۔۔۔ (وَعِنْدَهُمَا حَوْلَانِ) وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَمَا فِي الْمَوَاهِبِ وَبِهِ أَخَذَ الطَّحَاوِيُّ ۔۔۔۔ وَفِي شَرْحِ الْمَنْظُومَةِ : الْإِرْضَاعُ بَعْدَ مُدَّتِهِ حَرَامٌ؛ لِأَنَّهُ جُزْءُ الْآدَمِيِّ وَالِانْتِفَاعُ بِهِ غَيْرُ ضَرُورَةٍ حَرَامٌ عَلَى الصَّحِيحِ۔ (مجمع الأنہر، کتاب الرضاع، ۱/۵۵۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 رجب المرجب 1442

جمعرات، 25 فروری، 2021

عورتوں کا زیورات پہننے کے لیے ناک کان میں سوراخ کروانا

سوال :

مفتی صاحب عورتیں جو ناک کان میں آئرن وغیرہ پہننے کے لیے سوراخ کر واتی ہیں شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ ایک معلمہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ قرآن اور حدیث سے نہیں ہے اور جو بچیاں  ناک کان میں سوراخ نہیں کروانا چاہتیں گھر والوں کو انہیں تکلیف نہیں دینا چاہیے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عمران، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زیورات پہننے کے لیے عورتوں کا کان اور ناک میں سوراخ کرنے کا حکم اگرچہ باقاعدہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حضرات صحابیات رضی اللہ عنہن کا کانوں میں زیورات پہننے کا معمول تھا اور آپ علیہ السلام نے کبھی اس سے منع نہیں فرمایا۔ اور کانوں کے سوراخ پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے ناک میں بھی سوراخ کرنے کی اجازت دی ہے۔

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں :
جیسے کان زینت کی جگہ ہے، اسی طرح ناک بھی زینت کی جگہوں میں ہے، کان میں بالیاں پہننے کا ذکر خود حدیث میں ہے، اور ظاہر ہے کہ سوراخ کرکے ہی پہنی گئی ہوں گی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناک میں زیور پہننے کے لیے سوراخ کرنا درست ہے، نہ احادیث میں اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے، نہ فقہاء نے اس کو منع کیا ہے۔ (کتاب الفتاوی : ٦/٥٩)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
لڑکیوں کے کان اور ناک سوراخ  کرانے کی گنجائش ہے، لڑکیوں کے کان ناک سوراخ  کرانے کا عمل عہدِ اول سے بغیر کسی نکیر کے رائج ہے۔ (رقم الفتوی : 57477)

معلوم ہوا کہ کان ناک دونوں میں زیورات پہننے کے لیے سوراخ کرانا جائز ہے، اور یہ عورتوں کے لیے زینت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور چھوٹی بچیوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، نیز معمولی سی تکلیف کی وجہ سے بچیاں ڈر کر اس سے منع کرتی ہیں تو ان کی خیرخواہی کے جذبہ سے کہ بعد میں انہیں زیادہ تکلیف نہ اٹھانا پڑے گھر کی خواتین کا ان پر سختی کرنا جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

وَلَا بَأْسَ بِثَقْبِ أُذُنِ الْبِنْتِ، وَهَلْ يَجُوزُ الْخِزَامُ فِي الْأَنْفِ، لَمْ أَرَهُ، قُلْت: إنْ كَانَ مِمَّا يَتَزَيَّنُ النِّسَاءُ بِهِ كَمَا هُوَ فِي بَعْضِ الْبِلَادِ فَهُوَ فِيهَا كَثَقْبِ الْقُرْطِ۔ (شامی : ٦/٤٢٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 رجب المرجب 1442

بدھ، 24 فروری، 2021

والدین کی آپس میں بات چیت بند ہوتو بچے کیا کریں؟

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ درپیش ہے کہ ایک شخص ہے جس کے والدین کی آپس میں بات چیت بند ہے، والد کچھ کرنے کہتے ہیں تو والدہ اس کے برعکس کہتی ہیں، جس کی وجہ سے بچے پریشان ہیں کہ آیا والد کے بات مانیں یا والدہ کی؟ والد کی بات مانیں تو والدہ ناراض ہوگی اور والدہ کی بات مانیں تو والد ناراض ہوں گے۔ براہ کرم تسلی بخش جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ابوذر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ بچے سمجھدار ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے والدین میں صلح صفائی کی کوشش کریں، والدین ان کے رشتہ داروں اور تعلقات میں جن کی بات مانتے ہوں ان کے ذریعے دونوں میں مصالحت کی جائے۔ اس لئے کہ کسی مسلمان سے قطع تعلق کرنا ناجائز اور گناہ کی بات ہے، احادیث مبارکہ میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرے، لہٰذا جو شخص تین دن سے زیادہ خواہ ایک ساعت ہی کیوں نہ ملنا جلنا چھوڑ دے اور پھر وہ اسی حالت میں توبہ کئے بغیر مرجائے تو آگ میں جائے گا۔ (1)

امید ہے کہ اللہ تعالی اسی مرحلہ میں مسئلہ ختم فرمادیں اور آگے کے مراحل کے حل کی ضرورت ہی نہ پیش نہ آئے۔

لیکن اگر خدانخواستہ تمام تر مصالحتی کوششوں کے باوجود والدین میں بات چیت شروع نہ ہوسکے تو بچوں کے لیے ضروری ہے کہ والدین میں سے پہلے جس نے کوئی حکم دیا ہو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔

مثلاً اگر والدہ نے کہا کہ فلاں کام کرو، اور والد صاحب کو معلوم ہوا اور انھوں نے اس کام سے منع کردیا تو اس صورت میں والدہ کے حکم کی ہی تابعداری کی جائے گی، کیونکہ والد کا حکم ماننے میں والدہ کی نافرمانی ہوگی، جو کہ گناہ ہے، اور شریعتِ مطہرہ نے گناہ کے کاموں میں کسی کی بھی اطاعت سے منع فرمایا ہے اگرچہ حکم دینے والے حاکمِ وقت یا والدین ہی کیوں نہ ہوں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی انسان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ (2)

نیز آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے، اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔ (3)

اسی طرح اس کے برعکس کیا جائے گا کہ اگر والد نے کوئی حکم دیا اور والدہ نے منع کردیا تو والد کے حکم کی اطاعت کی جائے گی، اس صورت میں بچے گناہ گار نہیں ہوں گے۔

1) عن ابی ہریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لایحل لمسلم ان یہجر اخاہ فوق ثلٰث فمن ہجر فوق ثلاث فمات دخل النار،رواہ احمد، ابوداؤد، مشکوٰۃ شریف ص۴۲۸؍(مطبوعہ یاسرندیم اینڈ کمپنی دیوبند)
 
2) عن علي، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم، قال: " لا طاعة لمخلوق في معصية اللہ عز وجل.(مسند الإمام أحمد بن حنبل:۲؍۳۳۳، رقم الحدیث:۱۰۹۵، مسند علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه)

3)لا طاعۃ في معصیۃ اللہ إنما الطاعۃ في المعروف۔ (مسلم شریف کتاب الجہاد والسیر، باب وجوب طاعۃ الأمراء في غیر معصیۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۱۲۵، بیت الأفکار، رقم: ۱۸۴۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 رجب المرجب 1442

منگل، 23 فروری، 2021

علقمہ نامی صحابی کے واقعہ کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک صحابی والدہ کی نافرمانی کی وجہ سے موت کے وقت کلمہ نہیں پڑھ پارہے تھے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
(المستفتی : مسیب رشید خان، جنتور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مکمل درج ذیل ہے :

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”علقمہ “ نامی ایک شخص جو نماز روزہ کا بہت پابند تھا  جب اس کے انتقال کا وقت قریب آیا، تو اس کے منہ سے باوجود تلقین کے کلمہ شہادت جاری نہ ہوتا تھا۔ علقمہ کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک آدمی بھیج کر اس واقعہ کی اطلاع کرائی۔ آپ نے دریافت کیا : علقمہ کےوالدین زندہ ہیں یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ صرف والدہ زندہ ہے اور وہ علقمہ سے ناراض ہے۔ آپ ﷺ نے علقمہ کی ماں کو اطلاع کرائی کہ میں تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، تم میرے پاس آتی ہو یا میں تمہارے پاس آؤں۔ علقمہ کی والدہ نے عرض کی، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتی، بلکہ خود ہی حاضر ہوتی ہوں۔ چنانچہ بڑھیا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے علقمہ کے متعلق کچھ دریافت فرمایا، تو اس نے کہا علقمہ نہایت نیک آدمی ہے، لیکن وہ اپنی بیوی کے مقابلے میں ہمیشہ میری نافرمانی کرتا ہے۔ اس لیے میں اس سے ناراض ہوں۔ آپ نے فرمایا : اگر تو اس کی خطا معاف کردے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، لیکن اس نے انکار کیا۔ تب آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ لکڑیاں جمع کرو اور علقمہ کو جلادو۔ بڑھیا یہ سن کر گھبرائی اور اس نے دریافت کیا کہ کیا میرے بچے کو آگ میں جلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اللہ کے عذاب کے مقابلے میں یہ ہمارا عذاب ہلکا ہے۔ خدا کی قسم جب تک تو اس سے ناراض ہے، نہ اس کی نماز قبول ہے نہ کوئی صدقہ قبول ہے۔ بڑھیا نے کہا : میں آپ کو اور لوگوں کو گواہ کرتی ہوں کہ میں نے علقمہ کے قصور معاف کردیا۔ آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : دیکھو، علقمہ کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہوا یا نہیں؟  لوگوں نے بیان کیا یا رسول اللہ ﷺ علقمہ کی زبان پر کلمۂ شہادت جاری ہوگیا اورکلمۂ شہادت کے ساتھ اس نے انتقال کیا۔ آپ نے علقمہ کے غسل و کفن کا حکم دیا اور خود جنازے کے ساتھ تشریف لے  گئے۔ علقمہ کو دفن کرنے کے بعد فرمایا :
مہاجرین و انصار میں سے جس شخص نے اپنی ماں کی نافرمانی کی یا اس کو تکلیف پہنچائی، تو اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت، اور سب لوگوں کی لعنت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اور جس طرح ممکن ہو اس کو راضی کرے، اس کی رضا ماں کی رضا مندی پر موقوف ہے اور خدا تعالیٰ کا غصہ اس کے غصہ میں پوشیدہ ہے۔

اس واقعہ کو طبرانی کے علاوہ چند اور محدثین نے فائد بن عبدالرحمن کی سند سے نقل کیا ہے۔
ﺟﻤﻴﻌﻬﻢ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ۔

فائد بن عبدالرحمن  اس راوی کے بارے میں محدثین کرام کے اقوال :

١)  امام احمد کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے۔
ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﻤﺪ: ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ

٢) ابن معین کہتے ہیں کہ یہ کسی قابل نہیں۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲﺀ

٣) ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے کہ یہ گیا گذرا راوی ہے، اس کی روایات نہ لکھی جائیں، ابن ابی اوفی سے اس کی نقل کردہ روایات باطل ہیں جن کی کوئی اصل نہیں۔۔۔۔ اگر اس کی روایات کے جھوٹ ہونے پر قسم کھائی جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻰ ﻳﻘﻮﻝ: ﻓﺎﺋﺪ ﺫﺍﻫﺐ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ، ﻭﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﻮﺍﻃﻴﻞ ﻻ ﺗﻜﺎﺩ ﺗﺮﻯ ﻟﻬﺎ ﺃﺻﻼ، ﻛﺄﻧﻪ ﻻ ﻳﺸﺒﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ، ﻭﻟﻮ ﺃﻥ ﺭﺟﻼ ﺣﻠﻒ ﺃﻥ ﻋﺎﻣﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻛﺬﺏ ﻟﻢ ﻳﺤﻨﺚ۔

٤) امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ:  ﻣﻨﻜﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ. ﺍﻧﻈﺮ: “ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﺘﻬﺬﻳﺐ” 8/256

٥) ابن حبان نے ان کی روایات کو ناقابل اعتماد قرار دیا۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ: ﻛﺎﻥ ﻣﻤﻦ ﻳﺮﻭﻯ ﺍﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﺸﺎﻫﻴﺮ، ﻭﻳﺄﺗﻲ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﺎﻟﻤﻌﻀﻼﺕ، ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺍﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ. [“ﺍﻟﻤﺠﺮﻭﺣﻴﻦ” ‏(2/203)]

٦) امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ ابن أبی أوفی سے من گھڑت روایات نقل کرتا ہے۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﺎﻛﻢ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ: ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ۔ (ﺍﻟﻤﺪﺧﻞ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ:‏155/ بحوالہ : تنبیہ نمبر : 3)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اس واقعہ کی سند نہایت کمزور ہے، اس کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 604878)

جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتوی ہے :
یہ  واقعہ ان روایات میں سے ہے ، جنہیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہتعالیٰ نے اپنی مسند میں نقل کرنے کے بعد  اس کے ضعف کی وجہ سےحذف کر دیا تھا،   چنانچہ ان کے فرزند عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ  والد محترم نے فائد بن عبد الرحمن کی حدیثوں کو اپنی کتاب سے نکال دیا تھا، کیوں کہ وہ ان کی  حدیثوں پر  راضی نہ تھے، اور انہیں  متروک الحدیث   کہتے تھے، اور سوال میں مذکور  روایت انہی میں سے ہے۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ اس حدیث کا دار و  مدار  "فائد بن عبد الرحمٰن العطار"  پر ہے، جس پر سخت جرح کی گئی ہے، "واضع" کا اطلاق تو صراحتًا کسی نے نہیں کیا، تاہم "متہم بالکذب" اور "متروک" ضرور کہا گیا ہے،  نیز  ایک اور راوی "داؤد بن ابراہیم" کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے "کذاب" لکھا ہے، لہٰذا  اس روایت کو بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ (رقم الفتوی : 144211200210)

درج بالا تحقیقات یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سوال نامہ میں مذکور واقعہ سند کے اعتبار انتہائی کمزور اور ناقابلِ اعتبار ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم قرآن و حدیث میں متعدد جگہوں پر آیا ہے۔ ان کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو اللہ کی ناراضگی کہا گیا ہے۔ نیز والدین کی نافرمانی پر آخرت میں تو گرفت ہوگی ہی، اسی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اس کا وبال دیکھنے کو ملے گا۔ لیکن اس کی قباحت کو بیان کرنے کے لیے اس طرح کے غیرمعتبر واقعات کا سہارا لینے اور انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»". (مشکاۃ المصابیح : 2/421 ،باب البر والصلۃ، قدیمی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 رجب المرجب 1442

پیر، 22 فروری، 2021

نئی تعمیر ہونے والی مسجد میں پہلی نماز کا ثواب ؟


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس روایت کے متعلق  کہ لوگوں میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ جب مسجد کے افتتاح کے موقع پر جو پہلی نماز ادا کی جاتی ہے تو اگر کوئی شخص اس افتتاحی نماز کو ادا کرلے تو جب تک اس مسجد میں نمازیں ہوتی رہیگی تو پہلی نماز ادا کرنے والے شخص کو اس کا ثواب ملتا رہے گا۔ لہٰذا عرض یہ کرنا ہے کہ کیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟ اور اگر صحیح ہے تو براہ کرم وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نئی تعمیر ہونے والی مسجد میں پہلی نماز ادا کرنے کی مذکورہ فضیلت کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی اور فضیلت بھی کسی حدیث شریف میں مذکور نہیں ہے۔ جو ثواب دیگر مساجد میں نماز کا ملتا ہے وہی ثواب یہاں بھی ملے گا۔ لہٰذا ایسی فضیلت بیان کرنا اور قصداً اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا ہے۔

البتہ اگر یہ مسجد دور ہوتو نماز کے لیے زیادہ قدم چلنا نیکیوں میں اضافہ اور گناہوں کے معاف ہونے کا سبب ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے تو یہ الگ بات ہے۔

عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيِّ الْمُجْمِرِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوئَهُ ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَی الصَّلَاةِ فَإِنَّهُ فِي صَلَاةٍ مَا دَامَ يَعْمِدُ إِلَی الصَّلَاةِ وَإِنَّهُ يُکْتَبُ لَهُ بِإِحْدَی خُطْوَتَيْهِ حَسَنَةٌ وَيُمْحَی عَنْهُ بِالْأُخْرَی سَيِّئَةٌ فَإِذَا سَمِعَ أَحَدُکُمْ الْإِقَامَةَ فَلَا يَسْعَ فَإِنَّ أَعْظَمَکُمْ أَجْرًا أَبْعَدُکُمْ دَارًا قَالُوا لِمَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ مِنْ أَجْلِ کَثْرَةِ الْخُطَا۔ (مؤطا امام مالک، رقم : ٦٩)

قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : من کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (صحیح البخاري : 1291/صحیح مسلم : 933)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 رجب المرجب 1442