✍️محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام! آج معروف صحافی جناب شکیل رشید صاحب کی ایک تحریر بنام "آج ایک عائشہ نے خودکشی کی کل کو۔۔" نظر سے گزری، جس میں انہوں نے خودکشی کرنے والی عائشہ نامی خاتون کا ذکر کرنے کے بعد علماء کرام اور مؤقر دینی وملی تنظیموں پر جارحانہ تبصرہ کیا ہے جس کا ہم زیر نظر مضمون میں منصفانہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
محترم قارئین ! یہ بات بالکل واضح ہے کہ مرحومہ عائشہ کی باتیں سن کر اور اس کی خودکشی والے عمل سے ہر درد مند دل تڑپ اٹھا ہے۔ اور ہر کسی کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہورہا ہے کہ آئندہ پھر کبھی کسی کے ساتھ ایسا ظلم نہ ہو، اس لیے جو لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں انہیں اس کی ضرور سزا ملنی چاہیے۔
لیکن آج کل تو جیسے ٹرینڈ ہی بن گیا ہے کہ کہیں کچھ بھی اونچ نیچ ہو، ایک طبقہ اس میں علماء کو ذمہ دار ٹھہرانے کی مذموم کوشش میں لگ جاتا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ شکیل رشید صاحب بھی علماء سے بدظن ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس تحریر میں انہوں نے علماء پر طعن وتشنیع کے تیر چلائے ہیں۔ ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ مولوی کیا کیا کرے؟
مولوی اذان دے
مولوی نماز پڑھائے
مدرسہ پڑھائے
اسکولیں چلائے
دین کی تبلیغ کرے
امت کے ایمان کی حفاظت کے لیے مکاتب کا جال بچھائے
نت نئے فتنوں کے سدباب کے لیے ہر وقت تیار رہے
نکاح پڑھائے
جنازہ پڑھائے
لوگوں کی شرعی مسائل میں رہنمائی کرے
دارالقضاء سے لوگوں کے مسائل حل کرے
فسادات اور دیگر حادثات کے مواقع پر بلاتفریق مذہب وملت ریلیف کا نظم کرے
اصلاح معاشرہ کی کوشش کرے
عصری اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طالبان کے لیے اسکالر شپ کا نظم کرے
وقتاً فوقتاً حکومت کی جانب سے بنائے جانے والے ظالمانہ قوانین کے خلاف آواز اٹھائے،
تحریک چلائے، دھرنا دے
بے گناہوں کے مقدمات لڑے
اجتماعی نکاح میں غریب بچیوں کے نکاح کے اخراجات کا انتظام کرے
ترغیب دے کر بغیر جہیز کے نکاح کا انعقاد کرے
سب کام مولوی ہی کرے گا تو آپ کیا کریں گے؟
آپ کس درد کی دوا ہیں؟
یا آپ کو صرف زخموں پر نمک پاشی کرنا آتا ہے؟
کیوں بلادلیل مولویوں کے خلاف لکھ کر اپنے اخبار کے ساتھ اپنا اعمال نامہ بھی سیاہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں؟
کیا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہے کہ جہیز پر علماء نے کیا کچھ نہیں کہا ہے؟ مولوی کیا کرے گا کہنے تک ہی کہا جائے گا نا؟ اسلامی حکومت تو ہے نہیں کہ مولوی خود سزا نافذ کردے۔ جہیز کے نام پر دولہن کو پریشان کرنے والوں کے خلاف ہندوستانی قانون موجود تو ہے۔ Indian Penal Code 1860
Section 304 B
یعنی شادی کے بعد سات سال کے عرصے میں شوہر یا سسرالی رشتہ داروں کے ذریعے جہیز کے مطالبے کو لے کر دلہن پر تشدد کیا جائے جس کی وجہ سے موت واقع ہوجائے تو مجرم کو کم از کم سات سال اور زائد از عمر قید کی سزا ہوگی۔ تو آپ خود کیوں نہیں حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس قانون کی گرفت کو مضبوط کیا جائے، خاطیوں کو قرارِ واقعی سزا دی جائے، آپ کے پاس تو اخبار بھی ہے اور ماشاء اللہ آپ کا قلم بھی چلتا ہے، تو پھر آپ کیوں رُکے ہوئے ہیں؟ اس نیک کام میں آپ کی مخالفت کون کرے گا؟ کون سی تنظیم آپ کی مخالفت کرے گی؟ ہر کام کے لیے علماء کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، کچھ کام آپ جیسے افراد کو بھی کرنے کی ضرورت ہے۔
محترم ! امت کا ایک طبقہ پہلے ہی علماء سے بدظن ہے، آپ علماء کی تائید وحمایت نہیں کرسکتے تو خدارا انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بھی نہ بنائیں۔
امید کرتے ہیں کہ آپ اپنی تحریر پر نظر ثانی فرمائیں گے اور آئندہ علماء کرام پر بے جا تبصروں سے باز رہیں گے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو حق کہنے، لکھنے، سننے اور قبول کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ آمین