اتوار، 7 فروری، 2021

قبر کی گہرائی اور اونچائی نیز اس پر مٹی کا تعویذ رکھنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب  امید ہے کہ آپ خیر و عافیت سے ہونگے۔ مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ
1) قبر کی گہرائی کتنی اور اونچائی کتنی ہونا چاہیئے؟
2) تدفین کے بعد قبر پر سر کی جانب سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پیر کے جانب آخری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تلاوت کرنے والے کا رُخ کس جانب ہونا چاہیے؟ بعض لوگ چہرہ قبر کی طرف اور پیٹھ قبلہ کی طرف کرتے ہیں اور بعض لوگ قبر اور قبلہ دونوں طرف کرتے ہیں، صحیح کونسا طریقہ ہے؟
3) ہمارے علاقے میں تدفین کے بعد قبر کے اوپر بیچ میں مٹی کا تعویذ رکھا جاتا ہے یہ تعویذ رکھنا کیسا ہے؟
(المستفتی : مسیب رشید خان، جنتور)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبر دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک وہ حصہ جس میں میت کو رکھا جاتا ہے، دوسرے تختوں سے اوپر والا حصہ، تختوں سے اوپر والے حصے کی گہرائی پورے قد آدم ہو، ورنہ کم از کم آدمی کے نصف قد کے برابر ہونی چاہئے، اور اندر کے حصہ کی گہرائی کم از کم اتنی ہونی چاہئے کہ اس پر تختہ رکھنے سے تختہ میت کو نہ لگے۔ قبر کی اونچائی سطح زمین سے تقریباً ایک بالشت اوپر ہو اور اونٹ کے کوہان کی طرح بنائی جائے۔ نیز مرد وعورت کی قبر میں کوئی فرق نہیں ہے۔

2) تدفین کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم میت کے سرہانے سورۂ بقرہ کی ابتدا ئی آیات المفلحون تک اور پیر کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیت آمن الرسول سے اخیر تک پڑھتے تھے، لیکن اس وقت آپ علیہ السلام کے رُخ مبارک کی صراحت کسی روایت میں نہیں ملی۔ البتہ تدفین کے بعد دعا کے وقت قبلہ رُخ ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ لہٰذا ان آیات کے پڑھتے وقت بھی قبلہ رُخ ہی رہا جائے۔

3) تحقیق سے معلوم ہوا کہ قبر پر مٹی کے تعویذ سے مراد کیچڑ سے بنا ہوا مٹی کا ایک گول سا ڈھیلا ہے، غالباً یہ قبر کو کوہان نما بنانے کے لیے قبر کے درمیان رکھا جاتا ہے، جبکہ قبر کو کوہان نما بنانے کے لیے اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اس بغیر بھی قبر کوہان نما کہلاتی ہے، لہٰذا اس فضول عمل سے احتراز کیا جائے۔ نیز اگر اس مٹی کے تعویذ کے بنانے کی اور کوئی نیت ہو اور اسے سنت اور ثواب کی نیت سے انجام دیا جارہا ہوتو پھر یہ عمل بدعت بھی کہلائے گا جس سے بچنا اور ضروری ہوگا۔

1) عن الحسن قال : أوصی عمرؓ أن یجعل عمق قبرہ قامۃوبسطۃ ۔ (مصنف ابن أبی شیبہ ، الجنائز، ماقالوا فی اعماق القبر مؤسسہ علوم القرآن بیروت ۷/۳۲۴، رقم : ۱۱۷۸۴)

(یوضع فیہا المیت) بعد أن یبنی حافتاہ باللبن أو غیرہ ثم یوضع المیت بینہما ویسقف علیہ باللبن أو الخشب ولا یمس السقف المیت۔ (حاشیۃ الطحطاوی، الصلاۃ، باب أحکام الجنائز، فصل فی حملہا ودفنہا ، دارالکتاب دیوبند،/۶۰۷)

وینبغی أن یکون مقدار عمقہ إلی صدر رجل وسط القامۃ وکل ما ازداد فہو أفضل ؛ لأن فیہ صیانۃ المیت عن الضیاع۔ (الجوہرۃ النیرۃ ، باب الجنائز دارالکتاب دیوبند۱/۱۳۱،مراقی الفلاح الصلاۃ ، باب أحکام الجنائز، /۲۲۰، ہندیہ، الباب الحادی والعشرون فی صلوٰۃ الجنائز، الفصل السادس فی القبر والدفن زکریا۱/۱۶۶، جدید۱/۲۲۷، بحوالہ فتاوی قاسمیہ)

عن أبي بکر بن عیاش عن سفیان التمّار أنہ حدثہ أنہ راٰی قبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسنمًا۔ (صحیح البخاري، الجنائز / باب ما جاء في قبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، رقم : ۱۳۷۴)

ویسنم أي یجعل ترابہ مرتفعا علیہ کسنام الجمل لما روی البخاريؒ عن سفیان النمار أنہ رآی قبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسنما۔ (شامي : ۳؍۱۴۳)

2) عطاء بن أبي رباح، يقول: سمعت ابن عمر، يقول : سمعت النبي صلى اللہ عليه وسلم يقول:إذا مات أحدكم فلا تحبسوه، وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه بفاتحة الكتاب، وعند رجليه بخاتمة البقرة في قبرہ۔ (المعجم الكبير، رقم :۱۳۶۱۳)

وفي حديث بن مسعود رأيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في قبر عبد اللہ ذي النجادين الحديث، وفيه فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه، أخرجه أبو عوانة في صحيحه۔ (فتح الباري شرح صحيح البخاري :۱۱؍۱۴۴، کتاب الدعوات، باب الدعاءمستقبل القبلۃ، بيروت)

3) عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح البخاري، الصلح / باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم : ۲۶۹۷)

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد : ۲؍۶۳۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الآخر 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں