منگل، 23 فروری، 2021

علقمہ نامی صحابی کے واقعہ کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک صحابی والدہ کی نافرمانی کی وجہ سے موت کے وقت کلمہ نہیں پڑھ پارہے تھے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
(المستفتی : مسیب رشید خان، جنتور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مکمل درج ذیل ہے :

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”علقمہ “ نامی ایک شخص جو نماز روزہ کا بہت پابند تھا  جب اس کے انتقال کا وقت قریب آیا، تو اس کے منہ سے باوجود تلقین کے کلمہ شہادت جاری نہ ہوتا تھا۔ علقمہ کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک آدمی بھیج کر اس واقعہ کی اطلاع کرائی۔ آپ نے دریافت کیا : علقمہ کےوالدین زندہ ہیں یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ صرف والدہ زندہ ہے اور وہ علقمہ سے ناراض ہے۔ آپ ﷺ نے علقمہ کی ماں کو اطلاع کرائی کہ میں تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، تم میرے پاس آتی ہو یا میں تمہارے پاس آؤں۔ علقمہ کی والدہ نے عرض کی، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتی، بلکہ خود ہی حاضر ہوتی ہوں۔ چنانچہ بڑھیا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے علقمہ کے متعلق کچھ دریافت فرمایا، تو اس نے کہا علقمہ نہایت نیک آدمی ہے، لیکن وہ اپنی بیوی کے مقابلے میں ہمیشہ میری نافرمانی کرتا ہے۔ اس لیے میں اس سے ناراض ہوں۔ آپ نے فرمایا : اگر تو اس کی خطا معاف کردے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، لیکن اس نے انکار کیا۔ تب آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ لکڑیاں جمع کرو اور علقمہ کو جلادو۔ بڑھیا یہ سن کر گھبرائی اور اس نے دریافت کیا کہ کیا میرے بچے کو آگ میں جلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اللہ کے عذاب کے مقابلے میں یہ ہمارا عذاب ہلکا ہے۔ خدا کی قسم جب تک تو اس سے ناراض ہے، نہ اس کی نماز قبول ہے نہ کوئی صدقہ قبول ہے۔ بڑھیا نے کہا : میں آپ کو اور لوگوں کو گواہ کرتی ہوں کہ میں نے علقمہ کے قصور معاف کردیا۔ آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : دیکھو، علقمہ کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہوا یا نہیں؟  لوگوں نے بیان کیا یا رسول اللہ ﷺ علقمہ کی زبان پر کلمۂ شہادت جاری ہوگیا اورکلمۂ شہادت کے ساتھ اس نے انتقال کیا۔ آپ نے علقمہ کے غسل و کفن کا حکم دیا اور خود جنازے کے ساتھ تشریف لے  گئے۔ علقمہ کو دفن کرنے کے بعد فرمایا :
مہاجرین و انصار میں سے جس شخص نے اپنی ماں کی نافرمانی کی یا اس کو تکلیف پہنچائی، تو اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت، اور سب لوگوں کی لعنت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اور جس طرح ممکن ہو اس کو راضی کرے، اس کی رضا ماں کی رضا مندی پر موقوف ہے اور خدا تعالیٰ کا غصہ اس کے غصہ میں پوشیدہ ہے۔

اس واقعہ کو طبرانی کے علاوہ چند اور محدثین نے فائد بن عبدالرحمن کی سند سے نقل کیا ہے۔
ﺟﻤﻴﻌﻬﻢ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ۔

فائد بن عبدالرحمن  اس راوی کے بارے میں محدثین کرام کے اقوال :

١)  امام احمد کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے۔
ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﻤﺪ: ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ

٢) ابن معین کہتے ہیں کہ یہ کسی قابل نہیں۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲﺀ

٣) ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے کہ یہ گیا گذرا راوی ہے، اس کی روایات نہ لکھی جائیں، ابن ابی اوفی سے اس کی نقل کردہ روایات باطل ہیں جن کی کوئی اصل نہیں۔۔۔۔ اگر اس کی روایات کے جھوٹ ہونے پر قسم کھائی جائے تو غلط نہ ہوگا۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻰ ﻳﻘﻮﻝ: ﻓﺎﺋﺪ ﺫﺍﻫﺐ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ، ﻭﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﻮﺍﻃﻴﻞ ﻻ ﺗﻜﺎﺩ ﺗﺮﻯ ﻟﻬﺎ ﺃﺻﻼ، ﻛﺄﻧﻪ ﻻ ﻳﺸﺒﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ، ﻭﻟﻮ ﺃﻥ ﺭﺟﻼ ﺣﻠﻒ ﺃﻥ ﻋﺎﻣﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻛﺬﺏ ﻟﻢ ﻳﺤﻨﺚ۔

٤) امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ:  ﻣﻨﻜﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ. ﺍﻧﻈﺮ: “ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﺘﻬﺬﻳﺐ” 8/256

٥) ابن حبان نے ان کی روایات کو ناقابل اعتماد قرار دیا۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ: ﻛﺎﻥ ﻣﻤﻦ ﻳﺮﻭﻯ ﺍﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﺸﺎﻫﻴﺮ، ﻭﻳﺄﺗﻲ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﺎﻟﻤﻌﻀﻼﺕ، ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺍﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ. [“ﺍﻟﻤﺠﺮﻭﺣﻴﻦ” ‏(2/203)]

٦) امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ ابن أبی أوفی سے من گھڑت روایات نقل کرتا ہے۔
ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﺎﻛﻢ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ: ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ۔ (ﺍﻟﻤﺪﺧﻞ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ:‏155/ بحوالہ : تنبیہ نمبر : 3)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اس واقعہ کی سند نہایت کمزور ہے، اس کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 604878)

جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتوی ہے :
یہ  واقعہ ان روایات میں سے ہے ، جنہیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہتعالیٰ نے اپنی مسند میں نقل کرنے کے بعد  اس کے ضعف کی وجہ سےحذف کر دیا تھا،   چنانچہ ان کے فرزند عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ  والد محترم نے فائد بن عبد الرحمن کی حدیثوں کو اپنی کتاب سے نکال دیا تھا، کیوں کہ وہ ان کی  حدیثوں پر  راضی نہ تھے، اور انہیں  متروک الحدیث   کہتے تھے، اور سوال میں مذکور  روایت انہی میں سے ہے۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ اس حدیث کا دار و  مدار  "فائد بن عبد الرحمٰن العطار"  پر ہے، جس پر سخت جرح کی گئی ہے، "واضع" کا اطلاق تو صراحتًا کسی نے نہیں کیا، تاہم "متہم بالکذب" اور "متروک" ضرور کہا گیا ہے،  نیز  ایک اور راوی "داؤد بن ابراہیم" کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے "کذاب" لکھا ہے، لہٰذا  اس روایت کو بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ (رقم الفتوی : 144211200210)

درج بالا تحقیقات یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سوال نامہ میں مذکور واقعہ سند کے اعتبار انتہائی کمزور اور ناقابلِ اعتبار ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم قرآن و حدیث میں متعدد جگہوں پر آیا ہے۔ ان کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو اللہ کی ناراضگی کہا گیا ہے۔ نیز والدین کی نافرمانی پر آخرت میں تو گرفت ہوگی ہی، اسی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اس کا وبال دیکھنے کو ملے گا۔ لیکن اس کی قباحت کو بیان کرنے کے لیے اس طرح کے غیرمعتبر واقعات کا سہارا لینے اور انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»". (مشکاۃ المصابیح : 2/421 ،باب البر والصلۃ، قدیمی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 رجب المرجب 1442

8 تبصرے:

  1. Mufti shab mera sawal ye hai k maine apne work shop ki nigrani k liye kutte paale hai kyu k ilaqa kaccha hai raat me chori ka darr hai isliye ? Kya ye jaiz hoga .
    Kutte ki raal girne se rahemat k farishte nahi aate ?

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. 9270121798 اس واٹس اپ نمبر پر رابطہ کریں ۔

      ہمارا اس پر جواب لکھا ہوا ہے

      حذف کریں
  2. اَلْسَّـــــــلَاٰمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُاللّهِ وَبَرَكـَـاتُهُ!
    ماشاءاللہ بہترین تحقیق کی ہے حضرت آپ نے تو۔

    میں خود آج تک اسے صحیح حدیث سمجھتا رہا ہوں۔
    اللہ پاک آپکو اسکا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
    آمین۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. جزاکم اللہ خیرا۔۔۔شکرا جزیلا

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشاء اللہ اللھم زد فزد

    جواب دیںحذف کریں