منگل، 9 فروری، 2021

حادثاتی موت میں ملنے والی سرکاری امداد کا حکم

سوال :

آسمانی بجلی گرنے سے ایک غیر شادی شدہ لڑکے کی وفات ہوگئی اور حادثاتی موت ہونے کی وجہ سے حکومت کی جانب سے کچھ رقم ملی ہے، مرحوم کی والدہ اس رقم کو استعمال کرنا پسند نہیں کررہی ہیں، بلکہ اسے ثواب جاریہ کی نیت سے مسجد و مدرسہ میں دینا چاہ رہی ہے، مرحوم کے والد بھی اس پر راضی ہیں تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟ اور کیا اس رقم کوبھی میراث کی طرح تقسیم کرنا ہوگا؟ میت کے رشتہ داروں میں والدین، چار بھائی اور بہنیں ہیں۔ امداد ملنے والی رقم چار لاکھ روپے ہے۔
(المستفتی : سید عالم، بہار)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حادثاتی موت پر حکومت کی طرف سے ملنے والا معاوضہ دیت کے حکم میں ہے، جس کا لینا شرعاً جائز اور درست ہے اور اس معاوضہ میں تمام ورثاء کا حق ہوگا، خواہ حکومت نے مخصوص وارثین کے لیے نامزد تعاون کا اعلان کیا ہو یا نامزد تعاون کا اعلان نہ کیا ہو۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد کا لینا جائز ہے۔ اور چونکہ یہ رقم مرحوم کا ترکہ بنے گی، لہٰذا اسے تمام وارثین میں تقسیم کرنا ضروری ہے ایک دو وارثین کے کہنے پر اس پوری رقم کو مسجد ومدرسہ میں دینا جائز نہیں۔ البتہ مسئولہ صورت میں وارثین میں والد والدہ دونوں ہیں، تو والدہ کو کُل مال (چار لاکھ) کا چھٹا حصہ یعنی 66666.7 روپے ملیں گے، میت کا چونکہ نکاح نہیں ہوا تھا، لہٰذا میت کے والد عصبہ بنیں گے اور بقیہ مال یعنی 333333.3 والد کو ملے گا۔ والد کی موجودگی میں میت کے بھائی بہن محروم ہوں گے۔ لہٰذا والدین برضا ورغبت اپنے حصے کا مال کسی بھی جائز اور نیک کاموں میں خرچ کرسکتے ہیں، شرعاً ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ طاوُسٍ قالَ: فِي الكِتابِ الَّذِي عِنْدَ أبِي وهُوَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي شِبْهِ العَمْدِ مِثْلَ حَدِيثِ مَعْمَرٍ وقالَ لِي: فِي ذَلِكَ الكِتابِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ إذا اصْطَلَحُوا فِي العَمْدِ فَهُوَ عَلى ما اصْطَلَحُوا عَلَيْهِ۔  (مصنف عبد الرزاق، رقم : ۱۷۲۱۶)

عن طاؤس و کان عندہ کتاب من النبی قال فی ذٰلک الکتاب عن النبی ﷺ إذا اصطلحوا فی العمد فہو علی ما اصطلحو علیہ فہذا صریح فی أن المال یحتاج إلی اصطلاح۔ (تکملہ فتح الملہم، باب صحۃ الإقرار بالقتل، اشرفیہ دیوبند ۲/۳۷۱)

إذا اصطلح القاتل و أولیاء القتیل علی مال سقط القصاص ووجب المال قلیلا کان أو کثیرا - إلی قولہ- و أصل ہذا أن القصاص حق جمیع الورثۃ وکذا الدیۃ۔ (ہدایہ، الجنایات، باب القصاص فیما دون النفس، اشرفی، ۴/۵۷۱- ۵۷۲)

عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ المُزَنِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قالَ: لا يُتْرَكُ مُفَرَّجٌ فِي الإسْلامِ حَتّى يُضَمَّ إلى قَبِيلَةٍ. قالَ ابْنُ الأثِيرِ فِي النِّهايَةِ: ولا يُتْرَكُ مُفَرَّجٌ فِي الإسْلامِ. قِيلَ: هُوَ القَتِيلُ يُوجَدُ بِأرْضٍ فَلاةٍ لا يَكُونُ قَرِيبًا مِن قَرْيَةٍ؛ فَإنَّهُ يُودى مِن بَيْتِ المالِ، ولا يُطَلُّ دَمُهُ، ويُرْوى بِالحاءِ المُهْمَلَةِ۔ (مجمع الزوائد، رقم : ١٠٧٥٠)

حَدَّثَنا أبُو بَكْرٍ قالَ: حَدَّثَنا أبُو خالِدٍ، عَنْ أشْعَثَ، عَنِ الحَكَمِ، عَنْ عَلِيٍّ فِي الفارِسَيْنِ يَصْطَدِمانِ، قالَ :  يَضْمَنُ الحَيُّ دِيَةَ المَيِّتِ۔ (المصنف لإبن أبی شیبۃ، رقم : ۲۸۲۰۷)

قال اللّٰہ تعالیٰ : فَاِنْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ وَلَدٌ وَرَوِثَہٗ اَبَوَاہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ، فَاِنْ کَانَ لَہٗ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ۔ ( سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)

إذ یفہم منہ أن الباقي للأب فیکون عصبۃً۔ (الشریفیۃ علی السراجي : ۵۷، مکتبۃ الباز مکۃ المکرمۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 جمادی الآخر 1442

4 تبصرے:

  1. Assalamu alykum mufti sahab ummid h k aap khaeriyat se hoge masala ye h ke ek ladke ne apni waaleda ko shahwat se chhu liya or us ladke ki shaadi nhi hue h to k uske waaled ka nikaha baki rahega ya nhi or uko pakka yakin nhi h k usne apni waaleda ko chuwa h yani tach kiya h tafsil farmaae

    جواب دیںحذف کریں
  2. Agar mayyat par qarz ho to sarkari imdad se ada kar sakte hai kya

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جی۔

      چونکہ یہ مرحوم کا ترکہ ہے، اس لیے مرحوم پر اگر قرض ہوتو پہلے قرض ہی ادا کیا جائے گا، اس کے بعد جو بچے گا وہ وارثین میں تقسیم ہوگا۔

      حذف کریں