جمعرات، 31 مارچ، 2022

تقویم میں لکھے ہوئے غروب آفتاب کے فوراً بعد افطار کرنا

سوال

ہمارے گھر کے قریب ایک مسجد میں افطار کے وقت اذان غروب آفتاب کے فوراً بعد ہونے لگتی ہے اور احناف کی مساجد میں تھوڑا تاخیر سے اذان ہوتی ہے۔ کیا اس مسجد کی اذان سے افطار کرسکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیث مبارکہ میں افطار میں جلدی کرنے کا حکم وارد ہوا ہے اور جلدی سے مراد یہ ہے کہ غروب آفتاب کا یقینی علم ہوجائے تو پھر بلاعذر افطار میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن غروب آفتاب کا بالکل صحیح وقت معلوم کرنا مشکل ہے، تقویم میں بھی غلطی کا امکان ہے، اور گھڑیوں کے وقت میں بھی فرق ہوتا ہے، اس لیے تقویم میں جو غروب آفتاب کا وقت لکھا ہوتا ہے اس کے احتیاطاً پانچ منٹ بعد افطار کرنا چاہیے۔ تاہم اگر کوئی تقویم میں لکھے ہوئے غروب آفتاب کے فوراً بعد افطار کرلے تو اس کا روزہ تو ہوجائے گا، لیکن یہ عمل احتیاط کے خلاف ہے جس سے بچنا چاہیے۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١٩٥٧)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِنَّ أَحَبَّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا۔ (سنن الترمذی، رقم : ٧٠٠)

وَيُسْتَحَبُّ تَعْجِيلُ الْفِطْرِلِحَدِيثِ «ثَلَاثٌ مِنْ أَخْلَاقِ الْمُرْسَلِينَ: تَعْجِيلُ الْإِفْطَارِ، وَتَأْخِيرُ السَّحُورِ، وَالسِّوَاكُ» (قَوْلُهُ: وَتَعْجِيلُ الْفِطْرِ) وَلَا يُفْطِرُ مَا لَمْ يَغْلِبْ عَلَى ظَنِّهِ غُرُوبُ الشَّمْسِ وَإِنْ أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ۔ (شامی : ٢/٤١٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 شعبان المعظم 1443

بدھ، 30 مارچ، 2022

تراویح نہ پڑھنے والے کا ختم قرآن کے موقع پر شیرینی تقسیم کرنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین ان مسائل میں کہ...
1) کیا تراویح کی نماز میں ختم قرآن کے موقع پر شیرینی، مٹھائی وغیرہ تقسیم کرنا ضروری ہے؟
2) تراویح کی نماز کی اہمیت، حکم کیا ہے؟
3) تراویح کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنے والے کا کیا حکم ہے؟
4) ایک دوکان مالک جو اچھا خاصا مالدار ہے، نہ صرف خود تراویح نہیں پڑھتا بلکہ اپنے ماتحت کام کرنے والے ملازمین کو بھی تراویح کیلئے جانے نہیں دیتا اور یہ کہتا ہے کہ "تراویح کے وقت دوکان پر حاضر رہنا ہے، گاہکوں کو سنبھالنا ہے، دو تین بجے رات کو اپنی اپنی تراویح پڑھ لیا کرو یا اخیر عشرہ میں کہیں تین یا پانچ دن والی پڑھ لیا کرو" اور یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے، جبکہ اس کے آس پاس کی دوکانیں بند ہوتی ہیں تراویح کے بعد کھلتی ہیں۔ ایسا شخص اگر کسی مسجد میں تراویح میں ختمِ قرآن کے موقع پر اپنے پیسے سے مٹھائی تقسیم کرنے کے لئے بھیجے تو کیا اسے بلا چوں چرا قبول کر لینا چاہئے؟ (بہت سے مصلیان کہتے ہیں کہ پہلے اسے تراویح کی نماز کا پابند بناؤ اور ملازمین سے متعلق اس کا رویہ تبدیل کرواؤ، تب کہیں اس کی مٹھائی کھانا مناسب ہوگا۔ ورنہ نہیں۔
(المستفتی : قاری توصیف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر شیرینی تقسیم کرنا بشرطیکہ مسجد کی جمع شدہ رقم سے نہ ہو اور نہ ہی اسے تقسیم کرتے وقت مسجد کا تقدس پامال ہوتو یہ صرف ایک جائز عمل ہے۔ ضروری یعنی فرض یا واجب بالکل نہیں ہے۔

٢-٣) نماز تراویح سنت مؤکدہ ہے جسے بغیر کسی عذر شرعی کے ترک کرنا ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔

٤) تراویح میں مکمل قرآن مجید سننا اور پورے مہینے تراویح پڑھنا دونوں الگ الگ سنتیں ہیں، لہٰذا چند دن میں ایک جگہ مکمل قرآن مجید سن کر بقیہ دن تراویح نہ پڑھنا یا تراویح کی جماعت ترک کرکے انفرادی طور پر تراویح پڑھ لینا جس میں مکمل قرآن مجید پڑھنا نہ ہوتا ہوتو یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ خود تراویح نہ پڑھتے ہوئے اور بے غیرتی کے ساتھ ملازمین کو بھی تراویح کے لیے جانے کی اجازت نہ دینا گناہ در گناہ ہے جس سے مالک کو بچنا چاہیے۔ اور جو شخص خود تراویح نہ پڑھے تو اسے تراویح میں ختم قرآن کی کیسے خوشی ہوگی؟ ایسے شخص کا ختم قرآن کے موقع پر اپنے پیسے سے شیرینی تقسیم کرنا تو ریاکاری معلوم ہوتی ہے۔ نیز مصلیان کا اعتراض بھی بجا ہے، لہٰذا غیرت کا تقاضہ یہی ہے کہ جب تک یہ شخص پابندی سے باجماعت تراويح ادا نہیں کرتا اسے شیرینی کا خرچ اٹھانے کی ذمہ داری نہ دی جائے۔

التراویح سنۃ مؤکدۃ للرجال والنساء۔ (قاضی خاں : ۱؍۲۳۲)

السُّنَّةُ فِي التَّرَاوِيحِ إنَّمَا هُوَ الْخَتْمُ مَرَّةً ... وَالْخَتْمُ مَرَّتَيْنِ فَضِيلَةٌ وَالْخَتْمُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَفْضَلُ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١١٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 شعبان المعظم 1443

منگل، 29 مارچ، 2022

رمضان المبارک میں دن میں ہوٹلیں کھلی رکھنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے جو شخص رمضان میں دن میں کھانے پینےکی دوکان چلائے تو اس کا عمل کیسا ہے؟ اور اس کی کمائی جائز ہے یا نہیں؟ شریعت کی رو سے جواب مرحمت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ اعجاز، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : رمضان المبارک میں روزہ کے اوقات میں کھانے پینے کی دوکانیں اور ہوٹلیں کھلی رکھنا رمضان المبارک کے تقدس اور ادب کے خلاف ہے، اس سے روزہ خوروں کی حوصلہ افزائی اور ان کی مدد ہوتی ہے جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
افطار سے پہلے یا رات میں ہوٹل چلاسکتے ہیں، دن میں ہوٹل چلانے سے اگر روزہ دار آکر کھاتے ہوں تو یہ تعاون علی الاثم میں داخل ہوکر ممنوع ہوگا، قال تعالی : ﴿وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان﴾ اگر روزہ دار نہ کھاتے ہوں بلکہ مسافرین یا غیرمسلم کھاتے ہوں تو بھی اولیٰ یہی ہے کہ ماہ مبارک کا احترام کرتے ہوئے دن میں بھی بند کردیں۔ (رقم الفتوی : 30185)

لہٰذا تعاون علی المعصیت جیسے اس عمل سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر حرام کا حکم نہیں ہے، لیکن بے غیرتی سے کمائی ہوئی ایسی آمدنی بابرکت بھی نہیں ہوسکتی۔

قال اللہ تعالیٰ : وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلیَ الاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (سورۃ المائدہ، آیت :٢)

وقال تعالیٰ : ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ۔ (سورۃ الحج، آیت : ۳۲)

وَلَوْ أَكَلَ عَمْدًا شُهْرَةً بِلَا عُذْرٍ يُقْتَلُ، وَتَمَامُهُ فِي شَرْحِ الْوَهْبَانِيَّةِ۔ (شامی : ٢/٤١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 شعبان المعظم 1443

جماعت میں جانے کی وجہ سے تراویح میں قرآن چھوٹ جائے تو؟

سوال :

رمضان المبارک میں تین دن کی جماعت میں جانے کا تقاضا رہتا ہے۔ عوام کی بھی تشکیلیں ہوتی ہیں۔ نمازِ تراویح میں مکمل قرآن سننے کا مسئلہ ہوتا ہے۔ کیا تین دن کی جماعت میں جانے پر قرآن کا کچھ حصہ سننے سے رہ جائے تو اسے الگ سے پڑھ کر بھرپائی کی جاسکتی ہے؟ یا تین دن جماعت میں نہ جاتے ہوئے مکمل قرآن سننے کو ترجیح دیں؟
(المستفتی : ندیم اختر، دھولیہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تبلیغ اور تراويح میں مکمل قرآن مجید سننا دونوں کی اہمیت ہے۔ لہٰذا جماعت میں جانا ہو تو مکمل قرآن مجید تراویح میں سننا ہوجائے اس کی ترتیب بنا لینا چاہیے۔

اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :
جماعت میں آپ جائیں، جانا ترک نہ کریں، البتہ اگر کوئی حافظ آپ کو مل جائے جو ختم قرآن کے بعد آپ کے چھوٹے ہوئے پاروں کو تراويح میں سنادے تو آپ اس طرح بھی کرسکتے ہیں، اس کی صورت یہ ہو کہ آپ دونوں عشاء کی نماز باجماعت پڑھ کر کسی جگہ یا اپنے گھر چلے جائیں اور وہ حافظ صاحب آپ کو وہاں تراویح میں چھوٹے ہوئے قرآن کو سنادیں، اس طرح آپ کا قرآن مکمل ہوجائے گا اور اگر یہ شکل ہوسکے کہ جماعت میں کسی قریب جگہ جائیں اور عشاء کی نماز اور تراویح اپنی مسجد میں آکر ادا کریں تو ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 15868)

سہ روزہ جماعت میں جانے کی وجہ سے عموماً کوئی دقت نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ عموماً مساجد میں شروعات میں سوا یا دیڑھ پاروں کی ترتیب ہوتی ہے، لہٰذا اپنی ترتیب کے مطابق مسجد معلوم کرکے وہاں تراويح ادا کرلی جائے۔ لیکن اگر خدانخواستہ کہیں سے کچھ چھوٹ جائے تو بعد میں کسی حافظ سے درخواست کرکے تراویح میں اتنا قرآن سن لیا جائے تو قرآن مجید مکمل ہوجائے گا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً۔ (صحیح البخاري، رقم : ۳۴۶۱)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۶)

التراویح سنۃ مؤکدۃ للرجال والنساء۔ (قاضی خاں : ۱؍۲۳۲)

السُّنَّةُ فِي التَّرَاوِيحِ إنَّمَا هُوَ الْخَتْمُ مَرَّةً ... وَالْخَتْمُ مَرَّتَيْنِ فَضِيلَةٌ وَالْخَتْمُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَفْضَلُ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١١٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 شعبان المعظم 1443

پیر، 28 مارچ، 2022

عورت کا بغیر محرم کے حج وعمرہ کرنا

سوال :

کیا عورت بغیر محرم کے فرض حج اور نفل عمرہ کرسکتی ہے؟ سعودی عرب نے حج اور عمرہ کے لیے عورتوں پر سے محرم کی پابندی ہٹا دی ہے۔ اگر عورت بغیر محرم کے سفر حج کرتی ہے تو کیا اس کا (فرض ادا ہو جائے) یا عمرہ کرتی ہے تو اس کا گناہ کسے ملے گا؟ حدیث کے حوالہ سے جواب مرحمت فرمائیں۔
(المستفتی : عقیل احمد ملی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کسی عورت کے لئے جو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ تین راتوں کی مسافت سفر کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ چنانچہ بغیر محرم کے بالغ عورت  کے لیے تین دن (جس کی مسافت شرعی میل کے اعتبار سے ۴۸؍ میل ہے، اور موجودہ زمانہ میں کلومیٹر کے حساب سے ۸۷؍ کلو میٹر ۷٨۲؍ میٹر ۴۰؍ سینٹی میٹر ہوتی ہے) یا اس سے زیادہ مسافت کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ سفر کسی دینی غرض (حج یا عمرہ) سے کیا جائے یا سیر وتفریح  کے لئے۔ بلکہ بغیر محرم کے عورت پر باوجود استطاعت کے حج بھی فرض نہیں ہوتا۔

سعودی حکومت کے اجازت دینے اور نہ دینے سے شریعت کے حکم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ شریعت کا حکم اپنی آب وتاب کے ساتھ بدستور باقی رہے گا۔ لہٰذا اگر کوئی عورت بغیر محرم کے حج یا عمرہ کرلے تو اس کا حج یا عمرہ تو ادا ہوجائے گا، لیکن وہ سخت گناہ گار ہوگی۔ اگر اس کے محرم ذمہ دار موجود ہوں اور وہ اسے منع نہ کریں تو وہ بھی گناہ گار ہوں گے اور ان کے منع کرنے کے باوجود اگر وہ چلی جائے تو صرف وہی گناہ گار ہوگی۔ رشتہ داروں پر اس کا کوئی وبال نہیں ہوگا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ أَنْ تُسَافِرَ ثَلَاثًا إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٣٣٩)

والمحرم في حق المرأۃ شرط، شابۃ کانت أو عجوزا۔ والمحرم الزوج ومن لا یجوز مناکحتہا علی التأبید برضاع، أو صہریۃ۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الحج، الفصل الأول في شرائط الوجوب زکریا ۳/ ۴۷۴-۴۷۵)

(وَأَمَّا) الَّذِي يَخُصُّ النِّسَاءَ فَشَرْطَانِ: أَحَدُهُمَا أَنْ يَكُونَ مَعَهَا زَوْجُهَا أَوْ مَحْرَمٌ لَهَا فَإِنْ لَمْ يُوجَدْ أَحَدُهُمَا لَايَجِبُ عَلَيْهَا الْحَجُّ۔ (بدائع الصنائع : ٣/ ١٢٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شعبان المعظم 1443

جمعہ، 25 مارچ، 2022

ای شرم (مزدور کارڈ) کا شرعی حکم

سوال :

ای شرم (مزدور کارڈ) بنانا کیسا ہے؟ یہ کارڈ حکومت ہند کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔ جس میں ہر طبقہ کے مزدور، دکان، ہوٹل اور چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے شامل ہیں۔ ای شرم کارڈ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا طبقہ کے لوگ یہ کارڈ بنواتے ہیں تو حکومت کی نظر میں ان کی مزدور ہونے کی پہچان بنے گی۔ اور اس کارڈ کو بناتے وقت مزدور کا بینک اکاؤنٹ نمبر مانگا جاتا ہے کہ مستقبل میں حکومت کی طرف ملنے والی امداد، رقم کی شکل میں اکاؤنٹ میں بھیج دی جائے۔ اس کا رجسٹریشن فری ہے۔ سالانہ کوئی رقم جمع نہیں کرنا پڑتی ہے۔ صرف آن لائن سروس والے ای شرم کارڈ Apply کرنے اور پرنٹ کرنے کا 50 سے 70 روپیہ کا چارج لیتے ہیں۔
(المستفتی : محمد اسلم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جو معلومات مذکور ہیں اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو ای شرم (مزدور کارڈ) بنوانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس میں سود یا جوئے جیسا کوئی ناجائز معاملہ شامل نہیں ہے۔ اگر مستقبل میں ان مزدوروں کو حکومت کی جانب سے کوئی امداد آئے گی تو وہ حکومت کی طرف سے تبرع اور ہدیہ ہوگا جس کا قبول کرنا اور استعمال کرنا ان کے لیے شرعاً جائز اور درست ہوگا۔

قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَخْذِ الْجَائِزَةِ مِنْ السُّلْطَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ يُعْطِيهِ مِنْ حَرَامٍ قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ نَأْخُذُ مَا لَمْ نَعْرِفْ شَيْئًا حَرَامًا بِعَيْنِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَأَصْحَابِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 شعبان المعظم 1443

جمعرات، 24 مارچ، 2022

قضیہ بینک الیکشن لڑنے اور ووٹ دینے کا

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں میں ایک بینک کے الیکشن کو لے کر ماحول گرم ہے۔ سیاسی افراد کے ساتھ ساتھ عوام اور بظاہر دیندار نظر آنے والے افراد بھی اس کے الیکشن میں حصہ لینے، ووٹ دینے، دلانے اور امیدواروں کی حمایت میں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے بنے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

اس سلسلے میں ہمارے پاس کئی سوالات آئے ہوئے تھے جس کا ہم نے پہلے مختصر جواب لکھ کر چھوڑ دیا تھا، لیکن دن بدن عوام الناس کی اس الیکشن میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور سود جیسے سنگین گناہ کو ہلکا سمجھا جارہا تھا جس کے پیشِ نظر اس کا مدلل جواب لکھنا پڑا تاکہ اس کی شرعی حیثیت واضح ہوجائے اور ماننے والوں کو راہ عمل مل جائے۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ سودی نظام والے بینک کے الیکشن میں حصہ لینا ووٹ دینا اور کسی امیدوار کی حمایت کرنا سب ناجائز اور گناہ ہے۔ اس لیے کہ یہ سودی نظام کو تقویت پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور فتوی بھی حاصل کیا گیا ہے جس میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ ہمارے پینل کا یہ عزم ہے کہ ہم اس بینک کو سود سے پاک نظام کے تحت چلائیں گے۔ جس کی بنیاد پر مفتی صاحب نے بھی جواب عنایت فرمایا کہ اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو پھر اس عزم کے ساتھ بینک کے الیکشن میں حصہ لینا، ووٹ مانگنا اور ووٹ دینا سب جائز ہے، جو سوال کے مطابق اور بالکل درست ہے۔ لیکن اگر اس دعوی کا جائزہ لیا جائے اور ماہرین سے اس سلسلے میں معلومات لی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ریزو بینک آف انڈیا ایسے کسی بینک کو اجازت ہی نہیں دیتی ہے جس میں سود سے پاک نظام ہو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً عوام اور شیئر ہولڈرس کو دھوکہ دینے کے لیے یہ فتوی حاصل کیا گیا ہے۔ لہٰذا اب بھی حکم وہی ہے جو ہمارے جواب میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی شریعت مطہرہ کا واضح اور مسلّم اصول یہی ہے کہ ایسے بینک جس میں سودی نظام قائم ہو اس کا شیئر خریدنا اور اس میں حصہ داری لینا جائز ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سودی نظام کو تقویت پہنچانا ہے۔ لہٰذا جب شیئر خریدنا جائز ہی نہیں ہے تو پھر اس کے عہدوں کے لیے ہونے والے الیکشن میں امیدواری کرنا اور ان امیدواروں کو ووٹ دینا سب ناجائز اور گناہ ہے۔

عوام الناس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بینک کے الیکشن سے آپ کا کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے، اس میں صرف چند لوگوں کا فائدہ ہے، جبکہ بینک اور اس کے الیکشن کو ایسا مفید بتایا جارہا ہے جیسے اسی سود کی کمائی سے مالیگاؤں کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہمیں بتائیں کہ سود کا ناجائز اور حرام پیسہ مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کا ضامن کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر آپ واقعی شہریان کے حق میں خیر خواہ ہیں اور آپ غیر سودی نظام کے تحت کچھ کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو شروع سے ایک الگ سسٹم کے تحت کام کرنا پڑے گا۔ پہلے سے بنے ہوئے سودی نظام میں داخل ہوکر اسے سود سے پاک کرنے کی بات کرنا خام خیالی اور ایک ناممکن سا عمل ہے۔ اگر آپ اس سلسلے میں سنجیدہ ہیں تو ہم آپ کو ایسے مخلص قانونی اور شرعی ماہرین کی طرف رہنمائی کریں گے جو آپ کی ان شاءاللہ اس سلسلے میں مکمل رہنمائی کریں گے۔

ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ہمارے جواب اور اس مضمون سے بہت سوں کے چہرے اتر جائیں گے اور بعض تو ہمارے دشمن تک بن جائیں گے، لیکن بات شریعت اور اسکے واضح اصولوں کی ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں کسی بھی قسم بے جا تاویل اور مداہنت ہم سے نہیں ہوسکے گی خواہ کچھ بھی ہو جائے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کی سود جیسی لعنت میں پڑنے یا اس کے نظام کو تقویت پہنچانے جیسے اعمال سے حفاظت فرمائے۔ اور ہم سب شریعتِ مطہرہ کے ہر حکم کے آگے سر خم تسلیم کرنے کی خُو عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

بدھ، 23 مارچ، 2022

افطار اور مغرب کی جماعت کے درمیان وقفہ

سوال :

میرا سوال مسجد کے ذمہ دار کی حیثیت سے ہے۔ ہمارے علاقے کی مسجد کافی وسیع ہونے کی وجہ سے دوسرے علاقے کی عوام موٹر سائیکل سوار بھی آتے ہیں، کیونکہ parkiing کی بھی جگہ کافی ہے، مسجد میں چاند نظر آنے کے بعد پہلی تراویح کے بعد علان کر تے ہیں کہ روزہ افطار کرنے کے وقت سے دس منٹ بعد مغرب کی اذان و جماعت ہوگی۔ تحقیق طلب امر یہ ہے کہ افطار کے وقت سے مغرب کی اذان اور کتنی تاخیر سے کر سکتے ہیں؟ آپ کے جواب کو ہندی اور مراٹھی میں گوگل translate  کرکے دیگر گروپ میں بھیجنا ہے۔
(المستفتی : عابد حسین، دھولیہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مغرب کی نماز میں تعجیل مستحب ہے، تعجیل یہ ہے کہ مؤذن اذان دے کر اقامت کی جگہ تک اطمینان کے ساتھ پہنچ جائے۔ اذان کے بعد جماعت کھڑی کرنے میں دو رکعت نماز مختصر سورتوں سے ادا کرنے سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ مطلب عام دنوں میں مغرب کی اذان واقامت کے درمیان تین منٹ سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ اور  بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں  مکروہِ تحریمی ہے۔ البتہ رمضان المبارک میں روزہ داروں اور نمازیوں کی سہولت کی خاطر دس منٹ تک وقفہ کی گنجائش ہے، اس سے زیادہ تاخیر کرنا درست نہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
افطار کا اعلان کرکے اذان دس منٹ بعد کہنا یا اذان کہہ کر جماعت دس منٹ بعد کرنا دونوں طریقے درست ہیں، ہمارے یہاں دیوبند میں وقت افطار کی اطلاع کے لیے سائرن بجتا ہے اور اذان دس منٹ بعد کہی جاتی ہے اور اذان کے فوراً بعد جماعت کھڑی ہوجاتی ہے۔ (رقم الفتوی : 60659)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں رمضان المبارک کے ایام میں جبکہ آپ کے علاقے کی مسجد میں دور سے بھی مصلیان آتے ہیں تو ان کی رعایت میں افطار کے دس منٹ بعد مغرب کی جماعت کرنے کی گنجائش ہے۔ لیکن اس سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے۔

حَدَّثَنَا  عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُوأَيُّوبَ غَازِيًا، وَعُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ يَوْمَئِذٍ عَلَى مِصْرَ، فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو أَيُّوبَ ، فَقَالَ لَهُ : مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ يَا عُقْبَةُ ؟ فَقَالَ : شُغِلْنَا. قَالَ : أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ - أَوْ قَالَ : عَلَى الْفِطْرَةِ - مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤١٨)

(قَوْلُهُ: وَالْمَغْرِبُ) أَيْ وَنُدِبَ تَعْجِيلُهَا لِحَدِيثِ الصَّحِيحَيْنِ «كَانَ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ إذَا غَرُبَتْ الشَّمْسُ وَتَوَارَتْ بِالْحِجَابِ» وَيُكْرَهُ تَأْخِيرُهَا إلَى اشْتِبَاكِ النُّجُومِ لِرِوَايَةِ أَحْمَدَ «لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ حَتَّى تَشْتَبِكَ النُّجُومُ» ذَكَرَهُ الشَّارِحُ وَفِيهِ بَحْثٌ إذْ مُقْتَضَاهُ النَّدْبُ لَا الْكَرَاهَةُ لِجَوَازِ الْإِبَاحَةِ وَفِي الْمُبْتَغَى بِالْمُعْجَمَةِ وَيُكْرَهُ تَأْخِيرُ الْمَغْرِبِ فِي رِوَايَةٍ وَفِي أُخْرَى لَا مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ الْأَصَحُّ هُوَ الْأَوَّلُ إلَّا مِنْ عُذْرٍ كَالسَّفَرِ وَنَحْوِهِ أَوْ يَكُونُ قَلِيلًا وَفِي الْكَرَاهَةِ بِتَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ خِلَافٌ۔ (البحر الرائق : ١/٢١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 شعبان المعظم 1443