پیر، 7 مارچ، 2022

فجر کی سنت اور فرض کے درمیان لیٹنا

سوال :

فجر کی جماعت سے پہلے لیٹنے کی سنت کے متعلق مسجد کے ایک مصلی تین دن جماعت میں وقت لگا کر آنے کے بعد بہت اہتمام سے اس پر عمل کررہے ہیں۔ کیا یہ سنت متروک ہوگئی ہے یا اس پر عمل کر سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ سلیم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فجر کی نماز میں فرض سے پہلے اور  سنتوں کے بعد لیٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت تو ہے۔ لیکن شارحین حدیث نے اس کی توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات میں طویل قیام فرماتے تھے اور تہجد میں مشغول رہتے حتیٰ کہ روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا، اس بناء پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کچھ دیر کے لئے لیٹ جاتے تھے اور یہ عمل بھی ہمیشہ نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کے خلاف بھی عمل فرمایا کرتے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فجر کی سنتوں کے بعد  یا فجر کی سنتوں سے پہلے آرام فرمانے سے متعلق دونوں قسم کی روایت ہیں، قاضی عیاض اور دیگر شراح نے فجر کی سنتوں سے پہلے آرام فرماکر پھر سنتیں پڑھنے والی روایت کو راجح قراردیا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر یہ مصلی اس سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل تو طویل قیام کی وجہ سے تھا اگر یہ ساتھی بھی رات کا ایک بڑا حصہ نوافل میں گزارتے ہیں اور طویل قیام کرتے ہیں تو یہ بھی اتباعِ سنت کی نیت سے ایسا کرلیں تو ثواب کی امید  ہے۔ لیکن فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو لازم سمجھنا، یا رات بھر سوتے رہنا اور فجر کی سنت کے بعد دوبارہ سوجانا، یا گھر میں سنتیں پڑھ لینا اور پھر مسجد میں آکر سوجانا یہ تو ایسا ہی ہوگیا کہ لیٹنا سہولت کی وجہ سے لے لیا اور جس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم استراحت فرماتے تھے اسے نہ لینا تو یہ سنت نہیں بلکہ زیادتی ہے۔

عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ لَيْلَةً عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ خَالَتُهُ، فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ، أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى أَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١٨٣)

ومن الأجوبة التي ذكروها أن أحاديث عائشة في بعضها الاضطجاع قبل ركعتي الفجر، وفي بعضها بعد ركعتي الفجر، وفي حديث ابن عباس قبل ركعتي الفجر، وقد أشار القاضي عياض إلى أنّ رواية الاضطجاع بعدهما مرجوحة، فتقدم رواية الاضطجاع قبلهما, ولم يقل أحد في الاضطجاع قبلهما أنه سنَّة فكذا بعدهما، انتهى ملخصًا (1).
قلت: وللشوكاني فيها كلام طويل، تركته للاختصار، وكذا بسطه العيني في شرحه على البخاري (2)، أما عند الحنفية فقال الشامي في حاشيته على "الدر المختار" (3): صرح الشافعية بسنية الفصل بين سنَّة الفجر وفرضه بهذه الضجعة أخذًا بهذ الحديث ونحوه، وظاهر كلام علمائنا خلافه حيث لم يذكروها، بل رأيت في "موطأ الإِمام محمد" (4) - رحمه الله - ما نصه: أخبرنا مالك عن نافع عن عبد الله بن عمر: "أنه رأى رجلًا يركع ركعتي الفجر، ثم اضطجع، فقال ابن عمر: ما شأنه؟ فقال نافع: قلت: يفصل بين صلاته، فقال ابن عمر: وأي فصل أفضل من السلام، قال محمد : وبقول ابن عمر نأخذ، وهو قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى-، ثم قال في آخر البحث : وحاصله أن اضطجاعه عليه الصلاة والسلام إنما كان في بيته للاستراحة لا للتشريع، وإن صح حديث الأمر بها الدال على أنها للتشريع يحمل على طلب ذلك في البيت فقط۔ (بذل المجہود : ٥/٤٦٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 شعبان المعظم 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں