اتوار، 13 مارچ، 2022

عورت کے نکاح پڑھانے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! کیا کوئی عورت نکاح پڑھا سکتی ہے؟ اگر نہیں تو اس کا پڑھایا ہوا نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : جمیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح خواں کی حیثیت صرف ایک ترجمان اور سفیر کی ہوتی ہے، لہٰذا جو بھی ایجاب کے الفاظ ادا کرنے پر قادر ہو اور دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ہوجائے تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے، خواہ نکاح خواں یعنی لڑکی یا لڑکے کی طرف سے ایجاب کے الفاظ ادا کرنے والا مسلمان ہو یا کافر، مرد ہو یا عورت۔

البتہ نکاح سے پہلے خطبہ نکاح کا پڑھنا مسنون ومستحب ہے۔ اور ایک عورت کا مردوں کے سامنے خطبہ دینا اور نکاح کی کارروائی کرنا یہ سب بے پردگی کی بات ہے جو شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔ لہٰذا عورت کو اس کام کے لیے مردوں کے سامنے آنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ نکاح پڑھانے کا عمل شروع سے مردوں کے ذریعے ہوتا ہوا آیا ہے، لہٰذا  دیندار اور نیک مرد سے ہی نکاح پڑھوانا چاہیے۔

النکاح ینعقد بالإیجاب والقبول … ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاہدین۔ (الہدایۃ : ٢/۳۰۵)

(وَيَنْعَقِدُ) مُتَلَبِّسًا (بِإِيجَابٍ) مِنْ أَحَدِهِمَا (وَقَبُولٍ) مِنْ الْآخِرِ۔ (شامی : ٣/٩)

(وَأَمَّا رُكْنُهُ) فَالْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ، كَذَا فِي الْكَافِي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/٢٦٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 شعبان المعظم 1443

1 تبصرہ: