جمعہ، 31 جولائی، 2020

جمعہ کے دن پاور لُوم چلانے کا شرعی حکم

سوال :

مفتی صاحب ! جمعہ کے دن لوم چلانا کیسا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جمعہ عید ہے، لہٰذا اس دن کام کرنے سے برکت نہیں رہتی۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آیتِ کریمہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ الخ کی رُو سے جن لوگوں پر جمعہ کی نماز فرض ہے ان کے لئے جمعہ کے دن جمعہ کی پہلی اذان سے لے کر نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک مفتیٰ بہ قول کے مطابق خرید و فروخت کرنا، سونا، کسی دینی کام میں مشغول ہونا، حتیٰ کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا، غرض وہ سارے کام اور مشاغل جو جمعہ کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہوں سب کے سب مکروہ تحریمی اور ناجائز ہیں۔

جبکہ اس کے آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
ترجمہ : پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ، اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی نصیب ہو۔

اس سے پہلے کی آیت میں اذانِ جمعہ کے بعد خرید وفروخت وغیرہ کے تمام دنیوی امور کو ممنوع کردیا گیا تھا، اس آیت میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد تجارتی کاروبار اور اپنا اپنا رزق حاصل کرنے کا اہتمام سب کرسکتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن کے ممنوعہ وقت کے علاوہ اگر کوئی اپنا کاروبار جاری رکھے یا  بند۔ اس میں شرعاً کوئی قباحت کی بات نہیں ہے، بلکہ کاروبار جاری رکھنے میں ایک طرح سے برکت کی بات سلف صالحین سے منقول ہے۔

حضرت عراک بن مالک رحمۃ اللہ علیہ جب نماز جمعہ سے فارغ ہو کر باہر آتے تو دروازہ مسجد پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے تھے۔
اللھم انی اجبت دعوتک وصلیت فریضتک وانتشرت کما امرتنی فارزقنی من فضلک و انت خیر الراز قین۔ (رواہ ابن ابی حاتم، ابن کثیر)
ترجمہ : یا اللہ میں نے تیرے حکم کی اطاعت کی اور تیرا فرض ادا کیا اور جیسا کہ تو نے حکم دیا ہے نماز پڑھ کر میں باہر جاتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے رزق عطا فرما اور تو تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

اور جو لوگ صرف پاور لوم چلانے والوں پر اعتراض کرتے ہیں ان سے سوال یہ ہے کہ کام سے مراد کیا صرف پاور لوم ہی ہے؟ ہمارے شہر میں جمعہ کے دن پاور لوم اور اس کے متعلقات کے علاوہ بقیہ تمام کاروبار تقریباً جاری ہی رہتے ہیں، تو پھر ان کے متعلق کیوں نہیں کہا جاتا کہ ان میں بے برکتی ہوگی؟ لہٰذا صرف پاور لُوم چلانے والوں کو کہنا کہ جمعہ کے دن کام کرنا بے برکتی کی بات ہے یہ خلافِ شرع ہونے کے ساتھ ساتھ خلافِ عقل بھی ہے، جو لوگ ایسا کہتے ہیں انہیں ایسی بلادلیل اور غلط بات کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ، ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ° فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ، وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ (سورۃ الجمعۃ : ۹،۱۰)

وإذا أذن المؤذنون الأذان الأول ترک الناس البیع والشراء وتوجہوا إلی الجمعۃ ۔ (ھدایہ، کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، ۱/۱۷۱)

ويجب السعي وترك البيع بالأذان الأول، … وقال الحسن بن زياد: المعتبر هو الأذان على المنارة، والأصح أن كل أذان يكون قبل الزوال فهو غير معتبر والمعتبر أول الأذان بعد الزوال سواء كان على المنبر أو على الزوراء، كذا في الكافي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۴۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ذی الحجہ 1441

جمعرات، 30 جولائی، 2020

مدارسِ اسلامیہ کی حفاظت کیلئے اپنا کردار ادا کریں

✍️ محمد عامرعثمانی ملی
   (امام وخطيب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ایک انسان کی بنیادی ضرورت خوراک اور لباس ہے، خوراک سے انسان کے پیٹ اور لباس سے جسم کی ضرورت تو پوری ہوسکتی ہے، لیکن ایک حقیقی اور سچے مسلمان کے پاس اس کے پیٹ اورجسم کے ان تقاضوں کے علاوہ بھی ایک اہم چیز دین و ایمان ہے۔ چنانچہ مسلمان بھوکا تو رہ سکتا ہے، لیکن وہ اپنی مذہبی خصوصیات سے دستبردار نہیں ہوسکتا، اگر وہ اس دین میں رہے گا تو اپنی ان تمام خصوصیات کے ساتھ رہے گا۔

محترم قارئین ! آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو بحیثیت ایک ملت کے ختم کرنے کی منصوبہ بندی اور کوششیں ہورہی ہیں، آج ہمارے دشمن ہمارے ملی وجود اور مذہبی خصوصیات کو چُن چُن کر ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اگر آج اسلام اپنی تمام تر خصوصیات وامتیازات کے ساتھ ہندوستان میں نظر آرہا ہے تو یہ مدارسِ دینیہ کی دین ہے۔ شہر شہر، گلی گلی، چھوٹی بڑی، کچی پکی مساجد کا وجود، مختلف تحریکوں کی شکل میں مسلمانوں کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کا جو جال ہرسمت بچھا ہوا ہے، یا کسی بھی جگہ دین کا شعلہ یا اس کی معمولی سی روشنی یا چنگاری سلگتی ہوئی نظر آرہی ہے وہ انہیں مدارسِ اسلامیہ کا فیضان ہے، اگر ان مدارس کا وجود نہ ہوتا تو آج ہم موجود تو ہوتے، لیکن بحیثیت مسلم نہیں، بلکہ ہماری پہچان خدانخواستہ کچھ اور ہوتی۔

        درج بالا تمہید کا مقصد یہ ہے ہم مدارس اسلامیہ کی اہمیت کو سمجھیں، اور بقدر استطاعت اس کی بقا و ترقی میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں۔ مسلمانوں کے خون پسینے سے کمائے  پر چلنے والے یہ مدارسِ اسلامیہ جنہیں دین کا قلعہ کہا جاتا ہے، فی زمانہ ان پر سخت حالات آئے ہوئے ہیں، دشمنوں کی نظریں ان اسلامی قلعوں پر لگی ہوئی ہے، وہ انہیں کمزور کرکے ختم کردینا چاہتے ہیں، دشمنوں کے ان حربوں میں سے ایک حربہ یہ بھی ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کو مالی طور پر کمزور کیا جائے۔ جیسا کہ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے مالی اخراجات مسلمانوں کے عطیات و زکوٰۃ سے پورے کئے جاتے ہیں، اسی طرح اکثر مدارس میں زکوٰۃ و عطیات کے علاوہ چرم قربانی کی رقومات بھی ان کے اخراجات کی تکمیل میں اہم درجہ رکھتی ہیں۔ لیکن حکومتِ وقت کے ظالمانہ قانون کے نفاذ (گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی) کے بعد سے بھینس کی کھالوں کی قیمت میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے ان مدارس کا بجٹ حد درجہ متاثر ہوگیا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ممانعت سے پہلے چرم قربانی کی مد میں جو آمدنی ہوتی تھی ممانعت کے بعد اس میں 80/90 فیصد تک کمی واقع ہوگئی ہے، اس ستم پر بالائے ستم یہ ہوا کہ اس طویل لاک ڈاؤن نے تو چرم قربانی کا مارکیٹ بالکل ختم ہی کردیا ہے اور زکوٰۃ کی وصولی بھی سمٹ کر تقریباً نصف رہ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے تقریباً تمام مدارس کا مالی نظام درہم برہم ہوگیا ہے، بڑے بڑے مدارس کی مالی حالت تشویشناک ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ہم سب پر لازم ہے کہ ہم ان مدارس اسلامیہ کی بقا اور مضبوطی کے لئے ہر ممکن کوشش کریں، چنانچہ اسی فکر کو لے کر ہمارے ذہن چند تجاویز ہیں جسے آپ حضرات کی بصارتوں اور بصیرتوں کے حوالے کیا جارہا ہے۔

عیدالاضحیٰ کے موقع پر شہر کے مسلمانوں میں تین طبقات ہوتے ہیں، چنانچہ ان تینوں طبقات سے الگ الگ انداز میں درخواست کی گئی ہے۔

*جانوروں کے تاجروں سے درخواست*
تجارت بلاشبہ روزی کمانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اگر اس میں جھوٹ اور دھوکہ دہی سے بچتے ہوئے سچائی اور ایمانداری اختیار کی جائے تو ایسے تاجروں کے لیے انبیاء کرام کے ساتھ رہنے کی بشارت سنائی گئی ہے۔ لہٰذا ہماری تاجروں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ بلاشبہ اپنی تجارت میں نفع کمائیں، لیکن جھوٹ، دھوکہ دہی سے مکمّل طور پر اجتناب کرتے ہوئے، اعتدال کے ساتھ نفع کمائیں۔ اندھا دھند نفع کمانا اور لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا شرعاً سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ کم پرافٹ زیادہ سیلنگ جیسے نفع بخش اصول کے مطابق کام کریں، ان شاء اللہ آپ کی تجارت بابرکت ثابت ہوگی۔ اسی کے ساتھ اگر آپ یہ نیت بھی کرلیں کہ ہم قربانی جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں قربانی کرنے والوں کی معاونت کررہے اور انہیں قربانی کے جانور مہیا کررہے تو آپ دنیاوی نفع کے ساتھ اُخروی اجر وثواب کے مستحق بھی ہوں گے جس کی بلاشبہ ہر مسلمان کو ضرورت ہے۔ اگر آپ نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تو ایک بڑا طبقہ جو اجتماعی قربانی میں حصہ لے کر اپنی واجب قربانی ادا کرنے پر اکتفا کرتا ہے وہ بھی ہمت کرکے جانور خریدے گا جس کا سیدھا فائدہ آپ کو پہنچے گا۔ اور جب قربانی کرنے والوں کو جانور مناسب قیمت پر ملے گا تو ان کے لیے کچھ مال مدارس میں دینا آسان ہوگا۔

*قربانی کرنے والوں سے التماس*
قربانی کرنے والے افراد سے سب سے پہلی درخواست یہ ہے کہ جب آپ جانور خریدنے جائیں تو سودا سوچ سمجھ کر کریں، ایسا نہ ہو کہ آپ کے پاس بجٹ زیادہ ہے تو کچھ بھی خرید لیں، بلکہ مناسب داموں میں جانور خریدیں تاکہ مارکیٹ خراب نہ ہو، کیونکہ ہوتا ایسا ہے کہ جن کے پاس بجٹ زیادہ ہوتا وہ سنجیدگی کے ساتھ مول بھاؤ کئے بغیر زیادہ قیمت پر جانور خرید لیتے ہیں جس کی وجہ سے کم بجٹ رکھنے والوں کو بہت دقت ہوتی ہے۔ لہٰذا حدیث شریف لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ (ابن ماجہ) یعنی ایک مسلمان نہ تو نقصان پہنچاتا ہے اور نہ ہی اٹھاتا ہے) کو پیشِ نظر رکھیں اور غور کریں کہ کہیں آپ غفلت میں خود نقصان اٹھاکر دوسروں کو بھی نادانستہ طور پر نقصان تو نہیں پہنچا رہے ہیں؟ اس کے بعد ہماری آپ سے مخلصانہ درخواست ہے کہ اگر آپ بیس ہزار کا جانور خرید رہے ہیں تو کوشش اس بات کی کریں کہ ایک ہزار روپے الگ کرلیں، اور اسی تناسب سے یعنی چالیس ہزار پر دو ہزار روپے الگ کرکے اسلامی قلعوں کی حفاظت کے لیے عنایت فرمائیں۔ اگر پہلے سے اس کا ذہن بنالیا جائے تو ان شاءاللہ اس رقم کا دینا آپ پر گراں نہیں گزرے گا۔

*قربانی نہ کرنے والوں سے گزارش*
اگر آپ صاحب نصاب نہیں ہیں اور قربانی نہیں کرتے ہیں تب بھی آپ اپنے آپ کو بری الذمہ نہ سمجھیں بلکہ بقدر استطاعت کچھ نہ کچھ نقد رقومات (سو دو سو روپے) مدارس میں بطور عطیہ ارسال فرمائیں، تاکہ ہماری نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت کا سامان ہوسکے، اور آخرت کا اجرِعظیم تو ان شاءاللہ مل کر رہے گا۔

اللہ تعالٰی ہم کو سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے، باطل کی سازشوں کو نیست و نابود فرمائے۔ اور مدارسِ اسلامیہ کی ترقی کے فیصلے فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

بدھ، 29 جولائی، 2020

اپنے باپ کے گھر چلی جا کہنے سے طلاق کا حکم

سوال :

مکرمی جناب مفتی صاحب! عرض تحریر یہ ہے کہ ایک شخص نے غصے میں اپنی بیوی سے یوں کہا قرآن کی قسم تو مجھے نہیں چلتی تو اپنے باپ کے گھر چلی جا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر شخص مذکور کی نیت اس جملے سے طلاق کی ہو تو کیا حکم ہے؟نیز اگر طلاق کی نیت ہو اور متعدد مرتبہ یہ جملہ کہے تو کیا حکم ہے؟ اور اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ از راہ کرم تینوں صورتوں میں حکم شرع سے نوازیں۔
(المستفتی : شیخ محمد عمران، جامنیر)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں کہے گئے یہ الفاظ "تو اپنے باپ کے گھر چلی جا" کنایہ کے ہیں، جن سے طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کی نیت ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اگر ان الفاظ سے طلاق کی نیت تھی تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔

متعدد مرتبہ کہنے سے بھی ایک ہی طلاق واقع ہوگی، کیونکہ بائن کے ساتھ مزید بائن ملحق نہیں ہوتی۔

ایک طلاق بائن کی صورت میں اس شخص کی بیوی اسکے نکاح سے نکل جائے گی، اب وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو نئے مہر کے ساتھ اس شخص سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس صورت میں شرعی حلالہ کی ضرورت نہ ہوگی۔ بشرطیکہ اس سے پہلے دو طلاق نہ ہوئی ہو۔

اگر طلاق کی نیت سے یہ الفاظ نہیں کہے گئے ہیں تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

ولو قال : اذہبي فتزوجي، وقال لم أنو الطلاق لا یقع شيء؛ لأن معناہ أن أمکنک إلی قولہ ویؤید ما في الذخیرۃ اذہبي وتزوجي لایقع إلا بالنیۃ۔ (شامي : ۴/۵۵۱)

قولہ: لایلحق البائن البائن، المراد بالبائن الذی لایلحق ہو ما کان بلفظ الکتابۃ۔ (شامي : ۴/۵۴۲)

أو تزوج ثانیاً في العدۃ۔ وفي الشامیۃ : فیما لو طلقہا بائناً بعد الدخول، ثم تزوجہا في العدۃ وجب کمال المہر الثانی بدون الخلوۃ والدخول۔ (درمختار مع الشامي، باب المهر،۴/۲۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ذی الحجہ 1441
الجواب صحیح
مفتی عزیز الرحمن فتح پوری

پیر، 27 جولائی، 2020

عورت کی میت کو قبر میں رکھتے وقت سایہ کرنا

سوال :

میّت کو قبر میں اتارنے وقت مرد یا عورت کی قبر پر پردہ کا سایہ کرنا کیسا ہے؟ سایہ کیوں کرتے ہیں؟ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : عابد حسین، دھولیہ)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عورت اور مرد کی تدفین میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ عورت کو قبر میں رکھتے وقت قبر کے اطراف میں پردہ کرلینا چاہیے تاکہ جنازے میں شریک غیرمحرم مردوں کی نگاہ میت (خواہ کفن کے اوپر ہی ہو) پر نہ پڑسکے۔ اور قبر میں لکڑیاں رکھ لینے تک پردہ لگا رہنے دیا جائے۔ نیز یہ حکم ہر مسلمان عورت کے لیے ہے، خواہ وہ زندگی میں پردہ کرتی ہو یا نہ کرتی ہو۔ مرد کو چونکہ پردے کی ضرورت نہیں ہوتی، لہٰذا مرد میت کو دفن کرتے وقت سایہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

وَيُسَجَّى قَبْرُ الْمَرْأَةِ بِثَوْبٍ؛ لِمَا رُوِيَ أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سُجِّيَ قَبْرُهَا بِثَوْبٍ وَنَعْشٍ عَلَى جِنَازَتِهَا؛ لِأَنَّ مَبْنَى حَالِهَا عَلَى السَّتْرِ، فَلَوْ لَمْ يُسَجَّ رُبَّمَا انْكَشَفَتْ عَوْرَةُ الْمَرْأَةِ فَيَقَعُ بَصَرُ الرِّجَالِ عَلَيْهَا، وَلِهَذَا يُوضَعُ النَّعْشُ عَلَى جِنَازَتِهَا دُونَ جِنَازَةِ الرَّجُلِ۔ (بدائع الصنائع : ١ / ٣١٨ - ٣١٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی الحجہ 1441

اتوار، 26 جولائی، 2020

ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے؟

سوال :

مفتی صاحب! گوشت کے حلال ہونے کے لیے جانور کو ذبح کرتے وقت دعا کے الفاظ کا زبان سے ادا کرنا ضروری ہے؟
2) اگر کوئی مسلمان بھائی ذبح کرتے وقت دعا پڑھنا بھول جائے تو کیا اس جانور کا گوشت حلال ہوگا؟ اگر گوشت کی مارکٹ میں ایسے جانور کا گوشت پہنچ جائے جو سوال نمبر 2 کے مطابق ذبح کیا گیا ہو اور زید ایسے گوشت کو خرید کر کھالے تو کیا زید گناہگار ہوگا؟
(المستفتی : محمد یاسر، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی حلال جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا شرط ہے۔ لیکن اس کا زور سے پڑھنا ضروری نہیں بلکہ آہستہ بھی پڑھ لینا کافی ہے جس میں زبان کو حرکت ہوجائے۔ صرف دل میں سوچ لینا کافی نہیں۔

2) جو جانور ناسیاً (بھول کر) بغیر بسم اللہ پڑھے ذبح کیا گیا ہو اس کا کھانا حلال ہے، البتہ قصداً بسم اللہ ترک کی صورت میں ذبیحہ حرام ہوجاتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر جانور ذبح کرنے والا مسلمان بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو ایسے جانور کا گوشت کھانا حلال ہے۔

ولا تحل ذبیحة من تعمّد ترک التسمیة مسلما أو کتابیاً لنصّ القرآن ولانعقاد الإجماع۔ (ردالمحتار : ۹/۴۳۳)

وتارک تسمیۃ عمداً فان ترکہا ناسیاً حل۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۵/۲۸۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ذی الحجہ 1441

جمعہ، 24 جولائی، 2020

یومِ جمعہ کے حج کو حجِ اکبری کہنا

سوال :

جناب مفتی صاحب امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا۔ جناب عالی ازراہ کرم وضاحت فرمائیں کہ جمعہ کے روز واقع ہونے والے حج کوعوام حج اکبری کیوں کہتے ہیں؟ اس کی حقیقت اصل میں کیا ہے کیا علاوہ دنوں میں واقع ہونے والا حج ثواب کے لحاظ سے کمترہوتا ہے؟ حقیقت کشاء جواب سے نوازیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد ابراہیم اعجاز، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کے دن ہونے والے حج کو عوام الناس حجِ اکبری کہتے ہیں، جبکہ اصلاً ایسا نہیں ہے۔ قرآن کریم میں حج اکبر کا لفظ مذکور ہے، لیکن یہ عمرہ کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حج، حج اکبر ہے اور عمرہ حج اصغر ہے۔ ائمہ مفسرین امام شعبی، امام زہری، حضرت عطاء رحمھم اللہ سے یہی منقول ہے۔

البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ جو حج جمعہ کے دن ہو اس کی فضیلت عام دنوں کی بہ نسبت بڑھ جاتی ہے۔

ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو حج فرمایا تھا وہ بھی جمعہ کو ہوا تھا۔

دوسرے جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ بندہ اس گھڑی میں جو بھی دعا کرتا ہے وہ قبول ہوتی ہے۔

تیسرے یہ کہ آیت کریمہ الیوم اکملت لکم دینکم کے نزول کی وجہ سے یومِ عرفہ ایک طرح سے عید کا دن ہے اور یوم جمعہ بھی عید ہے، جب دو عیدیں جمع ہوگئیں تو بلاشبہ اس کی اہمیت بڑھ جائے گی۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن حج کی فضیلت تو ہے، تاہم ان سب کے باوجود جمعہ کے دن کے حج کو حج اکبری کہنا درست نہیں ہے۔

وقال الزہری والشعبی وعطاء : الأکبر الحج، والأصغر العمرۃ۔ (۴/۴۲، کتاب الحج، مطلب فی الحج الأکبر، شامی)

یوم الجمعۃ : لما لہ من الفضائل التی لم تجتمع لغیرہ فمنہا أن فیہ ساعۃ محققۃ الإجابۃ ، ومواقفتہ یوم وقفۃ المصطفی ﷺ واجتماع الخلائق فیہ في الأقطار للخطبۃ والصلاۃ، ولأنہ یوم عید کما فی الخبر لموافقتہ یوم الجمع الأکبر والموقف الأعظم یوم القیامۃ ۔ (۲/۲۸، فیض القدیر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ذی الحجہ 1441

بدھ، 22 جولائی، 2020

لاک ڈاؤن میں نمازِ عیدالاضحیٰ کیسے ادا کریں؟

✍ محمد عامر عثمانی ملی
  (امام و خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! وبائی مرض کو لے کر اب بھی ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں مساجد اور عیدگاہوں میں عمومی جماعت پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں نمازِ عیدالاضحیٰ کی ادائیگی کس طرح ہو؟ اسی کے جواب میں پیشِ نظر مضمون ترتیب دیا گیا ہے تاکہ عوام سہولت اور آسانی کے ساتھ اس اہم عبادت کو انجام دے سکیں۔

        عام حالات میں نمازِ عیدین آبادی سے دور عیدگاہ میں ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں جن علاقوں میں وبا کا زور ہو یا عیدگاہوں اور مساجد میں نماز ادا کرنے پر کسی قانونی دشواری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہو، جبکہ ان علاقوں میں جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں تو وہاں گھروں میں نمازِ عیدالاضحیٰ ادا کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ نماز عیدالاضحیٰ کے لیے بھی تقریباً وہی شرائط ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں یعنی اس کی ادائیگی کے لئے مسجد یا عیدگاہ کا ہونا شرط نہیں ہے۔ نمازِ عیدالاضحیٰ میں بھی امام کے علاوہ تین بالغ مرد ہوں۔ نمازِ عیدالاضحیٰ کا وقت طلوع آفتاب سے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد شروع ہو جاتا ہے اور نصف النہار عرفی یعنی زوال تک باقی رہتا ہے۔ لیکن اسے اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے اور زوال کے قریب پڑھنا مکروہ ہے۔

*نمازِ عیدالاضحیٰ کا طریقہ*
نمازِ عیدالاضحیٰ دو رکعت بغیر اذان واقامت کے ادا کی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیرِ تحریمہ اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں، ثنا پڑھیں، اس کے بعد دونوں ہاتھ اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں، دو مرتبہ ایسا کریں اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائیں اور باندھ لیں۔ اس کے بعد تعوذ، تسمیہ کرکے سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھیں، پھر رکوع سجدہ کرکے رکعت مکمل کرلیں۔ دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھنے کے بعد رکوع میں نہ جائیں بلکہ یکے بعد دیگرے تین تکبیرات اس طرح ہوں کہ ہر مرتبہ ہاتھوں کو کانوں تک لے جاکر چھوڑ دیں، اس کے بعد چوتھی تکبیر میں ہاتھوں کو اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں اور بقیہ نماز  حسبِ معمول پوری کریں۔

عموماً نیت کے لیے لوگ بڑے پریشان ہوتے ہیں جبکہ دل میں یہ خیال لے آنا کافی ہے کہ میں امام کی اقتداء میں نماز عیدالاضحیٰ ادا کرتا/ کرتی ہوں۔ مزید کچھ کہنا ضروری نہیں۔

اگر جماعت میں عورت بھی ہوتو امام کے لیے عورت کی امامت کی نیت بھی کرنا ضروری ہے، اور اس کے لیے باقاعدہ الفاظ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ دل میں ارادہ ہونا کافی ہے۔

جس طرح مرد امام کی اقتداء میں قرأت کی جگہ خاموش رہتے ہیں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے، اور جہاں مردوں کے لئے دعا اور تسبیحات پڑھنے کا حکم ہے وہی حکم عورتوں کے لیے بھی ہے۔

نماز ودعا سے فراغت کے بعد دو خطبے دینا مسنون ہے، لہٰذا کرسی یا اسٹول وغیرہ رکھ لیا جائے، اور دونوں خطبوں کے درمیان اسی پر تین چھوٹی آیات کی تلاوت کے بقدر بیٹھ جایا جائے۔ ملحوظ رہے کہ عیدین میں جمعہ کی طرح خطبہ دینا شرط نہیں ہے، بلکہ مسنون ہے، یعنی اگر خطبہ نہ ہو تب بھی نماز عید ادا ہوجائے گی۔ لیکن قصداً خطبہ ترک کرنا مکروہ ہے۔

صاحبین ؒ کے نزدیک خطبہ کی کم سے کم مقدار تشہد کے بقدر ہے اس سے کم مکروہ ہے۔ لہٰذا حاضرین میں کوئی عالم یا خطبہ دینے کے  لائق شخص نہ ہوتو وہ دونوں خطبوں میں آیت الکرسی یا سورہ فاتحہ پڑھ لے تو خطبہ کی سنت ادا ہوجائے گی۔ نیز جب خطبہ ہورہا ہو اس وقت وہاں موجود افراد کا اسے خاموشی سے سننا واجب ہے۔

*عورتوں کے لیے نمازِ عیدالاضحٰی*
عورتوں پر نمازِ جمعہ وعیدین واجب نہیں ہے، اور عام حالات میں انہیں عیدگاہوں اور مساجد میں جاکر نمازِ عید میں شریک ہونا بھی مکروہ اور سخت فتنہ کا سبب ہے، البتہ حرمین شریفین میں یا کسی ایسی جگہ جہاں فتنہ سے مکمل حفاظت ہو، اگر عورتیں عید کی جماعت میں شامل ہوجائیں تو جائز ہے۔ لہٰذا جہاں گھروں میں نمازِ عیدالاضحٰی ادا کی جارہی ہو، اس گھر کی خواتین اگر نماز میں شامل ہوجائیں تو یہ درست ہے۔ اگر نماز عید میں شریک نہ ہوسکیں تو نماز عیدالاضحٰی ہوجانے کے بعد تنہا تنہا بطور شکرانہ دو رکعت نفل نماز پڑھ سکتی ہیں۔

*نمازِ عیدالاضحیٰ کا بدل*
اگر کوئی تنہا ہو اور اُس کی نمازِ عید فوت ہوجائے اور کسی جگہ ملنے کی امید بھی نہ ہوتو اس کا بدل فقہاء نے لکھا ہے کہ وہ دو دو رکعت کرکے چار رکعت یا پھر صرف دو رکعت نماز چاشت عام نمازوں کی طرح ادا کرلے۔ خیال رہے کہ اس نماز کا پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں۔

*نماز عید سے متعلق اہم مسائل*
اگر کوئی شخص ایک جگہ نمازِ عید پڑھا چکا ہے تو اب وہ دوسری جگہ جاکر عید کی نماز میں امامت نہیں کرسکتا ہے، اس لیے کہ اس کا واجب ادا ہوچکا ہے اب اگر وہ دوبارہ عید کی نماز پڑھے گا تو یہ نماز نفل ہوگی، جبکہ اس کی اقتداء کرنے والوں کی نماز واجب ہے تو یہ اقتداء المفترض خلف المتنفل کی قبیل سے ہوگا جو درست نہیں ہے۔

نماز عید میں مجمع زیادہ ہونے کے سبب سجدۂ سہو واجب ہوجانے پر بھی انتشار سے بچنے کے لیے سجدۂ سہو نہ کرنے کا حکم فقہاء نے لکھا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن میں جبکہ مجمع زیادہ نہ ہو اور سجدۂ سہو کرنے میں کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور سجدہ سہو واجب ہو جائے تو سجدۂ سہو کیا جائے گا، کیونکہ یہاں رخصت کا سبب باقی نہیں رہا۔

*خطبۂ نمازِ عیدالاضحیٰ*
ذیل میں دو م‍ختصر اور آسان خطبات نقل کیے جارہے ہیں، جنہیں پی ڈی ایف کی شکل میں بھی ارسال کیا جائے گا۔ اگر کوئی اسے آسانی سے پڑھ سکتا ہوتو سنت پر عمل ہوجائے گا، اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اوپر کی ہدایات کے مطابق عمل کرے۔

*خطبہ اولٰی*
اَللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ۞اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ الْکَعْبَۃَ الْحَرَامَ قِیَامَ الّلِنَّاسِ وَاَمْنًا ۞ اَللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ و جَعَلَ الْحَجَّ والْعُمْرَۃَ للِنَّجَاۃِ عَوْنًا ۞ اَللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ، وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞ اَمَّا بَعْدُ ! قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  :  مَنْ وَجَدَ سَعَةً  فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا ۞ وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ : قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ، قَالَ سُنَّةُ أَبِيکُمْ إِبْرَاهِيمَ، قَالُوا فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ قَالَ بِکُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ،  قَالُوا فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، قَالَ بِکُلِّ شَعَرَةٍ مِنْ الصُّوفِ حَسَنَةٌ ۞ اَللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِْ ۞ لَنْ يَنَالَ اللّٰهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ۞ اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ لِيْ وَلَكُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَاسْتَغْفِرُوْہُ، اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيمِْ ۞

*خطبہ ثانیہ*
اَللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞ وَنَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِِْ ۞ إِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۞اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِهٖ وَذُرِّیَّتِهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِیْن۞قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ ۞ اللّٰهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ الْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَسَيِّئِ الْأَسْقَامِ، وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ الْفَقْرِ وَالْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ ۞ اَللّٰهُمَّ ادْفَعْ عَنَّا الْبَلاَءَ وَالوَبَاءَ ۞ اِنَّ اَللّٰهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْيِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۞ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ۞ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ۞ وَالْحَمْدُلِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۞