جمعرات، 2 جولائی، 2020

مسلم اور مؤمن کسے کہتے ہیں؟ ‏


سوال :

مسلم کسے کہتے ہیں؟ 
اور مؤمن کسے کہتے ہیں؟
بعض جگہوں پر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمین کہا ہے اور بعض جگہوں پر مؤمنین، (مثلاً سورہ احزاب،آیت نمبر ٣٥)
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : لغت میں ”ایمان“ کسی چیز کی دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور ”اسلام“ اطاعت وفرماں برداری کا، لیکن شرعاً ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیر ایمان کے معتبر نہیں، یعنی اللہ اور اس کے رسول کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعاً اس وقت تک معتبر نہیں جب تک زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار نہ کرے، اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ ہو، خلاصہ یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے مسلم اور مومن کے درمیان فرق ضرور ہے؛ لیکن شرعاً دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔(دارالافتاء دار العلوم دیوبند، فتوی نمبر :43473) 

قرآن مجید کی سورہ حجرات میں فرمایا گیا ہے کہ دیہاتی لوگ (آپﷺ سے) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ (گویا احسان جتلارہے ہیں کہ ہم تو بڑے جنگ جو تھے، لیکن بغیر لڑائی کے اسلام قبول کرلینا گویا ہمارا احسان ہے، اس لیے ہمیں آپ خیرات دیں) آپ (ﷺ) ان سے کہہ دیجیے : تم (ابھی تک) ایمان نہیں لائے (یعنی دل سے تصدیق نہیں کی، ورنہ کبھی رسول اللہ ﷺ سے ایسا طرزِ تخاطب اختیار نہ کرتے)، بلکہ یوں کہو کہ ہم نے ظاہری طور پر اطاعت قبول کی ہے، اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ (الحجرات:14)

سورہ حجرات کی ان آیات میں ظاہری فرماں برداری دکھانے والوں کے لیے اسلام کا لفظ اختیار کیا گیا ہے، اور ایمان کی نفی کردی گئی ہے کہ دلوں میں ایمان نہیں ہے۔ 

لیکن یہ فرق ہر جگہ ملحوظ نہیں ہوتا، قرآنِ مجید میں ہی بعض انبیاءِ کرام علیہم السلام کے لیے اور اس امتِ محمدیہ کے لیے امتِ مسلمہ اور مسلمانوں کے لیے مسلمین کا لفظ استعمال ہوا ہے، ان جگہوں پر اسلام مع ایمان مراد ہے، اس لیے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے بارے میں تو کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا (حاشا للہ)، اسی طرح امتِ مسلمہ جس کی تعریف و توصیف کی جارہی ہو، اور جس کے بارے میں وقت کے نبی دعا کررہے ہوں، اور ابراہیم علیہ السلام جس امت کو مسلمین کا نام دے رہے ہوں ان کے لیے اسلام کے ساتھ حقیقی ایمان ہونا بھی ضروری ہے، لہٰذا کبھی مؤمن کہہ کر مسلم یا مسلم کہہ کر مؤمن بھی مراد لیا جاتا ہے۔ 

بہرحال جو مؤمن ہو وہ مسلم بھی ضرور ہوگا، لیکن ہر مسلم (ظاہر میں اسلام کا اظہار کرنے والے) کا مؤمن ہونا لازمی نہیں، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی ظاہری طور پر زبان سے تو کلمہ اور نماز پڑھتا ہو، لیکن دل میں کفریہ عقائد رکھتا ہو۔


قال اللہ تعالیٰ : قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا ولما يدخل الإيمان في قلوبكم وإن تطيعوا الله ورسوله لا يلتكم من أعمالكم شيئا إن الله غفور رحيم۔ (سورہ حجرات، آیت : 14)

نزلت في أعراب م نبنى أسد بن خزيمة قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم في سنة جدبة وأظهروا الشهادتين ولم يكونوا مؤمنين في السر. وأفسدوا طرق المدينة بالعذرات وأغلوا أسعارها، وكانوا يقولون لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أتيناك بالأثقال والعيال ولم تقاتلك كما قاتلك بنو فلان فأعطنا من الصدقة، وجعلوا يمنون عليه فأنزل الله تعالى فيهم هذه الآية. وقال ابن عباس: نزلت في أعراب أرادوا أن يتسموا باسم الهجرة قبل أن يهاجروا، فأعلم الله أن لهم أسماء الأعراب لا أسماء المهاجرين. وقال السدي: نزلت في الأعراب المذكورين في سورة الفتح: أعراب مزينة وجهينة وأسلم وغفار والديل وأشجع، قالوا آمنا ليأمنوا على أنفسهم وأموالهم، فلما استنفروا إلى المدينة تخلفوا، فنزلت. وبالجملة فالآية خاصة لبعض الأعراب، لأن منهم من يؤمن بالله واليوم الآخر كما وصف الله تعالى.
ومعنى «ولكن قولوا أسلمنا» أي استسلمنا خوف القتل والسبي، وهذه صفة المنافقين؟ لأنهم أسلموا في ظاهر إيمانهم ولم نؤمن قلوبهم، وحقيقة الإيمان التصديق بالقلب. وأما الإسلام فقبول ما أتى به النبي صلى الله عليه وسلم في الظاهر، وذلك يحقن الدم ۔(تفسير القرطبي، 16/ 348)
مستفاد : دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن، 
فتوی نمبر :144012201937)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ذی القعدہ 1441

2 تبصرے: