جمعرات، 30 ستمبر، 2021

نماز اور روزے کا فدیہ

سوال :

محترم مفتی صاحب! ایک روزہ اور ایک دن کی نمازوں کا فدیہ کیا ہوگا؟ مرحوم نے اگر وصیت کی ہوتو کیا حکم ہوگا؟ مفصل مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔
(المستفتی مولوی ظفر، اورنگ آباد)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی کا کوئی روزہ چھوٹ جائے اور وہ زندگی میں اس کی قضا نہیں کرسکا تو مرنے کے بعد اس کی طرف سے فدیہ دینے سے اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہوجائے گا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص کا انتقال ہو جائے اور اس کے ذمہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا چاہئے۔ البتہ نماز کے فدیہ سے متعلق شریعت میں صریح نص نہیں ہے، بلکہ روزے سے متعلق جو نصوص ہیں، ان پر ہی فقہاء نے نماز کے فدیہ کو قیاس کیا ہے۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ کوئی آدمی دوسرے کی طرف سے قضا نمازیں ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی روزے رکھ سکتا ہے، اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ نماز اور روزے ادا ہی نہیں ہوں گے چاہے دوسرا آدمی زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو۔

ایک نماز کا یا ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور روزآنہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے چھ فدیے ہوں گے۔ اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت ہے۔

وارثین پر میت کا فدیہ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، اگر وہ خود سے ادا کردیں تو ان کا احسان ہے، ہاں اگر میت نے اس کی وصیت کی ہے تو اس کے تہائی مال سے فدیہ کی وصیت کو پورا کرنا واجب ہوگا۔ اگر ایک تہائی ترکے میں سے تمام قضا نمازوں یا روزوں کا فدیہ ادا ہوجائے تو بہتر، ورنہ جتنی قضا نمازوں یا روزوں کا فدیہ ادا ہوجائے وہ ادا کیا جائے، وارثین پر ایک تہائی سے زائد ترکہ سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا۔

عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا۔ (سنن الترمذی، رقم : ٧١٨)

(الْعِبَادَةُ الْمَالِيَّةُ) كَزَكَاةٍ وَكَفَّارَةٍ (تَقْبَلُ النِّيَابَةَ) عَنْ الْمُكَلَّفِ (مُطْلَقًا) عِنْدَ الْقُدْرَةِ وَالْعَجْزِ وَلَوْ النَّائِبُ ذِمِّيًّا، لِأَنَّ الْعِبْرَةَ لِنِيَّةِ الْمُوَكِّلِ وَلَوْ عِنْدَ دَفْعِ الْوَكِيلِ (وَالْبَدَنِيَّةُ) كَصَلَاةٍ وَصَوْمٍ (لَا) تَقْبَلُهَا (مُطْلَقًا، وَالْمُرَكَّبَةُ مِنْهُمَا) كَحَجِّ الْفَرْضِ (تَقْبَلُ النِّيَابَةَ عِنْدَ الْعَجْزِ فَقَطْ)۔ (شامی : ٢/٥٩٨)

(وَلَوْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَلَوَاتٌ فَائِتَةٌ وَأَوْصَى بِالْكَفَّارَةِ يُعْطَى لِكُلِّ صَلَاةٍ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ) كَالْفِطْرَةِ (وَكَذَا حُكْمُ الْوِتْرِ)۔ (شامی : ٢/٧٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 صفر المظفر 1443

اسٹرابیری کھانے کا حکم

سوال :

اسٹرابیری کھانا کیسا ہے؟ مفتی زرولی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اسکو جہنم کا پھل کہا ہے اور اسکو حرام کہا ہے، تو کیا اسٹرابیری کھانا حرام ہے؟ ہمارے شہر میں تو اسکو بہت کھایا جاتا ہے اور بسکٹ کیک اور بہت ساری چیزوں میں اسکا فلیور استعمال ہوتا اسکا کیا حکم ہے؟ تفصیلی جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : تنویر احمد بیتی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسٹرابیری سے متعلق سوال اکثر آتا رہتا ہے، لیکن سوال عموماً مرتب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کا مختصر جواب لکھ دیا جاتا ہے، لیکن آپ کا سوال چونکہ مرتب اور مکمل ہے اس لیے کا مدلل اور مفصل جواب لکھا جارہا ہے تاکہ اس سلسلے میں ہمارے پاس بھی ایک علمی مواد جمع ہوجائے اور آئندہ اس سے متعلق سوال کرنے والوں کے لیے تشفی کا سامان بھی ہو۔

اس بات میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں ہوسکتا کہ اسٹرابیری ایک پھل ہے جو زمین سے اُگا ہوا ہے۔ اور شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ زمین سے اُگنے والی جتنی بھی چیزیں ہیں وہ سب پاک اور حلال ہیں، اور ان کا کھانا بھی درست ہے۔ سوائے ان نباتات کے جو زہریلی اور مہلک ہوں یا جو نشہ آور ہوں، ان کا کھانا جائز نہیں۔ اور یہ پھل نہ تو زہریلا ہے اور نہ ہی اس میں نشہ ہے، لہٰذا اس ضابطہ کے مطابق اسٹرابیری کا کھانا بلاکراہت جائز ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ کیا اسٹرابیری جہنم کا پھل ہے یا جہنمی پھل زقوم سے مشابہت رکھتا ہے؟ تو معلوم ہونا چاہیے کہ اسٹرابیری کا جہنم کا پھل ہونا یا جہنمی پھل سے مشابہت رکھنا کسی بھی شرعی و لغوی دلیل سے ثابت نہیں ہے، جہنمیوں کی غذا کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی ایک غذا "زَقُّوْم" کا پودا بھی ہوگا، اور یہ ایک خاردار، کڑوا اور زہریلا پودا ہے جسے اردو لغات میں "تھوہڑ" یا "ناگ پھنی" کا پودا لکھا گیا ہے، اور جہنمی پھل زقوم تو بڑا خوفناک اور تکلیف دہ ہوگا جس کا ذکر حدیث شریف میں آیا ہے :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے یہ آیت : يٰاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِه وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ (آل عمران : 102) تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا اگر (دوزخ کے ) زقوم یعنی تھوہڑ کے درخت کا ایک قطرہ بھی اس دنیا میں ٹپک پڑے تو یقیناً دنیا والوں کے سامان زندگی کو تہس نہس کردے پھر (سوچو) اس شخص کا کیا حال ہوگا جس کی خوراک ہی زقوم ہوگی۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اسٹرابیری پھل کھانا جائز ہے، اِس پھل کو عربی میں فراولة کہتے ہیں، یہ زقوم کا پھل نہیں ہے، لغت کی کتابوں میں کہیں بھی زقوم کا مصداق اسٹرابیری کو نہیں قرار دیا گیا ہے۔ (رقم الفتوی : 153264)

خلاصہ یہ کہ سٹرابیری ایک خوش رنگ، خوبصورت اور خوش ذائقہ پھل ہے، جس کا جہنمی پھل "زقوم" سے کوئی جوڑ نہیں ہے، دونوں نام، صورت، ذائقہ میں بالکل مختلف اور الگ الگ ہیں۔ لہٰذا اس کا اور اس کے فلیور والی اشیاء مثلاً بسکٹ، کیک وغیرہ کا کھانا بلاکراہت اور بلاتردد درست ہے۔ حضرت مولانا مفتی زر ولی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام بہت بڑھا ہوا ہے لیکن اس پھل کو ناجائز کہنا صرف آپ کے جذبات ہیں جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، لہٰذا آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بات کو نظرانداز کردینا چاہیے۔

قال اللہ تعالیٰ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ۔ (سورۃ البقرہ : ۱۷۲)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ { اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ }، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِي دَارِ الدُّنْيَا ؛ لَأَفْسَدَتْ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا مَعَايِشَهُمْ، فَكَيْفَ بِمَنْ يَكُونُ طَعَامَهُ؟۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٥٨٥)

الأصل في الأشیاء الإباحۃ۔ (قواعد الفقہ اشرفي : ۵۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 صفر المظفر 1443

بدھ، 29 ستمبر، 2021

بہتے یا جمع پانی میں غسل کرتے ہوئے پیشاب کردینا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا بہتے ہوئے پانی مثلاً ڈیم، ندی، آبشار وغیرہ میں نہاتے ہوئے پیشاب کر دینا اور یہ سمجھنا کہ یہ بہتا پانی ہے، پاک رہے گا اور خود کو بھی اسی دوران بہتے پانی سے پاک کرلینے سے پاکی ہو جائے گی؟ اور پانی بھی پاک ہی رہے گا؟ اسی طرح جمع پانی مثلاً کنواں، تالاب یا سوئمنگ پول وغیرہ کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پیشاب کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ آدمی بیٹھ کر اور قبلہ کی طرف رُخ یا پیٹھ نہ کرتے ہوئے نرم جگہ پیشاب کرے تاکہ اس پر پیشاب کے چھینٹے نہ اُڑیں۔

معلوم ہوا کہ بہتے پانی مثلاً ڈیم، ندی یا دریا میں اگر کسی نے غسل کرتے ہوئے پانی کے اندر ہی پیشاب کردی تو یہ عمل خلافِ سنت اور مکروہ ہے۔ تاہم اس کی وجہ سے پانی ناپاک نہیں ہوگا اور یہ شخص بھی پاک ہوجائے گا، کیونکہ نجاست پانی کے بہاؤ کی وجہ سے وہاں ٹھہرے گی نہیں، بلکہ وہاں سے بہہ جائے گی۔

جمع پانی مثلاً کنواں، تالاب یا سوئمنگ پول وغیرہ میں ایسے ہی یا غسل کرتے ہوئے پیشاب کردینا مکروہ تحریمی ہے۔ کیونکہ حدیث شریف میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے۔ لیکن اگر یہ کنواں، تالاب یا سوئمنگ پول اگر دہ در دہ یعنی دس ہاتھ بائے دس ہاتھ ہو تو وہ ماء جاری کے حکم میں ہوتا ہے، جس کا رقبہ موجودہ زمانے کی پیمائش کے اعتبار سے 225 اسکوائر فٹ ہوتا ہے۔ کیونکہ اکثر فقہاء کے نزدیک ذراع (ایک ہاتھ) کی مقدار ڈیڑھ فٹ ہوتی ہے اور اس کی گہرائی کم از کم اتنی ہو کہ چلو سے پانی لینے میں زمین نہ کھلے۔ چنانچہ اگر کسی نے ایسے کنویں، تالاب یا سوئمنگ پول جس کا رقبہ 225 اسکوائر فٹ ہو پیشاب کردے تو جب تک اس نجاست کی وجہ سے پانی کا رنگ، بو یا مزہ تبدیل نہ ہوجائے وہ پانی پاک ہی رہے گا۔ اور پیشاب کرنے والا بھی ناپاک نہیں ہوگا۔

اور اگر کنواں یا سوئمنگ پول 225 اسکوائر فٹ سے کم ہوتو اس میں پیشاب کردینا ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ یہ پاک پانی کو ناپاک کردینا ہے، اگر کسی نے ایسا کردیا تو اس کا سارا پانی اور اس میں غسل کرنے والا بھی ناپاک ہوجائے گا خواہ پانی کا رنگ، بو یا مزا تبدیل نہ ہوا ہو، ایسی صورت میں اس کا سارا پانی خالی کرنا ضروری ہوگا۔

عَنْ جَابِرٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَی أَنْ يُبَالَ فِي الْمَائِ الرَّاکِدِ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٨١)

وَفِي الْمُثَلَّثِ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ خَمْسَةَ عَشَرَ وَرُبُعًا وَخُمُسًا بِذِرَاعِ الْكِرْبَاسِ، وَلَوْ لَهُ طُولٌ لَا عَرْضٌ لَكِنَّهُ يَبْلُغُ عَشْرًا فِي عَشْرٍ جَازَ تَيْسِيرًا ۔۔۔۔ كَأَنْ يَكُونَ طُولُهُ خَمْسِينَ وَعَرْضُهُ ذِرَاعَيْنِ مَثَلًا فَإِنَّهُ لَوْ رَبَّعَ صَارَ عَشْرًا فِي عَشْرٍ۔ (شامی : ١/١٩٣)

وَالْمُعْتَبَرُ ذِرَاعُ الْكِرْبَاسِ. كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. كَذَا فِي الْهِدَايَةِ وَهُوَ ذِرَاعُ الْعَامَّةِ سِتُّ قَبَضَاتٍ أَرْبَعٌ وَعِشْرُونَ أُصْبُعًا. كَذَا فِي التَّبْيِينِ وَإِنْ كَانَ الْحَوْضُ مُدَوَّرًا يُعْتَبَرُ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ ذِرَاعًا. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ وَهُوَ الْأَحْوَطُ. كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیہ : ۱/۱۸)

وَالْمُعْتَبَرُ فِي عُمْقِهِ أَنْ يَكُونَ بِحَالٍ لَا يَنْحَسِرُ بِالِاغْتِرَافِ هُوَ الصَّحِيحُ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٨)
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 صفر المظفر 1443

بیعت کی شرعی حیثیت

سوال :

مفتی صاحب! بیعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کسی پیرومرشد سے بیعت کرنے کا عمل شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ڈاکٹر مختار احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بیعت کا مطلب کسی مرشد کامل متبع سنت کے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے توبہ کرنا اور آئندہ اس کی رہنمائی میں دین پر چلنے کا عہد کرنا۔ یہ عمل شرعاً جائز اور درست ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنا ثابت ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے :
حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے چند آدمیوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی، آپ نے فرمایا کہ میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ گے اور نہ چوری کرو گے اور نہ زنا کرو گے اور نہ اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ کوئی بہتان اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے گھڑ کر اٹھاؤ گے اور نہ کسی نیک کام میں میری نافرمانی کرو گے، تم میں سے جس نے پورا کیا اس کا اجر اللہ پر ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
تصوف، تزکیہٴ نفس کا طریقہ ہے، آدمی روحانی اور باطنی اصلاح کی غرض سے کسی مرشد کامل متبع سنت بزرگ کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ اور آئندہ اس کی راہنمائی میں دین پر چلنے کا عہد کرتا ہے، اس کو بیعت کہتے ہیں، صحابہٴ کرام کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنا ثابت ہے، اصلاح نفس تو واجب اور ضروری ہے البتہ اس کے لیے کسی مرشد کامل کے ہاتھ پر بیعت ہونا مستحب ہے۔ (رقم الفتوی : 23665)

خلاصہ یہ کہ نفس کی اصلاح ضروری ہے، اور اس کے لیے کسی پیر ومرشد (متبع سنت وصاحب نسبت بزرگ) سے بیعت ہوجانا مستحب امر ہے۔ اور اصلاحی تعلق کے لیے مزاج سے مناسبت نہایت ضروری ہے، مزاج سے مناسبت نہ ہو تو بیعت کا خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ فَقَالَ أُبَايِعُکُمْ عَلَی أَنْ لَا تُشْرِکُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفَی مِنْکُمْ فَأَجْرُهُ عَلَی اللَّهِ۔ (صحیح البخاري، رقم : ٦٨٠١)

اعلم أن البیعۃ سنۃ ولیست بواجبۃ… ولم یدل دلیل علی تأثیم تارکہا، ولم ینکر أحد علی تارکہا۔ (القول الجمیل : ۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 صفر المظفر 1443

منگل، 28 ستمبر، 2021

والدہ کے انتقال کے بعد بچوں کی پرورش کی ذمہ داری

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ماں کا انتقال ہوجائے تو بچہ کس کی پرورش میں رہے گا؟ باپ یا نانی کی؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ فیصل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : والدہ کے انتقال کے بعد بچہ کی پرورش کی ذمہ داری نانی کی ہے، وہ بچے کو اس وقت تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے جب تک اسے کھانے، پینے، پہننے اور دیگر ضروریات میں ماں کی ضرورت پڑے۔ اور اس کی مدت لڑکے کے لئے سات برس اور لڑکی کے لئے نو برس یعنی بالغ ہونے تک شرعاً مقرر کی گئی ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ نانی مرتد ہوجائے یا بدچلن ہویا پاگل ہوجائے اور بچے کی حفاظت نہ کرسکے تو نانی کا حق پرورش باطل ہوجاتا ہے۔ اور یہ حق پھر بچے کی پڑنانی، دادی، پڑ دادی۔ پھر خالہ پھوپھی وغیرہا کے لئے ثابت ہوجاتا ہے۔ البتہ ہر صورت میں بچوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار والد ہوتا ہے، خواہ بچے ددھیال میں رہیں یا ننہیال میں۔ اور مذکورہ مدت کے بعد والد کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھے۔

(ثُمَّ) أَيْ بَعْدَ الْأُمِّ بِأَنْ مَاتَتْ، أَوْ لَمْ تَقْبَلْ أَوْ أَسْقَطَتْ حَقَّهَاأَوْ تَزَوَّجَتْ بِأَجْنَبِيٍّ (أُمِّ الْأُمِّ) وَإِنْ عَلَتْ عِنْدَ عَدَمِ أَهْلِيَّةِ الْقُرْبَى (ثُمَّ أُمِّ الْأَبِ وَإِنْ عَلَتْ) بِالشَّرْطِ الْمَذْكُورِ وَأَمَّا أُمُّ أَبِي الْأُمِّ فَتُؤَخَّرُ عَنْ أُمِّ الْأَبِ بَلْ عَنْ الْخَالَةِ أَيْضًا بَحْرٌ (ثُمَّ الْأُخْتِ لِأَبٍ وَأُمٍّ ثُمَّ لِأُمٍّ) لِأَنَّ هَذَا الْحَقَّ لِقَرَابَةِ الْأُمِّ (ثُمَّ) الْأُخْتِ (لِأَبٍ) ثُمَّ بِنْتِ الْأُخْتِ لِأَبَوَيْنِ ثُمَّ لِأُمٍّ ثُمَّ لِأَبٍ (ثُمَّ الْخَالَاتِ كَذَلِكَ) أَيْ لِأَبَوَيْنِ، ثُمَّ لِأُمٍّ ثُمَّ لِأَبٍ، ثُمَّ بِنْتِ الْأُخْتِ لِأَبٍ ثُمَّ بَنَاتِ الْأَخِ (ثُمَّ الْعَمَّاتِ كَذَلِكَ)۔ (شامی : ٣/٥٦٣)

إلَّا أَنْ تَكُونَ مُرْتَدَّةً أَوْ فَاجِرَةً غَيْرَ مَأْمُونَةٍ كَذَا فِي الْكَافِي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 صفر المظفر 1443

پیر، 27 ستمبر، 2021

مکان میں کچن قبلہ رخ رکھنے کا حکم

سوال :

زید مکان تعمیر کروارہا ہے اب کچن بنانے کی باری آئی تو گھر کی مستورات یہ کہتی ہیں کہ کچن بنانا تو قبلہ رخ بنانا اس طرح کہ پکانے والے کا رخ قبلے کی طرف ہو اور یہ کہتے ہیں کہ شریعت کہتی ہے کہ قبلہ رخ ہونا چاہیے۔ تو کیا شریعت میں اس طرح کچن کے تعلق سے کچھ ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں دلیل کے ساتھ وضاحت فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کھانا پکاتے وقت رخ قبلہ کی طرف ہو ایسا کوئی حکم یا ترغیب قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔ نماز کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہے، اسی طرح تلاوت ودعا کے وقت قبلہ رخ ہونا مستحب ہے، اس کے علاوہ اور کسی بھی کام کے لیے قبلہ کی طرف رُخ کرنا ضروری نہیں۔ لہٰذا جو اسے ضروری یا سنت سمجھ رہا ہوتو اسے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے، ہاں اگر کوئی ضروری یا سنت نہ سمجھتے ہوئے کچن کا رُخ قبلہ کی طرف کرلے تو کوئی حرج نہیں۔

قالَ الطِّيبِيُّ : وفِيهِ أنَّ مَن أصَرَّ عَلى أمْرٍ مَندُوبٍ، وجَعَلَهُ عَزْمًا، ولَمْ يَعْمَلْ بِالرُّخْصَةِ فَقَدْ أصابَ مِنهُ الشَّيْطانُ مِنَ الإضْلالِ فَكَيْفَ مَن أصَرَّ عَلى بِدْعَةٍ أوْ مُنْكَرٍ؟ (مرقاۃ المفاتیح : ۲/٧٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 صفر المظفر 1443

اتوار، 26 ستمبر، 2021

آدمی کے تین باپ ہوتے ہیں حدیث کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب درج ذیل حدیث اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب جملے کی تحقیق مطلوب ہے۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تمہارے دنیا میں تین باپ ہیں، ایک وہ جو تمہیں عدم سے وجود میں لایا، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی، اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم سکھایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس نے تمہیں ایک لفظ بھی سکھایا وہ تمہارا اُستاد ہے۔
(المستفتی : جمال حامد سر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور پہلی بات کہ دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں، یہ حدیث نہیں ہے، یہ روایت شیعوں کی کتاب میں ملتی ہے، جس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرکے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

مفتی سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں :
جن دو روایات کے بارے میں آپ نے تحقیق طلب کی ہے تلاش بسیار کے باوجود اس طرح کی کوئی صحیح یا ضعیف روایت نظر سے نہیں گذری، اغلب یہ ہے کہ یہ بعض علماء کے اقوال ہیں، جن پر حدیث کا لیبل لگادیا گیا ہے۔ (کتاب النوازل : ٢/٣١٤)

البتہ سلف صالحین کے اقوال کے مطابق اساتذہ کو مجازاً باپ قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ جس طرح حقیقی والدین آدمی کے جسمانی وجود کا سبب بنتے ہیں اسی طرح اساتذہ آدمی کے روحانی وجود کی سالمیت کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

اور ساس سسر باعتبارِ حرمتِ مؤبدہ مثل حقیقی والدین کے ہوتے ہیں، یعنی والدین کی طرح ان سے بھی پردہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان سے کبھی نکاح جائز ہوتا ہے۔ البتہ وراثت اور نسبت حقیقی میں والدین اور ساس سسر میں فرق ہے۔ یعنی وراثت اور نسب حقیقی والدین سے ہی ملے گا۔ نیز قرآن کریم میں جس طرح سے حقیقی والدین کو انسان کے لیے نعمت کہا گیا ہے، اسی طرح  سسرالی رشتوں کو بھی نعمت شمار کیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَجَعَلَهُ نَسَبًا و صِهْرًا۔ چنانچہ اخلاقاً اور احتراماً ساس سسر کو بھی والدین کا درجہ دیا جائے گا۔

اسی طرح دوسرا قول جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے یہ بھی کسی معتبر کتاب میں نہیں ہے، لہٰذا یہ پوسٹ شیئر کرنا جائز نہیں ہے۔

قال نبينا الاكرم محمد صلى الله عليه واله وسلم: «الآباء ثلاثة: أبٌ ولَّدك، وأبٌ زوَّجك، وأبٌ علّمك».
الغدير في الكتاب والسنّة والأدب «للأميني»
المجلّد: ۱
الصفحة: ٦٥۰
الناشر: مركز الغدير للدراسات الإسلامية.

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 صفر المظفر 1443

ہفتہ، 25 ستمبر، 2021

مادہ منویہ جانچ کے لیے دینے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! بعض امراض میں ڈاکٹر مادہ منویہ کو چیک کرنا ضروری قرار دیتا ہے، اس کے لئے بذریعہ مشت زنی تازہ منی نکال کر چیک اپ کے لئے دینی ہوتی ہے تو کیا شرعاً اس کی گنجائش ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر منی کی جانچ کے بغیر بیماری کی شناخت اور علاج نہ ہوسکے تو منی نکال کر دینا جائز ہوگا، اور اس کی بہتر شکل یہ ہوگی کہ بیوی سے صحبت کے بعد انزال کے وقت عضو باہر نکال کر منی جمع کرلی جائے اور اگر اس طریقہ کار میں جانچ میں کوئی کمی رہ جانے کا اندیشہ ہوتو پھر ایسی صورت میں مجبوراً بیوی کے یا خود کے ہاتھ سے منی نکالنے کی اجازت ہوگی۔

الضرورات تبیح المحظورات۔ (الاشباہ والنظائر :۱۴۰)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 صفر المظفر 1443

بدھ، 22 ستمبر، 2021

نماز کب توڑ سکتے ہیں؟ اور نماز توڑنے کا طریقہ؟

سوال :

مفتی صاحب ! نماز کن وجوہات کی بناء پر توڑی جاسکتی ہے؟ اور نماز توڑنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسی کوئی شدید ضرورت پیش آجائے جس کے نقصان کی تلافی ممکن نہ ہو، مثلاً کوئی پانی میں ڈوب جائے گا یا آگ وغیرہ سے جل جائے گا یا کوئی موذی جانور مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ نقصان پہنچا دے گا یا پھر نماز میں مشغول رہنے سے مخصوص مقدار میں مالی نقصان ہوجائے گا تو ان صورتوں میں نماز توڑنا جائز ہے، بلکہ جانی نقصان کے اندیشہ کی صورت میں نماز توڑ دینا ضروری ہے۔

جن حالتوں میں نماز کی نیت توڑنے کا حکم ہے یا اجازت ہے، اس وقت قیام یا قعدہ کی حالت میں صرف دائیں طرف سلام پھیر کر نماز توڑنا بہتر ہے۔

مالی نقصان کی صورت میں نماز توڑنے سے متعلق ہمارا یہ جواب ملاحظہ فرمائیں :
موبائل چوری کرنے والے کو نماز توڑ کر پکڑنا

(لَا) يُكْرَهُ (قَتْلُ حَيَّةً أَوْ عَقْرَبٍ) إنْ خَافَ الْأَذَى ۔۔۔۔۔ (مُطْلَقًا) وَلَوْ بِعَمَلٍ كَثِيرٍ عَلَى الْأَظْهَرِ، لَكِنْ صَحَّحَ الْحَلَبِيُّ الْفَسَادَ، (قَوْلُهُ لَكِنْ صَحَّحَ الْحَلَبِيُّ الْفَسَادَ) حَيْثُ قَالَ تَبَعًا لِابْنِ الْهُمَامِ: فَالْحَقُّ فِيمَا يَظْهَرُ هُوَ الْفَسَادُ، وَالْأَمْرُ بِالْقَتْلِ لَا يَسْتَلْزِمُ صِحَّةَ الصَّلَاةِ مَعَ وُجُودِهِ كَمَا فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ، بَلْ الْأَمْرُ فِي مِثْلِهِ لِإِبَاحَةِ مُبَاشَرَتِهِ وَإِنْ كَانَ مُفْسِدًا لِلصَّلَاةِ۔ (شامی : ١/٦٥٠)

وفي المحيط يقطعها قائما بتسليمة واحدة وهو الأصح۔ (بنایہ شرح ہدایہ : ٢/٥٦٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 صفر المظفر 1443