ہفتہ، 30 ستمبر، 2023

جنات کو قابو میں کرنے کا مسئلہ

سوال :

جن کو قابو میں کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اور ایسا کرنا کیسا ہے؟ ہمارے شہر کے ایک جید عالم نے کہا کہ یہ سب بکواس ہے جن کو انسان قابو میں نہیں کرسکتا۔ جبکہ دارالعلوم دیوبند کے فتاوی کی ویب سائٹ پر یہ بات ہے کہ کچھ عملیات کی بنا پر جن کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمیں جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جنات آگ سے پیدا کی گئی مخلوق ہیں، جو مختلف شکلیں اختیار کرتی ہیں، ان کی کوئی ایک شکل مخصوص ومتعین نہیں ہے، انسانوں کی طرح جنات بھی شرعی اَحکام کے مکلف ہیں، بعض مؤمن اور نیک، جبکہ بعض کافر اور نافرمان بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے اتنا ہی ضروری ہے کہ ان کے وجود کا اعتقاد رکھیں، اس سے زیادہ تفصیلات اور گہرائی میں جانے کی ہمیں ضرورت نہیں، اور نہ ہم اس کے مکلف ہیں، اور نہ ہی یہ کوئی ایمانیات کا مسئلہ ہے جس پر ایمان رکھنا ضروری ہو۔
 
جنات کو تابع کرنے کے سلسلے میں کچھ تفصیلات حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہیں جو ماشاء اللہ کافی و شافی ہیں، لہٰذا یہاں اسے نقل کیا جارہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جنات کی تسخیر اگر کسی کے لیے بغیر قصد و عمل کے محض منجانب اللہ ہو جائے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام اور بعض صحابہ کرام کے متعلق ثابت ہے تو وہ معجزہ یا کرامت میں داخل ہے اور جو تسخیر عملیات کے ذریعہ کی جاتی ہے اس میں اگر کلمات کفریہ یا اعمال کفریہ ہوں تو کفر، اور صرف معصیت پر مشتمل ہوں تو گناہِ کبیرہ ہے، اور جن عملیات میں ایسے الفاظ استعمال کیے جائیں جن کے معنی معلوم نہیں ان کو بھی فقہاء نے اس بنا پر ناجائز کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کلمات میں کفر و شرک یا معصیت پر مشتمل کلمات ہوں، قاضی بدرالدین نے ”آکام المرجان“ میں ایسے نامعلوم المعنی کلمات کے استعمال کو بھی ناجائز لکھا ہے، اور اگر یہ عمل تسخیر اسماء الہٰیہ یا آیاتِ قرآنیہ کے ذریعہ ہو اور اس میں نجاست وغیرہ کے استعمال جیسی کوئی معصیت بھی نہ ہو تو وہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ مقصود اس سے جنات کی ایذاء سے خود بچنا یا دوسرے مسلمانوں کو بچانا ہو یعنی دفعِ مضرت مقصود ہو، جلب منفعت مقصود نہ ہو کیونکہ اگر اس کو کسبِ مال کا پیشہ بنایا گیا تو اس لیے جائز نہیں کہ اس میں استرقاقِ حر یعنی آزاد کو اپنا غلام بنانا اور بلا حقِ شرعی اس سے بیگار لینا ہے جو حرام ہے۔ (معارف القرآن : ۷/ ۲۶۶)

کسی کے غیرمعمولی صلاح، تقوی اور علمی قابلیت کی وجہ سے بھی جنات اس سے متاثر ہوجاتے ہیں، اور ان کی عقیدت و محبت میں ان سے رابطہ میں رہتے ہیں اور بقدر استطاعت ان کے کام بھی کردیتے ہیں، لہٰذا ایسا کوئی معاملہ ہوتو ان سے جائز کام لینا درست ہے۔ البتہ شریعت کے خلاف کام لینا حرام ہے، مثلاً دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنا، کسی کے مال کو غصب کرنا، کسی کو تنگ کرنا، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، ایسے کاموں میں جنات سے مدد لینا جائز نہیں ہے، بلکہ حرام ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ جنات کی تسخیر، تابع، قبضہ اور قابو میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے جیسا کہ ہم نے کہانیوں میں پڑھ اور سن رکھا ہے کہ جیسے ہی تابع جن کو آواز دی جائے اور وہ "کیا حکم ہے میرے آقا؟" کہتا ہوا سامنے آجائے اور اپنے آقا کے ہر جائز ناجائز آسان اور مشکل حکم کو فوراً بجا لائے۔ بلکہ جنات کی تسخیر کا مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ ان سے رابطہ بن جاتا ہے اور کسی حد تک ان سے کوئی کام ہوجاتا ہے، وہ مکمل طور پر قابو اور قبضے میں نہیں آتے، اور نہ ہی وہ ایسی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں کہ ہر کام کرسکیں، اس لیے کہ ان کی صلاحیتیں اور استطاعت بھی محدود ہوتی ہیں۔ ویسے بھی شرعاً یہ درست نہیں ہوسکتا کہ آپ جن پر قبضہ کر لیں اور جو چاہیں اس سے کام لیں، کیونکہ وہ بھی انسانوں ہی کی طرح اللہ کی ایک مکلف مخلوق ہے، جیسے کسی انسان کو غلام بنانا جائز نہیں اسی طرح کسی جن کو بھی غلام بنانا جائز نہیں ہوسکتا۔

واضح رہے کہ جنات کو قابو میں کرنے کا عمل انتہائی مشکل اور بڑا وقت طلب ہے اور بسا اوقات اس میں جان کا بھی خطرہ رہتا ہے، لہٰذا ایسی چیزوں میں پڑنے سے بچنا ہی چاہیے۔

سوال نامہ میں مذکور عالم صاحب کی بات ایک حد درست ہی ہے، اس لیے کہ جنات کو قبضہ میں کرنے کا دعوی کرنے والے عموماً جھوٹ بولتے ہیں اور دھوکہ دیتے ہیں، تاہم اس کا امکان موجود ہے کہ جنات پر کچھ حد تک قابو کیا جاسکتا ہے جیسا کہ انسان کو مسمریزم اور عمل تنویم کے ذریعہ ایک حد تک تابع کیا جاتا ہے۔

الرقیۃ اذا کانت لغرض مباح بادعیۃ مأثورۃ او آیات قرآنیۃ او بمایشبہہا من الکلمات المنقولۃ من الصلحاء والمشائخ فہی ممالابأس بہا بل یثاب علیہا اذا کانت بما ورد عن النبی ﷺ انہ کان یرقی بہا۔ (احکام القرآن للشیخ ظفر احمد عثمانی، ۵۱/۱، تحقیق السحر وحکمہ،: حکم الرقی والعزائم، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی)

تسخیر وماکان منہا بآیات قرآنیۃ او اسماء الہیۃ وامثالہا الا ان المقصود بہا اضرار مسلم، کالتغریق بین الزوجیں …… او تسخیر مسلم بحیث یصیر مسلوب الاختیار فی الحب او البغض لاحد …… فحرام لکونہ ظلما۔ (احکام القرآن للتھانوی ص:۱۵، ج:۱، حکم الرقی والعزائم، مطبوعہ کراچی، التقی فی احکام الرقی ص:۲۹، فصل ششم، مطبوعہ اشرفیہ دہلی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ربیع الاول 1445

جمعہ، 29 ستمبر، 2023

وتر ادا نہیں کی تو عشاء کا حکم؟


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا وتر چھوڑنے سے عشاء کی نماز ہوجاتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وتر اور عشاء دونوں الگ الگ نمازیں ہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص وتر نہ پڑھے تو اس کی عشاء کی نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا، اس کی عشاء کی نماز ادا ہوجائے گی۔ البتہ نماز وتر واجب ہے جس کا ادا کرنا ضروری ہے، اگر وقت کے اندر ادا نہیں کی گئی تو بعد میں اس کی قضا کرنا ضروری ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
آپ نے یہ جو سنا ہے کہ ”وتر کے بغیر عشاء کی نماز نہیں ہوتی“ اگر مراد اس سے یہ ہے کہ عشاء کی فرض نماز کی صحت وتر پڑھنے پر موقوف ہے تو یہ غلط ہے ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، عشاء کی فرض نماز پہلے ہوتی ہے اور وتر کا وقت فرض نماز کے بعد ہے، وتر کی ادائیگی بھی واجب ہے، اسکا ترک ناجائز اور حرام ہے، پہلے عشاء کی فرض نماز پڑھیں پھر سنت پھر وتر۔ ( رقم الفتوی : 48524)

معلوم ہوا کہ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے کہ اگر کسی نے وتر ادا نہیں کی تو اس کی عشاء کی نماز بھی ادا نہیں ہوتی۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا، الْوِتْرُ حَقٌّ فَمَنْ لَمْ يُوتِرْ فَلَيْسَ مِنَّا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٤١٩)

أنہ سنۃ عند أبي یوسف ومحمد، وعن أبي حنیفۃ فیہ ثلاث روایات : واجب، وسنۃ، وفرض۔ والصحیح أنہ واجب عندہ، ومعناہ أنہ فرض عملا لا اعتقاداً حتی أن جاحدہا لا یکفر۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۳۳۸ رقم : ۲۵۹۵ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 ربیع الاول 1445

بدھ، 27 ستمبر، 2023

شعر و شاعری اور مشاعرے کی شرعی حیثیت


سوال :

کیا فرماتے ہیں مُفتیانِ کرام اس بارے میں کہ
1) عشقِ مجازی پر شعر و شاعری کرنا اور غزلیں بنانا جس میں محبوبہ کی خُوبصورتی، حُسن و جمال، چال چلن، دلکش اداؤں اور نخروں کا حقیقی یا تصوُّراتی ذکر ہو، شرعاً کیسا ہے؟
2) جیسا کہ شُعراءِ کرام کے بارے قرآن کہتا ہے کہ شُعراء، بہکے ہوئے لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں، تو اس زُمرے میں کون کون سے شُعراءِ کرام آتے ہیں؟
3) باقاعدہ اعلان و تشہیر کے ذریعے عشقِ مجازی پر مبنی مُشاعرہ کروانا اور اُس میں بیرون شہر کے شُعراء و شاعرات کو بُلواکر پروگرام آرگنائز کرنا، کیا شریعت میں اس کے لئے کہیں وُسعت ہے؟
4) کیا عشقِ مجازی پر مبنی مُشاعرہ زمانہ جاہلیت کے قدیم بے ہودہ شعر و شاعری پر مبنی اُن جلسوں کے مُترادف تو نہیں جو ہَوس پرستی کو ہَوا دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد زوال پذیر ہُوئے؟ اِن سوالوں کے مُفصّل جوابات مطلوب ہیں۔
(المستفتی : کامران حسَّان انصاری، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عشقِ مجازی پرشعر و شاعری کرنا، جس میں صنف نازک کی خُوبصورتی، حُسن و جمال، اداؤں کا ذکر ہو، شرعاً جائز نہیں ہے ۔

2) وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ۔
اس آیت میں شعر کے اصطلاحی اورمعروف معنی ہی مراد ہیں۔ یعنی موزوں و مقفّٰی کلام کہنے والے، اس کی تائید فتح الباری کی روایت سے ہوتی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحة، حسان بن ثابت اور کعب بن مالک جو شعراء صحابہ میں مشہور ہیں روتے ہوئے سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ خدائے ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور ہم بھی شعر کہتے ہیں،حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آیت کے آخری حصہ کو پڑھو۔ مقصد یہ تھا کہ تمہارے اشعار بیہودہ اور غلط مقصد کے لئے نہیں ہوتے اس لئے تم اس استثناء میں داخل ہو جو آخر آیت میں مذکور ہے اس لئے مفسرین نے فرمایا کہ ابتدائی آیت میں مشرکین شعراء مراد ہیں کیونکہ گمراہ لوگ سرکش شیطان اور نافرمان جن ان ہی کے اشعار کی اتباع کرتے تھے اور روایت کرتے تھے۔

آیات مذکورہ کے شروع سے شعر و شاعری کی سخت مذمت اور اس کا عنداللہ مبغوض ہونا معلوم ہوتا ہے مگر آخر سورت میں جو استثناء مذکور ہے اس سے ثابت ہوا کہ شعر مطلقاً برا نہیں بلکہ جب جس شعر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی یا اللہ کے ذکر سے روکنا یا جھوٹ ناحق کسی انسان کی مذمت اور توہین ہو یا فحش کلام اور فواحش کے لئے محرک ہو وہ مذموم و مکروہ ہے اور جو اشعار ان معاصی اور مکروہات سے پاک ہوں ان کو اللہ تعالیٰ نے اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ الآیتہ کے ذریعہ مستثنی فرما دیا ہے، اور بعض اشعار تو حکیمانہ مضامین اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اطاعت وثواب میں داخل ہیں جیسا کہ حضرت ابی بن کعب کی روایت ہے کہ ان من الشعر حکمۃ، یعنی بعض شعر حکمت ہوتے ہیں (رواہ البخاری) حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ حکمت سے مراد سچی بات ہے جو حق کے مطابق ہو۔ ابن بطال نے فرمایا جس شعر میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس کا ذکر، اسلام سے الفت کا بیان ہو وہ شعر مرغوب و محمود ہے اور حدیث مذکور میں ایسا ہی شعر مراد ہے، اور جس شعر میں جھوٹ اور فحش بیان ہو وہ مذموم ہے۔ (فتح الباری/معارف القرآن)

3) اس قسم کے مشاعروں کا انعقاد کی شریعت میں بالکل بھی گنجائش نہیں ہے، اس قسم کے مشاعروں کا انعقاد کرنے والے تعاون علی المعصیت کے مرتکب ہوں گے۔

4) مروجہ مشاعروں میں اگر بے پردگی ہو، عورتوں کے حسن و اداؤں پر شاعری کی جاتی ہو تو بلاشبہ دونوں میں موافقت ہے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ : وَالشُّعْرَآئُ یَتَّبِعُہُمُ الْغٰوٗوْنَ۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَہِیْمُوْنَ۔ (الشعراء، آیت : ۲۲۴-۲۲۵)

وقال علي بن أبي طلحۃ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: أکثر قولہم یکذبون فیہ، وہٰذا الذي قالہ ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ ہو الواقع في نفس الأمر۔ فإن الشعراء یتبجّحون بأقوال وأفعال لم تصدر منہم، ولا عنہم فیتکثرون بما لیس لہم۔ (تفسیر ابن کثیر ۶؍۱۵۷ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

قال اللّٰہ تعالیٰ: وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۔ (المائدۃ، آیت : ٠٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی الحجہ 1439

منگل، 26 ستمبر، 2023

جذامی سے متعلق احادیث کا حقیقی مفہوم

سوال :

1) سیدنا شرید بن سوید ثقفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بنو ثقیف میں سے ایک کوڑھ زدہ آدمی آیا تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیعت کرے، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک جذام زدہ آدمی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے، آپ نے فرمایا: تم اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ میں نے اس کی بیعت قبول کرلی ہے، وہ وہیں سے واپس چلا جائے۔
2) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالا کرو۔
3) ۔ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہئے۔
ذکر کردہ احادیث کی تحقیق مطلوب ہے۔ اگر صحیح ہو تو کچھ تشریح بھی فرما دیں۔ عوام میں یہ بات مشہور ہیکہ جذام. زدہ مریضوں کو کھانا پینا نیزہ میں لگا کر دینا /نیزہ کے فاصلہ سے دینا چاہیے۔
(المستفتی : عامرملک، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جذامی سے متعلق ارسال کردہ روایات ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں اور درست ہیں، ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جذامی کی صحبت و ہم نشینی سے اجتناب و پرہیز کرنا چاہئے، جبکہ وہ احادیث ان کے برعکس ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ (1)

ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں بالکل متضاد ہیں، اس تضاد کو دور کرنے کے لئے اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء کے متعدد اقوال منقول ہیں۔

حضرت شیخ ابن عسقلانی نے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ احادیث کے اس باہمی تضاد کو دور کرنے کے لئے سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جن احادیث میں عدویٰ یعنی چھوت کی نفی کی گئی ہے ان کا حکم اپنے عموم و اطلاق کے ساتھ قائم و باقی ہے اور ان لوگوں کی مخالطت و مجالست جو جذام جیسے امراض میں مبتلا ہوں ان کی بیماری لگنے کا سبب ہرگز نہیں ہوتا اور جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو جذامی سے اجتناب و پرہیز کو ظاہر کرتی ہیں تو ان کا مقصد محض اوہام و وساوس کا سدباب ہے کہ کوئی شخص شرک کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔

اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اختیار کی، یعنی ان کے ساتھ اٹھا بیٹھا اور ان کے ساتھ ملنا جلنا جاری رکھا اور پھر اسی دوران اللہ کا یہ حکم ہوا کہ وہ شخص بھی جذام میں مبتلا ہوگیا تو بعیدنہیں کہ وہ اس وہم و اعتقاد میں مبتلا ہو جائے کہ میں اس جذامی کی مخالطت و مجالست ہی کی وجہ سے اس مرض میں گرفتار ہوا ہوں، لہٰذا آپ ﷺ نے لوگوں کو اس وہم و اعتقاد سے بچانے کے لئے جو کفر و شرک کی حد تک پہنچاتا ہے، جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم دیا، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود اپنی ذات کو حکم سے مستثنیٰ رکھا کیونکہ آپ توکل واعتقاد علی اللہ کے اعلی مرتبہ پر فائز تھے اس کی بنا پر مذکورہ وہم وگمان میں آپ ﷺ کے مبتلا ہونے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، چنانچہ ایک دن آپ ﷺ ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لائے اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ (2)

حاصل یہ کہ جذامی سے اجتناب وپرہیز کرنے کا حکم اس شخص کے لئے ہے جو اپنے صدق و یقین کی طاقت نہ رکھے اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ کسی جذامی کی مخالطت ومجالست کے دوران خود اس مرض میں مبتلا ہو گیا تو اس وہم و اعتقاد کا شکار ہو کر شرک خفی کے گرداب میں پھنس جائے گا، اور جس شخص کا یقین و ایمان پختہ ہو اس شخص کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اسی طرح حدیث شریف میں نیزہ کی دوری کا لفظ تشبیہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جس سے مراد اجتناب و پرہیز ہی ہے، حقیقی معنی مراد نہیں ہیں۔

1) و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ۔(مسلم)

2) حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ وَمُجَاهِدُ بْنُ مُوسَی وَمُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ رَجُلٍ مَجْذُومٍ فَأَدْخَلَهَا مَعَهُ فِي الْقَصْعَةِ ثُمَّ قَالَ کُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَکُّلًا عَلَی اللَّهِ۔ (ابن ماجہ)
مستفاد : مشکوٰۃ المصابیح مترجم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی القعدہ 1439

پیر، 25 ستمبر، 2023

علماء یا پیر صاحب کی تصویر موبائل کی اسکرین پر رکھنا


سوال :

مفتی صاحب کسے نامور عالم یا اپنے پیر کی تصویر موبائل کی اسکرین یا ڈی پی پر رکھنا کیسا ہے؟ اگر ان علماء کرام اور پیر حضرات کو اس کا علم ہوتو انہیں اپنے مریدین کو ان باتوں کی تنبیہ نہیں کرنا چاہیے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عاصم، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی عالم یا پیر صاحب کی عقیدت اور محبت میں ان کی تصویر موبائل کی اسکرین یا سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ کے پروفائل پر رکھنا بلاشبہ لایعنی اور غلو ہے۔ اور اس میں کسی نہ کسی درجہ میں وہی بدعقیدگی کا شائبہ ہے جو سابقہ امتوں میں تھی کہ وہ اپنے وقت کے انبیاء اور اولیاء کرام کی وفات کے بعد ان کی محبت میں ان کے مجسمے بنالیا کرتے تھے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام شخصیت پرستی سے منع کرتا ہے، کیونکہ یہ شرک کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ شرک کی ابتداء اسی فعل سے ہوئی کہ لوگوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر پہلے تو اپنے نیک اور بزرگ لوگوں کی تصویریں بنائیں، پھر انہیں مجسمے کی شکل دی اور پھر ان کی پوجا پاٹ کرنا شروع کر دی۔ لہٰذا علماء کرام اور پیر صاحبان کی تصویریں لینے اور انہیں موبائل کی اسکرین اور ڈی پی وغیرہ پر رکھنے سے بچنا چاہیے، اصل محبت اور عقیدت یہ ہے کہ ان کی بتائی ہوئی اچھی باتوں پر عمل کیا جائے اور غلط باتوں سے اجتناب کیا جائے۔ اگر ان علماء کرام اور پیر صاحبان کو اس بات کا علم ہوتو انہیں اپنے معتقدین اور مریدین کو ضرور اس سے منع کرنا چاہیے، اور اگر خدانخواستہ وہ بھی اس کی تائید میں ہیں تو ان پر بھی یہی حکم لاگو ہوگا جو ان کے معتقدین اور مریدین پر لگے گا۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ۔ (سنن الترمذي، رقم : ۲۲۱۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ربیع الاول 1445

اتوار، 24 ستمبر، 2023

١٣ ربیع الاول کے جلوس والوں سے درخواست


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

محترم قارئین ! جیسا کہ ہم سب کو بخوبی اس بات کا علم ہے کہ ہمارے شہر میں ١٢ ربیع الاول کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر ایک مخصوص طبقہ کی طرف سے جلوس نکالا جاتا ہے۔ لیکن امسال ہندوؤں کے تہوار گنیش چترتھی کی رعایت میں یہ جلوس ١٢ ربیع الاول بروز جمعرات کے بجائے ١٣ ربیع الاول بروز جمعہ کو نکالا جائے گا۔ اور اس بات کا بھی عوام الناس کو علم ہے کہ ہمیں اس مسئلے میں ان سے سخت علمی اختلاف ہے۔ لیکن ہمیں جو بات یہاں عرض کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ایک خدا کی عبادت کرنے والے مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ نے جب سینکڑوں معبودوں کی پوجا کرنے والوں کی رعایت میں اپنے ایک انتہائی اہم جلوس کی تاریخ آگے بڑھا سکتے ہیں تو ایک خدا، ایک رسول کی اطاعت کرنے والے مسلمانوں کے دوسرے طبقہ کے لیے کیا اتنی رعایت کرسکتے ہیں کہ جب جمعہ کے دن ان کا جلوس نکلے اور عین جمعہ کے وقت دسیوں مساجد کے پاس سے گزرے تو ان کے جلوس کے ڈی جے، لاؤڈ-اسپیکر اور شور وغل کی آواز بند ہوجائے یا اتنی کم ہوجائے کہ مساجد میں قرآن کی تلاوت، وعظ ونصیحت اور نماز میں مشغول مسلمانوں کو شدید خلل نہ ہو، بقیہ دنوں میں تو یہ خلل کسی حد تک برداشت ہوجاتا ہے، کیونکہ عام دنوں میں پہلے سے مسجد آکر نفل نماز، تلاوت، ذکر کرنے والوں کی کوئی قابل ذکر تعداد نہیں ہوتی، وعظ ونصیحت کا سلسلہ بھی نہیں ہوتا، اور نہ ہی ظہر کی نماز جہری قرأت ہوتی ہے۔ لیکن جمعہ کے دن ہمارے یہاں بہت سی مساجد میں سوا بارہ بجے سے ہی وعظ وبیان کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اور اس سے پہلے ہی بہت سے لوگ مسجدوں میں آکر نفل نمازوں، صلوۃ التسبیح، سورہ کہف وغیرہ کی تلاوت اور ذکر واذکار میں مشغول ہوجاتے ہیں، اور جمعہ کی نماز میں جہری قرأت بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا جلوس والے مخصوص طبقہ کے جید مفتیان کرام سے درخواست ہے کہ وہ اس مسئلہ پر غور فرمائیں اور قرآن وسنت، اقوال فقہاء کی روشنی میں یہ بیان فرمائیں کہ اگر کچھ مسلمان نفل نماز، ذکر اذکار، تلاوت، وعظ ونصیحت بلکہ نماز جمعہ جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی میں مشغول ہوں تو وہاں انتہائی تیز آواز میں نعتیں بجانا کیسا ہے؟ کیونکہ ہم نے تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمانِ عالیشان پڑھا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور علامہ شامی رحمہ اللہ (جو آپ کے یہاں بھی معتبر فقیہ ہیں) نے ذکر جہری کی شرط یہ لکھی ہے کہ تیز آواز سے ذکر کی وجہ سے نماز پڑھنے والے، تلاوت کرنے والے یہاں تک کہ سونے والے کو بھی خلل نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ کے ذکر اقدس کے لیے یہ شرط ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت مبارک پر کیا شرط ہوگی؟ امید ہے کہ ١٣ ربیع الاول بروز جمعہ کے جلوس کی انتظامیہ اور شرکاء اس اہم شرعی مسئلہ پر توجہ فرمائیں گے اور مسلمانوں کو اس شدید خلل سے محفوظ فرمائیں گے۔ ورنہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ کون لوگ سب سے سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی خاص صفت اشداء علی الکفار اور رحماء بینھم سے عاری ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچا پکا عاشق رسول بنائے۔ آمین