ہفتہ، 17 فروری، 2024

نشہ کی حالت میں کفریہ کلمہ کہہ دے تو؟


سوال :

مفتی محترم ! عرض تحریر یہ ہیکہ ایان کو شراب نوشی کی عادت ہے۔ اکثر و بیشتر نشہ میں رہتا ہے اور کئی سالوں سے۔ اب صورتحال یہ ہیکہ بھرپور نشہ کرکے بھی جلدی نشے میں دھت نہیں ہوتا اور بات چیت وغیرہ کرتا رہتا ہے۔ معاملہ یہ ہیکہ متعدد اوقات ایسا ہوا کے ایان نشہ کی حالت میں معاذ اللہ ثم معاذ اللہ اللہ پاک کو گالیاں دیوے اور کہے کے اللہ پاک نے مجھے شرابی کیوں بنایا؟ اور بڑی بڑی باتیں کرے واقعات وغیرہ۔ ایک دفعہ نشہ کی حالت میں ایک واقعہ بتاتے ہوئے ایان نے معاذ للہ موسی علیہ السلام کو بھی گالی دیا۔ نشہ اترنے کے بعد کہتا ہیکہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ تو کیا ایان کے ایسا کرنے سے کفر صادر ہوگیا یا نہیں؟ کیا اسے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا لازمی ہے یا دونوں چیزیں اپنی اصل حالت میں باقی رہ جاتی ہیں؟ مہربانی کر کے آپ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حارث، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شراب پینا تمام برائیوں کی جڑ ہے، جس کے پینے کے بعد آدمی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ کیا کر بیٹھے؟ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے اسے ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً ایان نے نشہ کی حالت میں معاذ اللہ سوال نامہ میں مذکور باتیں کہی ہیں، اور ہوش میں آنے کے بعد اس کا انکار کررہا ہے تو اس پر کفر کا حکم لاگو نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا نکاح ٹوٹے گا۔ البتہ آئندہ اس کے لیے نشہ سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

فَإِنْ ارْتَدَّ حَالَ الْجُنُونِ لَمْ تَصِحَّ، وَإِنْ ارْتَدَّ حَالَ إفَاقَتِهِ صَحَّتْ وَكَذَا لَا تَصِحُّ رِدَّةُ السَّكْرَانِ الذَّاهِبِ الْعَقْلَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٥٣)

(قَوْلُهُ وَسَكْرَانُ) أَيْ وَلَوْ مِنْ مُحَرَّمٍ لِمَا فِي إحْكَامَاتِ الْأَشْبَاهِ أَنَّ السَّكْرَانَ مِنْ مُحَرَّمٍ كَالصَّاحِي إلَّا فِي ثَلَاثٍ: الرِّدَّةُ، وَالْإِقْرَارُ بِالْحُدُودِ الْخَالِصَةِ، وَالْإِشْهَادُ عَلَى شَهَادَةِ نَفْسِهِ إلَخْ۔ (شامی : ٤/٢٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شعبان المعظم 1445

جمعہ، 16 فروری، 2024

بندوق سے کیے گئے شکار کا حکم


سوال :

مفتی صاحب ! اکثر لوگ پرندوں کا شکار بندوق سے کرتے ہیں، گولی لگنے کے بعد پرندے ذبح کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گولی مارنے سے پہلے اگر بسم اللہ...... پڑھ لیں اور گولی سے پرندہ مر جائے تو وہ بھی حلال رہے گا۔ ذبح نہیں بھی کیا اور وہ گولی سے مرگیا تو حلال رہے گا۔کیا یہ بات صحیح ہے؟
(المستفتی : شمیم سر، دھولیہ)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بندوق کے ذریعے کیے ہوئے شکار میں شرعاً کچھ تفصیل ہے اور وہ درج ذیل ہے :

گولی کی دو قسمیں ہیں :

گولی کی پہلی قسم : جو محدد اور نوک دار نہ ہو، جیسے پستول کی گولی ہو یا گول چھرے والا کارتوس، اس سے کئے ہوئے شکار کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے، بعض علماء کرام نے اسے حلال کہا ہے، لیکن جمہور احناف کا قول یہ ہے کہ اس سے کیا ہوا شکار حلال نہیں، لہٰذا جب تک شرعی طریقہ سے اس کو ذبح نہ کیا جائے، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

گولی کی دوسری قسم : جو محدد اور نوک دار ہو، جیسے کلاشنکوف، جی تھری اور تھری ناٹ تھری وغیرہ کی گولی یا نوک دار چھرے والا کارتوس، اس میں چونکہ زخم کھولنے اور "خزق" یعنی چھید کر پار ہونے کی صلاحیت موجود ہے، لہٰذا یہ بھی آلات جارحہ میں داخل ہو کر، اس کا حکم تیر ہی کا حکم ہے اور اس سے کیا ہوا شکار بالاتفاق حلال ہے، یعنی اگر
"بسم اللہ" پڑھ کر چھوڑی جائے اور شکاری کے پہنچنے سے پہلے جانور اس کے ذریعے مر جائے، تو وہ حلال ہوگا۔

قَالَ قَاضِي خَانْ : لَا يَحِلُّ صَيْدُ الْبُنْدُقَةِ وَالْحَجَرِ وَالْمِعْرَاضِ وَالْعَصَا وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَإِنْ جَرَحَ؛ لِأَنَّهُ لَا يَخْرِقُ إلَّا أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ قَدْ حَدَّدَهُ وَطُولُهُ كَالسَّهْمِ وَأَمْكَنَ أَنْ يَرْمِيَ بِهِ؛ فَإِنْ كَانَ كَذَلِكَ وَخَرَقَهُ بِحَدِّهِ حَلَّ أَكْلُهُ، فَأَمَّا الْجُرْحُ الَّذِي يُدَقُّ فِي الْبَاطِنِ وَلَا يَخْرِقُ فِي الظَّاهِرِ لَا يَحِلُّ لِأَنَّهُ لَا يَحْصُلُ بِهِ إنْهَارُ الدَّمِ؛ وَمُثَقَّلُ الْحَدِيدِ وَغَيْرِ الْحَدِيدِ سَوَاءٌ، إنْ خَزَقَ حَلَّ وَإِلَّا فَلَا اهـ۔ (شامی : ٦/٤١٧)
مستفاد : فتوی دارالعلوم کراچی، رقم الفتوی : 49/1549)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 شعبان المعظم 1445

بدھ، 14 فروری، 2024

نماز کی قبولیت کی علامت؟


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک بات جاننا چاہتا ہوں ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی توفیق ہو یہ پہلی نماز کی قبولیت ہے کیا یہ قران و حدیث سے ثابت ہے یا بزرگان دین کی بات ہے یا ملفوظات میں سے ہے رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دنیا میں نیک اعمال بشمول نماز کی قبولیت کا یقینی علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی شریعت نے ہمیں اس کا مکلف بنایا ہے کہ ہم اس کی تحقیق میں پڑیں۔ البتہ علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں چند شرط ذکر فرمائی ہیں جن کا خیال رکھنے سے اعمال کی قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے۔ وہ شرائط درجِ ذیل ہیں :

ایمان : عمل کی قبولیت کی سب سے پہلی شرط ایمان اور تصحیحِ عقیدہ ہے۔ ایمان کے بغیر غلط عقیدے کے ساتھ کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں۔

تصحیحِ نیت اور اخلاص : یعنی جو بھی عمل کیا جائے، خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کی نیت سے ہو۔ اس میں ریا، تکبر وغیرہ نفسانی اغراض شامل نہ ہوں۔

عمل کا شریعت اور سنت کے موافق ہونا : جو بھی عمل کرے، اس کا سنت اور شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ خلافِ سنت اور خلافِ شریعت عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں۔ (مستفاد : معارف القرآن)

ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی توفیق ہونا پہلی نماز کی قبولیت کی علامت ہے، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے، لہٰذا اسے حدیث کہہ کر بیان کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ "ایک نیک عمل کے بعد دوبارہ اسی نیک عمل کی توفیق ہوجانا پہلے عمل کی قبولیت کی علامت ہے" یہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ (اصلاحی مجالس : ١٥/٣١٤، از : حضرت مفتی محمدتقی عثمانی صاحب)

لہٰذا اسے حضرت حاجی صاحب کا ملفوظ کہہ کر بیان کرنے میں حرج نہیں، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو نیک عمل کرتے ہوئے مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ عمل قبول ہوگا یا نہیں؟ اور اس وجہ سے عمل چھوڑنا نہیں چاہیے۔ نیک عمل کے بعد دوبارہ اس کی توفیق ملنا یہ امید دلاتا ہے کہ پہلا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوگیا۔ لہٰذا انسان کو نیک اعمال جاری رکھنے چاہیے، اور جو کمی بیشی ہو اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے۔ کیا پتہ اللہ تعالیٰ کو انسان کا کونسا عمل پسند آجائے؟ اور بیڑہ پار ہوجائے۔ اس قول کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اعمال کی قبولیت کی جو بنیادی شرائط ہیں ان کو نظر انداز کیا جائے، ان شرائط کا لحاظ رکھنا بہر حال ضروری ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ اگر کسی نیک عمل کے بعد دوبارہ اس عمل کی توفیق نہیں ہوئی تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پہلا عمل قبول ہی نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا ہو۔ انسان کو بس اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پر اعمال کرکے نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہیے، زیادہ باریکیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ شریعت نے نماز کی قبولیت کے لیے کچھ معیار، شرائط اور آداب ذکر کیے ہیں، مثلا : وضو کرنا، نیت کا درست ہونا، نماز کے فرائض و واجبات اور سنتوں کا اہتمام کرنا وغیرہ۔ اگر ان چیزوں کی رعایت کرکے نماز ادا کر لی گئی تو اللہ تعالی کی طرف سے قبولیت کی امید رکھنی چاہیے۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ١٤٣)

﴿وَمَا كَانَ اللَّه لِيُضِيعَ إيمَانكُمْ﴾ أَيْ صَلَاتكُمْ إلَى بَيْت الْمَقْدِس بَلْ يُثِيبكُمْ عَلَيْهِ لِأَنَّ سَبَب نُزُولهَا السُّؤَال عَمَّنْ مَاتَ قَبْل التحويل ﴿إن الله بالناس﴾ المؤمنين ﴿لرؤوف رَحِيم﴾ فِي عَدَم إضَاعَة أَعْمَالهمْ وَالرَّأْفَة شِدَّة الرَّحْمَة وَقَدَّمَ الْأَبْلَغ لِلْفَاصِلَةِ۔ (تفسیر جلالین : ١/٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 شعبان المعظم 1445

پیر، 12 فروری، 2024

بدلی چلانے والے مزدور کا ایکسٹرا لینا


سوال :

مفتی صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔ سوال عرض ہے کہ کارخانے میں بدلی چلانے والا کاریگر مزدوری کے علاوہ سو، دیڑھ سو روپیہ زیادہ لیتا ہے سیٹھ سے، کیا یہ لینا جائز ہے؟ جبکہ لینے اور دینے والوں کو پتہ ہے کی بدلی چلانے والے کو ایکسٹرا پیسہ ملتا ہے۔
(المستفتی : ثاقب، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی کام کرنے والے کو اپنی اجرت بتانے کا اختیار ہوتا ہے۔ اب اگر کام کروانے والا اسے قبول کرلیتا ہے تو کام مکمل ہونے کے بعد کاریگر اس اجرت کا حقدار ہوتا ہے۔

مثلاً کسی مشین کے میکانک کے پاس اگر ہم کوئی خراب مشین لے جائیں اور اسے کہیں کہ اسے درست کردے تو وہ کہے گا کہ اس کی اتنی اتنی اجرت لگے گی۔ اب مشین والے کو اتنے میں کام کروانے کی استطاعت ہو اور وہ اسے مناسب سمجھتا ہے تو قبول کرلیتا ہے، ورنہ دوسری طرف چلا جاتا ہے۔

یہی معاملہ بدلی چلانے والوں کا بھی ہے۔ یعنی بدلی چلانے والا اپنی اجرت بتادیتا ہے یا پھر عُرف کی وجہ سے یہ بات بدلی چلانے والے کاریگر اور پاولوم مالک کے ذہن میں رہتی ہے کہ اس کی اجرت میٹر کے حساب کے ساتھ مزید سو یا دیڑھ سو روپیہ ہوگی۔ گویا یہ معاملہ سیٹھ اور بدلی چلانے والے کی باہمی رضا مندی سے طے ہوجاتا ہے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

ہاں اگر کسی پاور لوم مالک کو ایکسٹرا نہیں دینا ہے تو وہ پہلے ہی کاریگر سے کہہ دے کہ میں صرف میٹر کے حساب سے فلاں فلاں اجرت دوں گا، ایکسٹرا کچھ نہیں دوں گا، تو اب کاریگر اسے قبول کرلیتا ہے تو پھر اسے میٹر کے حساب سے طے شدہ اجرت ملے گی، اس صورت میں مزدور کو ایکسٹرا مانگنے کا حق نہیں ہے۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٣٥٢)

اَلْمَعْرُوْفُ عُرْفاً کَالْمَشْرُوْطِ شَرْطاً۔ (درر الحکام : ۱/۵۱، المادۃ :۴۳، قواعد الفقہ :ص۱۲۵، القاعدۃ:۳۳۴ ، شرح القواعد:ص۲۳۷، جمہرۃ القواعد : ۲/۹۳۵، القاعدۃ:۲۲۶۳، القواعد الکلیۃ : ص۲۵۰ ، البحر الرائق:۸/۳۷۱ ، شرح السیر :۵/۲۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 شعبان المعظم 1445

پیر، 5 فروری، 2024

بریلویوں کا ایک دیوبندی پر تشدد

                  تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! کل ہی ہم نے ایک بریلوی عالم مفتی سلمان ازہری کی بے جا گرفتاری پر ایک مذمتی اور دعوت فکر وعمل دینے والا مضمون لکھا تھا، جس میں مسلکی اختلافات کے ساتھ اتحاد اور بحیثیت مسلمان ایک دوسرے پر آنے مسائل کو مل کر حل کرنے کی بات لکھی تھی۔

لیکن آج صبح سے ایک ویڈیو وائرل ہے، جس میں ناسک شہر کے چند نوجوان جو اپنے آپ کو سنی بریلوی بتا رہے ہیں، ایک دیوبندی پر تشدد کرتے ہوئے اسے مسلک اعلی حضرت زندہ باد کا نعرہ لگانے اور دیوبندی مسلک اور اس کے علماء کے خلاف انتہائی نازیبا غیراخلاقی باتیں کہنے پر مجبور کررہے ہیں۔

معلوم ہونا چاہیے کہ ناسک میں اس طرح کے تشدد کے واقعات معمولات میں داخل ہیں، لیکن موجودہ حالات میں جبکہ بحیثیت مسلمان پوری قوم پر حالات آئے ہوئے ہیں، دشمن بحیثیت مسلمان ہم سب کی تاک میں لگا ہوا ہے، ایسے سنگین دور میں مسلک کے نام پر دوسرے مسلک کے پیروکار مسلمانوں پر تشدد کرنا انتہائی گھٹیا اور گری ہوئی حرکت ہے۔ ہم ایسے لوگوں کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ان کے علماء کو اس پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی دعوت دیتے ہیں کہ آپ کے نوجوان کہاں جارہے ہیں؟ ان کی خبر لیں۔ کہیں آپ کے زہریلے بیانات تو اس تشدد کا سبب نہیں ہیں؟ یہ ساری حرکتیں تو آر ایس ایس جیسی شرپسند تنظیموں کے کارکنان کرتے ہیں، وہ مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر مار مار کر اپنے من مانے نعرے لگواتے ہیں، تو اپنے آپ کو سنی بریلوی اور اعلی حضرت کے مسلک کا پیروکار کہنے والے نوجوان کہاں سے تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ کیوں کہ اس طرح کی تعلیمات تو معاذ اللہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، صحابہ اور سلف صالحین کی بالکل بھی نہیں رہی ہے۔ اور جہاں تک ہمارا علم ہے ان کے اعلی حضرت احمد رضا خان کی بھی یہ تعلیمات نہیں ہوسکتی۔ تو پھر یہ نوجوان کہاں جارہے ہیں؟ ان کا آئیڈیل آر ایس ایس جیسی شرپسند تنظیمیں تو نہیں ہیں؟

جبکہ ہمارے نوجوان کبھی اس طرح کا تشدد کرتے ہوئے آپ کو نہیں ملیں گے، کیونکہ ہم تو اس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے امتی ہیں جس نے پتھر کھاکر بھی دعائیں دی ہے، اور ہمارے اسلاف نے بھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ

ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں

اللہ تعالیٰ ایسے مسلکی غنڈوں کو ہدایت عطا فرمائے، اگر ہدایت مقدر نہ ہوتو انہیں عبرت کا نشان بنادے۔ آمین یا رب العالمین

اتوار، 4 فروری، 2024

مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری

         شادی مکن کہ فردا ہمیں ماجرا رود

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی
       (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! وطنِ عزیز ہندوستان میں گذشتہ چند سالوں سے مسلمانوں پر حالات دن بدن سخت ہوتے جارہے ہیں۔ بے بنیاد الزامات پر عام مسلمانوں سمیت بڑے بڑے علماء پر بھی گرفتاری اور جیل جانے کی نوبت آرہی ہے۔

فی الحال معاملہ یہ ہے کہ بریلوی مسلک کے ایک عالم دین "مفتی سلمان ازہری" نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہے "کچھ دیر کی خاموشی ہے پھر شور آئے گا، ابھی کتوں کا وقت ہے ہمارا بھی دور آئے گا" ان جملوں کو بنیاد بناکر شرپسندوں نے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کردیا اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کو ایسا کہا ہے، جس کی وجہ سے انہیں آج گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ جبکہ ان کے بیان میں کہیں بھی "ہندو" لفظ نہیں ہے۔ اگر یہ بیان غیرقانونی اور دہشت گردی ہے تو مسلمانوں کے خلاف نام بنام ایسے بیانات سے تو سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے، ان پر کارروائی کیوں نہیں ہورہی ہے؟ اس طرح کی کارروائی صرف مسلمانوں کے خلاف کیوں ہوتی ہے؟ چنانچہ ہمیں مفتی سلمان کی گرفتاری پر سخت غم وغصہ ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد ان کی باعزت رہائی فرمائے۔ آمین۔ اور ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں، معمولی معمولی باتوں پر مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء کو اس طرح گرفتار کرلینا انتہائی تشویشناک اور ہندوستان کی پُر امن فضا کے لیے بڑا نقصان دہ ہے۔ اور ہم اتنے کم ظرف نہیں ہیں کہ مسلمانوں کے ہی ایک طبقہ پر غیروں کی طرف سے یلغار ہو اور ہم خوشیاں منائیں۔ یہ بات نہ ہمیں ہمارا مذہب سکھاتا ہے اور نہ ہی ہمارے اسلاف نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے۔

اس موقع پر ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کسی بھی مسلک پر دہشت گردی جیسا انتہائی بے بنیاد الزام لگاکر اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو بڑا محب وطن سمجھا جائے گا، آپ محفوظ ہوجائیں گے اور آپ کو سر پر بٹھایا جائے تو آپ بہت بڑے دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ کفر تو تب تک آپ سے خوش نہیں ہوگا جب آپ اپنا مذہب چھوڑ کر ان کے مذہب کو نہ اپنا لیں۔

اسی طرح اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا مکافاتِ عمل بھی ہے، بہت سے اعمال کا بدلہ یہیں بھگتنا پڑتا ہے، اس لیے ڈاکٹر ذاکر نائک پر دہشت گردی کا الزام لگاکر ہندوستان سے باہر کرکے خوشی منانے والوں کو ہمیشہ یہ شعر فارسی شعر یاد رکھنا چاہیے کہ
اے دوست بر جنازہ دشمن چوں بگذری
شادی مکن کہ فردا ہمیں ماجرہ رود

اے دوست جب دشمن کا جنازہ تیرے پاس سے گزرے تو خوشی مت منا۔ اس لیے کہ کل یہی دن تجھے بھی دیکھنا ہے۔

لہٰذا ہمیں اپنے مسلکی اختلاف کے باوجود بحیثیت ایک قوم متحد ہونا پڑے گا، ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرکے اس کا مداوا کرنے کی کوشش اور جدوجہد کرنی پڑے گی، تب ہی ہم ہندوستان میں باعزت طریقے پر رہ سکتے ہیں، ورنہ انتشار کی صورت میں سوائے نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا، ایسے ہی موقع کے لیے کسی شاعر نے کہا ہے کہ :
متّحد ہو تو بدل ڈالو نظامِ گُلشن
منتشر ہو تو مرو، شور مچاتے کیوں ہو؟

اللہ تعالیٰ ہم سب کو بحیثیت مسلمان متحد ہونے اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے اور اس کی برکتوں کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور مسلمانوں پر آئے ہوئے حالات کے ختم ہونے کے فیصلے فرمائے۔ آمین

حضرت علی کا حضرت جبریل کو تلاش کرنے والے واقعہ کی تحقیق


سوال :

مفتی محترم امید ہے آپ بخیر و عافیت ہونگے۔
تحریر کی وجہ ایک واقعہ کی تصدیق کرنی ہے۔ واقعہ ذیل میں ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور عرض کیا کے "علی،  محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کے آپ علم کا دروازہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو بتاؤ اسوقت جبرئیل علیہ السلام کہاں ہیں ؟ " علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آسمان پر دیکھا۔ زمین پر دیکھا ۔ مشرق مغرب شمال جنوب سب طرف دیکھا اور پھر فرمایا کے " جبرئیل علیہ السلام اس وقت نا ساتوں آسمان پر موجود ہیں نا زمین پر نا شمال میں نا جنوب میں نا مشرق میں نا مغرب میں۔ تو یا تو میں جبرئیل علیہ السلام ہوں یا آپ جبرئیل علیہ السلام ہیں۔
پھر جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کے " بیشک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سچ کہتے ہیں" ۔
مفتی محترم آپ سے درخواست ہے کے اس واقعہ کے بارے میں بتائیں یہ سچ ہے یا من گھڑت؟ اور یہ بھی کہ کیا جبرئیل امین علیہ السلام کی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا بعد میں کسی تابعی یا اولیاء کرام سے بات چیت یا ملاقات ثابت ہے یا نہیں؟ اللہ آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔
(المستفتی : محمد حارث، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور واقعہ نہ تو نقلاً درست ہے اور نہ ہی عقلاً۔ نقلاً تو اس لیے درست نہیں ہے کہ یہ واقعہ بغیر کسی سند کے بعض شیعوں کی کتاب میں ملتا ہے۔

اور عقلاً اس لیے درست نہیں کہ جو شخص ایک جگہ کھڑا رہ کر پوری دنیا چھان سکتا ہے تو اپنے سامنے کھڑے ہوئے شخص کو کیوں نہیں پہچان سکتا؟

شیرِخدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل بلاشبہ بہت بڑھے ہوئے ہیں، آپ بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچازاد بھائی اور داماد ہیں، چوتھے خلیفہ ہیں، اور ایک معتبر روایت میں آپ کو علم کا دروازہ بھی کہا گیا ہے۔ سوال نامہ میں مذکور جھوٹ سے آپ کی ذات پاک ہے اور آپ کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لیے اس طرح کے جھوٹے اور من گھڑت واقعات کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا اس واقعہ کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

حضرت جبریل علیہ السلام شب قدر میں فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ زمین پر آتے ہیں اور جو بندے کھڑے یا بیٹھے عبادت میں مشغول ہوں ان سے مصافحہ کرتے ہیں، بس اتنا ہی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔

روي أنه (عليه السلام) كان يخطب يوما على المنبر فقال: أيها الناس! سلوني قبل أن تفقدوني، واسألوني عن طرق السماوات، فإني أعرف بها مني بطرق الأرض، فقام رجل من القوم، فقال: يا أمير المؤمنين أين جبرئيل في هذا الوقت؟

فقال (عليه السلام): دعني أنظر.

فنظر إلى فوق، وإلى الأرض، وإلى يمينه ويساره، فقال: أنت جبرئيل، فطار من بين القوم وشق سقف المسجد بجناحه، فكبر الناس وقالوا: الله أكبر يا أمير المؤمنين من أين علمت أن هذا جبرئيل؟

فقال: إني لما نظرت إلى السماء بلغ نظري إلى ما فوق العرش والحجاب، ولما نظرت إلى الأرض خرق بصري طبقات الأرض إلى الثرى، ولما نظرت يمنة ويسرة رأيت ما خلق الله ولم أر جبرئيل في هذه المخلوقات، فعلمت أنه هو۔ (الانوار النعمانیۃ : ١/٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 رجب المرجب 1445

ہفتہ، 3 فروری، 2024

بچوں کو اسکول وغیرہ چھوڑنے والے کا تعطیل کے ایام کی اجرت لینا


سوال :

مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اگر کسی رکشہ والے کو سات سو روپے میں مہینہ بھر کے لیے ہائر کیا جائے کہ بچوں کو اسکول چھوڑ دیا کرے، لیکن پورے مہینہ سردی کی وجہ سے اسکول میں چھٹی تھی تو رکشہ والے کو پیسے دئے جائیں گے یا نہیں؟ مفصل مدلل جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : احمد ضیاء الدین، بہرائچ)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور معاملات کی مختلف صورتیں بنتی ہیں، جنہیں ترتیب وار ذکر کیا جارہا ہے۔

١) شروع میں ہی اگر رکشہ والوں سے یہ بات طے کی گئی تھی کہ ایامِ تعطیل کا کرایہ نہیں دیا جائے گا تو انہیں سالانہ چھٹیوں کا کرایہ نہیں دیا جائے۔

٢) اگر شروع میں ہی رکشہ والوں سے یہ بات طے کی گئی تھی کہ ایامِ تعطیل کا بھی کرایہ دیا جائے گا تو سالانہ چھٹیوں مثلاً سردی اور گرمی کے ایام تعطیل کی تنخواہ بھی ان کو دینا لازم ہوگا۔

٣) اگر اس طرح کی کوئی بات طے نہیں کی گئی تھی اور علاقہ میں عام طور پر اس طرح ایامِ تعطیل کا کرایہ لینے دینے کا رواج بھی نہ ہو تو پھر رکشہ والے ایام تعطیل کی تنخواہ کے مستحق نہیں ہیں۔

٤) اگر وہاں عام طور پر اس طرح کی لمبی تعطیلات کا کرایہ لینے کا رواج ہوتو انہیں کرایہ مانگنے کا اختیار ہوگا، کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں عُرف کو بھی احکام کے اثبات میں دخل حاصل ہے۔ لہٰذا آئندہ کیلئے سارے معاملات پہلے ہی طے کرلیے جائیں تاکہ بعد میں کسی قسم کا تنازعہ نہ ہو۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٣٥٢)

(وَ) اعْلَمْ أَنَّ (الْأَجْرَ لَا يَلْزَمُ بِالْعَقْدِ فَلَا يَجِبُ تَسْلِيمُهُ) بِهِ (بَلْ بِتَعْجِيلِهِ أَوْ شَرْطِهِ فِي الْإِجَارَةِ) الْمُنَجَّزَةِ، أَمَّا الْمُضَافَةُ فَلَا تُمْلَكُ فِيهَا الْأُجْرَةُ بِشَرْطِ التَّعْجِيلِ إجْمَاعًا.....  (أَوْ الِاسْتِيفَاءِ)لِلْمَنْفَعَةِ (أَوْ تَمَكُّنِهِ مِنْهُ)۔ (شامی : ٦/١٠)

والعرف في الشرع له الاعتبار لذا عليه الحكم قد يدار، قال في المستصفي : العرف و العادة مااستقر في النفوس من جهة العقول و تلقته الطبائع السليمة بالقبول،

في الأشباه والنظائر : السادسة : العادة المحكمة ...... واعلم أن العادة رجع إليه في مسائل كثيرة حتي جعلوا ذلك أصلاالخ۔ (شرح عقود رسم المفتی : تعريف العرف وحجيته، : ٧٦، ٧٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 رجب المرجب 1445