ہفتہ، 30 جنوری، 2021

مؤذن کی اجازت کے بغیر اذان یا اقامت کہنا

سوال :

مسجد میں متعینہ مؤذن کی موجودگی میں بغیر مؤذن کی اجازت کے اذان دینا کیسا ہے؟ ایک صاحب اپنے پیر صاحب کے ساتھ آئے ان کی آواز ذرا اچھی ہے انہوں نے مؤذن کے ہاتھ سے مائک لے کر اذان دی، جب کہ مؤذن اذان کہنے کے لئے آگے بڑھ چکے تھے، جمعہ کی نماز میں خطبہ کی اذان کے لیے منبر کے سامنے اذان دینا تھا۔ جواب کے لئے زحمت فرمائیے، جزاک اللہ خیرا
(المستفتی : محمد احمد چابی والا، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مؤذن کی موجودگی میں اس کی  اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کا اذان یا اقامت کہنا جب کہ اس سے مؤذن کو تکلیف ہوتی ہوتو یہ مکروہ ہے،   البتہ اگر کوئی ایسا شخص مؤذن کی اجازت کے بغیر اذان یا اقامت کہہ دے جس سے مؤذن کو تکلیف نہ ہوتو پھر کوئی کراہت نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر مؤذن صاحب کو اس عمل سے تکلیف ہوئی ہے اور بلاشبہ ہوئی ہوگی جیسا کہ سوال نامہ میں بیان کی گئی کیفیت سے معلوم ہوتا ہے تو اس طرح اذانِ ثانی کہنا مکروہ تھا۔ ایسے شخص کو آئندہ اس کا خیال رکھنا چاہیے۔

(أَقَامَ غَيْرُ مَنْ أَذَّنَ بِغَيْبَتِهِ) أَيْ الْمُؤَذِّنِ (لَا يُكْرَهُ مُطْلَقًا) وَإِنْ بِحُضُورِهِ كُرِهَ إنْ لَحِقَهُ وَحْشَةٌ۔ (شامی : ١/٣٩٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 جمادی الآخر 1442

پرانی قبر میں دوسری تدفین کتنے عرصہ بعد ہو؟

سوال :

قبرستان میں جگہ کی کمی ہونے اور دن بدن میت زیادہ ہونے کی وجہ سے کتنے وقت میں ایک قبر کو دوبارہ بدلی کر سکتے ہیں؟ دلائل کی روشنی میں مسئلہ ھذا کو واضح فرمائیے عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : اعجاز ماسٹر، دھولیہ)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسی پرانی قبریں جن سے متعلق غالب گمان ہوجائے کہ ان میں مدفون میت اور ان کی ہڈیاں بوسیدہ ہوکر ختم ہوگئی ہوں گی تو ایسی قبروں میں دوسرے مُردوں کی تدفین جائز اور درست ہے، اب میت کا جسم اور ہڈیاں ختم ہوجانے کی مدت مختلف علاقوں میں مٹی میں نمک کے اجزاء کی کمی اور زیادتی کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں کوئی مخصوص مدت متعین نہیں کی جاسکتی۔

وَلَوْ بَلِيَ الْمَيِّتُ وَصَارَ تُرَابًا جَازَ دَفْنُ غَيْرِهِ فِي قَبْرِهِ وَزَرْعُهُ وَالْبِنَاءُ عَلَيْهِ۔ (شامی : ٢/٢٣٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 جمادی الآخر 1442

جمعہ، 29 جنوری، 2021

بیوہ مطلقہ کی عدت کب سے شروع ہوگی؟

سوال :

مفتی صاحب ! دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ عورت شوہر کے انتقال کے بعد عدت کب سے شمار کیا جائے گا فوراً انتقال کے بعد یا دفنانے کے بعد سے؟ ہمارے پڑوس میں ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے دو دن کے بعد مرحوم کو دفنایا گیا، اس لیے یہ مسئلہ ناچیز کے لئے ضروری ہے گھر والے پوچھ رہے ہیں، جواب سے نوازیں، نوازش ہوگی۔
(المستفتی : مشتاق احمد قاسمی، مدھوبنی)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بیوہ عورت کی عدت شوہر کے انتقال کے فوراً بعد شروع ہوجاتی ہے، عدت کی ابتداء کے لئے تدفین شرط نہیں ہے۔ اسی طرح مطلقہ عورت کی عدت بھی طلاق کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے، خواہ بیوی کو کچھ عرصہ بعد طلاق کا علم ہو۔

صورتِ مسئولہ میں جیسے ہی آپ کے پڑوسی کا انتقال ہوا ان کی بیوی کی عدت شروع ہوگئی، دو دن کے بعد تدفین ہونے سے عدت پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

واِبتداء العدۃ فی الطلاق عقیب الطلاق وفی الوفاۃ عقیب الوفاۃ فان لم تعلم بالطلاق أو الوفاۃ حتی مضت مدۃ العدۃ فقد انقضت عدتہا۔ (ہدایہ :۲/۴۰۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 جمادی الآخر 1442

جمعرات، 28 جنوری، 2021

نومولود کے کان میں سورہ اخلاص پڑھنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ نومولود کے کان میں اذان دینے کے بعد سورہ اخلاص پڑھنے کی یہ فضیلت بیان کی جاتی ہے کہ اس کی وجہ سے بچہ یا بچی زندگی بھر زنا سے محفوظ رہیں گے۔ کیا یہ فضیلت حدیث سے ثابت ہے؟ اگر نہیں تو اس عمل کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں، کیونکہ سوشل میڈیا پر بڑے زور وشور یہ بات پھیلائی جارہی ہے۔
(المستفتی : انصاری جاوید احمد، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور عمل اور اس کی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، نہ ہی یہ عمل شرعاً فرض، واجب، مسنون، اور مستحب ہے، بلکہ از قبیل مجربات ہے، یعنی کسی نے تجربہ کیا ہوگا انہیں اس کا فائدہ نظر آیا تو اسے لکھ دیا، لہٰذا کسی مجرب عمل کو اگر سنت اور ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے تو انفرادی طور پر اس پر عمل کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن باقاعدہ اس کی دعوت چلانا درست نہیں ہے۔

نیز اس بات کا بھی خیال رہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں جبکہ منٹوں میں ایسے وظائف پوری دنیا میں پھیلا دئیے جاتے ہیں تو بعید نہیں ہے کہ شریعت کی باریکیوں سے ناواقف عوام اسے بھی اذان و اقامت کی طرح مسنون عمل سمجھنے لگیں۔ اور اس کی پُر کشش فضیلت کی وجہ سے اسے بچوں کی پیدائش کے وقت کا لازمی جزو سمجھ لیا جائے۔ چنانچہ ایسے ہی مواقع کے لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ کسی مستحب عمل کو اگر لوگ ضروری سمجھنے لگیں تو اُن لوگوں کے حق میں یہ عمل مکروہ بن جاتا ہے، جبکہ مذکورہ عمل تو صرف مجرب ہے، مستحب بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں اس عمل کو نظر انداز کردینا بہتر ہے۔ اور اس وقت صرف مسنون عمل یعنی اذان و اقامت پر اکتفا کیا جائے کہ اسی میں احتیاط ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ والدین کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو حلال مال کھلائیں، ان کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے فکرمند ہوں اور حتی الامکان اس کی کوشش میں بھی لگے رہیں، اسی کے ساتھ اولاد کے لیے دارین میں صلاح وفلاح کی دعا بھی کرتے رہیں کہ کرنے کے اصل کام یہی ہیں۔ سوال نامہ میں مذکور عمل کرلینے کے بعد اس بات پر بھروسہ کرکے بیٹھ جانا کہ اب ہماری اولاد گمراہ نہیں ہوگی یہ خام خیالی اور احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ۔ (سعایۃ : ۲؍۲۶۵، الدر المختار، باب سجدۃ الشکر / قبیل باب صلاۃ المسافر، ۲؍۵۹۸)

قال الطیبي : وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزمًا، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب من الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی أمر بدعۃ أو منکر۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۲؍۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 جمادی الآخر 1442

قبر پر اینٹ اور چونا لگانے کا حکم

سوال :

ہمارے یہاں قبرستان میں میت کے وارثین اپنے مرحومین کی قبروں پر اینٹیں لگاتے ہیں، اور موقع بموقع چونے سے رنگتے رہتے ہیں تو یہ اینٹیں لگانا اور اسے چونے سے رنگنا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ دلائل کی روشنی میں مسئلہ ھذا کو واضح فرمائیے۔
(المستفتی : اعجاز ماسٹر، دھولیہ)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسنون قبر وہ ہے جو اندر اور باہر دونو‌ں طرف سے کچی ہو اور سطح زمین سے تقریباً ایک بالشت اوپر اٹھا کر اونٹ کے کوہان کی طرح بنائی گئی ہو۔

قبر کو پختہ کرنے کے لیے اوپر اینٹیں لگانا جائز نہیں ہے، کیونکہ حدیث شریف میں قبروں کو پختہ کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ اسی طرح قبر کا گھیراؤ کرنے کے لیے اطراف میں اینٹیں لگانا بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں قبرستان کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا پایا جاتا ہے۔

قبر پر چونا ڈالنے میں دو باتیں پائی جاتی ہیں، ایک تو اس میں قبر کو مزین کرنا ہے، جس کی قبر کو ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے۔ دوسرے قبر کو پختہ کرنا ہے، اور دونوں اعمال شرعاً مکروہ وممنوع ہیں، لہٰذا قبروں پر چونا ڈالنے سے بھی اجتناب لازم ہے۔
                       

عن أبي بکر بن عیاش عن سفیان التمّار أنہ حدثہ أنہ راٰی قبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسنمًا۔ (صحیح البخاري، الجنائز / باب ما جاء في قبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، رقم : ۱۳۷۴)

ویسنم أي یجعل ترابہ مرتفعا علیہ کسنام الجمل لما روی البخاريؒ عن سفیان النمار أنہ رآی قبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسنما۔ (شامي : ۳؍۱۴۳)

عن جابر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال : نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن تجصص القبور۔ (سنن الترمذي، الجنائز / باب ما جاء في کراہیۃ تجصیص القبور، ۱؍۲۰۳)      

ولایجصص للنہی عنہ ولایطین، ولایرفع علیہ بناء الخ۔ (درمختار مع الشامي : ۳؍۱۴۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 جمادی الآخر 1442

بدھ، 27 جنوری، 2021

مہر معاف کروانے کی رسم

سوال :

مفتی صاحب! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
سوال یہ تھا کے مہر معاف کروانا یا شوہر کے جنازے کے پاس اسکی بیوی کو لا کر اس سے کہنا کے تو اپنے شوہر کی مہر معاف کردے
اسکی حقیقت کیا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مدثر انجم، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مہر بیوی کا حق ہے جو شوہر کے ذمہ قرض ہوتا ہے، لہٰذا اس کی ادائیگی جتنی جلدی ہو کردینا چاہیے، لیکن اگر کسی نے زندگی میں مہر ادا نہیں کیا تو اس کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ سے پہلے یہ قرض یعنی مہر ادا کیا جائے گا اس کے بعد ترکہ وارثین میں تقسیم ہوگا۔ یا پھر اولاد میں سے کوئی والد کی طرف سے مہر ادا کردے تو مہر ادا ہوجائے گا اور شوہر کے ذمہ سے قرض اُتر جائے گا۔

بیوی شوہر کی زندگی میں یا انتقال کے بعد اگر خوش دلی سے بغیر کسی جبر اور دباوٴ کے مہر معاف کردے تو مہر معاف ہوجاتا ہے، لیکن شوہر کے انتقال کے بعد جنازہ کے پاس بیوی کو لاکر مہر معاف کروانے کی رسم میں جبر ودباوٴ یا شرما حضوری کا بڑا دخل ہوتا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں اگر واقعتاً بیوی نے برضا ورغبت مہر معاف نہیں کیا تو مہر معاف نہیں ہوگی۔ لہٰذا اس قبیح رسم سے اجتناب ضروری ہے۔

وَإِنْ حَطَّتْ عَنْ مَهْرِهَا صَحَّ الْحَطُّ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ. وَلَا بُدَّ فِي صِحَّةِ حَطِّهَا مِنْ الرِّضَا حَتَّى لَوْ كَانَتْ مُكْرَهَةً لَمْ يَصِحَّ وَمِنْ أَنْ تَكُونَ مَرِيضَةً مَرَضَ الْمَوْتِ هَكَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب النکاح، الباب السابع في المہر، الفصل السابع في الزیادۃ في المہر، ١/٣١٣)

عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال : لا یحل مال امرئٍ مسلم إلا بطیب نفس منہ۔ (شعب الإیمان، رقم :۵۴۹۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 جمادی الآخر 1442

پیر، 25 جنوری، 2021

جنازہ سواری پر لے جانے سے متعلق احکام

✍️ محمد عامرعثمانی ملی

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں کی متعدد خوبیوں میں ایک بڑی خوبی یہاں کے رہنے والوں کا جذبہ انفاق فی سبیل اللہ یعنی ہر خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ جس کی مثالوں کا وقتاً فوقتاً مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں ایسے ہی ایک خیر کے کام کا تذکرہ، اس کی سراہنا نیز اس سے متعلق شرعی احکام بیان کئے جارہے ہیں تاکہ اس نئی سہولت سے فائدہ اٹھانے میں افراط و تفریط نہ ہو اور شرعی احکامات کی خلاف ورزی سے محفوظ رہا جائے۔

             شہر کا رقبہ اور آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے چند سالوں سے اس بات کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ دور دراز کے علاقوں سے جنازے کو کندھا دیتے ہوئے قبرستان لانا بڑا مشکل ثابت ہورہا ہے، لہٰذا اس کے لیے مخصوص بناوٹ کی گاڑی کا نظم ہوجائے تو جنازہ احترام کے ساتھ قبرستان لایا جاسکے۔ کیونکہ عام بناوٹ کی گاڑیوں میں جنازہ لانے سے جنازہ کی بے حُرمتی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے نصر فاؤنڈیشن کو قبول فرمالیا اور الحمدللہ ان کی جانب سے ایسی ہی مخصوص بناوٹ کی ایک گاڑی کا انتظام کیا گیا اور انتہائی مناسب فیس پر یہ گاڑی عوام کے لیے مہیا کروائی جارہی ہے، بلکہ یہاں تک کی خبریں ہیں کہ اگر میت کے اہل خانہ تنگدست ہوں تو انہیں یہ خدمت فی سبیل اللہ دی جائے گی۔ تازہ اطلاع کے مطابق کارپوریشن کی جانب سے بھی اس طرح کی چار گاڑیوں کا نظم کیا جارہا ہے اور اسے عوام کے لیے مفت مہیا کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اللہ تعالٰی ان سب کی خدمات کو قبول فرمائے، انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ اور استقامت کے ساتھ اس خدمت پر جمائے رکھے۔ آمین

معزز قارئین ! اسلام کی ایک اہم تعلیم یہ بھی ہے کہ جنازہ کے ساتھ چل کر قبرستان تک جایا جائے۔ چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا، جن میں سے ایک جنازہ کے پیچھے چلنے کا حکم بھی تھا۔ (بخاری : ۱؍۱۶۶)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جنازہ میں حاضر ہو یہاں تک کہ اس کی نماز پڑھی جائے تو اسے ایک قیراط اجر ملتا ہے، اور جو دفن تک شریک ہو تو اس کے لئے دو اجر قیراط مقرر ہے، تو آپ سے پوچھا گیا کہ دو قیراط کتنے بڑے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ دو بڑے پہاڑوں کے برابر۔ (بخاری : ۱؍۱۷۷)

لہٰذا ہم سب کو اس بات کی کوشش کرنا چاہیے کہ ہم مذکورہ بالا احادیث پر عمل کرکے عظیم اجر وثواب کے مستحق بنیں، غفلت اور سستی کی وجہ سے اس اجر وثواب سے محروم نہ رہیں۔

بہتر ہے کہ بلاضرورت جنازہ کے پیچھے سوار ہوکر نہ چلیں، بلکہ پیدل چلنے کا اہتمام کیا جائے، اس لئے کہ فرشتے بھی مومن کے جنازہ کے ساتھ پیدل جاتے ہیں۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک جنازہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نکلے، تو آپ نے کچھ لوگوں کو سواری پر دیکھا تو ارشاد فرمایا : کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ اللہ کے فرشتے تو پیدل ہیں اور تم سواریوں پر چڑھے بیٹھے ہو؟ (ترمذی : ۱؍۱۹۶)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلاضرورت جنازہ کے ساتھ سوار ہوکر جانا پسندیدہ نہیں ہے، تاہم اگر ضرورت ہو، مثلاً قبرستان بہت دور ہو یا جانے والا کمزور یا مریض ہو تو سواری پر جانے میں حرج نہیں۔

میّت کے جنازے کو کندھا دینا مسنون ہے، اور بعض احادیث میں جنازے کے چاروں طرف کندھا دینے کی فضیلت بھی آئی ہے۔

طبرانی کی معجمِ اوسط میں بہ سندِ ضعیف حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے میّت کے جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دیا، اللہ تعالیٰ اسے اس کے چالیس بڑے گناہوں کا کفارہ بنا دیں گے۔

فقہاء نے جنازہ کو کندھا دینے کا مستحب طریقہ یہ لکھا ہے کہ پہلے دس قدم تک دائیں جانب کے اگلے پائے کو کندھا دے، پھر دس قدم تک اسی جانب کے پچھلے پائے کو، پھر دس قدم تک بائیں جانب کے اگلے پائے کو، پھر دس قدم تک بائیں جانب کے پچھلے پائے کو، چنانچہ اگر دوسروں کو ایذا اور تکلیف دئیے بغیر اس طریقے پر عمل ہوسکے تو بہتر ہے، ورنہ کوئی حرج نہیں۔ بقدر استطاعت اور سہولت کندھا دے دیا جائے تو امید ہے کہ مذکورہ بالا حدیث شریف میں مذکور فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اس حدیث شریف میں بڑے گناہ سے مراد کبیرہ گناہ نہیں ہیں، بلکہ صغیرہ ہی ہیں، کیونکہ کبیرہ گناہوں سے متعلق ضابطہ یہی ہے کہ یہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔

اس مضمون میں سب سے اہم مسئلہ جو بیان کرنا ہے وہ یہ ہے کہ بلا عذر جنازہ کو سواری پر لے جانا مکروہ ہے، لیکن اگر کوئی عذر ہو مثلاً کوئی قانونی دشواری ہو یا میت کی حالت زیادہ خراب ہو جس کی وجہ سے پیدل لے جانا تکلیف دہ ہو یا قبرستان بہت زیادہ دور ہو تو جنازہ کو سواری پر لے جانے کی گنجائش ہے۔ شہر عزیز میں اگر فاصلے کی بات کی جائے تو قبرستان سے میت کا مکان دیڑھ دو کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ پر ہو تب ہی جنازہ سواری پر لایا جائے، اس سے کم فاصلہ ہوتو سواری پر جنازہ لانا کراہت سے خالی نہیں، مگر یہ کہ مذکورہ بالا کوئی عذر ہو۔ لہٰذا جنازہ گاڑیوں کے منتظمین اور عوام کو اس بات کا خوب خیال رکھنا چاہیے۔ (طحطاوی : ۲۳۱)

اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے تمام معاملات سنت وشریعت کے مطابق انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اتوار، 24 جنوری، 2021

نماز میں کھجلانے کا حکم

سوال :

حضرت مفتی صاحب مسئلہ نماز کے بارے میں یہ معلوم کرنا ہے کہ نماز پڑھتے وقت نماز کے اندر کسی بھی رکن میں تین بار کھجا لینا یا اسی طرح کوئی اور حرکت کر لینے سے نماز میں کمی ہو جائے گی یا نماز بالکل ختم ہو جائے گی؟ وضاحت سے بیان فرما دیں۔
(المستفتی : محمد مصروف، ضلع سہارنپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک رکن (قیام، سجدہ یا قعدہ وغیرہ ) میں تسلسل کے ساتھ تین مرتبہ سے زائد داڑھی پر ہاتھ پھیرنا یا بلا ضرورت کھجلانے یا آنکھ، کان اور ناک میں انگلی ڈال کر میل نکالنا عملِ کثیر ہے، جس کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ البتہ اس میں یہ شرط ہے کہ ہر مرتبہ مذکورہ اعمال کرنے کے لیے ہاتھ اوپر کو اٹھاتا ہو اور اگر ہاتھ اوپر اٹھائے بغیر کرتا ہے تو تسلسل کے باوجود  نماز فاسد نہیں ہوتی ہے۔

اسی طرح اگر وقفے وقفے سے ہاتھ اٹھا کر تین مرتبہ سے زائد کھجاتا ہے یا داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہے یا مذکورہ اعمال انجام دیتا ہے تب بھی  نماز فاسد نہیں ہوگی، البتہ کھجانے کے لیے تین دفعہ ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین دفعہ سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کی مقدار وقت سے کم ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی، کیونکہ فقہی عبارات میں ثلاث حرکات متوالیۃ کا ذکر ہے، لہٰذا کسی طویل رکن میں اگرتین حرکات اس طرح واقع ہوں کہ آخری حرکت بقدرِ رکن وقت کے بعد واقع ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ تین حرکات اگر غیر متوالیہ ہوں یعنی ان کے درمیان بقدر رکن (تین مرتبہ سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کی مقدار) وقت سے زیادہ وقفہ ہو تو دیکھنے والے کو ان حرکات کے کرنے کے بارے میں نماز میں نہ ہونے کا یقین نہیں ہوتا ہے، اگرچہ تینوں حرکات ایک ہی رکن میں ہی کیوں نہ ہوں، بالخصوص جبکہ رکن طویل ہو اور حرکات وقفہ وقفہ سے ہو۔

ولوحک المصلي جسدہ مرۃ، أومرتین متوالیتین لاتفسد صلاتہ للقلۃ، وکذا لاتفسد إذا فعل ذلک الحک مرارًا غیر متوالیات…ولو فعل ذلک مرارًا متوالیات أي في رکن واحد تفسد صلاتہ؛ لأنہ کثیر ہذا إذا رفع یدہ في کل مرۃ، أما إذا لم یرفع یدہ في کل مرۃ فلا تفسد صلاتہ؛ لأنہ حک واحد۔ (حلبي کبیر، کتاب الصلاۃ، باب یفسد الصلاۃ، ۴۴۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 جمادی الآخر 1442

ہفتہ، 23 جنوری، 2021

حالتِ احرام میں مچھلی پکڑنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ حالتِ احرام میں مچھلی پکڑنا کیسا ہے؟ اگر کسی نے مچھلی کا شکار کرلیا تو اس پر کوئی جزاء واجب ہوگی؟
(المستفتی : عبداللہ، دہلی)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسے جانور جو پانی میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں جیتے مرتے ہیں، جیسے مچھلی، کچھوا، کیکڑا وغیرہ، احرام کی حالت میں ان کا شکار جائز ہے، ان  پر کوئی جزا نہیں ہے۔ البتہ احناف کے یہاں صرف مچھلی کھانا حلال ہے، لہٰذا صرف مچھلی کھانا جائز ہوگا بقیہ جانداروں کا کھانا جائز نہیں۔

قَالَ اللہُ تعالٰی : اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ مَتَاعاً لَّکُمْ۔ (سورۃ المائدۃ، جزء آیت : ٩٦)

وبحری : وہو ما یکون توالدہ فی البحر فالعبرۃ بالتوالد لا بالمعاش فالبحری حلال اصطیادہ للمحرم بجمیع انواعہ سواء کان ماکولاً او غیرہ۔ (غنیۃ الناسک : ۲۸۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 جمادی الآخر 1442

جمعہ، 22 جنوری، 2021

بیوہ حمل ساقط کرا دے تو اس کی عدت کیا ہوگی؟

سوال :

مفتی صاحب ! ایک شخص نے نکاح کیا دو مہینے کے اندر اس کی اہلیہ حاملہ ہوگئی اب اس شخص کا انتقال ہو گیا پھر اس لڑکی کے گھر والوں نے حمل گروا دیا۔
1) کیا لڑکی کے گھر والوں کا حمل گروا نے والا عمل صحیح ہوگا؟ جبکہ حمل 4 مہینے کے اندر گروایا گیا ہے۔
2) اب اس لڑکی کی عدت کیا ہوگی 4 مہینے 10 دن یا اور کچھ؟ مدلل جواب دے کر ممنون و مشکور ہوں۔
(المستفتی : عباد اللہ، تھانہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اِسقاطِ حمل اَصل میں منع ہے، البتہ ایسی سنگین صورت پیش آجائے کہ اِسقاط کے بغیر چارہ نہ رہے، مثلاً عورت کا دودھ پیتا بچہ ہو اورحمل کی وجہ سے دودھ اُترنا بند ہوجائے، یا عورت کی صحت کو سخت خطرہ لاحق ہو تو حمل میں جان پڑنے یعنی ایک سو بیس دن گذرنے سے پہلے تک اِسقاط کی گنجائش ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر ایسا ہی کوئی عذر لاحق تھا تو پھر بیوہ کا اسقاط حمل کرانا جائز تھا، لیکن ایسا کوئی عذر نہیں تھا تو پھر اسقاط کروانے کی وجہ سے گھر والے گناہ گار ہوں گے، خواہ حمل چار مہینے کے اندر ہی کیوں نہ ساقط کرایا گیا ہو۔

2) بیوہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہوتی ہے اور وضع  حمل کے ذریعہ سے  عدت  پوری ہونے کے لیے یہ لازم اور ضروری ہے کہ بچہ کی خلقت واضح ہو گئی ہو، یا اس کے ہاتھ پیر بن گئے ہوں، یا اس میں جان پڑگئی ہو، اور اس کی مدت چار مہینے یعنی ۱۲۰ دن شمار کی گئی ہے، لہٰذا چار مہینے سے پہلے جو حمل گرجائے یا خود سے صفائی کرائی جائے تو دونوں صورتوں میں عدت پوری نہیں ہوگی، بلکہ ایسی بیوہ عورت کے لیے شوہر کی وفات کے وقت سے چار مہینے دس دن  عدتِ وفات گزارنا لازم ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ چار مہینہ یعنی ایک سو بیس دن گزرنے سے پہلے اسقاط کرایا گیا ہے، لہٰذا اس کی عدت شوہر کی وفات سے چار مہینہ دس دن ہوگی۔

الْعِلَاجُ لِإِسْقَاطِ الْوَلَدِ إذَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ كَالشَّعْرِ وَالظُّفْرِ وَنَحْوِهِمَا لَا يَجُوزُ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَبِينِ الْخَلْقِ يَجُوزُ...... امْرَأَةٌ مُرْضِعَةٌ ظَهَرَ بِهَا حَبَلٌ وَانْقَطَعَ لَبَنُهَا وَتَخَافُ عَلَى وَلَدِهَا الْهَلَاكَ وَلَيْسَ لِأَبِي هَذَا الْوَلَدِ سَعَةٌ حَتَّى يَسْتَأْجِرَ الظِّئْرَ يُبَاحُ لَهَا أَنْ تُعَالِجَ فِي اسْتِنْزَالِ الدَّمِ مَا دَامَ نُطْفَةً أَوْ مُضْغَةً أَوْ عَلَقَةً لَمْ يُخْلَقْ لَهُ عُضْوٌ وَخَلْقُهُ لَا يَسْتَبِينُ إلَّا بَعْدَ مِائَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا أَرْبَعُونَ نُطْفَةً وَأَرْبَعُونَ عَلَقَةً وَأَرْبَعُونَ مُضْغَةً كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ. وَهَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن عشر، ۵/۳۵۶)

وَالْمُرَادُ بِهِ الْحَمْلُ الَّذِي اسْتَبَانَ بَعْضُ خَلْقِهِ، أَوْ كُلُّهُ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَبِنْ بَعْضُهُ لَمْ تَنْقَضِ الْعِدَّةُ لِأَنَّ الْحَمْلَ اسْمٌ لِنُطْفَةٍ مُتَغَيِّرَةٍ، فَإِذَا كَانَ مُضْغَةً، أَوْ عَلَقَةً لَمْ تَتَغَيَّرْ، فَلَا يُعْرَفُ كَوْنُهَا مُتَغَيِّرَةً بِيَقِينٍ إلَّا بِاسْتِبَانَةِ بَعْضِ الْخَلْقِ بَحْرٌ عَنْ الْمُحِيطِ. وَفِيهِ عَنْهُ أَيْضًا أَنَّهُ لَا يَسْتَبِينُ إلَّا فِي مِائَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا. وَفِيهِ عَنْ الْمُجْتَبَى أَنَّ الْمُسْتَبِينَ بَعْضُ خَلْقِهِ يُعْتَبَرُ فِيهِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، وَتَامَّ الْخَلْقِ سِتَّةُ أَشْهُرٍ۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ، مطلب: فی عدۃ الموت : ۳/۵۱۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 جمادی الآخر 1442