اتوار، 3 جنوری، 2021

مضارب اگر رقم تجارت میں نہ لگائے تو؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان اسلام درج ذیل مسائل کے بارے میں زید کے پاس رقم ہے زید کے تعلق والے شخص یعنی عمر نے یہ کہتے ہوئے رقم لی کہ وہ کاروبار کرے گا جس میں نفع و نقصان فیصد 50/50 کا ہوگا، اور زید کی صرف رقم ہوگی اور عمر کاروبار کرکے زید کو نفع حساب بتا کر یا نقصان کا حساب بتا کر حساب دے گا، جس میں ایک یا دو مرتبہ اس نے حساب بتا کر نفع بھی دیا بعد میں معلوم ہوا کہ عمر کا کوئی کاروبار تھا ہی نہیں۔ اس نے جھوٹ بول کر رقم لی تھی زید اپنی اصل رقم وصول کرنا چاہتا ہے تو کیا جو رقم حساب بتا کر نفع میں دی گئی ہے وہ اصل رقم سے کم کرکے وصول کی جائے یا نہیں؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے رقم لگا کر نفع وصول کیا ہے وہ اپنی رقم چھوڑ دیں کیونکہ ان لوگوں نے سود وصول کیا ہے، کیا ایسا کہنا درست ہے؟
(المستفتی : مزمل قریشی، مالیگاؤں)
----------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہے کہ مضارب (عمر) جس کو کاروبار کرنے کے لیے رقم دی گئی تھی اس نے ان پیسوں سے کاروبار کیا ہی نہیں ہے تو پھر جن لوگوں کو اس نے نفع کے نام پر رقم دی ہے اس کا استعمال ان کے لیے جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ مضاربت نہیں ہوئی بلکہ یہ رقم سود کہلائے گی، لہٰذا رقم لگانے والوں کے لیے صرف اپنی جمع کردہ رقم حلال ہوگی، زائد رقم عمر کو واپس کرنا ضروری ہے۔

البتہ مضاربت کے نام پر دھوکہ دہی کرنے اور لوگوں کو سخت ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کی وجہ سے عمر کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے، لہٰذا اس پر ضروری ہے کہ وہ ان کی اصل رقم واپس کرے اور ان سے شرمندگی اور ندامت کے ساتھ معافی بھی مانگے نیز توبہ و استغفار بھی کرے۔

نوٹ : مضاربت اور شراکت کے معاملے میں شہر عزیز سمیت پورے ہندوستان میں دھوکہ دھڑی کے معاملات بڑی تعداد میں ہوئے ہیں۔ مضاربت اور اسلامی کاروبار کے نام سے بیسیوں کمپنیوں اور سینکڑوں افراد نے مسلمانوں کے کروڑوں روپے ہضم کرلیے ہیں، عوام کا بھروسہ جیتنے کے لیے نفع کے نام پر کچھ دن تک چارہ ڈالا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب ایک خطیر رقم جمع ہوجاتی ہے تو ساری رقم لے کر اُڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا خوب سوچ سمجھ کر اور پورا اطمینان کرلینے کے بعد ہی کسی کے ساتھ مضاربت یا شراکت کا معاملہ کرنا چاہیے۔

وشرطہا کون رأس المال من الأثمان … وہو معلوم للعاقدین، وکفت فیہ الإشارۃ … وکون الربح بینہما شائعًا، فلو عیّن قدرًا فسدت۔ (تنویر الأبصار مع الدر المختار / کتاب المضاربۃ، ۸؍۴۳۳-۴۳۲)

لما قال الامام الجصاص الرازیؒ: ھو القرض المشروط فیہ الاجل وزیادۃ مال علی المستقرض۔ (الاحکام القراٰن:ج؍۱،ص؍۴۶۹، باب البیع)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 جمادی الاول 1442

4 تبصرے: