بدھ، 13 جنوری، 2021

عمامہ اور کنٹوپ کے نیچے ٹوپی پہنے بغیر نماز پڑھنا

سوال :

حضرت مفتی صاحب ! زید کا سوال یہ ہے کہ آج کل سردی کا موسم ہے، بہت سے لوگ سردی کی شدت کی وجہ سے ٹوپا یا عمامہ وغیرہ باندھ کر رکھتے ہیں، مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ زید جب نماز ادا کرے گا کیا زید نے ٹوپے کے نیچے یا عمامہ کے نیچے ٹوپی پہننا ضروری ہو گا یا نہیں؟ اگر ٹوپے کے نیچے ٹوپی نہی پہنی تو زید کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟؛ اور یہ ٹوپا پہنے ہوں تو سجدہ میں کوئی مسئلہ ہوتو اس کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیں۔
(المستفتی : محمد مصروف، ضلع سہارنپور)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عمامہ کے نیچے ٹوپی پہننا مسلمانوں کا شعار ہے، اور حدیث شریف کے بیان کے مطابق ہمارے اور مشرکین کے درمیان ایک امتیاز ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ٹوپی پہن کر اُس پر عمامہ باندھا جائے۔

آپ جسے ٹوپا کہہ رہے ہیں غالباً وہ بڑی سی اونی ٹوپی ہوتی ہے جسے کنٹوپ بھی کہتے ہیں، یہ کنٹوپ اور بغیر ٹوپی کے باندھا گیا عمامہ (جس میں سر کا اوپری حصہ مکمل طور پر ڈھکا ہوا ہو) ٹوپی کے قائم مقام ہوجائے گا، لہٰذا اس کے نیچے ٹوپی نہ بھی ہوتو کوئی کراہت کی بات نہیں ہے۔ البتہ ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ سجدہ میں پیشانی کا زمین پر بلاواسطہ یا بالواسطہ اس طرح ٹک جانا شرط ہے کہ پیشانی کو زمین کی سختی کا احساس ہو، ورنہ سجدہ صحیح نہیں ہوگا۔ اونی ٹوپی اگر موٹی اور نرم ہو تو وہ دبتی رہتی ہے، اس لیے نماز کے وقت خاص طور پر اس کا خیال رکھا جائے کہ ایسی ٹوپی پیشانی سے اوپر کرلی جائے یا اگر اس کا کچھ حصہ پیشانی پر آرہا ہوتو سجدہ کے وقت پیشانی کو اچھی طرح دبا کر سجدہ کیا جائے تاکہ پیشانی کو زمین کی سختی کا ادراک ہو۔

معلوم ہونا چاہیے کہ ٹوپی پہننا سنت ہے، لہٰذا کبھی کسی عذر کی وجہ سے بغیر ٹوپی کے نماز پڑھ لی گئی تو نماز ادا ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں۔

عن أبي جعفر محمد بن رکانۃ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ أن رکانۃ صارع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صرعہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ قال رکانۃ : سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن فرق ما بیننا وبین المشرکین العمائم علی القلانس۔ (سنن الترمذي، کتاب اللباس / باب العمائم علی القلانس، رقم : ۱۷۸۴)

ولو سجد علی الحشیش أو علی التبن أو علی القطن أو الطنفسۃ أو الثلج إن استقرت جبھتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز۔ (الفتاوی الھندیۃ : ۱/۷۰)

(وصلاته حاسراً) أي كاشفاً (رأسه للتكاسل)، ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر. (قوله: للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين : ١/٦٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 جمادی الاول 1442

3 تبصرے:

  1. کنٹوپ سے جو کان ڈھاکہ ہوا رہتا ہے اس کے بارے میں حکم کیا ہوگا

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آجکل تو امام صاحب کے سجدے کی جگہ اتنے مصلے رکھ دیتے ہیں کہ انکو زمین کی سختی شاید ہی معلوم ہوتی ہو

    جواب دیںحذف کریں