پیر، 25 جنوری، 2021

جنازہ سواری پر لے جانے سے متعلق احکام

✍️ محمد عامرعثمانی ملی

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں کی متعدد خوبیوں میں ایک بڑی خوبی یہاں کے رہنے والوں کا جذبہ انفاق فی سبیل اللہ یعنی ہر خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ جس کی مثالوں کا وقتاً فوقتاً مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں ایسے ہی ایک خیر کے کام کا تذکرہ، اس کی سراہنا نیز اس سے متعلق شرعی احکام بیان کئے جارہے ہیں تاکہ اس نئی سہولت سے فائدہ اٹھانے میں افراط و تفریط نہ ہو اور شرعی احکامات کی خلاف ورزی سے محفوظ رہا جائے۔

             شہر کا رقبہ اور آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے چند سالوں سے اس بات کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ دور دراز کے علاقوں سے جنازے کو کندھا دیتے ہوئے قبرستان لانا بڑا مشکل ثابت ہورہا ہے، لہٰذا اس کے لیے مخصوص بناوٹ کی گاڑی کا نظم ہوجائے تو جنازہ احترام کے ساتھ قبرستان لایا جاسکے۔ کیونکہ عام بناوٹ کی گاڑیوں میں جنازہ لانے سے جنازہ کی بے حُرمتی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے نصر فاؤنڈیشن کو قبول فرمالیا اور الحمدللہ ان کی جانب سے ایسی ہی مخصوص بناوٹ کی ایک گاڑی کا انتظام کیا گیا اور انتہائی مناسب فیس پر یہ گاڑی عوام کے لیے مہیا کروائی جارہی ہے، بلکہ یہاں تک کی خبریں ہیں کہ اگر میت کے اہل خانہ تنگدست ہوں تو انہیں یہ خدمت فی سبیل اللہ دی جائے گی۔ تازہ اطلاع کے مطابق کارپوریشن کی جانب سے بھی اس طرح کی چار گاڑیوں کا نظم کیا جارہا ہے اور اسے عوام کے لیے مفت مہیا کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اللہ تعالٰی ان سب کی خدمات کو قبول فرمائے، انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ اور استقامت کے ساتھ اس خدمت پر جمائے رکھے۔ آمین

معزز قارئین ! اسلام کی ایک اہم تعلیم یہ بھی ہے کہ جنازہ کے ساتھ چل کر قبرستان تک جایا جائے۔ چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا، جن میں سے ایک جنازہ کے پیچھے چلنے کا حکم بھی تھا۔ (بخاری : ۱؍۱۶۶)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جنازہ میں حاضر ہو یہاں تک کہ اس کی نماز پڑھی جائے تو اسے ایک قیراط اجر ملتا ہے، اور جو دفن تک شریک ہو تو اس کے لئے دو اجر قیراط مقرر ہے، تو آپ سے پوچھا گیا کہ دو قیراط کتنے بڑے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ دو بڑے پہاڑوں کے برابر۔ (بخاری : ۱؍۱۷۷)

لہٰذا ہم سب کو اس بات کی کوشش کرنا چاہیے کہ ہم مذکورہ بالا احادیث پر عمل کرکے عظیم اجر وثواب کے مستحق بنیں، غفلت اور سستی کی وجہ سے اس اجر وثواب سے محروم نہ رہیں۔

بہتر ہے کہ بلاضرورت جنازہ کے پیچھے سوار ہوکر نہ چلیں، بلکہ پیدل چلنے کا اہتمام کیا جائے، اس لئے کہ فرشتے بھی مومن کے جنازہ کے ساتھ پیدل جاتے ہیں۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک جنازہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نکلے، تو آپ نے کچھ لوگوں کو سواری پر دیکھا تو ارشاد فرمایا : کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ اللہ کے فرشتے تو پیدل ہیں اور تم سواریوں پر چڑھے بیٹھے ہو؟ (ترمذی : ۱؍۱۹۶)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلاضرورت جنازہ کے ساتھ سوار ہوکر جانا پسندیدہ نہیں ہے، تاہم اگر ضرورت ہو، مثلاً قبرستان بہت دور ہو یا جانے والا کمزور یا مریض ہو تو سواری پر جانے میں حرج نہیں۔

میّت کے جنازے کو کندھا دینا مسنون ہے، اور بعض احادیث میں جنازے کے چاروں طرف کندھا دینے کی فضیلت بھی آئی ہے۔

طبرانی کی معجمِ اوسط میں بہ سندِ ضعیف حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے میّت کے جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دیا، اللہ تعالیٰ اسے اس کے چالیس بڑے گناہوں کا کفارہ بنا دیں گے۔

فقہاء نے جنازہ کو کندھا دینے کا مستحب طریقہ یہ لکھا ہے کہ پہلے دس قدم تک دائیں جانب کے اگلے پائے کو کندھا دے، پھر دس قدم تک اسی جانب کے پچھلے پائے کو، پھر دس قدم تک بائیں جانب کے اگلے پائے کو، پھر دس قدم تک بائیں جانب کے پچھلے پائے کو، چنانچہ اگر دوسروں کو ایذا اور تکلیف دئیے بغیر اس طریقے پر عمل ہوسکے تو بہتر ہے، ورنہ کوئی حرج نہیں۔ بقدر استطاعت اور سہولت کندھا دے دیا جائے تو امید ہے کہ مذکورہ بالا حدیث شریف میں مذکور فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اس حدیث شریف میں بڑے گناہ سے مراد کبیرہ گناہ نہیں ہیں، بلکہ صغیرہ ہی ہیں، کیونکہ کبیرہ گناہوں سے متعلق ضابطہ یہی ہے کہ یہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔

اس مضمون میں سب سے اہم مسئلہ جو بیان کرنا ہے وہ یہ ہے کہ بلا عذر جنازہ کو سواری پر لے جانا مکروہ ہے، لیکن اگر کوئی عذر ہو مثلاً کوئی قانونی دشواری ہو یا میت کی حالت زیادہ خراب ہو جس کی وجہ سے پیدل لے جانا تکلیف دہ ہو یا قبرستان بہت زیادہ دور ہو تو جنازہ کو سواری پر لے جانے کی گنجائش ہے۔ شہر عزیز میں اگر فاصلے کی بات کی جائے تو قبرستان سے میت کا مکان دیڑھ دو کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ پر ہو تب ہی جنازہ سواری پر لایا جائے، اس سے کم فاصلہ ہوتو سواری پر جنازہ لانا کراہت سے خالی نہیں، مگر یہ کہ مذکورہ بالا کوئی عذر ہو۔ لہٰذا جنازہ گاڑیوں کے منتظمین اور عوام کو اس بات کا خوب خیال رکھنا چاہیے۔ (طحطاوی : ۲۳۱)

اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے تمام معاملات سنت وشریعت کے مطابق انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

4 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ

    جزاک اللہ خیرا و احسن الجزا محترم مفتی صاحب

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ

    جزاک اللہ ۔اللہ تعالی ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. محمد آصف اقبال
    اللہ تعالٰی ہمیں دین پر عمل کرنے کی ہدایت دے اور مفتی صاحب کی عمر علم و تقوٰی میں خوب برکت دے آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزا

    بہترین تحریر ہے
    اللہ تعالٰی اور علم عمل میں برکت عطاء فرمائے ہر قسم کے نظر بد سے حفاظت فرمائے

    جواب دیںحذف کریں