اس بلاگ پر موجود تمام جوابات، مضامین و مقالات حنفی مسلک اور علماء دیوبند کی تشریحات کی روشنی میں لکھے گئے ہیں۔
منگل، 30 اپریل، 2024
احرام پہن کر نفلی طواف مطاف سے کرنا
اتوار، 28 اپریل، 2024
قرآن مجید خریدتے وقت اس کی قیمت کم کروانا
ہفتہ، 27 اپریل، 2024
سنت پڑھتے ہوئے امام سے آیتِ سجدہ سن لے؟
اتوار، 21 اپریل، 2024
قعدہ اخیرہ میں کون سی دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں؟
خشخشی داڑھی رکھنے والے کی امامت کا حکم
ہفتہ، 20 اپریل، 2024
شادی شدہ عورتوں کا جمعہ منگل میکے جانا
جمعہ، 19 اپریل، 2024
کپڑا تیار ہونے سے پہلے فروخت کردینا
پیر، 15 اپریل، 2024
نذرانہ امام کو کم اور امام تراویح کو زیادہ دینا
جمعرات، 11 اپریل، 2024
عید کے دن میت کے گھر تعزیت کے لیے جانا
جمعرات، 14 مارچ، 2024
تراویح میں عشاء کی نیت سے شامل ہونا
سوال :
محترم مفتی صاحب ! ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ "جب آپ کی نماز عشاء جماعت سے رہ جائے، آپ مسجد میں داخل ہوں اور امام نماز تراویح پڑھا رہا ہو تو آپ امام کے ساتھ تراویح میں نماز عشاء کی نیت سے شریک ہو جائیں۔ امام جب دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دے آپ کھڑے ہو کر باقی دو رکعت ادا کر لیں اس طرح آپ جماعت کے اجر کو پالیں گے۔ (سعودی فتاوی کمیٹی: 402/7 اور مجموع الفتاوی ابن باز رحمہ اللہ: 181/12 کا مفہوم)
آپ سے درخواست ہے کہ اس کی وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : عقیل احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سنت اور نفل نماز ادا کرنے والے کی اقتداء میں اگر فرض نماز ادا کی جائے تو احناف کے نزدیک اقتداء کرنے والوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ مقتدی اور امام کی نماز میں یکسانیت نہیں پائی جارہی ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ امام ضامن ہے۔ اس لئے ضامن کو مضبوط ہونا چاہئے اور اعلی درجہ کا ہونا چاہئے یا کم از کم برابر درجہ کا ہونا چاہئے۔ اور فرض پڑھنے والا اعلی اور مضبوط ہے جبکہ نفل پڑھنے والا ادنی اور کمزور ہے اس لئے فرض پڑھنے والے کے لیے نفل پڑھنے والے کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے۔
اسی طرح اس حدیث سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : امام صرف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے تم اس سے اختلاف نہ کرو۔ اور یہاں اعلی کا ادنی درجہ سے اختلاف ہو جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور پوسٹ حنفی مسلک (جو بلاشبہ قرآن وحدیث کا نچوڑ ہے) کے مطابق نہیں ہے، لہٰذا حنفی مسلک کے مقلدین کا اس پر عمل کرنا درست نہیں ہے، ان کی عشاء کی نماز تراویح پڑھانے والے کی اقتداء میں درست نہیں ہوگی۔ اور اگر کسی نے ایسا کرلیا ہے تو اس پر عشاء کی نماز کا اعادہ ضروری ہے۔
عن أبي ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن۔ (سنن أبي داؤد رقم: ۵۱۷)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہما أنہ قال: إنما جعل الإمام إماماً لیؤتم بہ فلا تختلفوا علیہ۔ (صحیح البخاري، الأذان / باب فضل اللّٰہم ربنا لک الحمد رقم : ۷۹۶، صحیح مسلم، الصلاۃ / باب التسمیع والتحمید رقم : ۴۰۹)
ومن شروط الإمامۃ أن لا یکون الإمام أدنی حالا من الماموم فلا یصح اقتداء مفترض بمتنفل۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ : ۲۳۵)
ولا یصح إقتداء المفترض بالمتنفل۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۸۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 رمضان المبارک 1445
ہفتہ، 17 فروری، 2024
نشہ کی حالت میں کفریہ کلمہ کہہ دے تو؟
سوال :
مفتی محترم ! عرض تحریر یہ ہیکہ ایان کو شراب نوشی کی عادت ہے۔ اکثر و بیشتر نشہ میں رہتا ہے اور کئی سالوں سے۔ اب صورتحال یہ ہیکہ بھرپور نشہ کرکے بھی جلدی نشے میں دھت نہیں ہوتا اور بات چیت وغیرہ کرتا رہتا ہے۔ معاملہ یہ ہیکہ متعدد اوقات ایسا ہوا کے ایان نشہ کی حالت میں معاذ اللہ ثم معاذ اللہ اللہ پاک کو گالیاں دیوے اور کہے کے اللہ پاک نے مجھے شرابی کیوں بنایا؟ اور بڑی بڑی باتیں کرے واقعات وغیرہ۔ ایک دفعہ نشہ کی حالت میں ایک واقعہ بتاتے ہوئے ایان نے معاذ للہ موسی علیہ السلام کو بھی گالی دیا۔ نشہ اترنے کے بعد کہتا ہیکہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ تو کیا ایان کے ایسا کرنے سے کفر صادر ہوگیا یا نہیں؟ کیا اسے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرنا لازمی ہے یا دونوں چیزیں اپنی اصل حالت میں باقی رہ جاتی ہیں؟ مہربانی کر کے آپ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حارث، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شراب پینا تمام برائیوں کی جڑ ہے، جس کے پینے کے بعد آدمی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ کیا کر بیٹھے؟ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے اسے ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً ایان نے نشہ کی حالت میں معاذ اللہ سوال نامہ میں مذکور باتیں کہی ہیں، اور ہوش میں آنے کے بعد اس کا انکار کررہا ہے تو اس پر کفر کا حکم لاگو نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا نکاح ٹوٹے گا۔ البتہ آئندہ اس کے لیے نشہ سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
فَإِنْ ارْتَدَّ حَالَ الْجُنُونِ لَمْ تَصِحَّ، وَإِنْ ارْتَدَّ حَالَ إفَاقَتِهِ صَحَّتْ وَكَذَا لَا تَصِحُّ رِدَّةُ السَّكْرَانِ الذَّاهِبِ الْعَقْلَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٥٣)
(قَوْلُهُ وَسَكْرَانُ) أَيْ وَلَوْ مِنْ مُحَرَّمٍ لِمَا فِي إحْكَامَاتِ الْأَشْبَاهِ أَنَّ السَّكْرَانَ مِنْ مُحَرَّمٍ كَالصَّاحِي إلَّا فِي ثَلَاثٍ: الرِّدَّةُ، وَالْإِقْرَارُ بِالْحُدُودِ الْخَالِصَةِ، وَالْإِشْهَادُ عَلَى شَهَادَةِ نَفْسِهِ إلَخْ۔ (شامی : ٤/٢٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شعبان المعظم 1445
جمعہ، 16 فروری، 2024
بندوق سے کیے گئے شکار کا حکم
سوال :
مفتی صاحب ! اکثر لوگ پرندوں کا شکار بندوق سے کرتے ہیں، گولی لگنے کے بعد پرندے ذبح کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گولی مارنے سے پہلے اگر بسم اللہ...... پڑھ لیں اور گولی سے پرندہ مر جائے تو وہ بھی حلال رہے گا۔ ذبح نہیں بھی کیا اور وہ گولی سے مرگیا تو حلال رہے گا۔کیا یہ بات صحیح ہے؟
(المستفتی : شمیم سر، دھولیہ)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بندوق کے ذریعے کیے ہوئے شکار میں شرعاً کچھ تفصیل ہے اور وہ درج ذیل ہے :
گولی کی دو قسمیں ہیں :
گولی کی پہلی قسم : جو محدد اور نوک دار نہ ہو، جیسے پستول کی گولی ہو یا گول چھرے والا کارتوس، اس سے کئے ہوئے شکار کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے، بعض علماء کرام نے اسے حلال کہا ہے، لیکن جمہور احناف کا قول یہ ہے کہ اس سے کیا ہوا شکار حلال نہیں، لہٰذا جب تک شرعی طریقہ سے اس کو ذبح نہ کیا جائے، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
گولی کی دوسری قسم : جو محدد اور نوک دار ہو، جیسے کلاشنکوف، جی تھری اور تھری ناٹ تھری وغیرہ کی گولی یا نوک دار چھرے والا کارتوس، اس میں چونکہ زخم کھولنے اور "خزق" یعنی چھید کر پار ہونے کی صلاحیت موجود ہے، لہٰذا یہ بھی آلات جارحہ میں داخل ہو کر، اس کا حکم تیر ہی کا حکم ہے اور اس سے کیا ہوا شکار بالاتفاق حلال ہے، یعنی اگر
"بسم اللہ" پڑھ کر چھوڑی جائے اور شکاری کے پہنچنے سے پہلے جانور اس کے ذریعے مر جائے، تو وہ حلال ہوگا۔
قَالَ قَاضِي خَانْ : لَا يَحِلُّ صَيْدُ الْبُنْدُقَةِ وَالْحَجَرِ وَالْمِعْرَاضِ وَالْعَصَا وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَإِنْ جَرَحَ؛ لِأَنَّهُ لَا يَخْرِقُ إلَّا أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ قَدْ حَدَّدَهُ وَطُولُهُ كَالسَّهْمِ وَأَمْكَنَ أَنْ يَرْمِيَ بِهِ؛ فَإِنْ كَانَ كَذَلِكَ وَخَرَقَهُ بِحَدِّهِ حَلَّ أَكْلُهُ، فَأَمَّا الْجُرْحُ الَّذِي يُدَقُّ فِي الْبَاطِنِ وَلَا يَخْرِقُ فِي الظَّاهِرِ لَا يَحِلُّ لِأَنَّهُ لَا يَحْصُلُ بِهِ إنْهَارُ الدَّمِ؛ وَمُثَقَّلُ الْحَدِيدِ وَغَيْرِ الْحَدِيدِ سَوَاءٌ، إنْ خَزَقَ حَلَّ وَإِلَّا فَلَا اهـ۔ (شامی : ٦/٤١٧)
مستفاد : فتوی دارالعلوم کراچی، رقم الفتوی : 49/1549)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 شعبان المعظم 1445
بدھ، 14 فروری، 2024
نماز کی قبولیت کی علامت؟
سوال :
محترم مفتی صاحب ! ایک بات جاننا چاہتا ہوں ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی توفیق ہو یہ پہلی نماز کی قبولیت ہے کیا یہ قران و حدیث سے ثابت ہے یا بزرگان دین کی بات ہے یا ملفوظات میں سے ہے رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دنیا میں نیک اعمال بشمول نماز کی قبولیت کا یقینی علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی شریعت نے ہمیں اس کا مکلف بنایا ہے کہ ہم اس کی تحقیق میں پڑیں۔ البتہ علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں چند شرط ذکر فرمائی ہیں جن کا خیال رکھنے سے اعمال کی قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے۔ وہ شرائط درجِ ذیل ہیں :
ایمان : عمل کی قبولیت کی سب سے پہلی شرط ایمان اور تصحیحِ عقیدہ ہے۔ ایمان کے بغیر غلط عقیدے کے ساتھ کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں۔
تصحیحِ نیت اور اخلاص : یعنی جو بھی عمل کیا جائے، خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کی نیت سے ہو۔ اس میں ریا، تکبر وغیرہ نفسانی اغراض شامل نہ ہوں۔
عمل کا شریعت اور سنت کے موافق ہونا : جو بھی عمل کرے، اس کا سنت اور شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ خلافِ سنت اور خلافِ شریعت عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں۔ (مستفاد : معارف القرآن)
ایک نماز کے بعد دوسری نماز کی توفیق ہونا پہلی نماز کی قبولیت کی علامت ہے، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے، لہٰذا اسے حدیث کہہ کر بیان کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ "ایک نیک عمل کے بعد دوبارہ اسی نیک عمل کی توفیق ہوجانا پہلے عمل کی قبولیت کی علامت ہے" یہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ (اصلاحی مجالس : ١٥/٣١٤، از : حضرت مفتی محمدتقی عثمانی صاحب)
لہٰذا اسے حضرت حاجی صاحب کا ملفوظ کہہ کر بیان کرنے میں حرج نہیں، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو نیک عمل کرتے ہوئے مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ عمل قبول ہوگا یا نہیں؟ اور اس وجہ سے عمل چھوڑنا نہیں چاہیے۔ نیک عمل کے بعد دوبارہ اس کی توفیق ملنا یہ امید دلاتا ہے کہ پہلا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوگیا۔ لہٰذا انسان کو نیک اعمال جاری رکھنے چاہیے، اور جو کمی بیشی ہو اس پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے۔ کیا پتہ اللہ تعالیٰ کو انسان کا کونسا عمل پسند آجائے؟ اور بیڑہ پار ہوجائے۔ اس قول کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اعمال کی قبولیت کی جو بنیادی شرائط ہیں ان کو نظر انداز کیا جائے، ان شرائط کا لحاظ رکھنا بہر حال ضروری ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ اگر کسی نیک عمل کے بعد دوبارہ اس عمل کی توفیق نہیں ہوئی تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پہلا عمل قبول ہی نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا ہو۔ انسان کو بس اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پر اعمال کرکے نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہیے، زیادہ باریکیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
ملحوظ رہنا چاہیے کہ شریعت نے نماز کی قبولیت کے لیے کچھ معیار، شرائط اور آداب ذکر کیے ہیں، مثلا : وضو کرنا، نیت کا درست ہونا، نماز کے فرائض و واجبات اور سنتوں کا اہتمام کرنا وغیرہ۔ اگر ان چیزوں کی رعایت کرکے نماز ادا کر لی گئی تو اللہ تعالی کی طرف سے قبولیت کی امید رکھنی چاہیے۔
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ١٤٣)
﴿وَمَا كَانَ اللَّه لِيُضِيعَ إيمَانكُمْ﴾ أَيْ صَلَاتكُمْ إلَى بَيْت الْمَقْدِس بَلْ يُثِيبكُمْ عَلَيْهِ لِأَنَّ سَبَب نُزُولهَا السُّؤَال عَمَّنْ مَاتَ قَبْل التحويل ﴿إن الله بالناس﴾ المؤمنين ﴿لرؤوف رَحِيم﴾ فِي عَدَم إضَاعَة أَعْمَالهمْ وَالرَّأْفَة شِدَّة الرَّحْمَة وَقَدَّمَ الْأَبْلَغ لِلْفَاصِلَةِ۔ (تفسیر جلالین : ١/٣٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 شعبان المعظم 1445
پیر، 12 فروری، 2024
بدلی چلانے والے مزدور کا ایکسٹرا لینا
سوال :
مفتی صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔ سوال عرض ہے کہ کارخانے میں بدلی چلانے والا کاریگر مزدوری کے علاوہ سو، دیڑھ سو روپیہ زیادہ لیتا ہے سیٹھ سے، کیا یہ لینا جائز ہے؟ جبکہ لینے اور دینے والوں کو پتہ ہے کی بدلی چلانے والے کو ایکسٹرا پیسہ ملتا ہے۔
(المستفتی : ثاقب، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی کام کرنے والے کو اپنی اجرت بتانے کا اختیار ہوتا ہے۔ اب اگر کام کروانے والا اسے قبول کرلیتا ہے تو کام مکمل ہونے کے بعد کاریگر اس اجرت کا حقدار ہوتا ہے۔
مثلاً کسی مشین کے میکانک کے پاس اگر ہم کوئی خراب مشین لے جائیں اور اسے کہیں کہ اسے درست کردے تو وہ کہے گا کہ اس کی اتنی اتنی اجرت لگے گی۔ اب مشین والے کو اتنے میں کام کروانے کی استطاعت ہو اور وہ اسے مناسب سمجھتا ہے تو قبول کرلیتا ہے، ورنہ دوسری طرف چلا جاتا ہے۔
یہی معاملہ بدلی چلانے والوں کا بھی ہے۔ یعنی بدلی چلانے والا اپنی اجرت بتادیتا ہے یا پھر عُرف کی وجہ سے یہ بات بدلی چلانے والے کاریگر اور پاولوم مالک کے ذہن میں رہتی ہے کہ اس کی اجرت میٹر کے حساب کے ساتھ مزید سو یا دیڑھ سو روپیہ ہوگی۔ گویا یہ معاملہ سیٹھ اور بدلی چلانے والے کی باہمی رضا مندی سے طے ہوجاتا ہے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
ہاں اگر کسی پاور لوم مالک کو ایکسٹرا نہیں دینا ہے تو وہ پہلے ہی کاریگر سے کہہ دے کہ میں صرف میٹر کے حساب سے فلاں فلاں اجرت دوں گا، ایکسٹرا کچھ نہیں دوں گا، تو اب کاریگر اسے قبول کرلیتا ہے تو پھر اسے میٹر کے حساب سے طے شدہ اجرت ملے گی، اس صورت میں مزدور کو ایکسٹرا مانگنے کا حق نہیں ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٣٥٢)
اَلْمَعْرُوْفُ عُرْفاً کَالْمَشْرُوْطِ شَرْطاً۔ (درر الحکام : ۱/۵۱، المادۃ :۴۳، قواعد الفقہ :ص۱۲۵، القاعدۃ:۳۳۴ ، شرح القواعد:ص۲۳۷، جمہرۃ القواعد : ۲/۹۳۵، القاعدۃ:۲۲۶۳، القواعد الکلیۃ : ص۲۵۰ ، البحر الرائق:۸/۳۷۱ ، شرح السیر :۵/۲۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 شعبان المعظم 1445
پیر، 5 فروری، 2024
بریلویوں کا ایک دیوبندی پر تشدد
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
✍️ مفتی محمد عامر عثمانی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! کل ہی ہم نے ایک بریلوی عالم مفتی سلمان ازہری کی بے جا گرفتاری پر ایک مذمتی اور دعوت فکر وعمل دینے والا مضمون لکھا تھا، جس میں مسلکی اختلافات کے ساتھ اتحاد اور بحیثیت مسلمان ایک دوسرے پر آنے مسائل کو مل کر حل کرنے کی بات لکھی تھی۔
لیکن آج صبح سے ایک ویڈیو وائرل ہے، جس میں ناسک شہر کے چند نوجوان جو اپنے آپ کو سنی بریلوی بتا رہے ہیں، ایک دیوبندی پر تشدد کرتے ہوئے اسے مسلک اعلی حضرت زندہ باد کا نعرہ لگانے اور دیوبندی مسلک اور اس کے علماء کے خلاف انتہائی نازیبا غیراخلاقی باتیں کہنے پر مجبور کررہے ہیں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ ناسک میں اس طرح کے تشدد کے واقعات معمولات میں داخل ہیں، لیکن موجودہ حالات میں جبکہ بحیثیت مسلمان پوری قوم پر حالات آئے ہوئے ہیں، دشمن بحیثیت مسلمان ہم سب کی تاک میں لگا ہوا ہے، ایسے سنگین دور میں مسلک کے نام پر دوسرے مسلک کے پیروکار مسلمانوں پر تشدد کرنا انتہائی گھٹیا اور گری ہوئی حرکت ہے۔ ہم ایسے لوگوں کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ان کے علماء کو اس پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی دعوت دیتے ہیں کہ آپ کے نوجوان کہاں جارہے ہیں؟ ان کی خبر لیں۔ کہیں آپ کے زہریلے بیانات تو اس تشدد کا سبب نہیں ہیں؟ یہ ساری حرکتیں تو آر ایس ایس جیسی شرپسند تنظیموں کے کارکنان کرتے ہیں، وہ مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر مار مار کر اپنے من مانے نعرے لگواتے ہیں، تو اپنے آپ کو سنی بریلوی اور اعلی حضرت کے مسلک کا پیروکار کہنے والے نوجوان کہاں سے تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ کیوں کہ اس طرح کی تعلیمات تو معاذ اللہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، صحابہ اور سلف صالحین کی بالکل بھی نہیں رہی ہے۔ اور جہاں تک ہمارا علم ہے ان کے اعلی حضرت احمد رضا خان کی بھی یہ تعلیمات نہیں ہوسکتی۔ تو پھر یہ نوجوان کہاں جارہے ہیں؟ ان کا آئیڈیل آر ایس ایس جیسی شرپسند تنظیمیں تو نہیں ہیں؟
جبکہ ہمارے نوجوان کبھی اس طرح کا تشدد کرتے ہوئے آپ کو نہیں ملیں گے، کیونکہ ہم تو اس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے امتی ہیں جس نے پتھر کھاکر بھی دعائیں دی ہے، اور ہمارے اسلاف نے بھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
اللہ تعالیٰ ایسے مسلکی غنڈوں کو ہدایت عطا فرمائے، اگر ہدایت مقدر نہ ہوتو انہیں عبرت کا نشان بنادے۔ آمین یا رب العالمین