منگل، 10 ستمبر، 2024

حکومتی امداد سے مساجد ومدارس میں سولار لگانا


سوال :

مفتی صاحب ! آج کل مساجد و مدارس میں ایک مسلم سیاسی لیڈر موجودہ حکومت کی جانب سے سولار سسٹم لگوا رہے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ذاکر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کی ذمہ داریوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی عبادت گاہوں کو تحفظ اور سہولیات فراہم کریں، لہٰذا اگر حکومت کی کسی اسکیم کے تحت مساجد ومدارس میں سولار سسٹم لگائے جارہے ہیں تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، اور اس سلسلے میں کوشش کرنے والے مسلم لیڈر کو ان شاءاللہ اجر وثواب بھی ملے گا، کتبِ فقہ وفتاوی میں اس سلسلے میں رہنمائی موجود ہے۔


وَأَمَّا الْإِسْلَامُ فَلَيْسَ مِنْ شَرْطِهِ فَصَحَّ وَقْفِ الذِّمِّيِّ بِشَرْطِ كَوْنِهِ قُرْبَةً عِنْدَنَا وَعِنْدَهُمْ۔ (البحر الرائق : ٥/٢٠٤)

أَنَّ شَرْطَ وَقْفِ الذِّمِّيِّ أَنْ يَكُونَ قُرْبَةً عِنْدَنَا وَعِنْدَهُمْ كَالْوَقْفِ عَلَى الْفُقَرَاءِ أَوْ عَلَى مَسْجِدِ الْقُدْسِ۔ (شامی : ٨/٣٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ربیع الاول 1446

ہفتہ، 7 ستمبر، 2024

پولیو ڈوز کا شرعی حکم

سوال :

بچوں کو حکومت کی جانب سے جو پولیو ڈوز پلایا جاتاہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ پلا سکتے ہیں یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اسعد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ کا واضح اور مسلّم اصول ہے کہ جب تک کسی دوا یا کھانے، پینے وغیرہ کی اشیاء میں کسی ناپاک یا حرام شئے کے ملے ہونے کا یقینی علم نہ ہو تب تک اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ پولیو ڈوز کا بھی حکم یہی ہے کہ اس میں کسی ناپاک شئے کی آمیزش کا یقینی علم نہیں ہے۔ لہٰذا اس کا استعمال اصلاً جائز ہے۔ ذیل میں ہم عالم اسلام متعدد مؤقر اور معتبر اداروں کے فتاوی نقل کررہے ہیں تاکہ اس سلسلے میں مزید تشفی ہوجائے۔

دارالعلوم (وقف) دیوبند کا فتوی ہے :
 پولیو کی دوا میں جب تک تحقیق سے کسی غلط چیز کی ملاوٹ کا ثبوت نہ ہوجائے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ حکومت کا یہ اقدام ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس لئے بلاوجہ اس میں شبہ کرنا مناسب نہیں۔ (رقم الفتوی : 1503)

دارالعلوم کراچی کا فتوی ہے :
پولیو کے قطروں کے متعلق مسلمان اطباء حضرات یہی کہتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پولیو سے بچاؤ کے لئے پلائے جاتے ہیں اور شرعی نقطہ نگاہ سے کسی بھی حلال دوا یا غذا کے ذریعہ بیماری سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شرعاً فی نفسہ جائز ہے، لہٰذا پولیو کے قطرے میں جب تک کسی مستند ذریعہ سے کسی ناجائز بات یا ناپاک چیز کی آمیزش کا علم یا ظن غالب نہ ہو اس وقت تک اسکو پلانے کا اصولی حکم یہی ہے کہ شرعاً فی نفسہ جائز ہے۔ نیز چونکہ پولیو کے قطرے پلانا شرعاً فرض یا واجب یا قانوناً لازم نہیں اس لئے کوئی احتیاط پر عمل کرتے ہوئے نہ پلائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 86/1938)

جامعۃ الرشید، کراچی کا فتوی ہے :
پولیو کے قطرے عرصہ دراز سے پلائے جا رہے ہیں، لیکن تا حال اس کے کوئی مضر اثرات ظاہر نہیں ہوئے۔ نیز اس وقت عالم ِ اسلام کے ممتاز علماءکرام اور مستند طبی ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہیں کہ پولیو کے قطروں میں کوئی مضرِصحت یا خلافِ شریعت چیز نہیں پائی جاتی، اس لئے یہ قطرے پلانا جائز ہے۔ (رقم الفتوی : 62585/57)


(لِانْقِلَابِ الْعَيْنِ) فَإِذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُكْمُ الْمِلْحِ. وَنَظِيرُهُ فِي الشَّرْعِ النُّطْفَةُ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ عَلَقَةً وَهِيَ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ مُضْغَةً فَتَطْهُرُ، وَالْعَصِيرُ طَاهِرٌ فَيَصِيرُ خَمْرًا فَيَنْجُسُ وَيَصِيرُ خَلًّا فَيَطْهُرُ، فَعَرَفْنَا أَنَّ اسْتِحَالَةَ الْعَيْنِ تَسْتَتْبِعُ زَوَالَ الْوَصْفِ الْمُرَتَّبِ عَلَيْهَا۔ (شامی : ١/٣٢٧)

الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)

مَعْنَى هَذِهِ الْقَاعِدَةِ أَنَّ مَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ بِالشَّكِّ، وَمَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ إِلاَّ بِيَقِينٍ، وَدَلِيلُهَا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَل عَلَيْهِ، أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لاَ؟ فَلاَ يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: قَال رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى أَثَلاَثًا أَمْ أَرْبَعًا؟ فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ، وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤٥/٥٧٩)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ربیع الاول 1446

منگل، 3 ستمبر، 2024

یوم اساتذہ منائیں مگر .........


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی 
    (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ہمارے ملک ہندوستان میں ہر سال پانچ ستمبر کو یومِ اساتذہ (Teacher's Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن پورے ملک میں اساتذہ سے متعلق مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے عمدہ خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو انعام سے نوازا جاتا ہے، اور طلباء اپنے اساتذہ کو پھول اور تحائف پیش کرتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح یوم آزادی اور یوم جمہوریہ قومی تہوار ہیں، اسی طرح یومِ اساتذہ بھی ایک قومی تہوار ہے، لہٰذا شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، بشرطیکہ اس کے منانے میں کوئی مُنکَر اور برائی نہ پائی جاتی ہو، مثلاً بے پردگی، ناچ گانے اور موسیقی وغیرہ کا انتظام نہ ہو۔

معزز قارئین ! ہمارے شہر کی اسکولوں میں یوم اساتذہ اس طرح منایا جاتا ہے کہ اس دن بعض طلباء خود استاذ بن کر پڑھاتے ہیں یا پھر اساتذہ کی اہمیت اور ان کے مقام ومرتبہ پر تقاریر ہوتی ہیں، بعض اسکولوں میں طلباء اپنے اساتذہ کو تحائف بھی پیش کرتے ہیں۔ اب اگر ان تحائف کا لین دین اپنی مرضی اور خوشی سے ہو اور اس کی وجہ سے دیگر غریب طلباء کی دل آزاری نہ ہوتی ہوتو اس میں حرج نہیں۔ لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ بعض اسکولوں میں باقاعدہ طلباء کو کہا گیا ہے کہ ٹیچرس ڈے کو گفٹ لے کر آنا ہے۔ یا پھر ان تحائف کا لین دین اس طرح ہوتا ہے کہ غریب طلباء بھی اپنے والدین سے مہنگے مہنگے گفٹ کے لیے ضد کرتے ہیں۔ ویسے ہمارے شہر میں الحمدللہ ایسے دیندار اور محتاط اساتذہ بھی ہیں جو یہ مسئلہ بھی پوچھتے ہیں کہ بغیر کچھ کہے بچوں سے ملنے والے تحائف ہم قبول کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یعنی اکثریت سمجھدار لوگوں کی ہے۔ لیکن جہاں بھی اوپر بتائے گئے غلط طریقے کے مطابق تحائف کا لین دین ہوتا ہے تو انہیں اس پر توجہ دینے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس سلسلے میں زیادہ کچھ لکھنا نہیں چاہتے بلکہ اسکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ سے صرف اتنی سی عاجزانہ اور مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ آپ یوم اساتذہ منائیں لیکن اس میں کوئی ایسا عمل نہ ہو جس میں کسی کی دل آزاری اور شرعاً کوئی ناجائز عمل پایا جائے۔

محترم قارئین ! بلاشبہ علمِ نافع، اخلاق اور تہذیب سکھانے والے اساتذہ کی دین ودنیا دونوں طرح سے بڑی اہمیت اور ان کا بڑا مقام ومرتبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ماں باپ کے بعد کسی بھی انسان کے سب سے بڑے محسن اس کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ لیکن سال میں ایک مرتبہ وہ بھی رسمی طور پر ان کی مدح سرائی کردینا یا کوئی تحفہ دے دینا اور پھر انہیں اور ان کی خدمات کو فراموش کردینا نہ تو شرعاً درست ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر کوئی اچھا عمل ہے۔ لہٰذا طلباء کے لیے اپنے اساتذہ کا پوری زندگی اکرام کرنا اور ہمیشہ ان کے لیے دعائے خیر کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ طلباء کے ساتھ محبت، شفقت اور خیرخواہی کا معاملہ کریں اور اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کریں تب ہی ایک تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر معاملے میں شریعت کو مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں اپنے اساتذہ کی کماحقہ قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

ہفتہ، 31 اگست، 2024

روایت "میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے ابنیاء کی طرح ہیں" کی تحقیق

سوال :

محترم مفتی صاحب ! یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔ کیا یہ حدیث ہے؟ براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت اگرچہ ذخیرہ احادیث میں ملتی ہے، لیکن ماہر فن علماء مثلاً سیوطی، ابن حجر، ملا علی قاری اور زرکشی وغیرہ رحمھم اللہ نے اس روایت کو بے اصل اور من گھڑت قرار دیا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
یہ روایت بے اصل ہے، کسی معتبر کتاب میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔ ”علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل“ ”قال السیوطی فی الدرر: لا أصل لہ، وقال فی المقاصد: قال شیخنا یعنی ابن حجر: لا أصل لہ، وقبلہ الدمیری والزرکشی، وزاد بعضہم : ولا یعرف فی کتاب معتبر الخ (کشف الخفاء ومزیل الإ لباس: ۲/۷۴، رقم: ۱۷۴۴)۔ (رقم الفتوی : 164652)

لہٰذا اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، یہ روایت متعدد کتابوں میں مذکور ہے، جو معتبر بھی ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔


علماءُ أُمَّتي كأنبياءِ بَني إسرائيلَ
الراوي: - • ملا علي قاري، الأسرار المرفوعة (٢٤٧) • قيل لا أصل له أو بأصله موضوع

عُلَماءُ أُمَّتي كأنبياءِ بني إسرائيلَ.
الراوي: - • الزرقاني، مختصر المقاصد (٦٥٢) • لا أصل له

علماءُ أمتي كأنبياءِ بني إسرائيلَ
الراوي: - • الزركشي (البدر)، اللآلئ المنثورة (١٦٧) • لا يعرف له أصل۔

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ. (رواه احمد والترمذى وابوداؤد وابن ماجه والدارمى)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
25 صفر المظفر 1446

پیر، 19 اگست، 2024

عورتوں کا بغیر سینہ بند (بَرا) کے نماز پڑھنا


سوال :

مفتی صاحب اسی طرح کا ایک مسئلہ کسی عالمہ نے بیان کیا کہ چھاتی کا زائد کپڑا (بَرا) کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس تعلق سے بھی رہنمائی کردیجئے، مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : عمر فاروق، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز میں عورت کا ستر چھپا ہو یعنی چہرہ، ہتھیلیاں اور دونوں قدم کے علاوہ بقیہ پورا جسم کپڑے سے ڈھکا ہوا ہو تو اس کی نماز ہوجائے گی، کپڑے کے اندر سینہ بند (بَرا) کا پہننا ضروری نہیں۔ بغیر سینہ بند کے بھی نماز بلاکراہت ادا ہوتی ہے۔

ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مذکورہ بات بے اصل ہے، عورت کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے ایسی کوئی شرط ثابت نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 152370)

لہٰذا سوال نامہ میں مذکور عالمہ صاحبہ کی بات بالکل غلط اور من گھڑت ہے، انہیں اپنی اصلاح کرنا چاہیے اور آئندہ بغیر دلیل کے ایسی بات نہیں کرنا چاہیے۔


سَتْرُ الْعَوْرَةِ شَرْطٌ لِصِحَّةِ الصَّلَاةِ إذَا قُدِرَ عَلَيْهِ. كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ... الْعَوْرَةُ لِلرَّجُلِ مِنْ تَحْتِ السُّرَّةِ حَتَّى تُجَاوِزَ رُكْبَتَيْهِ فَسُرَّتُهُ لَيْسَتْ بِعَوْرَةٍ عِنْدَ عُلَمَائِنَا الثَّلَاثَةِ وَرُكْبَتُهُ عَوْرَةٌ عِنْدَ عُلَمَائِنَا جَمِيعًا هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ. بَدَنُ الْحُرَّةِ عَوْرَةٌ إلَّا وَجْهَهَا وَكَفَّيْهَا وَقَدَمَيْهَا. كَذَا فِي الْمُتُونِ وَشَعْرُ الْمَرْأَةِ مَا عَلَى رَأْسِهَا عَوْرَةٌ وَأَمَّا الْمُسْتَرْسِلُ فَفِيهِ رِوَايَتَانِ الْأَصَحُّ أَنَّهُ عَوْرَةٌ. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ وَهُوَ الصَّحِيحُ وَبِهِ أَخَذَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى... قَلِيلِ الِانْكِشَافِ عَفْوٌ؛ لِأَنَّ فِيهِ بَلْوَى وَلَا بَلْوَى فِي الْكَبِيرِ فَلَا يُجْعَلُ عَفْوًا الرُّبْعُ وَمَا فَوْقَهُ كَثِيرٌ وَمَا دُونَ الرُّبْعِ قَلِيلٌ وَهُوَ الصَّحِيحُ. هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 صفر المظفر 1446

ہفتہ، 17 اگست، 2024

کیا عورتوں کے لیے نیکر(چڈی) پہننا ضروری ہے؟


سوال :

مفتی صاحب ! ایک عالمہ صاحبہ کہتی ہیں کہ عورتوں کو مخصوص ایام کے علاوہ بھی چڈی (نیکر) کا استعمال کرنا چاہیے  اگر نہیں کریں گی تو گناہ گار ہوں گی۔ شریعت کی روشنی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : زبیر احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شلوار اور پاجامہ کے اندر انڈر وئیر یعنی چڈی کا استعمال خواہ مرد ہو یا عورت سب کے لیے صرف جائز ہے، کوئی فرض یا واجب عمل نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
جیسے مرد حضرات لنگی پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں اگرچہ اندر انڈر ویئر وغیرہ نہ ہو، اسی طرح عورتیں بھی سوال میں مذکور لباس میں نماز پڑھ سکتی ہیں بشرطیکہ تمام ضروری ستر چھپ جائے، پیٹ، پیٹھ وغیرہ کھلی ہوئی نہ ہو۔ (رقم الفتوی : 62443)

لہٰذا جب شلوار اور پاجامہ سے ستر چھپ جاتا ہے تو اس کے اندر نیکر اور چڈی پہننے کو ضروری سمجھنا اور نہ پہننے کو ناجائز اور گناہ قرار دینا سخت غلطی ہے، عالمہ صاحبہ کو اپنی اس بے بنیاد بات سے توبہ و استغفار کرکے فوراً رجوع کرنا چاہیے۔


عَنْ دِحْيَةَ بْنِ خَلِيفَةَ الْکَلْبِيِّ أَنَّهُ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبَاطِيَّ فَأَعْطَانِي مِنْهَا قُبْطِيَّةً فَقَالَ اصْدَعْهَا صَدْعَيْنِ فَاقْطَعْ أَحَدَهُمَا قَمِيصًا وَأَعْطِ الْآخَرَ امْرَأَتَکَ تَخْتَمِرُ بِهِ فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ وَأْمُرْ امْرَأَتَکَ أَنْ تَجْعَلَ تَحْتَهُ ثَوْبًا لَا يَصِفُهَا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : 

(قَالَ): أَيِ النَّبِيُّ لَهُ (وَأْمُرْ): أَمَرَ مِنَ الْأَمْرِ (امْرَأَتَكَ أَنْ تَجْعَلَ تَحْتَهُ ثَوْبًا لَا يَصِفُهَا): بِالرَّفْعِ عَلَى أَنَّهُ اسْتِئْنَافُ بَيَانٍ لِلْمُوجِبِ، وَقِيلَ بِالْجَزْمِ عَلَى جَوَابِ الْأَمْرِ، أَيْ لَا يَنْعَتُهَا وَلَا يُبَيِّنُ لَوْنَ بَشْرَتِهَا لِكَوْنِ ذَلِكَ الْقُبْطِيِّ رَقِيقًا، وَلَعَلَّ وَجْهَ تَخْصِيصِهَا بِهَذَا اهْتِمَامٌ بِحَالِهَا، وَلِأَنَّهَا قَدْ تُسَامَحَ فِي لُبْسِهَا بِخِلَافِ الرَّجُلِ، وَفِإِنَّهُ غَالِبًا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ فَوْقَ السَّرَاوِيلِ وَالْإِزَارِ۔ (مرقاۃ المفاتيح : ٧/٢٧٩٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 صفر المظفر 1446

جمعہ، 16 اگست، 2024

لاڈلی بہن اسکیم میں ملنے والی رقم کس کی؟


سوال :

مفتی صاحب مسئلہ یہ پو چھنا تھا کہ حکومت مہاراشٹر کی جانب سے بنی لاڈلی بہن یوجنا شروع ہوئی ہے۔ جس میں فارم بھرنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد ہر ماہ 1500 اپنے اکاونٹ میں آتا ہے۔ ابھی جلد یہ اسکیم شروع ہوئی۔ جس میں اب 2 ماہ کا 3000 انا شروع ہوگیا ہے۔ اور کچھ جاننے والوں کے گھر کی عورتوں کے اکاونٹ میں پیسہ آبھی گیا ہے۔ اب یہ مسئلہ ہے کہ اس پیسہ کا اصل مالک کون؟ آپ رہنمائی فرمائیں تو ان تک بات پہنچا دی جائیگی۔ انشاءاللہ اس سے کچھ میاں بیوی میں نااتفاقی ہو رہی ہے۔
(المستفتی : رضوان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : لاڈلی بہن اسکیم کے تحت مہاراشٹر گورنمنٹ کی جانب سے ملنے والی رقم میں چونکہ اس بات کی صراحت ہے کہ یہ رقم خواتین کے لیے ہے، لہٰذا ملنے والی اس رقم کی وہ تنہا مالک ہے اور اسے اس بات کا شرعاً اختیار ہے کہ وہ اس پیسے کو جائز کاموں میں جہاں چاہے خرچ کرے۔ اس رقم کا شوہر کو دینا ضروری نہیں۔ اور نہ ہی شوہر اس کی مرضی کے بغیر وہ یہ رقم اس سے لے سکتا ہے۔ ہاں اگر خاتون اپنی مرضی سے یہ رقم شوہر کو دے دے تو الگ بات ہے۔


عَنْ أنَسِ بْنِ مالِكٍ، أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قالَ : لا يَحِلُّ مالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إلّا بِطِيبِ نَفْسِهِ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ٢٨٨٥)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ۔ (شامی : ٤/٦١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 صفر المظفر 1446


روایت "مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے" کی تحقیق


سوال :

مفتی صاحب ! دریافت کرنا تھا کہ علامہ اقبال کے ایک شعر میں یہ الفاظ ملتے ہیں "میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے" جس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاتی ہے۔ کیا اس طرح کا کوئی اشارہ حدیث پاک میں ملتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اسعد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور شعر "میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے " کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک حدیث "مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے" کا مفہوم ہے اور اس کے عربی الفاظ یہ "قال رسول الله صلى الله علیہ وسلم تأتي إلىّ ريح طيبة من الهند" بیان کیے جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے ان الفاظ کے ساتھ یا اِس سے ملتے جلتے الفاظ مثلاً "مجھے ہند سے وفا کی خوشبو آتی ہے" وغیرہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث نہیں ہے۔ لہٰذا ان باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرنا اور اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک معتبر قول ملتا ہے کہ "آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : سب سے بہترین ہوا سر زمینِ ہندوستان میں ہے، حضرت آدم وہیں پر اتارے گئے، اور حضرت آدم علیہ السلام نے وہاں جنت کا خوشبودار پودا لگایا۔" لہٰذا یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کے طور پر بیان کی جاسکتی ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْكَارِزِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: «أَطْيَبُ رِيحٍ فِي الْأَرْضِ الْهِنْدُ، أُهْبِطَ بِهَا آدَمُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فَعَلَقَ شَجَرُهَا مِنْ رِيحِ الْجَنَّةِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم، رقم : ٣٩٩٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 صفر المظفر 1446

منگل، 13 اگست، 2024

ٹولین (ٹونائن) یا چڑیل کی حقیقت ؟


سوال :

ٹولین اور چڑیل کی شریعتِ اسلامیہ میں کیا حقیقت ہے؟ کیا کسی عورت کو ٹولین لگتی ہے؟ یا لگ سکتی ہے؟ ہمارے معاشرے میں کسی ایسی بوڑھی عورت کو جو سب سے الگ تھلگ زندگی گزارتی ہو اور روزے نماز خوب کرتی ہو عموماً اس کو ٹولین کے نام سے مشہور کردیا جاتا ہے۔ لوگ اس سے خوف کھانے لگتے ہیں۔ تو اس کی کیا حقیقت ہے؟کبھی کسی عورت کا رشتہ محض یہ بول کر رد کردیا جاتا ہے کہ اس عورت کو ٹولین لگتی ہے۔ ایسا بولنے والوں کا کیا حکم ہے؟ جبکہ اس طرح کی بات بولنے سے اس خاتون کا رشتہ نہیں ہوتا؟ بینوا توجروا
(المستفتی : عرفان احمد انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریر جن کی مؤنث یعنی جنیہ ہی چڑیل ہوتی ہیں۔ یعنی وہی مختلف ہیبت ناک شکل میں بعض انسانوں کو ڈراتی ہیں یا پھر بعض مرتبہ عورتوں پر حاوی بھی ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ جنات کو اللہ تعالیٰ نے انسانی آزمائش کے لیے یہ قدرت دے رکھی ہے کہ وہ مختلف تصرف کرکے انسانی زندگی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جس کا قرآن وحدیث سے ثبوت بھی ملتا ہے، لہٰذا کسی کے جسم پر جنات کا تسلط اور اس کے اثر سے مغلوب ہوجانا کوئی بعید نہیں ہے۔

ایک واقعہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سنایا ہے کہ "بنو عذرہ" قبیلے کا ایک شخص جس کا نام "خرافہ" تھا اسے جنات پکڑ کر لے گئے تھے، وہ ایک عرصے تک جنات کے درمیان مقیم رہا پھر وہی اسے انسانوں کے پاس چھوڑ گئے۔ اب وہ واپس آنے کے بعد عجیب عجیب قصے سنایا کرتا تھا، اس لئے لوگ (ہر عجیب بات کو) خرافہ کا قصہ کہنے لگے، خلاصہ یہ کہ انسان پر جنات کا اثر ہو سکتا ہے اور وہ انسان کی رگوں کے اندر بھی داخل ہو سکتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
 بھوت پریت، سایہ، ہوا وغیرہ یہ سب وہمیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہاں جن کا اثر یا سحرکا اثر یہ تو ثابت ہے بقیہ ساری چیزیں توہمات کے قبیلہ سے ہیں۔ عامل لوگ لوگوں کے دلوں میں اس کا ہوا بیٹھا دیتے ہیں اور وہم کو تقویت دیتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو اس طرح کی وہمیات میں نہ پڑنا چاہئے، خود بھی پاک و صاف رہیں، گھروں کو بھی پاک و صاف رکھیں، پانچوں وقت نماز پڑھیں، گھروں میں نفل نماز اور قرآن کی تلاوت کرتے رہیں۔ ان شاء اللہ کوئی چیز قریب نہیں آئے گی۔ (رقم الفتوی : 600747)

ہمارے یہاں جسے ٹولین کہا جاتا ہے وہ اصل میں ٹونائن یعنی جادو ٹونا کرنے والی ہے۔ بلاشبہ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں، اور جادو کے ذریعے دوسری عورتوں کو سخت تکلیف پہنچاتی ہیں، یہاں تک کہ جادو کے زور سے ان پر اس طرح بھی غالب آسکتی ہیں کہ ان کی زبان سے اپنی بات بھی کہلوا سکتی ہیں۔ ایسی عورتوں کو کہا جاتا ہے کہ اسے ٹولین لگی ہے جبکہ اصلاً ان پر (ٹونائن) کے جادو کا اثر ہوتا ہے۔

اسی طرح بعض مرتبہ کسی دماغی بیماری کی وجہ سے بھی عورتوں سے ایسی حرکت سرزد ہوتی ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ ان پر جادو یا جنات کا اثر ہے، ایسی عورتوں کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اسے ٹولین لگی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسے طبی لحاظ سے کوئی بیماری ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کا صحیح رُخ پر علاج کیا جائے تو یہ مسائل جلد ختم ہوجاتے ہیں۔

معلوم ہونا چاہیے کہ جادو کا سیکھنا سکھانا قرآن وحدیث کی رو ناجائز، حرام اور بروز حشر سخت عذاب میں مبتلا کرنے والا عمل ہے۔ نیز اگر جادو سیکھنے یا کرنے میں کوئی شرکیہ اور کفریہ عمل کیا گیا یا کوئی شرکیہ کفریہ کلمہ کہا گیا ہے تو ایسے لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں۔ اگر بغیر توبہ کے مرجائیں تو سیدھے جہنم میں جائیں گے۔ لیکن ایسی عورتیں یعنی (ٹونائن) بہت کم ہوتی ہیں، اگر ہوتی بھی ہیں تو وہ چھپ چھپا کر عمل کریں گی، اس طرح لوگوں کے درمیان مشہور تھوڑی نہ ہوں گی، عموماً بعض نیک اور نمازی خواتین کو ان کے ہی رشتہ دار یا پڑوسی کسی دشمنی یا حسد میں ٹولین مشہور کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں تو انہیں مجبوراً الگ تھلگ رہنا پڑتا ہے۔ یہ انتہائی واہیات اور سخت گناہ کی بات ہے کہ نیک عورتوں سے متعلق ایسی بے بنیاد باتیں لوگوں کے درمیان پھیلائی جائے، جب تک کسی کے بارے میں پختہ ثبوت نہ ملے کہ وہ جادو ٹونا کرتی ہے اسے ٹونائن کہنا بہتان، ناجائز اور حرام کام ہے۔ ایسے لوگوں کی بروزِ حشر سخت گرفت ہوگی۔ اور ان کی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھانے والے بھی سخت گناہ گار ہوں گے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے۔ اور ان کے بہتان اور جھوٹ بات کو بغیر پختہ ثبوت کے آگے بڑھانے کی وجہ سے کسی کا رشتہ لگنے یا کسی اور معاملات میں تکلیف آئے تو اس کا وبال بھی ان لوگوں پر ہوگا۔


عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ حَدِيثًا، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَأَنَّ الْحَدِيثَ حَدِيثُ خُرَافَةَ، فَقَالَ : " أَتَدْرِينَ مَا خُرَافَةُ ؟ إِنَّ خُرَافَةَ كَانَ رَجُلًا مِنْ عُذْرَةَ، أَسَرَتْهُ الْجِنُّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَمَكَثَ فِيهِنَّ دَهْرًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَدُّوهُ إِلَى الْإِنْسِ فَكَانَ يُحَدِّثُ النَّاسَ بِمَا رَأَى فِيهِمْ مِنَ الْأَعَاجِيبِ، فَقَالَ النَّاسُ : حَدِيثُ خُرَافَةَ۔ (مسند احمد، رقم : ٢٥٢٤٤) 

قال المحقق في الفتح : قال أصحابنا : للسحر حقیقۃ وتأثیر في الأجسام خلافًا لمن منع ذٰلک۔ (إعلاء السنن، کتاب السیر / حکم السحر وحقیقتہ ۱۲؍۶۰۰)

المراد بالسحر ما یستعان في تحصیلہ بالتقرب إلی الشیطان مما لا یستقل بہ الإنسان، وذٰلک لا یحصل إلا لمن یناسبہ في الشرارۃ وخبث النفس۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲۴؍۲۵۹)

اخل الأجسام المحالَ أن يتداخل جسمان كثيفان أحدُهما في الآخر، بحيث يكون حيِّزُهما واحدًا. وأما أن يدخل جسمٌ لطيف في كثيف يسري فيه، فهذا ليس بمحال۔(کتاب الروح : ٢/٦١١)

"(و) الكافر بسبب اعتقاد (السحر) لا توبة له (ولو امرأة) في الأصح.

مطلب في الساحر والزنديق (قوله والكافر بسبب اعتقاد السحر) في الفتح: السحر حرام بلا خلاف بين أهل العلم، واعتقاد إباحته كفر. وعن أصحابنا ومالك وأحمد يكفر الساحر بتعلمه وفعله سواء اعتقد الحرمة أو لا ويقتل وفيه حديث مرفوع «حد الساحر ضربة بالسيف» يعني القتل وعند الشافعي لا يقتل ولا يكفر إلا إذا اعتقد إباحته. وأما الكاهن، فقيل هو الساحر، وقيل هو العراف الذي يحدث ويتخرص، وقيل من له من الجن من يأتيه بالأخبار. وقال أصحابنا: إن اعتقد أن الشياطين يفعلون له ما يشاء كفر لا إن اعتقد أنه تخييل، وعند الشافعي إن اعتقد ما يوجب الكفر مثل التقرب إلى الكواكب وأنها تفعل ما يلتمسه كفر. وعند أحمد حكمه كالساحر في رواية يقتل، وفي رواية إن لم يتب، ويجب أن لا يعدل عن مذهب الشافعي في كفر الساحر والعراف وعدمه. وأما قتله فيجب ولا يستتاب إذا عرفت مزاولته لعمل السحر لسعيه بالفساد في الأرض لا بمجرد علمه إذا لم يكن في اعتقاده ما يوجب كفره. اهـ. وحاصله أنه اختار أنه لا يكفر إلا إذا اعتقد مكفرا، وبه جزم في النهر، وتبعه الشارح، وأنه يقتل مطلقا إن عرف تعاطيه له، ويؤيده ما في الخانية: اتخذ لعبة ليفرق بين المرء وزوجه. قالوا: هو مرتد ويقتل إن كان يعتقد لها أثرا ويعتقد التفريق من اللعبة لأنه كافر. اهـ. وفي نور العين عن المختارات: ساحر يسحر ويدعي الخلق من نفسه يكفر ويقتل لردته. وساحر يسحر وهو جاحد لا يستتاب منه ويقتل إذا ثبت سحره دفعا للضرر عن الناس. وساحر يسحر تجربة ولا يعتقد به لا يكفر. قال أبو حنيفة: الساحر إذا أقر بسحره أو ثبت بالبينة يقتل ولا يستتاب منه، والمسلم والذمي والحر والعبد فيه سواء۔ (شامی : ٤/٢٤٠)

عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ۔ (صحيح مسلم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 صفر المظفر 1446

پیر، 5 اگست، 2024

بی ٹی ایس (BTS) میں دلچسپی لینا


سوال :

مفتی صاحب یہ BTS کیا ہے؟ اسکول کالج وغیرہ میں لڑکیاں اس کی دیوانی ہیں، اس کو اپنا آئیڈیل مانتی ہے لڑکیاں جنون کی حد تک اُن سے محبت کرتی ہیں اس کے بارے میں مکمل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ناصر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کوریا کے سات نوجوانوں کا ایک بینڈ گروپ ہے جو BTS کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نوجوان بیک وقت گانے، ناچنے اور میوزک سب پر ان کی اصطلاح کے مطابق مہارت رکھتے ہیں، چونکہ یہ دکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں اور انہیں خوبصورت بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے گلیمر کی دلدادہ لڑکیاں ان کی فین اور دیوانی بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ناچنا، گانا اور موسیقی شرعاً ناجائز اور حرام کام ہے جس پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے ارشاد فرمایا : گانا دل میں نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔ (بیہقی)

ابوعامر یا ابو مالک الاشعری  فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا : میری اُمت میں سے کچھ گروہ اٹھیں گے، زنا کاری اور ساز باجوں کو حلال سمجھیں گے۔ ایسے ہی کچھ لوگ پہاڑ کے دامن میں رہا ئش پذیر ہوں گے۔ شام کے وقت ان کے چرواہے مویشیوں کو لیکر انکے ہاں واپس لوٹیں گے۔ ان کے پاس ایک محتاج آدمی اپنی حاجت لے کر آئے گا تو وہ اس سے کہیں گے : کل آنا مگر شام تک ان پر عذاب نمودار ہوگا اور اللہ ان پر پہاڑ گرادے گا جو انہیں کچل دے گا اور دوسرے لوگوں کی شکل وصورت تبدیل کرکے قیامت تک بندر اور خنزیر بنادے گا۔ (بخاری)

حضرت عبدالرحمن بن ثابت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ایک وقت آئے گا کہ میری امت کے کچھ لوگ زمین میں دَب جائیں گے، شکلیں بدل جائیں گی اور آسمان سے پتھروں کی بارش کا نزول ہوگا۔ فرمایا اللہ کے رسول ﷺ! کیا وہ کلمہ گوہوں گے جواب دیا : ہاں ،جب گانے، باجے اور شراب عام ہوجائے گی اور ریشم پہنا جائے گا۔ (ترمذی)

حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول ﷺنے فرمایا : میری امت میں لوگ زمین میں دھنسیں گے، شکلیں تبدیل ہوں گی اور پتھروں کی بارش ہوگی حضرت عائشہ  نے پوچھاکہ وہ لاالہ الااللہ کہنے والے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا : جب مغنیات (گانے والیوں) کا عام رواج ہوگا، سود کا کاروبار خوب چمک پر ہوگا اور شراب کا رواج عام ہوگا اور لوگ ریشم کو حلال سمجھ کر پہنیں گے۔ (ابن ابی الدنیا)

عمران بن حصین  سے روایت ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا : اس امت میں زمین میں دھنسا نا، صورتیں بدلنا اور پتھروں کی بارش جیسا عذاب ہوگا تو مسلمانوں میں سے ایک مرد نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ کیسے ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا : جب گانے والیاں اور باجے گاجے ظاہر ہوں گے اور شرابیں پی جائیں گی۔ (ترمذی)

نافع  مولیٰ ابن عمر فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر  نے ساز بانسری کی آواز سنی تو انہوں نے اپنے کانوں میں اُنگلیاں دے دیں اور راستہ بدل لیا، دور جاکر پوچھا: نافع کیا آواز آرہی ہے؟ تو میں نے کہا : نہیں، تب انہوں نے انگلیاں نکال کر فرمایا کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھا، آپ نے ایسی ہی آواز سنی تھی اور آواز سن کر میری طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں تھیں۔(احمد،ابوداود،ابن حبان)

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا : میں ساز باجے اور ڈھولک کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (الفوائد)

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : بلاشبہ اللہ نے شراب، جوا او ر ڈھولک حرام فرمائے ہیں اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ (مسنداحمد)

حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی گلو کارہ کی مجلس میں بیٹھا اور اس نے گانا سنا، قیامت کے روز اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ (قرطبی)

جس طرح کسی گلوکارہ کے شو میں بیٹھ کر گانا سننا حرام ہے ، اسی طرح ریڈیو،ٹی وی ،وی سی آر اور کیسٹوں کے ذریعہ گانا سننا بھی حرام ہے کیونکہ دونوں دراصل ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔

حضرت علی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب میری اُمت پندرہ کام کرنے لگے گی تو اس پر مصائب ٹوٹ پڑیں گے۔ صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ کون سے کام ہیں؟ آپﷺنے فرمایا : جب مالِ غنیمت تمام حق داروں کو نہیں ملے گا، امانتیں ہڑپ کرلی جائیں گی، زکوٰة تاوان سمجھی جائے گی، خاوند بیوی کا فرمانبردار ہوگا، بیٹا ماں کی نافرمانی کرے گا، اپنے دوست سے نیک سلوک اور باپ سے جفا سے پیش آئے گا، مسجدوں میں لوگ زور زور سے بولیں گے، انتہائی کمینہ ذلیل شخص قوم کا سربراہ ہوگا، کسی آدمی کی شر سے بچنے کے لئے اس کی عزت کی جائے گی، شراب نوشی عام ہوگی، ریشم پہنا جائے گا، گانے والی عورتیں عام ہوجائیں گی، ساز باجوں کی کثرت ہوگی اور آنے والے لوگ پہلے لوگوں پر طعن کریں گے۔ (ترمذی)

یعنی گانے ساز باجوں اور گانے والیوں کی وجہ سے مسلمان مصیبتوں میں گھر جائیں گے۔

لہٰذا ناچنے، گانے اور موسیقی میں دلچسپی رکھنا اور ان قبیح افعال کو انجام دینے والوں سے محبت رکھنا ناجائز اور حرام ہے، اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایسے لوگوں کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا۔ تو کیا یہ مسلمان لڑکیاں اس بات کو پسند کریں گی ان کا انجام بھی انہیں کی طرح ہو؟


استماع الملاھی و الجلوس علیہا وضرب المزامیر والرقص کلہا حرام ‘‘ ومستحلہا کافر وفی الحمادیۃ من النافع اعلم ان التغنی حرام فی جمیع الادیان۔ (جامع الفتاوی، ۱/ ۷۳، رحیمیہ، دیوبند)

(قَوْلُهُ وَمَنْ يَسْتَحِلُّ الرَّقْصَ قَالُوا بِكُفْرِهِ) الْمُرَادُ بِهِ التَّمَايُلُ وَالْخَفْضُ وَالرَّفْعُ بِحَرَكَاتٍ مَوْزُونَةٍ كَمَا يَفْعَلُهُ بَعْضُ مَنْ يَنْتَسِبُ إلَى التَّصَوُّفِ۔ وَقَدْ نَقَلَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ عَنْ الْقُرْطُبِيِّ إجْمَاعَ الْأَئِمَّةِ عَلَى حُرْمَةِ هَذَا الْغِنَاءِ وَضَرْبِ الْقَضِيبِ وَالرَّقْصِ. قَالَ وَرَأَيْتُ فَتْوَى شَيْخِ الْإِسْلَامِ جَلَالِ الْمِلَّةِ وَالدِّينِ الْكَرْمَانِيِّ أَنَّ مُسْتَحِلَّ هَذَا الرَّقْصِ كَافِرٌ، وَتَمَامُهُ فِي شَرْحِ الْوَهْبَانِيَّةِ. وَنَقَلَ فِي نُورِ الْعَيْنِ عَنْ التَّمْهِيدِ أَنَّهُ فَاسِقٌ لَا كَافِرٌ۔ (شامی : ٤/٢٥٩)

عن ابن عمر قال قال رسول اﷲﷺ من تشبہ بقوم فھو منھم۔ (سنن ابی داؤد : ۲۰۳/۲)

عن ابی موسی قال المرأ مع من احب۔ (صحیح ابن حبان : ۲۷۵/۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
29 محرم الحرام 1446

ہفتہ، 3 اگست، 2024

پارس گرو کُل میں ملازمت کرنے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں ابھی موبائل پر ایک پروگرام ہے۔  پارس گرو کل  ایک ادارہ ہے جس کے ذریعے آن لائن لیکچر دیا جاتا ہے اور اس لیکچر میں کچھ ایسی باتیں ہوتی جو دین و شریعت سے ٹکراتی ہیں اور اس لیکچر میں شریک ہونے کیلئے 590 روپیہ فیس بھری جاتی ہے اور اس گروپ میں دو لوگوں کو جوائن کرنا ہوتا ہے یہ لیکچر دو مہینہ چلتا ہے اس کے بعد اس لیکچر میں شریک لوگوں کا سلیکشن کرکے ان کو پڑھانے کیلئے لگایا جاتا ہے وہ بھی آن لائن اور ان کو ماہانہ 6000 روپیہ تنخواہ دیجاتی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ ایسی تعلیم حاصل کرنا اور اس کی تعلیم دینا کیسا ہے؟
(المستفتی : محمد زبیر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پارس گرو کُل سے متعلق زیادہ معلومات تو اکٹھا نہیں کی جاسکی۔ البتہ اس کے دو لیکچر سننے کا موقع ملا، جس میں گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کی مثال اس طرح دی جارہی تھی کہ گویا یہ کلچر جائز ہو، اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ غیرمسلموں کا بنایا ہوا کورس ہے، جس میں ایسی باتیں بلاشبہ ہوں گی جو شریعت سے متصادم ہوں۔ 

اسی طرح اس میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ اگر آپ کو اس ادارہ میں ملازمت کرنا ہے تو آپ کو دو لوگوں کو مزید گرو کُل سے جوڑنا پڑے گا، اگر آپ دو لوگوں کو نہیں جوڑتے ہیں تو پھر آپ کو بھی ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا۔ جبکہ کسی کو جوڑنے والی یہ لازمی شرط، شرط فاسد ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔ بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ کورس صرف برائے نام ہے، اصل اس ادارہ سے دوسروں کو جوڑ کر ان سے فیس اکٹھا کرنا ہے جیسا کہ ملٹی لیول مارکیٹنگ اور چین سسٹم میں ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ایسا عجیب سا کورس ہے جس میں تعلیم، عمر اور صلاحیت کی بھی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ 

درج بالا تمام باتیں "پارس گرو کُل" کو مزید مشکوک اور غیرمعتبر بناتی ہیں، لہٰذا ایسے کسی بھی ادارہ میں ملازمت کرنا اور روزی کمانا درست نہیں ہے۔


یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا لاَتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاَّ اَن تَکُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ۔ (سورۃ  النساء  : 29)

وکل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعة لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیہ وهو من أهل الاستحقاق یفسدہ۔ (هدایہ : ۳/۵۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 محرم الحرام 1446 

جمعرات، 1 اگست، 2024

نابالغ بچوں کا والدین کی شفاعت کرنا


سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ جو بچے بالغ ہونے سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں کیا وہ جنت میں اپنے ماں باپ کو ساتھ میں لے جائیں گے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : مصدق سر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ بچپن میں انتقال کرنے والے بچے بلکہ پیدا ہونے سے پہلے ہی ضائع ہوجانے والے بچے جسے عربی میں ’’سقط‘‘ کہتے ہیں یعنی ناتمام بچے بھی قیامت کے دن اپنے والدین کے لیے شفاعت کریں گے۔

مسند احمد ابن حنبل میں ہے :
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جن دو مسلمان میاں بیوی کے تین بچے فوت ہوجائیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل فرما دے گا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ!  ﷺ اگر دو بچے ہوں تو؟ فرمایا ان کا بھی یہی حکم ہے انہوں نے پوچھا اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا اس کا بھی یہی حکم ہے پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، نامکمل حمل بھی اپنی ماں کو کھینچ کر جنت میں لے جائے گا بشرطیکہ اس نے اس پر صبر کیا ہو۔

سنن ابن ماجہ میں ہے :
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کچا بچہ جھگڑا کرے گا اپنے مالک (اللہ عزوجل) سے جب مالک اس کے والدین کو دوزخ میں ڈالے گا پھر حکم ہوگا اے کچے بچے جھگڑنے والے اپنے مالک سے، اپنی ماں باپ کو جنت میں لے جاؤ وہ ان دونوں کو جنت میں لے جائے گا۔


عَنْ مُعَاذٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يُتَوَفَّى لَهُمَا ثَلَاثَةٌ إِلَّا أَدْخَلَهُمَا اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمَا فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ اثْنَانِ قَالَ أَوْ اثْنَانِ قَالُوا أَوْ وَاحِدٌ قَالَ أَوْ وَاحِدٌ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ السِّقْطَ لَيَجُرُّ أُمَّهُ بِسَرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ إِذَا احْتَسَبَتْهُ۔ (مسند احمد)

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ السِّقْطَ لَيُرَاغِمُ رَبَّهُ إِذَا أَدْخَلَ أَبَوَيْهِ النَّارَ فَيُقَالُ أَيُّهَا السِّقْطُ الْمُرَاغِمُ رَبَّهُ أَدْخِلْ أَبَوَيْکَ الْجَنَّةَ فَيَجُرُّهُمَا بِسَرَرِهِ حَتَّی يُدْخِلَهُمَا الْجَنَّةَ۔ (ابن ماجہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 محرم الحرام 1446

بدھ، 31 جولائی، 2024

کرسی پر کون نماز پڑھ سکتا ہے؟


سوال :

مفتی صاحب کرسی پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اور کس درجے کی تکلیف یا کنڈیشن پر نماز کرسی پر پڑھنے کی اجازت ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالواجد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے، لیکن وہ کرسی پر بیٹھنے کی قدرت رکھتا ہے، تو ایسی انتہائی مجبوری کی حالت میں کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، مثلاً کوئی بڑا آپریشن ہوا ہے، جس کی وجہ سے زمین پر بیٹھنے سے زخم کو نقصان ہونے کا خطرہ ہے یا کولہے میں ایسی تکلیف ہے کہ زمین پر کسی طرح بیٹھنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے تو ایسی انتہائی مجبوری کی حالت میں کرسی پر اشارہ کے ساتھ نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اور وہ کسی صف کے ایک کنارے پر نماز پڑھے، لیکن جس صف پر نماز پڑھ رہا ہے، اسی صف پر کرسی رکھے، پیچھے والی صف پر نہ رکھے، اس لئے کہ پیچھے والی صف کا وہ حصہ اس صف پر نماز پڑھنے والے کے سجدہ کی جگہ ہے۔

اگر کوئی شخص زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرسکتا ہے تو اسے تشہد ہی کی حالت پر بیٹھنا ضروری نہیں، بلکہ جس ہیئت پر بھی خواہ تورک (عورت کے تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ) کی حالت پر یا آلتی پالتی مارکر، یا پھر پیر پھیلا کر جس طرح آسان ہو اس ہیئت کو اختیار کرکے زمین ہی پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرے، کرسی پر نماز نہ پڑھے۔ کیوں کہ شریعت نے ایسے معذورین کو زمین پر بیٹھنے کے سلسلے میں مکمل رعایت دی ہے کہ جس ہیئت میں بھی ممکن ہو بیٹھ کر نماز ادا کریں، تو پھر بلاضرورت کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا درج ذیل وجوہات کی بناء پر مکروہ ہے جسے دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوی میں ذکر کیا گیا ہے۔

۱) زمین پر بیٹھ کر ادا کرنا مسنون طریقہ ہے، اسی پر صحابہٴ کرام اور بعد کے لوگوں کا عمل رہا ہے، نوے ۹۰کی دہائی سے قبل تک کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا رواج نہیں تھا، نہ ہی خیرالقرون سے اس طرح کی نظیر ملتی ہے۔

۲) کرسیوں کے بلاضرورت استعمال سے صفوں میں بہت خلل ہوتا ہے، حالانکہ اتصال صفوف کی حدیث میں بہت تاکید آئی ہے: ”قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: راصّوا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق فوالذی نفس محمد بیدہ إنی لأری الشیاطین تدخل من خلل الصف کأنہا الخذف“ (نسائی:۱/۱۳۱)

۳) بلا ضرورت کرسیوں کو مساجد میں لانے سے اغیار کی عبادت گاہوں سے مشابہت ہوتی ہے اور دینی امور میں ہم کو غیروں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔

۴) نماز، تواضع وانکساری سے عبارت ہے اور بلاضرورت کرسی پر بیٹھ کر ادا کرنے کے مقابلے میں زمین پر ادا کرنے میں یہ انکساری بدرجہٴ اتم پائی جاتی ہے۔

۵) نماز میں زمین سے قُرب ایک مطلوب چیز ہے جو کرسیوں پر ادا کرنے سے حاصل نہیں ہوگی۔ (رقم الفتوی : 61225)

درج بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اس سلسلے میں بڑی کوتاہی ہوتی ہے، زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی قدرت رکھنے والے بلاضرورت کرسی کا اہتمام کرتے ہیں جو بلاشبہ مکروہ عمل ہے، لہٰذا انہیں اپنی اس غلط روش کو ختم کرنا چاہیے۔

  
وإن عجز عن القیام وقدر علی القعود؛ فإنہ یصلی المکتوبة قاعدًا برکوع وسجود ولا یجزیہ غیر ذلک۔ (تاتارخانیہ زکریا : ۲/۶۶۷) 

من تعذر علیہ القیام لمرض ... أو خاف زیادتہ... أو وجد لقیامہ ألما شدیدا صلی قاعدا کیف شاء۔ (در مختار مع الشامی زکریا : ۲/۵۶۶)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 محرم الحرام 14446

جمعرات، 25 جولائی، 2024

خانہ کعبہ کی دیوار پر نام لکھنا


سوال :

مفتی صاحب ! ایک سوال عرض ہے کہ کعبہ شریف کی دیوار پر کسی شخص کا نام لکھنے سے کیا اس شخص کو اللہ پاک حج عمرہ کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں؟ اور کعبہ شریف کی دیوار پر نام لکھنا شریعت کے مطابق کیسا ہے؟
(المستفتی : عبداللہ انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور عمل قرآن و حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ عمل وظائف اور مجربات کی قبیل سے ہے۔ لہٰذا اسے قرآن وحدیث سے ثابت اور سنت نہ سمجھا جائے تو عمل کی گنجائش ہے۔ تاہم اس طرح کے اعمال سے بچنا ہی بہتر ہے، کیونکہ عوام اسی کو اصل اور قرآن وحدیث سے ثابت سمجھنے لگتے ہیں اور اس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے سے اس کی درخواست بھی کرتے ہیں یا وہاں سے آنے کے بعد بتاتے ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں کا نام لکھا ہے۔ لہٰذا سنت یہی ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں آپ چاہتے ہیں کہ وہ حج وعمرہ کے لیے آئیں ان کا نام لے کر قبولیت کے مقام پر دعا کریں کہ یہی سنت سے قریب اور بلاشبہ مؤثر ثابت ہوگا۔


یجوز في الأذکار المطلقۃ لإتیان لما ہوصحیح في نفسہ مما یتضمن الثناء علی اللّٰہ تعالیٰ، ولایستلزم نقصا بوجہ الوجوہ، وإن لم تکن تلک الصیغۃ ماثورۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۲۱/ ۲۳۸)

الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ۔ (سعایۃ : ۲؍۲۶۵، الدر المختار، باب سجدۃ الشکر / قبیل باب صلاۃ المسافر، ۲؍۵۹۸)

قال الطیبي : وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزمًا، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب من الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی أمر بدعۃ أو منکر۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۲؍۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
18 محرم الحرام 1446

منگل، 23 جولائی، 2024

کفن اور احرام کا سفید ہونا ؟


سوال :

مفتی صاحب ! مفتی طارق مسعود صاحب کی ایک کلپ نظر سے گزری۔ کسی نے سوال کیا کہ کیا کفن کا کپڑا سفید ہونا ضروری ہے، انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ احرام بھی سفید ہونا ضروری نہیں ہے۔ براہ کرم اس مسئلہ پر رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر فراز، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کفن یا احرام کے کپڑوں کا سفید ہونا شرعاً فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ مستحب اور افضل ہے۔ لہٰذا اگر رنگین کفن اور احرام استعمال کرلیا جائے تو اس میں شرعاً کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ کتب فقہ میں فقہاء کرام نے صراحتاً یہ مسئلہ لکھا ہے۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور مفتی صاحب کی بات درست ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔


وَلَمْ يُبَيِّنْ لَوْنَ الْأَكْفَانِ لِجَوَازِ كُلِّ لَوْنٍ لَكِنَّ أَحَبَّهَا الْبَيَاضُ۔ (البحر الرائق : ٢/١٨٩)

ابیضین ککفن الکفایۃ فی العدد والصفۃ غیر مخیطین۔ (غنیۃ الناسک : ۷۱)

وفی أسودین وکذا فی اخضرین وازرقین وفی مرقعۃ۔ (غنیۃ الناسک : ۷۱)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 محرم الحرام 1446

لڑائی لڑائی معاف کرو

مسجد میں جاکر نماز پڑھو

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! معاشرہ میں جب لوگ ساتھ رہتے ہیں تو بعض مرتبہ لڑائی جھگڑے بھی ہوجاتے ہیں، اور لڑائی جھگڑوں کے اسباب میں عموماً تین چیزیں، زن، زر اور زمین ہوتی ہیں۔ انہیں اسباب کی ایک شاخ سیاسی دشمنی بھی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے آپسی جھگڑے کسی قیمت پر پسند نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ حتی الامکان آپس کی رنجشوں اور جھگڑوں کو، باہمی نفرتوں اور عداوتوں کو کسی بھی طرح ختم کیا جائے۔ اگر بالفرض کبھی جھگڑا ہوجائے تو دوسرے فریق کو معاف کرکے جھگڑا ختم کردینا چاہئے، کیونکہ آپس میں صلح کرنے اور جھگڑا ختم کرنے کی قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں بہت ترغیب دی گئی ہے۔ ذیل میں لڑائی جھگڑے کی مذمت سے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑا لو ہو۔ (صحیح بخاری)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر ، اور اس کے ساتھ نامناسب مذاق مت کر، اور اس کے ساتھ ایسا وعدہ نہ کر کہ (جس کو تو پورا نہ کرسکے اور) وعدہ خلافی کرے۔ (ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تجھ کو یہ گناہ کافی ہے کہ تو ہمیشہ جھگڑتا رہے۔ (ترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جھوٹ کو ترک کردے حالانکہ جھوٹ باطل چیز ہے تو اس کے لئے جنت کے کناروں میں گھر تیار کیا جائے گا، اور جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑدے اس کے لئے جنت کے بیچوں بیچ گھر بنایا جائے گا، اور جوشخص اپنے اخلاق اچھے کرے گا اس کے لئے جنت کے اوپر کے حصہ میں گھر بنایا جائے گا۔ (ابن ماجہ)

تشریح : یعنی جو شخص حق پر ہونے کے باوجود یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں حق کا زیادہ مطالبہ کروں گا تو جھگڑا کھڑا ہوجائے گا، اس لئے اس حق کو چھوڑتا ہوں تاکہ جھگڑا ختم ہوجائے تو اس کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے بیچوں بیچ گھر دلوانے کی ذمہ داری لی ہے ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ سرکارِ دو عالم صلی للہ علیہ وسلم کو جھگڑا ختم کرانے کی کتنی فکر تھی ۔ ہاں اگر کہیں معاملہ بہت آگے بڑھ جائے اور قابلِ برداشت نہ ہوتو ایسی صورت میں اس کی اجازت ہے کہ مظلوم ظالم کا مقابلہ کرے اور اس سے بدلہ لے لے، لیکن حتی الامکان کوشش یہ ہو کہ جھگڑا ختم ہوجائے۔

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا ناپسندیدہ ہے، اور اختلاف کے وقت صلح کرانا محمود اور مطلوب ہے، بلکہ درجِ ذیل حدیث شریف کی رُو سے نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے۔

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابۂ کرام سے مخاطب ہوکر) فرمایا : کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاؤں جو نماز، روزے اور صدقہ سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کے درمیان صلح کرانا۔ اس لئے کہ آپس کے جھگڑے مونڈنے والے ہیں۔ یعنی یہ چیزیں انسان کے دین کو مونڈنے والی ہیں (انسان کے اندر جو دین کا جذبہ ہے وہ اس کے ذریعہ سے ختم ہوجاتا ہے)۔ (ترمذی)

ان احادیث کی روشنی میں ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ جھگڑوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہے، آج آپ کو موقع ملا تو آپ نے اپنے مخالف کو نقصان پہنچا لیا، کل اُسے موقع ملے گا تو وہ آپ کو نقصان پہنچائے گا، اور یہ سلسلہ زمانہ جاہلیت کے جھگڑوں کی طرح چلتا رہے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تو آپ نے زمانہ جاہلیت کے جھگڑوں کو ختم فرما دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن شیر وشکر ہوگئے، ایک دوسرے کی جان لینے والے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے والے بن گئے۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آپ کے جانی دشمن اور آپ کو ہر طرح سے تکلیف پہنچانے والے جب بے بس کھڑے تھے اور دس ہزار تلواریں آپ کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں کہ ان کی گردنیں ان کے سروں سے اتار دی جائیں تو ایسے وقت جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ پر پوری طرح قابو پاچکے تھے تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بغیر کسی شرط کے معاف کرکے معافی اور درگذر کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ انسانی میں ملنا مشکل ہے۔

 کیا یہ سارے واقعات صرف پڑھنے اور سننے کے لیے ہیں؟ کیا ہم ان پر عمل کرکے اپنی دنیا اور آخرت سنوار نہیں سکتے ؟ کیا ہم دوسروں کو معاف کرکے امن اور سکون والی زندگی نہیں گزار سکتے؟ کیا ہم دو لڑنے والوں کے درمیان صلح کروا کر اجر عظیم کے مستحق بننے کی کوشش نہیں کرسکتے؟ کیا ہم میں سے کوئی نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول، جنتی جوانوں کے سردار سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دو گروہوں میں صلح کروانے والی اس اہم سنت اور خوبی کو زندہ کرنے والا نہیں ہے؟ کیا ہم سب صرف تماشہ دیکھنے اور مزا لینے والے ہیں؟ یا پھر ذاتی مفاد کے لیے دو لڑنے والوں کو آپس میں مزید لڑانے والے بن رہے ہیں؟ جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الحجرات : ۱۰)
ترجمہ : حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان (اگر کوئی رنجش یا لڑائی ہوگئی ہو تو تمہیں چاہئے کہ ان کے درمیان صلح کراؤ اور) تعلقات اچھے بناؤ، اور (صلح کرانے میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔ (آسان ترجمہ قرآن : ۳/ ۱۵۸۳)

بچپن میں جب بچوں کی آپس میں لڑائی ہوا کرتی ہے تو فوراً ہی صلح بھی ہوجایا کرتی ہے، اور عموماً کوئی تیسرا صلح کروایا کرتا تھا اور صلح کروانے والا یہ جملہ کہتا تھا کہ لڑائی لڑائی معاف کرو، مسجد میں جاکر نماز پڑھو۔ آج ہم بھی ہر طرح کے جھگڑے کرنے والوں سے خواہ وہ ذاتی ہوں یا سیاسی، ان سے یہی کہیں گے کہ اللہ کے لیے لڑائی لڑائی معاف کرو، مسجد میں جاکر نماز پڑھو۔


اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو لڑائی جھگڑوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور بوقت ضرورت صلح کرنے اور کرانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

ہفتہ، 13 جولائی، 2024

آیت کریمہ "لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک الخ" کا ترجمہ وتفسیر


سوال :

محترم مفتی صاحب ! سورہ فتح کی دوسری آیت لیغفرلک اللہ ما تقدم الخ کا ترجمہ اس طرح کرنا کہ اللہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے۔ کیا اس طرح ترجمہ کرنا صحیح ہے؟ کیا گناہ اور خطاء کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا درست ہے؟ مکمل وضاحت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سورہ فتح کی یہ آیت صلح حدیبیہ سے واپسی کے وقت نازل ہوئی تھی، جس کے ترجمہ اور تفسیر میں تمام مفسرین نے یہی لکھا جو سوال نامہ میں مذکور ہے۔ ذیل میں ہم چند معتبر تفاسیر نقل کرتے ہیں جن کی طرف ہر مسلک کے علماء رجوع کرتے ہیں۔

تفسیر بغوی میں ہے : 
محمد بن جریر (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قول ” اذا جاء نصر اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا، فسبح بحمد ربک واستغفرہ “ کی طرف لوٹ رہی ہے ۔” ماتقدم من ذنبک “ جاہلیت میں رسالت سے پہلے اور ” وما تاخر “ اس سورت کے نزول کے وقت تک اور کہا گیا ہے کہ ” وما تاخر “ ان میں سے جو آگے ہوں گے اور یہ ان لوگوں کے طریقہ پر جو انبیاء (علیہم السلام) سے صغائر کے صادر ہونے کو ممکن قرار دیتے ہیں اور سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں ” ماتقدم “ جو جاہلیت میں عمل کیے اور ” ماتاخر “ ہر وہ چیز جو ابھی عمل میں نہیں آئی اور اس کی مثل کلام تاکید کے لئے ذکر کی جاتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ” اعطی من راہ ولم یرہ “ کہ جس کو دیکھا اس کو بھی دیا اور جس کو نہیں دیکھا اس کو بھی دیا اور ” ضرب من لقیہ ومن لم یلقہ “ جس کو ملا اس کو بھی مار اور جس کو نہیں ملا اس کو بھی۔ عطاء خراسانی (رح) فرماتے ہیں ” ماتقدم بن ذنبک “ یعنی آپ کے والدین آدم وحوا (علیہما السلام) کی لغزش آپ (علیہ السلام) کی برکت سے ” وما تاخر “ آپ (علیہ السلام) کی امت کے گناہ آپ (علیہ السلام) کی دعا کے ذریعہ سے۔ (١)

تفسیر قرطبی میں ہے :
علماء نے تاخر کے معنی میں اختلاف کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : سے مراد کہ ان اعلان نبوت سے قبل جو آپ سے ایسے اعمال ہوئے جن کو آپ اپنی شان کے خلاف خیال کرتے ہیں اور سے مراد اعلان نبوت کے بعد جو اعمال ہوئے : یہ مجاہد کا قول ہے، اسی کی مثل طبری اور سفیان ثوری نے کہا : طبری نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (نصر) کی طرف راجع ہے یعنی اعلان نبوت سے پہلے اور اعلان نبوت کے بعد اس آیت کے نزول تک۔
سفیان ثوری نے کہا : سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو وحی کے نزول سے پہلے آپ نے دور جاہلیت میں کئے اور سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو بعد آپ نے نہ کیئے یہ واحدی کا قول ہے سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے کہ انبیاء سے گناہ صغیرہ صادر ہو سکتے ہیں : یہ ایک قول ہے۔
ایک قول یہ کیا گیا ہے : ماتقدم سے مراد فتح سے پہلے اور وماتاخر سے مراد جو اس کے بعد ہیں۔
عطا خراسانی نے کہا : سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حواء کی خطا ہے اور و ماتاخر سے مراد آپ کی امت کے گناہ ہیں، ایک قول یہ کیا گیا ہے : سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف اولی اعمال اور وماتاخر سے مرا دانبیاء کے خلاف اولی اعمال ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ماتقدم سے مراد غزوہ بدر کے دن کی خطا اور وماتاخر سے مراد غزوہ حنین کے موقع کی خطا ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر جو خطا ہوئی وہ یہ تھی کہ آپ نے یہ دعا کی : اے اللہ اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کردیا تو زمین میں کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ نے اس قول کو کئی دفعہ دہرایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی آپ کو کیسے علم ہوا کہ اگر میں نے اس جماعت کو ہلاک کردیا تو میری کبھی بھی عبادت نہیں کی جائے گی؟ تو یہ وہ پہلی خطا تھی۔ جہاں تک دوسری خطا کا تعلق ہے تو وہ غزوہ حنین کا موقع ہے جب لوگ شکست کھا گئے تو آپ نے اپنے چچا حضرت عباس اور چچازاد بھائی ابو سفیان سے کہا : مجھے وادی سے نگریزوں کی ایک مٹھی اٹھا کر ددو تو دونوں نے سنگریزے اٹھا کردیئے آپ نے انہیں ہاتھ میں لیا اور مشرکوں کے منہ پر مارا اور فرمایا : تو مشرک سارے کے سارے شکست کھا گئے کوئی آدمی نہ بچا مگر اس کی آنکھیں ریت اور سنگریزوں سے بھر گئیں پھر آپ نے اپنے ساتھوں کو ندا کی تو وہ پلٹ آئے جب وہ واپس لوٹے تو آپ نے انہیں فرمایا : اگر میں انہیں وہ مٹھی بھر سنگریزے نہ مارتا تو وہ شکست نہ کھاتے “ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى۔ ترجمہ : (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت تم نے (کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ (الانفال 17) یہ دوسری خطا تھی۔ ابو علی روز باری نے کہا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اگر آپ کی کوئی پرانی یا نئی خطا ہوگی تو ہم آپ کے لئے اسے بخش دیں گے۔ (٢)

ہم نے یہاں متعدد دلائل اس بات پر نقل کردئیے ہیں کہ آیت کریمہ لیغفرلک اللہ الخ کے ترجمہ میں گناہ، خطا، لغزش، فروگذاشت وغیرہ لکھنا اور بولنا اور اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا درست ہے۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ہمارے بنیادی عقائد میں ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ ان کی طرف قرآن میں جہاں کہیں ذنب یا عصیان وغیرہ کے الفاظ منسوب کئے گئے وہ ان کے مقام عالی کی مناسبت سے ایسے کاموں کے لئے استعمال کئے گئے جو خلاف اولیٰ تھے مگر نبوت کے مقام بلند کے اعتبار سے غیر افضل پر عمل کرنا بھی ایسی لغزش ہے، جس کو قرآن نے بطور تہدید کے ذنب و گناہ سے تعبیر کیا ہے اور ماتقدم سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو نبوت سے پہلے ہوئیں اور ماتأخر سے مراد وہ لغزشیں جو رسالت و نبوت کے بعد صادر ہوئیں جیسا کہ درج بالا تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے، اور یہی جمہور مفسرین کا مذہب ہے، اس سے الگ تفسیر بیان کرنا جیسا کہ عطاء خراسانی نے بیان کی ہے تو یہ تفسیری اصول وضوابط کے مطابق نہیں ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔

حکیم الامت علامہ تھانوی رحمہ اللہ نے اسی بحث سے متعلق کیسی پیاری اور دل لگتی باتیں ارشاد فرمائی ہیں، ملاحظہ فرمائیں اور اپنے قلوب کو مزید مجلی ومصفی بنائیں :

فرمایا کہ کسی نے دریافت کیا کہ لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ سے گناہ سرزد ہوئے ہیں۔ فرمایا معاً قلب میں جواب میں یہ بات آئی کہ جب کوئی شخص نہایت خائف ہوتا ہے۔ تو وہ ڈر کر کہا کرتا ہے کہ مجھ سے جو قصور ہوگیا ہو معاف کردیجئے حالانکہ اس سے کوئی گناہ نہیں ہوا ہوتا۔ اس طرح دوسرا اس کی تسلی کے لئے کہہ دیتا ہے۔ کہ اچھا ہم نے تمہارا قصور سب معاف کیا اسی طرح چونکہ اس خیال سے آپ کو غم رہا کرتا تھا۔ حق تعالیٰ نے تسلی فرما دی۔

لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتاخر اس میں ایک تو یہ بحث ہے کہ ذنب کا اطلاق کیا گیا۔ صاحب نبوت کے حق میں جو کہ معصوم ہے یہ بحث جداگانہ ہے اس کو مسئلہ مذکورہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں پر مقصود اس کے ذکر سے یہ ہے کہ پہلے گناہوں کی معافی تو سمجھ میں آسکتی ہے لیکن پچھلے گناہوں کی معافی جو ابھی تک ہوئے ہی نہیں۔ کیا معنی۔ تو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چونکہ خوف و خشیت کا غلبہ تھا اگر آپ کو آئندہ گناہوں کی معافی دے کر تسلی نہ دی جاتی تو اندیشہ تھا کہ غلبہ خوف سے اسی فکر میں آپ پریشان رہتے کہ کہیں آئندہ امر خلاف مرضی نہ ہوجائے۔ اس لئے آپ کو آئندہ کے لئے بھی مطمئن کردیا گیا۔

یہاں ایک عاشقانہ نکتہ ہے وہ یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ذنب کا اطلاق کیا گیا۔ حالانکہ واقعہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید مجھ سے کچھ گناہ ہوگیا ہو۔ تو اس شبہ کو بھی رفع فرما دیا گیا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے عاشق اپنے محبوب سے رخصت ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میری خطا معاف کر دیجئے گا۔ حالانکہ عاشق سے خطا کا احتمال کہاں۔ خصوصاً ایسا عاشق جو عشق کے ساتھ عقل بھی کامل رکھتا ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو بڑی شان ہے۔ (اشرف التفاسیر : ٤/٥٢)

امیدِ قوی ہے کہ درج بالا تفصیلات سے آپ کے اشکالات دور ہوگئے ہوں گے اور آپ کو تسلی وتشفی ہوگئی ہوگی۔


١) لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ، وليدخل الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ الْآيَةَ.
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ: هُوَ رَاجِعٌ إِلَى قَوْلِهِ: إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (١) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجًا (٢) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ [النَّصْرُ: ١- ٣]، لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَبْلَ الرِّسَالَةِ، وَمَا تَأَخَّرَ إِلَى وَقْتِ نُزُولِ هذه السورة. وقيل: ما تَأَخَّرَ مِمَّا يَكُونُ، وَهَذَا عَلَى طَرِيقَةِ مَنْ يُجَوِّزُ الصَّغَائِرَ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ وَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: مَا تَقَدَّمَ مِمَّا عَمِلْتَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَمَا تَأَخَّرَ كُلُّ شَيْءٍ لَمْ تعمله، وبذكر مِثْلُ ذَلِكَ عَلَى طَرِيقِ التَّأْكِيدِ، كَمَا يُقَالَ: أَعْطَى مَنْ رَآهُ ولم يَرَهُ، وَضَرَبَ مَنْ لَقِيَهُ وَمَنْ لَمْ يَلْقَهُ. وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ: مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ: يَعْنِي ذَنْبَ أَبَوَيْكَ آدَمَ وَحَوَّاءَ بِبَرَكَتِكَ، وَمَا تَأَخَّرَ ذُنُوبُ أُمَّتِكَ بِدَعْوَتِكَ۔ (التفسیر البغوی : ٤/٢٢٣)

٢) وَاخْتَلَفَ أَهْلُ التَّأْوِيلِ فِي مَعْنَى«لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ» فَقِيلَ:«مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ» قَبْلَ الرِّسَالَةِ.«وَما تَأَخَّرَ» بَعْدَهَا، قَالَهُ مُجَاهِدٌ. وَنَحْوَهُ قَالَ الطَّبَرِيُّ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، قَالَ الطَّبَرِيُّ: هُوَ رَاجِعٌ إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى«إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ- إلى قوله- تَوَّابًا» «١» [النصر: ٣ - ١].«لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ» قَبْلَ الرِّسَالَةِ«وَما تَأَخَّرَ» إِلَى وَقْتِ نُزُولِ هَذِهِ الْآيَةِ وَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ:«لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ» مَا عَمِلْتَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُوحَى إِلَيْكَ.«وَما تَأَخَّرَ» كُلُّ شَيْءٍ لَمْ تَعْمَلْهُ، وَقَالَهُ الْوَاحِدِيُّ. وَقَدْ مَضَى الْكَلَامُ فِي جَرَيَانِ الصَّغَائِرِ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ فِي سُورَةِ«الْبَقَرَةِ» «٢»، فَهَذَا قَوْلٌ. وقيل:» مَا تَقَدَّمَ«قَبْلَ الْفَتْحِ.» وَما تَأَخَّرَ«بَعْدَ الْفَتْحِ. وَقِيلَ:» مَا تَقَدَّمَ«قَبْلَ نُزُولِ هَذِهِ الْآيَةِ.» وَما تَأَخَّرَ«بَعْدَهَا. وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ:» مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ«يَعْنِي مِنْ ذَنْبِ أَبَوَيْكَ آدَمَ وَحَوَّاءَ.» وَما تَأَخَّرَ«مِنْ ذُنُوبِ أُمَّتِكَ. وَقِيلَ: مِنْ ذَنْبِ أَبِيكَ إِبْرَاهِيمَ.» وَما تَأَخَّرَ«مِنْ ذُنُوبِ النَّبِيِّينَ. وَقِيلَ:» مَا تَقَدَّمَ«مِنْ ذَنْبِ يَوْمِ بَدْرٍ.» وَما تَأَخَّرَ«مِنْ ذَنْبِ يَوْمِ حُنَيْنٍ. وَذَلِكَ أَنَّ الذَّنْبَ الْمُتَقَدِّمَ يَوْمَ بَدْرٍ، أَنَّهُ جَعَلَ يَدْعُو وَيَقُولُ:» اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا«وَجَعَلَ يُرَدِّدُ هَذَا الْقَوْلَ دَفَعَاتٍ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ مِنْ أَيْنَ تَعْلَمُ أَنِّي لَوْ أَهْلَكْتُ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَا أُعْبَدُ أَبَدًا، فَكَانَ هَذَا الذَّنْبُ الْمُتَقَدِّمُ. وَأَمَّا الذَّنْبُ الْمُتَأَخِّرُ فَيَوْمَ حُنَيْنٍ، لَمَّا انْهَزَمَ النَّاسُ قَالَ لِعَمِّهِ الْعَبَّاسِ وَلِابْنِ عَمِّهِ أَبِي سُفْيَانِ:] نَاوِلَانِي كَفًّا مِنْ حَصْبَاءِ الْوَادِي [فَنَاوَلَاهُ فَأَخَذَهُ بِيَدِهِ وَرَمَى بِهِ فِي وُجُوهِ الْمُشْرِكِينَ وَقَالَ:] شَاهَتِ الْوُجُوهُ. حم. لَا يُنْصَرُونَ [فَانْهَزَمَ الْقَوْمُ عَنْ آخِرِهِمْ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ إِلَّا امْتَلَأَتْ عَيْنَاهُ رَمْلًا وَحَصْبَاءَ. ثُمَّ نَادَى فِي أَصْحَابِهِ فَرَجَعُوا فَقَالَ لَهُمْ عِنْدَ رُجُوعِهِمْ:] لَوْ لَمْ أَرْمِهِمْ لَمْ يَنْهَزِمُوا [فَأَنْزَلَ اللَّهُ ﷿» وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى ««١» [الأنفال: ١٧] فَكَانَ هَذَا هُوَ الذَّنْبُ الْمُتَأَخِّرُ. وَقَالَ أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ: يَقُولُ لَوْ كَانَ لَكَ ذَنْبٌ قَدِيمٌ أَوْ حَدِيثٌ لَغَفَرْنَاهُ لَكَ۔ (التفسیر القرطبی : ١٦/٢٦٢)افقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 محرم الحرام 1446

جمعرات، 11 جولائی، 2024

شداد کے واقعہ کی حقیقت


سوال :

مفتی صاحب میں نے کچھ دن پہلے مولانا سراج عمری قاسمی صاحب کا ایک بیان سنا تھا انہوں کہا کی شداد کی جنت اور شداد کا واقعہ یہ قصہ کہانی ہے، حقیقت میں نا شداد نام کا آدمی ملتا ہے اور نا اس کی جنت کا۔ یہ بات کہاں تک درست ہے؟ آپ صحیح وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : مولوی ندیم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شداد اور اس کی جنت کا تذکرہ باقاعدہ قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے۔

مفتی فرید احمد صاحب لکھتے ہیں :
شداد کے جنت بنانے کا ثبوت قرآن اور حدیث سے نہیں ملتا۔ یہ ایک اسرا ئیلی بات ہے اور واضح رہے کہ جنت عربی زبان میں باغ کو کہا جاتا ہے۔ لہٰذا شداد کا جنت اورباغ بنانا عقل سے دور نہیں ہے۔ بے شک یہ ٹھیک نہیں ہے کہ اس میں وہ خاصیات ہوں جوکہ معروف جنت کے اشیاء میں موجود ہیں اور یہ بھی ٹھیک نہیں کہ یہ آٹھواں جنت ہوگا۔ اور مسلمان اس میں جزاء کے طور سے داخل ہونگے۔ یہ معقول اور منقول دونوں سے مخا لف ہے۔ (فتاوی فریدیہ : ١/١٥٣)

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتوی ہے :
شداد اور اس کی جنت کا واقعہ کتبِ تفاسیر میں سے تفسیر مظہری،تفسیر رازی اور روح المعانی میں سورہ فجر کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے، اول الذکر دو تفاسیر میں اسے ذکر کرکے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا جب کہ موخر الذکر تفسیر میں یہ قصہ ذکر کرکے صاحبِ تفسیر روح المعانی علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے :

"وخبر شداد المذكورأخوه في الضعف بل لم تصح روايته كما ذكره الحافظ ابن حجر فهو موضوع كخبر ابن قلابة".(روح المعانى:15 / 338)

یعنی شداد کا واقعہ من گھڑت ہے۔ نیز اول الذکر ہر دو تفاسیر میں بھی اس واقعہ کو کسی مستند روایت سے بیان نہیں کیا گیا۔ (رقم الفتوی : 144004200158)

خلاصہ یہ کہ شداد اور اس کی جنت کا واقعہ اسرائیلی روایات میں سے ہے۔ اور ان اسرائیلی روایات میں سے جن کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ اس واقعہ کو بیان نہ کیا جائے۔


أنه [شدادَ بنَ عادٍ] خرج في طلبِ إبلٍ له وأنه وقع في صحاري عدَنَ وأنه وقعَ على مدينةٍ في تلك الفلواتِ، فذكر عجائبَ ما رأى فيها، وأن معاويةَ لما بلغه خبرَه أحضره إلى دمشقَ وسأل كعبًا عن ذلك فأخبره بقصةِ المدينةِ ومَن بناها
الراوي: عبدالله بن قلابة • ابن حجر العسقلاني، فتح الباري لابن حجر (٨/٥٧٢) • فيه ألفاظ منكرة وراويه عبد الله بن قلابة لا يعرف ، وفي إسناده عبد الله بن لهيعة۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 محرم الحرام 1446

بدھ، 10 جولائی، 2024

کارپوریشن سے ٹھیکہ لینے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں 
زید مونسپل کارپوریشن میں ٹھیکیداری کرتا ہے کاپوریشن میں سسٹم یہ ہے کہ کچھ کام کاپوریشن کے ملازمین ضرورت کے حساب نکالتے ہیں اور کچھ کام عوامی نمائندے  نکالتے ہیں 
کارپوریشن کے سالانہ بجٹ میں عوامی نمائندوں کے لیے بجٹ مختص ہوتا ہے۔ اور کارپوریشن کے ملازمین جو نکالتے ہیں اس کا بجٹ الگ ہوتا ہے۔ جو بھی کام ہوتا ہے اس کی اپنی سرکاری ایک قیمت مقرر ہوتی ہے۔ اس کے مطابق ٹھیکے دار کو ٹینڈر بھرنا ہوتا ہے۔ جو ٹھیکے دار کم سے کم میں وہ کام کرنے کو تیار ہوتا ہے اس کو ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ ہر کام کے لیے کام کی لمبائی چوڑائی موٹائی اور کوالٹی لکھ کر دی جاتی ہے 
کہ اپ کو اس معیار کا اور اتنی مقدار میں کام کرنا ہے۔ کام ہونے کے بعد دوسرے سرکاری ادارے سے کچھ لوگ آتے ہیں اس کام کو چیک کرتے ہیں موج ماپ کرتے ہیں اچھی طریقے سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور اگر اس میں کچھ خامی اور مسٹیک نکلی تو اس کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کا اندازاً تخمینہ لگا کر وہ پیسہ کاٹ لیا جاتا ہے۔ 
کچھ ٹھیکے دار نمبر 1 ٹھیکے دار ایسے ہوتے ہیں جو ناقص اور غیر معیاری کام کر کے سیاسی اثر رسوخ اور رشوت کے بل بوتے پر اپنا بل پاس کروا لیتے ہیں۔ 
مگر کچھ ٹھیکے دار نمبر 2 ٹھیکے دار ایسے بھی ہیں جو مطلوبہ مقدار اور مطلوبہ کوالٹی میں کام کرتے ہیں بلکہ مقدار میں کچھ بڑھا کر کرتے ہیں۔ اور ان کو دوسرے سرکاری محکمے کے جو چیکنگ پر افسران آتے ہیں وہ لوگ کلیئر لکھ کر بھی دیتے ہیں کہ اپ کا کام برابر ہے مقدار میں بھی کوالٹی میں بھی جس کو کارپوریشن کی زبان میں تھرڈ پارٹی رپورٹ کہا جاتا ہے۔ کارپوریشن میں رشوت دونوں ٹھیکے داروں سے لی جاتی ہے جو اچھا کام کرتے ہیں ان سے بھی اور جو ناقص کام کرتے ہیں ان سے بھی فرق یہ ہے کہ جو اچھا کام کرتے ہیں افسران ان سے کم سے کم رشوت لیتے ہیں اور ان تمام ٹیبل کے اخراجات کو اور لاگت کو جوڑنے کے بعد سرکاری قیمت کے اعتبار سے جب بل بنتا ہے تو ٹھیکیدار کو اچھا خاصا پیسہ بچتا ہے
اور جو کام عوامی نمائندوں کے بجٹ سے ہوتا ہے اس کا ٹینڈر نکلنے کے بعد عوامی نمائندے کو اس کے محنتانے کے طور پر کچھ پیسہ دینا پڑتا ہے جو ٹھیکے دار اور عوامی نمائندے کے درمیان طے شدہ ہوتا ہے۔ بہت سارے احباب کا کہنا ہے کہ کارپوریشن کی ٹھیکیداری سرے سے جائز ہی نہیں ہے وہ پیسہ حلال ہی نہیں ہے جس میں رشوت دینا پڑتا ہے۔ جبکہ اچھا اور صحیح کام کرنے والے ٹھیکے داروں کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ بالکل حلال ہے، اگرچہ ہم کو بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ قران و سنت کی روشنی میں بتائیں گے کیا کارپوریشن میں ٹھیکے داری کرنا جائز ہے؟صحیح اور اچھا کام کرنے کے بعد بھی رشوت دینی پڑتی ہے اگرچہ خراب کام کرنے والوں کے مقابل میں رشوت کی رقم بہت کم ہو جاتی ہے مگر دینا پڑتا ہے۔ ٹھیکے دار نمبر 2 جو اوپر درج جو ہے اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی کام کے لیے رشوت کا لین دین شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ حدیث شریف میں رشوت دینے والے، لینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ لہٰذا ٹھیکہ لینے کے لیے بھی رشوت دینا جائز نہیں ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔ کہ قانونی طریقۂ کار کے مطابق ہی ٹھیکہ حاصل کرے ۔ البتہ اگر صورتِ حال ایسی ہو کہ زید قانونی طور پر ٹھیکہ لینے کا حق دار اور اہل ہو، اور کوئی دوسرا شخص اس سے زیادہ حق دار نہ ہو، نہ ہی مساوی درجے کے لوگوں یا کمپنیوں میں اپنے آپ کو آگے کرنا مقصد ہو، (یعنی ٹھیکہ لینے کے لیے قانوناً جو اصول، شرائط اور معیار طے ہوں ان میں زید سب سے فائق ہو) اور رشوت دئیے بغیر قانونی طریقۂ کار کے مطابق ٹھیکہ حاصل کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں رشوت دے کر ٹھیکہ حاصل کرنے کی گنجائش ہے اور زید کی کمائی بھی حلال ہوگی، اسے ناجائز اور حرام سمجھنا درست نہیں ہے۔ البتہ لینے والوں کے لیے (خواہ وہ کارپوریشن کے کرمچاری یا عوامی نمائندے ہوں) بہر صورت رشوت لینا سخت ناجائز اور حرام ہے۔

ہم نے اس سلسلے میں اصولی بات لکھ دی ہے، اگر زید اس کے مطابق ٹھیکہ لیتا ہے اور شرائط کے مطابق ایمانداری سے کام کرتا ہے تو اس کا ٹھیکہ لینا درست ہے اور اس کی کمائی بھی حلال ہے۔ 


وَالرِّشْوَةُ مَالٌ يُعْطِيهِ بِشَرْطِ أَنْ يُعِينَهُ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب ادب القاضی، ۳/٣٣٠)

عن أبي ہریرۃ رضي اﷲ عنہ لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم)

عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبی ﷺ :  الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، ۱/۵۵۰، رقم : ۲۰۲۶)

والإسلام یحرم الرشوۃ في أي صورۃ کانت وبأي اسم سمیت فسمیتہا باسم الہدیۃ لا یخرجہا عن دائرۃ الحرام إلی الحلال۔ (الحلال والحرام في الإسلام ۲۷۱، بحوالہ محمودیہ ڈابھیل۱۸/۴۶۳)

لَوْ اُضْطُرَّ إلَى دَفْعِ مَرْشُوَّةٍ لِإِحْيَاءِ حَقِّهِ جَازَ لَهُ الدَّفْعُ وَحَرُمَ عَلَى الْقَابِضِ۔ (شامی : ٥/٧٢)

فأما إذا أعطی لیتوصل بہ إلیٰ حق أو یدفع عن نفسہ ظلمًا؛ فأنہ غیر داخلٍ في ہٰذا الوعید۔ (بذل المجہود : ۱۱؍۲۰۶)

وأما إذا دفع الرشوۃ لیسوي أمرہ عند السلطان حل للدافع ولا یحل للآخذ۔ (إعلاء السنن : ۱۵؍۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 محرم الحرام 1446

پیر، 8 جولائی، 2024

علمِ جفر کی شرعی حیثیت


سوال :

محترم مفتی صاحب ! علم جفر کیا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ایک آدمی کہتا ہے کہ اس نے اس علم کے ذریعے اپنی موت کا وقت معلوم کرلیا ہے، تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : لغات میں ملتا ہے کہ علم جَفَر ایک ایسا علم ہے جس میں حروف کے اسرار سے بحث کی جاتی ہے جس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی مدد سے آئندہ حالات و واقعات کا پتہ لگا لیتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے : 
علم جفر میں ستاروں کو انسانی قسمت پر اثر انداز سمجھا جاتا ہے اور ان چیزوں کو مؤثر حقیقی سمجھنا کفر ہے، علاوہ ازیں ان علوم کے ذریعہ حاصل علم کوبالعموم قطعی ویقینی سمجھا جاتا ہے اور اس کو قطعی ویقینی سمجھنا بھی غلط ہے؛ اس لیے یہ علوم اسلام میں جائز نہیں، مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے جس شخص نے کسی "عَرَّاف" (غیب کی باتیں بتلانے والے) کے پاس جاکر کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ (رقم الفتوی : 174573)

معلوم ہوا کہ علم جفر کے ذریعے مستقبل کے حالات معلوم کیے جاتے ہیں، چنانچہ اس علم کا سیکھنا، سکھانا حرام ہے، اور اس کے مدعی کے پاس کوئی بات پوچھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے، اور اس کے نتائج کو یقینی سمجھنا کفر ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس شخص کا یہ کہنا کہ اس نے اس کی موت کا وقت معلوم کرلیا ہے تو اس کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اور ایسی بات کہنے والا سخت گناہ کا مرتکب ہے، اسے توبہ و استغفار کرکے اس طرح کی باتوں سے مکمل طور پر دور ہوجانا چاہیے۔


عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ ؛ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً۔ (صحیح مسلم، رقم : ٢٢٣٠)

تَعَلُّمُ الْعِلْمِ يَكُونُ فَرْضَ عَيْنٍ، وَهُوَ بِقَدْرِ مَا يَحْتَاجُ إلَيْهِ لِدِينِهِ.
وَفَرْضَ كِفَايَةٍ، وَهُوَ مَا زَادَ عَلَيْهِ لِنَفْعِ غَيْرِهِ.
وَمَنْدُوبًا، وَهُوَ التَّبَحُّرُ فِي الْفِقْهِ وَعِلْمِ الْقَلْبِ.
وَحَرَامًا، وَهُوَ عِلْمُ الْفَلْسَفَةِ وَالشَّعْبَذَةِ وَالتَّنْجِيمِ وَالرَّمْلِ وَعِلْمُ الطَّبِيعِيِّينَ وَالسِّحْرِ۔ (الأشباہ والنظائر لابن نجیم : ٣٢٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 محرم الحرام 1446

بدھ، 3 جولائی، 2024

لاڈلی بہن اسکیم کی شرعی حیثیت


سوال : 

مفتی صاحب! ریاستی حکومت نے اسمبلی چناؤ کے پیش نظر لاڈلی بہن یوجنا اسکیم سامنے لائے ہے جس میں شادی شدہ ماں بہنوں کو جن کی عمر 21 سے 60 سال کے درمیان ہے 1500 روپے ماہانہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ کیا اس اسکیم سے ملنے والے پیسے کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟ 
(المستفتی : افضال احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد خواہ الیکشن کے پیشِ نظر کیوں نہ ہو، اس کا قبول کرنا شرعاً جائز ہے کیونکہ یہ حکومت کی طرف سے تبرع اور احسان ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مہاراشٹر حکومت کی جانب سے جاری کی گئی "میری لاڈلی بہن" اسکیم کا جائزہ لیا گیا، اس میں کوئی سود، جُوا یا پھر رشوت والی کوئی بات نہیں ہے۔ لہٰذا جن لوگوں میں مقررہ شرائط پائی جاتی ہوں ان کے لیے اس اسکیم کا فائدہ اٹھانا شرعاً درست ہے اور جب یہ مال ان کی ملکیت میں آجائے تو اس کا اپنے استعمال میں لانا یا کہیں اور لگا دینا سب درست ہے۔ نیز جب الیکشن کا موقع آئے تو ووٹ بہرحال انہیں امیدواروں کو دی جائے جو اس عہدہ کے اہل اور ایماندار ہوں۔


قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَخْذِ الْجَائِزَةِ مِنْ السُّلْطَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ يُعْطِيهِ مِنْ حَرَامٍ قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ نَأْخُذُ مَا لَمْ نَعْرِفْ شَيْئًا حَرَامًا بِعَيْنِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَأَصْحَابِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی الحجہ 1445

پیر، 1 جولائی، 2024

مرحومین کو خواب میں دیکھنے کا عمل؟


سوال :

مفتی صاحب ! ایک مقرر صاحب نے کہا کہ ہم اپنے رشتہ دار مرحومین کی خواب میں زیارت کر سکتے ہیں اور اس کا گارنٹیڈ عمل بھی بتایا ہے کہ چار رکعت نفل نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ تکاثر پڑھنا ہے۔ کچھ دنوں تک یہ عمل کرنا ہے ان شاءاللہ مرحومین کی زیارت کے ساتھ یہ بھی پتہ چلے گا کہ ان کی قبر جنت میں ہے یا جہنم میں؟ آپ سے اس سلسلے میں رہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : حافظ جنید، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : مرحومین کو خواب میں دیکھنے کے لیے کوئی عمل یا وظیفہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اور نہ ہی  کسی کو خواب میں دیکھنا یہ انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں خواب میں کسی کی زیارت کرا دیتے ہیں۔ لہٰذا خواب میں مرحومین کو دیکھنے کے لیے کسی وظیفہ اور عمل کو گارنٹیڈ کہنا بھی درست نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
کسی مرحوم کو خواب میں دیکھنے کا مجھے کوئی قطعی ویقینی عمل معلوم نہیں، نیز اس کی ضرورت بھی نہیں؛ البتہ آپ مرحوم کے لیے بہ کثرت استغفار اور ایصال ثواب کریں، اگر اللہ نے چاہا تو خواب میں مرحوم کی زیارت ہوجائے گی، نہیں تو کثرتِ استغفار اور ایصال ثواب سے مرحوم کو فائدہ پہنچنے میں کچھ شبہ نہیں۔ (رقم الفتوی : 173448)

سوال نامہ میں مذکور عمل کو اگر مجربات میں سے سمجھ کر عمل کرلیا گیا اور مرحومین کی زیارت ہوگئی تب بھی ان کی حالت سے متعلق کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی، کیونکہ امتی کا خواب شرعاً حجت نہیں ہے۔ اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے اپنے خیالات اور تفکرات ہی خواب بن کر سامنے آتے ہیں۔ لہٰذا اپنے کسی مرحوم کو خواب میں دیکھنے کے لیے کوئی وظیفہ پڑھنے یا کوئی عمل کرنے کی بجائے ان کے لیے زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام ہو یہی ان کے حق میں زیادہ بہتر اور شرعاً مطلوب ہے۔


واستشکل اثباتہ بأن رؤیا غیر الأنبیاء لا یبنی علیھا حکم شرعي۔ (رد المحتار : ۱/۲۵۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ذی الحجہ 1445

اتوار، 30 جون، 2024

گود بھرائی کی رسم کا حکم


سوال : 

مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ گود بھرائی (ستواسا) کی رسم کرنا کیسا ہے؟ اسقرار حمل کے ساتویں مہینے میں عورت کی گود بھری جاتی ہے۔ کپڑے، پھل فروٹ اور ہونے والے بچے کی مبارکبادی وغیرہ۔۔ آپ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : شیخ عارف، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور گود بھرائی کی رسم کا شریعت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک جاہلانہ، ہندوانہ اور احمقانہ رسم ہے جو بلاشبہ شرعاً ناجائز ہے، لہٰذا ایسی رسم سے بچنا اور بقدر استطاعت دوسروں کو روکنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔


عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ۴۰۳۱)

قال القاري : أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ … الخ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس / باب في الشہرۃ، ۱۲؍۵۹ مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
23 ذی الحجہ 1445

ہفتہ، 29 جون، 2024

زکوٰۃ کی رقم سے بورنگ کروانا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین کہ زید کے پاس زکوۃ  کی رقم ہے۔ کیا زید اس رقم سے کسی ضرورت مند علاقے میں بورنگ کروا سکتا ہے؟
(المستفتی : قاسم انصاری، ممبئی)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : زکوٰۃ کی رقم سے بورنگ کروانا جائز نہیں، کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے۔ تملیک کا مطلب یہ ہے کہ کسی مستحقِ زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک اور مختار بنا دیا جائے۔ صورتِ مسئولہ میں بورنگ کروانے میں چونکہ تملیک نہیں پائی جائے گی (خواہ وہ علاقہ ضرورت مند ہی کیوں نہ ہو) لہٰذا زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ البتہ کسی مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی رقم دے دی جائے پھر وہ اپنی مرضی اور خوشی سے بورنگ کروا دے تو الگ بات ہے، اس طرح زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ 


أَمَّا تَفْسِيرُهَا فَهِيَ تَمْلِيكُ الْمَالِ مِنْ فَقِيرٍ مُسْلِمٍ غَيْرِ هَاشِمِيٍّ، وَلَا مَوْلَاهُ بِشَرْطِ قَطْعِ الْمَنْفَعَةِ عَنْ الْمُمَلِّكِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ لِلَّهِ - تَعَالَى - هَذَا فِي الشَّرْعِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٧٠)

وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَبْنِيَ بِالزَّكَاةِ الْمَسْجِدَ، وَكَذَا الْقَنَاطِرُ وَالسِّقَايَاتُ، وَإِصْلَاحُ الطَّرَقَاتِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ وَكُلُّ مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُكَفَّنَ بِهَا مَيِّتٌ، وَلَا يُقْضَى بِهَا دَيْنُ الْمَيِّتِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٨٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ذی الحجہ 1445

بدھ، 26 جون، 2024

عید غدیر کی شرعی حیثیت


سوال : 

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے عید غدیر کیا ہے؟ کون لوگ اسے مناتے ہیں؟ مکمل ومدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حجۃ الوداع‘‘سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے) پر خطبہ ارشادفرمایا تھا اور اس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشاد فرمایا تھا :  "من کنت مولاه فعلي مولاه" یعنی جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے۔

اس کا پس منظر یہ تھا کہ ’’حجۃ الوداع‘‘ سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف والی/ عامل بناکر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کرکے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا، اور یہ اعتراض براہِ راست نبی کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوکر دوہرایا، آپ ﷺ نے انہیں اسی موقع پر انفرادی طور پر سمجھایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصویب فرمائی، بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی کا اس سے بھی زیادہ حق تھا، نیز آپ ﷺ نے انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا حکم دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں دل میں کدورت اور میل رکھنے سے منع فرمایا، چناں چہ ان حضرات کے دل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بالکل صاف ہوگئے، وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ  نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ہمارے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ محبوب ہوگئے۔ البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں، آپ ﷺ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپ ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت اور ان کا حق ہونا بیان فرمائیں، چناں چہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق واضح فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرماکر دور فرمادیا: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ" یعنی اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا/میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہوگا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہوجا۔ آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا : اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو! آپ صبح و شام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے محبوب بن گئے۔ حضراتِ شیخین سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پہلے سے تھی، جن چند لوگوں کے دل میں کچھ شبہات تھے آپ ﷺ  کے اس ارشاد کے بعد ان کے دل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت سے سرشار ہوگئے۔ اس خطبہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اور مقرب بندے ہیں، ان سے اور میرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنا ایمان کا تقاضہ ہے، اور ان سے بغض وعداوت یا نفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے۔

مذکورہ پس منظر سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا  غدیرخُم  میں "من کنت مولاه فعلي مولاه"ارشادفرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لیے نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر ومنزلت بیان کرنے اور معترضین کے شکوک دور کرنے کے لیے تھا، نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قرار دینے کے لیے تھا۔ اور الحمدللہ! اہلِ سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اہلِ ایمان ہی محبت رکھتے ہیں۔

مذکورہ خطبے اور ارشاد کی حقیقت یہی تھی جو بیان ہوچکی۔ باقی  ایک گمراہ فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت بلافصل ثابت کرتا ہے، اور چوں کہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتا ہے، اور اسے ’’عید غدیر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دن عید کی ابتداء کرنے والا ایک حاکم معزالدولۃ گزرا ہے، اس شخص نے 18ذوالحجہ 351ہجری کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا تھا اور اس کا نام"عید خُم غدیر" رکھا۔

اولاً تو اس عیدِ غدیر کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے، دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے۔ ان کی مخالفت میں بھی بعض بدنصیب لوگ اس دن اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں۔  

معلوم ہونا چاہیے کہ دینِ اسلام میں صرف دوعیدیں ہیں : ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحیٰ۔ ان دو کے علاوہ دیگرتہواروں اور عیدوں کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، لہٰذا "عید غدیر" منانا ناجائز ہے جس سے اہلِ ایمان و اسلام کو دور رہنا ضروری ہے۔


سنن ابن ماجہ میں ہے :

"حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»". (رقم الحديث: ١٢١، فضل علي بن أبي طالب رضي الله عنه ١/ ٤٥)

"فضائل الصحابة لأحمد ابن حنبل" میں ہے :

"حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَفَّانُ قال: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: أنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ، فَنُودِيَ فِينَا: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ". ( رقم الحديث: ١٠١٦، فضائل علي رضي الله عنه ، ٢/ ٥٩٦،ط: مؤسسة الرسالة بيروت)

"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے :

"حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ح وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: ثنا شَرِيكٌ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: بَيْنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ جَالِسٌ فِي الرَّحَبَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَايَ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: أَبُو أَيُّوبَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»". (رقم الحديث: ٤٠٥٢، ٤/ ١٧٣، ط: مكتبة ابن تيمية)

"شرح ابن ماجة للسيوطي" میں ہے :

"«من كنت مَوْلَاهُ فعلي مَوْلَاهُ» قَالَ فِي النِّهَايَة: الْمولى اسْم يَقع على جمَاعَة كَثِيرَة، فَهُوَ الرب الْمَالِك، وَالسَّيِّد، والمنعم، وَالْمُعتق، والناصر، والمحب التَّابِع، وَالْجَار، وَابْن الْعم، والحليف، والصهر، وَالْعَبْد، وَالْمُعتق، والمنعم عَلَيْهِ. وَهَذَا الحَدِيث يحمل على أَكثر الْأَسْمَاء الْمَذْكُورَة، وَقَالَ الشَّافِعِي: عَنى بذلك وَلَاء الْإِسْلَام، كَقَوْلِه تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾،[محمد:١١] وَقيل: سَبَب ذَلِك أن أُسَامَة قَالَ لعَلي رَضِي الله عنه: لستَ مولَايَ، إنما مولَايَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك". ( باب اتباع السنة، ١/ ١٢ ،ط: قديمي)

"قوت المقتذي علي جامع الترمذي"میں ہے :

"من كُنْتُ مَوْلاَهُ فعَليٌّ مَوْلاهُ". أراد بذلك ولاء الإسلام، كقوله تعالى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١]وقيل: سبب ذلك أن أسَامة قال لعَلي: لسْتَ مولاي، إنما مولاي رسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذلك''. (أبواب المناقب 2/1002 ط: رسالة الدكتوراة بجامعة أم القري)

"مرقاة المفاتيح"میں ہے:

"(وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ) ذِكْرُهُ تَقَدَّمَ (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ") . قِيلَ: مَعْنَاهُ: مَنْ كُنْتُ أَتَوَلَّاهُ فَعَلِيٌّ يَتَوَلَّاهُ، مِنَ الْوَلِيِّ ضِدِّ الْعَدُوِّ أَيْ: مَنْ كُنْتُ أُحِبُّهُ فَعَلِيٌّ يُحِبُّهُ، وَقِيلَ مَعْنَاهُ: مَنْ يَتَوَلَّانِي فَعَلِّيٌّ يَتَوَلَّاهُ، كَذَا ذَكَرَهُ شَارِحٌ مِنْ عُلَمَائِنَا. وَفِي النِّهَايَةِ: الْمَوْلَى يَقَعُ عَلَى جَمَاعَةٍ كَثِيرَةٍ، فَهُوَ الرَّبُّ، وَالْمَالِكُ، وَالسَّيِّدُ، وَالْمُنْعِمُ، وَالْمُعْتِقُ، وَالنَّاصِرُ، وَالْمُحِبُّ، وَالتَّابِعُ، وَالْخَالُ، وَابْنُ الْعَمِّ، وَالْحَلِيفُ، وَالْعَقِيدُ، وَالصِّهْرُ، وَالْعَبْدُ، وَالْمُعْتَقُ، وَالْمُنْعَمُ عَلَيْهِ، وَأَكْثَرُهَا قَدْ جَاءَتْ فِي الْحَدِيثِ، فَيُضَافُ كُلُّ وَاحِدٍ إِلَى مَا يَقْتَضِيهِ الْحَدِيثُ الْوَارِدُ فِيهِ، وَقَوْلُهُ: « مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ» يُحْمَلُ عَلَى أَكْثَرِ هَذِهِ الْأَسْمَاءِ الْمَذْكُورَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: يَعْنِي بِذَلِكَ وَلَاءَ الْإِسْلَامِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١] وَقَوْلِ عُمَرَ لِعَلِيٍّ: أَصْبَحْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ [أَيْ: وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ]، وَقِيلَ: سَبَبُ ذَلِكَ أَنَّ أُسَامَةَ قَالَ لِعَلِيٍّ: لَسْتَ مَوْلَايَ إِنَّمَا مَوْلَايَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ». " قُضِيَ " قَالَتِ الشِّيعَةُ: هُوَ مُتَصَرِّفٌ، وَقَالُوا: مَعْنَى الْحَدِيثِ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْتَحِقُّ التَّصَرُّفَ فِي كُلِّ مَا يَسْتَحِقُّ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّصَرُّفَ فِيهِ، وَمِنْ ذَلِكَ أُمُورُ الْمُؤْمِنِينَ فَيَكُونُ إِمَامَهُمْ. أَقُولُ: لَا يَسْتَقِيمُ أَنْ تُحْمَلَ الْوِلَايَةُ عَلَى الْإِمَامَةِ الَّتِي هِيَ التَّصَرُّفُ فِي أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ، لِأَنَّ الْمُتَصَرِّفَ الْمُسْتَقِلَّ فِي حَيَاتِهِ هُوَ هُوَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا غَيْرُ، فَيَجِبُ أَنْ يُحْمَلَ عَلَى الْمَحَبَّةِ وَوَلَاءِ الْإِسْلَامِ وَنَحْوِهِمَا. وَقِيلَ: سَبَبُ وُرُودِ هَذَا الْحَدِيثِ كَمَا نَقَلَهُ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّينِ الْجَزَرِيُّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ عَلِيًّا تَكَلَّمَ فيه بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهُ بِالْيَمَنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّهَ، خَطَبَ بِهَا تَنْبِيهًا عَلَى قَدْرِهِ، وَرَدًّا عَلَى مَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ كَبُرَيْدَةَ، كَمَا فِي الْبُخَارِيِّ. وَسَبَبُ ذَلِكَ كَمَا رَوَاهُ الذَّهَبِيُّ، وَصَحَّحَهُ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَهُ إِلَى الْيَمَنِ، فَرَأَى مِنْهُ جَفْوَةَ نَقْصِهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَتَغَيَّرُ وَجْهُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَيَقُولُ: «يَا بُرَيْدَةُ أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَفِي الْجَامِعِ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ : عَنِ الْبَرَاءِ، وَأَحْمَدُ عَنْ بُرَيْدَةَ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالضِّيَاءُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. فَفِي إِسْنَادِ الْمُصَنِّفِ الْحَدِيثَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ إِلَى أَحْمَدَ وَالتِّرْمِذِيِّ مُسَامَحَةٌ لَاتَخْفَى، وَفِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ وَالنَّسَائِيِّ وَالْحَاكِمِ عَنْ بُرَيْدَةَ بِلَفْظِ: «مَنْ كُنْتُ وَلِيُّهُ». وَرَوَى الْمَحَامِلِيُّ فِي أَمَالِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَفْظُهُ: «عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ مَوْلَى مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ». وَالْحَاصِلُ أَنَّ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَا مِرْيَةَ فِيهِ، بَلْ بَعْضُ الْحُفَّاظِ عَدَّهُ مُتَوَاتِرًا؛ إِذْ فِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُونَ صَحَابِيًّا، وَشَهِدُوا بِهِ لِعَلِيٍّ لَمَّا نُوزِعَ أَيَّامَ خِلَافَتِهِ، وَسَيَأْتِي زِيَادَةُ تَحْقِيقٍ فِي الْفَصْلِ الثَّالِثِ عِنْدَ حَدِيثِ الْبَرَاءِ". (باب مناقب علي بن أبي طالب، ج:٩ ط: دار الفكر)

"شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة"میں ہے:

" أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: أنا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ، قَالَ: نا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: نا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: نا هِلَالُ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي بِسْطَامٍ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ النَّاسِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَقَعَ بَيْنَ أُسَامَةَ وَبَيْنَ عَلِيٍّ تَنَازُعٌ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «يَا عَلِيُّ، يَقُولُ هَذَا لِأُسَامَةَ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّهُ» . وَقَالَ لِأُسَامَةَ: «يَا أُسَامَةُ، يَقُولُ هَذَا لِعَلِيٍّ، فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»". (رقم الحديث: ٢٦٤٠، ٨/ ١٤٥٩، ط: دار طيبة)

"الاعتقاد للبيهقي"میں ہے:

"فَقَدْ ذَكَرْنَا مِنْ طُرُقِهِ فِي كِتَابِ الْفَضَائِلِ مَا دَلَّ عَلَى مَقْصودِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ أَنَّهُ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيمَنِ كَثُرَتِ الشَّكَاةُ عَنْهُ، وَأَظْهَرُوا بُغْضَهُ، فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ، وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ، فَقَالَ: «مِنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ»، وَفِي بَعْضِ الرُّوَايَاتِ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمْ وَالِ مِنْ وَالِاهُ وَعَادِ مِنْ عَادَاهُ». وَالْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ وَمَودَّتُهُ، وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يوَالِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَلَا يُعَادِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَهُوَ فِي مَعْنَى مَا ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ «أَنَّهُ لَا يُحِبُّنِي إِلَا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ» . وَفِي حَدِيثِ بُرَيْدَةَ شَكَا عَلِيًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَبْغِضُ عَلِيًّا؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: لَا تُبْغِضْهُ، وَأَحْبِبْهُ وَازْدَدْ لَهُ حُبًّا، قَالَ بُرَيْدَةُ: فَمَا كَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إليَّ مِنْ عَلِيٍّ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔
مستفاد : فتوی دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر: 144008201430۔)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ذی الحجہ 1445

منگل، 25 جون، 2024

حجاج کرام کا استقبال کس طرح ہو؟


سوال :

محترم مفتی صاحب ! حجاج کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ حاجیوں کے استقبال میں لوگ مختلف طرح کے اعمال انجام دیتے ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ استقبال میں کون سے اعمال انجام دئیے جاسکتے ہیں؟ ان کی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج بلاشبہ ایک عظیم الشان مالی اور بدنی عبادت ہے، لہٰذا حجاج کرام کے سفر حج سے واپس آنے پر ان سے ملاقات، سلام ومصافحہ اور دعا کی درخواست کرنا حدیث شریف سے ثابت ہے۔

حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
حاجیوں کا استقبال تو اچھی بات ہے، ان سے ملاقات اور مصافحہ اور معانقہ بھی جائز ہے، اور ان سے دُعا کرانے کا بھی حکم ہے، لیکن یہ پھول اور نعرے وغیرہ حدود سے تجاوز ہے، اگر حاجی صاحب کے دِل میں عجب پیدا ہوجائے تو حج ضائع ہوجائے گا۔ اس لئے ان چیزوں سے احتراز کرنا چاہئے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل : ٤/٢٤٣)

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی تحریر فرماتے ہیں :
پھولوں کا ہار ڈالنا سلف صالحین سے کہیں ثابت نہیں مشرکین اپنے بتوں پر پھول چڑھاتے ہیں اور مبتدعین ان کی حرص میں قبور اور مزارات پر چڑھاتے ہیں، اب ایک قدم اور آگے بڑھاکر زندہ لیڈروں اور عازمین حج یا حجاج پر چڑھانے لگے اس سے زیادہ اور کوئی اس کی اصل معلوم نہیں ہوتی۳؂، اگر سونگھنے کیلئے کسی کو پھول یاکوئی اورخوشبو دیجائے تو وہ بہتر ہے، جس کا رد کرنا بھی خلاف سنت ہے۔ (فتاوی محمودیہ : ١٥/٣٩١)

لہٰذا حجاج کرام کے استقبال میں ان سے ملاقات کرنا، مصافحہ، معانقہ کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا اور مزید کچھ کرنا ہے تو انہیں پھول پیش کردینا یا ان کا منہ میٹھا کردینا کافی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا لَقِيتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَصَافِحْهُ وَمُرْهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ۔ (مسند أحمد، رقم : ۵۳۷۱-۶۱۱۲)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ۴۰۳۱)

قال القاري : أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ … الخ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس / باب في الشہرۃ، ۱۲؍۵۹ مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ عُرِضَ عَلَيْهِ رَيْحَانٌ فَلَا يَرُدُّهُ فَإِنَّهُ خَفِيفُ الْمَحْمِلِ طَيِّبُ الرِّيحِ۔ (صحیح مسلم، رقم : ٢٢٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی الحجہ 1445

اتوار، 23 جون، 2024

خلع کے بعد نکاح کی صورت؟


سوال : 

میری بیوی دو سال پہلے مجھ سے خلع لے چکی ہے، لیکن اب میں پھر سے اُسی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت میں نے صرف ایک طلاق دیا تھا اسکے بعد ہم کبھی رجوع نہیں ہوئے، وہ اپنے میکے میں ہی رہ رہی ہے۔ اب دوبارہ اس سے نکاح کرنا ہے تو اس میں کیا حلالہ کی ضرورت ہوگی؟ یا بغیر حلالہ کیے نکاح کر سکتا ہوں؟
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ آپ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی تو ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے۔ البتہ عدت کی مدت تین ماہواری گزرنے کے بعد یہ طلاق، طلاق بائن بن گئی۔

طلاقِ بائن کا حکم یہ ہے کہ عدت گذرنے کے بعد آپ کی بیوی آپ کے نکاح سے نکل گئی، اب وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو نئے مہر کے ساتھ آپ سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس صورت میں حلالۂ شرعیہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ اب آپ کو صرف دو  طلاق کا حق حاصل رہے گا۔

بطورِ خاص ملحوظ رہے کہ یہ ایک عوامی غلط فہمی ہے کہ جس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک یا دو طلاق کی صورت میں بھی عدت گذر جانے کے بعد تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے، جب تک تین طلاق نہیں دی جائے گی تین طلاق واقع نہیں ہوگی۔


عن سماکؓ قال : سمعت عکرمۃؓ یقول : الطلاق مرتان : فإمساک بمعروف، أو تسریح بإحسان، قال: إذا طلق الرجل امرأتہ واحدۃ فإن شاء نکحہا، وإذا طلقہا ثنتین فإن شاء نکحہا، فإذا طلقہا ثلاثاً فلا تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ما قالوا في الطلاق مرتان، ۱۰/۱۹۷، رقم:۱۹۵۶۴)

أما الطلاق الرجعي: فالحکم الأصلي لہ ہو نقصان العدد، فأما زوال الملک وحل الوطئ، فلیس بحکم أصلي لہ لازم، حتی لا یثبت للحال، وإنما یثبت في الثاني بعد انقضاء العدۃ، فإن طلقہا ولم یراجعہا؛ بل ترکہا حتی انقضت عدتہا بانت۔ (بدائع الصنائع : ۴؍۳۸۷)

وینکح مبانتہ بما دون الثلاث في العدۃ و بعدہا بالإجماع۔ (تنویر الأبصار : ۳؍۴۰۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ذی الحجہ 1445

ٹیچر الیکشن میں امیدوار سے تحائف قبول کرنا


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! ٹیچر حلقے انتخاب کیلئے 26 جون کو ووٹنگ ہونے والی ہے، جس میں صرف ٹیچر ہی ووٹ کر سکتا ہے۔
اسی الیکشن کے پیش نظر امیدوار اسکولوں میں تحائف (کپڑے، سونے کی نتھنیاں وغیرہ) بھیجتے ہیں۔
ایک ٹیچر نے سوال کیا ہے کہ اگر ہم اسی امیدوار کو ووٹ دیں تو کیا ان تحائف کا استعمال کرنا جائز ہوگا؟ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر تحائف کو قبول نا کیا جائے تو تعصب کا اندیشہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں تحائف کا کیا کیا جائے؟
(المستفتی : محمد مدثر، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں الیکشن کے ایام میں ٹیچر الیکشن میں امیدوار کی طرف سے ووٹروں کو دیئے جانے والے تحائف رشوت ہیں۔ اس لئے کہ الیکشن کے ایام میں ہی امیدوار کو اس کا خیال کیوں آیا؟ الیکشن کے ایام کے علاوہ اسے کبھی ٹیچروں کو تحائف دینے کا خیال کیوں نہیں آتا؟ تحائف دینے والا امیدوار اگر ہار جائے تو کیا وہ یہ نہیں سوچے گا کہ تحفہ لینے والوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے؟ نیز اگر امیدوار کو یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ تحفہ لینے والے نے مجھے ووٹ نہیں دی ہے تو کیا وہ اسے دھوکے باز نہیں سمجھے گا؟ اسی طرح اگر اس کا بس چل جائے تو وہ دھوکہ دینے والوں سے اپنا تحفہ وصول کرنے کی کوشش نہیں کرے گا؟

مذکورہ بالا وجوہات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ تحائف رشوت ہی ہیں کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں رشوت وہ مال ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لیے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے، جسے یہ چاہتا ہے، جس کا لینا اور دینا دونوں شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس کے لین دین پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔ (1)

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے۔ (2)

ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (3)

ذکر کردہ احادیث مبارکہ رشوت کی حرمت پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں، کیونکہ لعنت یعنی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کسی عظیم گناہ کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رشوت گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، لہٰذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اس ملعون عمل سے خود بھی بچے اور بقدر استطاعت دوسروں کو بچانے کی کوشش بھی کرے۔ تاہم اگر کسی نے لاعلمی یا کسی اور وجہ سے تحفہ قبول کرلیا ہے تو اسے پہلی فرصت میں واپس کردے اگر واپس کرنا ممکن نہ ہوتو اسے بلانیت ثواب کسی مستحق زکوٰۃ کو دے دے، اور ووٹ اہلیت اور قابلیت رکھنے والے امیدوار کو ہی دے۔


1) قال العلامۃ ابن عابدین :  الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید۔ (ردالمحتار، ۴:۳۳۷،۳۳۸ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)

2) عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم،)

3) عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبیﷺ: الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/۵۵۰، رقم:۲۰۲۶،)

4) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 ذی الحجہ 1445

ہفتہ، 22 جون، 2024

قربانی کا گوشت ولیمہ میں استعمال کرنا


سوال :

مفتی صاحب ! ایام قربانی میں شادی ہے، اور شادی ہی کی نیت سے جانور خریدا ہے، اب اگر اس میں قربانی کی نیت کرلے، اور گوشت شادی میں استعمال کرلے تو کیا قربانی معتبر ہوگی؟
(المستفتی : محمد طیب، بیڑ)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : عیدالاضحیٰ کی قربانی کا گوشت ولیمہ کے مہمانوں کو دعوت کے طور پر کھلانا درست ہے۔ لہٰذا ولیمہ کی نیت سے خریدے گئے جانور کو ایام قربانی میں قربانی کی نیت سے ذبح بھی کیا جاسکتا ہے۔ قربانی بھی معتبر ہوگی، اور اس کا گوشت ولیمہ میں استعمال بھی کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ قربانی نذر کی نہ ہو، کیونکہ نذر کی قربانی کا گوشت صدقہ کرنا واجب ہے۔


(وَيَأْكُلُ مِنْ لَحْمِ الْأُضْحِيَّةِوَيَأْكُلُ غَنِيًّا وَيَدَّخِرُ، وَنُدِبَ أَنْ لَا يَنْقُصَ التَّصَدُّقُ عَنْ الثُّلُثِ) 
(قَوْلُهُ وَيَأْكُلُ مِنْ لَحْمِ الْأُضْحِيَّةَ إلَخْ) هَذَا فِي الْأُضْحِيَّةَ الْوَاجِبَةِ وَالسُّنَّةِ سَوَاءٌ إذَا لَمْ تَكُنْ وَاجِبَةً بِالنَّذْرِ۔ (شامی : ٦/٣٢٧)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
15 ذی الحجہ 1445

جمعرات، 20 جون، 2024

حاجیو ! اللہ کا شکر ادا کرو۔


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! امسال کے حج کے ایام مکمل ہوچکے ہیں۔ اطلاعات ملی ہیں کہ حج بڑا مشکل ہوگیا ہے۔ انتہاء کو پہنچی ہوئی سخت گرمی، حجاج کے قیام کے لیے ناکافی جگہیں، غیرمعمولی رَش اور کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنا اب عام حجاج کے لیے گویا لازمی ہوگیا ہے۔

سعودی حکومت لاکھ یہ دعوی کرے کہ وہ حاجیوں کی آسانی کے لیے بہت سارے پروجیکٹ پر کام کررہی ہے، اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی بہت سی پالیسیاں اور انتظامات دماغ اور لاجک میں آنے والے نہیں ہیں، بہت سی جگہوں پر انتظامات کے نام پر حجاج کو ہراساں اور غیرمعمولی تکالیف سے دو چار کیا جاتا ہے۔ جس پر حکومت کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان سب کا سب سے سیدھا اور آسان حل یہ ہے کہ حج یا عمرہ کے ویزا کی تعداد کو کم کیا جائے، بڑی تعداد میں عازمین کو حج یا عمرہ کا ویزا دے دینا اور پھر بھیڑ کو کنٹرول نہ کرپانا یہ کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ عمل شرعاً درست ہے۔ لیکن ایسا گمان ہوتا ہے کہ سعودی حکومت کو اب حجاج اور معتمرین کی خدمت سے زیادہ مال کمانے میں دلچسپی ہوگئی ہے۔

اسی طرح بغیر پرمٹ کے حج کرنے سے بھی بچنا چاہیے اس کی وجہ سے انتظامات میں اور پرمٹ والے حجاج کو بلاشبہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور گرفت کی صورت میں آپ کے جان مال کے خطرے میں پڑنے کا بھی سخت اندیشہ ہے۔

کچھ مشکلات مسائل کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بھی پیش آتے ہیں، مثلاً گرمی سخت اور بھیڑ بہت زیادہ ہوتو گیارہ بارہ کی رمی مغرب کے بعد بھی کی جاسکتی ہے۔ تیرہ کی رمی اگر نہ کی جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ ایسے معذور جو چل کر رمی کے لیے نہیں جاسکتے اور ان کو کوئی وہیل چیئر وغیرہ پر لے جانے والا بھی نہیں ہے تو وہ رَمی میں اپنا نائب بھی بناسکتے ہیں۔ سخت کمزور اور ضعیف افراد اگر ہوٹل میں ہی قیام کریں اور صرف رَمی کرنے کے لیے منی آئیں تو اس کی بھی گنجائش ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اگر ان باتوں کا علم پہلے سے اچھی طرح ہوجائے تو کچھ نہ کچھ راحت اور سہولت ہوجائے گی۔

خیر!الحمدللہ آپ کا حج مکمل ہوچکا ہے۔ آپ ایک بہت بڑی اور عظیم الشان ذمہ داری اور فریضے سے سبکدوش ہوچکے ہیں، بڑے بڑے فضائل آپ نے حاصل کرلیے ہیں، دنیا آخرت کے لیے مانگی گئی آپ کی دعائیں قبول ہوئی ہوں گی۔ یہ سب کچھ صرف اللہ کے کرم اور اس کے فضل سے ہوا ہے۔ ورنہ جو کچھ مشکلات، تکالیف اور مصائب حج کے ایام میں پیش آتے ہیں، ان کا جھیل جانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے آپ حجاج کرام اب ساری تکالیف کو بھول جائیں، کیونکہ تکالیف تو چلی گئیں، اور اجر باقی رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ کام کو صحیح طور پر انجام دینے والوں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا۔ اور وہیں سے تہیہ اور پختہ عزم کرلیں کہ اب بقیہ زندگی سوفیصد شریعت اور سنت کے مطابق گزاریں گے، حقوق اللہ کی بھی پاسداری کریں گے اور حقوق العباد بھی مکمل طور پر ادا کریں گے۔

اللہ تعالیٰ آپ تمام کی اللہ کے راستے میں دی گئی قربانیوں کو قبول فرمائے، تکالیف کو راحتوں سے تبدیل فرمائے، اس راستے میں لگائے گئے مال کو کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس فرمادے، آپ تمام کے حج کو حج مقبول ومبرور بنادے۔ آمین یا رب العالمین