منگل، 31 دسمبر، 2024

حفاظ کرام کی دعوتیں اور تحائف

                                                       چند ہدایات اور گزارشات

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
        (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! جیسا کہ ہم سب کو بخوبی اس بات کا علم ہے کہ شہر عزیز مالیگاؤں میں مکاتب کا جال بچھا ہوا ہے۔ تقریباً ہر محلے میں ایک منظم مکتب موجود ہے، جہاں قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم سے قرآن مجید کے حفظ تک کا معقول نظم موجود ہے۔ اور یہاں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں بچے اور بچیاں حفظ قرآن کی دولت بے بہا سے مالا مال ہوکر نکل رہے ہیں۔

حافظ ہونے والے طلباء وطالبات کے والدین اس خوشی میں دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض والدین بڑی بڑی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض چھوٹی اور اور بعض بالکل نہیں کرتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، استطاعت نہیں ہے تو اس کے لیے قرض لینے یا بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ کوئی فرض یا واجب عمل نہیں ہے۔ لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ مشاہدہ ہورہا ہے کہ ان معاملات میں بعض قباحتیں در آرہی ہیں جن کے سدباب کے لیے یہ مضمون لکھا جارہا ہے۔

معاملات اس طرح ہیں کہ حفظ کی تکمیل کرنے والے طلباء وطالبات پہلے اپنے حفظ کے استاذ کے ساتھ پوری کلاس اور پورے اسٹاف کے لیے مٹھائی کا نظم کرتے ہیں، بلاشبہ یہ چیز مزدور طبقہ کے لیے مشکل بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی مشکل ہوتی ہے۔

اس کو آسان اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ صرف حفظ کے استاذ یا جن اساتذہ کے پاس اس طالب علم نے قاعدہ اور قرآن مجید پڑھا ہے صرف انہیں اساتذہ کو مٹھائی دی جائے۔ دس سے لے کر بیس، تیس اساتذہ کے اسٹاف کو دیڑھ دو سو والا مٹھائی کا ڈبہ دینا ضروری نہیں ہے۔ 

بعض مکاتب سے اس طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ وہاں حفاظ یا حافظات مل کر پہلے پورے اسٹاف کو دعوت دیتے ہیں جن کی تعداد پندرہ، بیس سے زائد ہوسکتی ہیں، پھر سب اکیلے اکیلے پورے اسٹاف کی دعوت کرتے ہیں، اس طرح اگر تیس حافظ یا حافظات ہیں تو پورے مہینے دعوت چلے گی۔ پھر حفاظ یا حافظات پر یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ وہ تمام حفاظ یا حافظات کے لیے تحفے کا نظم کریں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان سارے انتظامات میں ایک بہت بڑی رقم خرچ ہوگی جو مزدور طبقہ کی کمر توڑ دینے والی ہے اور عموماً ایسے ہی گھرانے کے بچے بچیاں حفظ کرتے ہیں۔

دعوتوں اور تحائف کے اہتمام میں بھی اس کا خیال رکھا جائے کہ صرف حفظ کے استاذ کو تحفہ دیا جائے، اگر استطاعت ہوتو دعوت میں حافظ/حافظہ کے حفظ کے استاذ کے ساتھ قاعدہ اور قرآن مجید کے استاذ کو بھی مدعو کرلیا جائے، اور اگر مزید استطاعت ہے اور بڑا انتظام کیا جارہا ہے تو پھر اسٹاف کو مدعو کیا جائے۔

دوسری طرف بعض والدین بڑے بڑے ہال بُک کروا کر بڑی بڑی دعوتیں کرتے ہیں جس میں پچاس ہزار سے دیڑھ دو لاکھ تک خرچ کردیتے ہیں، لیکن اس بچے پر چار، پانچ یا پھر چھ سال تک سخت محنت کرنے والے استاذ کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں، جب کہ وہ اکرام اور حوصلہ افزائی کا زیادہ حق دار ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دعوت میں ہزاروں، لاکھوں روپے خرچ کردینے سے آپ کو وہ ثواب نہیں ملے گا جو حافظ کے استاذ کی مالی خدمت کرنے پر ملے گا۔ اور اگر یہ دعوتیں ریاکاری اور نام ونمود کے لیے ہورہی ہیں تو یہ آپ کے لیے بروزِ حشر وبال بن جائیں گی۔

امید ہے کہ مکاتب اور مدارس کے اساتذہ، ذمہ داران اور سرپرست حضرات ان باتوں پر توجہ فرماکر عمل فرمائیں گے اور اپنے آپ کو بے جا مشکلات میں ڈالنے سے پرہیز فرمائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ترجیحات سمجھنے اور اصل کرنے کا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

پیر، 30 دسمبر، 2024

حدیث "وقفہ وقفہ سے ملاقات کرنا محبت کو بڑھاتا ہے" کی تحقیق


سوال :

مفتی صاحب ! وقفہ وقفہ سے ملاقات کرنا محبت کو بڑھاتا ہے۔ یہ حدیث ہے یا نہیں؟ تحقیق ارسال فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ ارسال کردہ روایت کا عربی متن زُرْ غِبًّا تزْدَدْ حُبًّا ہے۔ یہ حدیث ہے، اور حدیث کی متعدد کتابوں میں مذکور ہے جسے ماہرِ فن علماء مثلاً علامہ ہیثمی، علامہ سفارینی، علامہ جلال الدین سیوطی رحمھم اللہ وغیرہ نے حسن قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہ روایت معتبر ہے اور اس کا بیان کرنا درست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں سے ملاقات میں کسی قدر وقفہ رکھنا چاہئے کہ یہ وقفہ شوقِ ملاقات، آپسی محبت اور اہمیت کو بڑھاتا ہے۔


زُرْ غِبًّا تزْدَدْ حُبًّا
الراوي: - • محمد جار الله الصعدي، النوافح العطرة (١٥٨) • حسن لغيره

زُرْ غِبًّا تزدَدْ حبًّا
الراوي: [أبو هريرة] • الزرقاني، مختصر المقاصد (٥٠٨) • حسن لغيره • أخرجه الطيالسي (٢٦٥٨)، والبزار (٩٣١٥)، والعقيلي في ((الضعفاء الكبير)) (٢/١٣٨)

زُرْ غِبًّا تزدَدْ حُبًّا
الراوي: - • السفاريني الحنبلي، شرح ثلاثيات المسند (١/٢١٤) • كثرة طرقه تكسبه قوة يبلغ بها درجة الحسن۔فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
27 جمادی الآخر 1446 

اتوار، 29 دسمبر، 2024

شادی کارڈ پر "تحفہ صرف دعاؤں کا" لکھنا اور تحفہ قبول کرنا


سوال :

محترم مفتی صاحب! اکثر شادیوں کے دعوت نامے پر لکھا ہوتا ہے، تحفہ صرف دعاؤں کا، جسے دیکھ کر مرد حضرات تو مطمئن ہو جاتے ہیں کہ چلو، کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ مگر جب عورتوں میں بات چلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے شامیانے میں باقاعدہ کرسی ٹیبل لگا کر وصولی جاری تھی، کوئی منہ دکھائی کے نام پر زیور دے رہا ہے تو کوئی ایک جوڑا کپڑا دے رہا ہے۔ کیا یہ بات مناسب ہے کہ آپ نے دعوت نامے پر دعاؤں کی درخواست کی اور منہ دکھائی کے نام سے تحائف بھی لے رہے ہیں، کپڑے بھی لے رہے ہیں (جہیز کے علاوہ)۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شادی کارڈ پر "تحفہ صرف دعاؤں کا" کا لکھنا شرعاً جائز اور درست ہے۔ ہمارے یہاں اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ دعوت دینے والا تحفہ کے نام پر کوئی بھی چیز قبول نہیں کرے گا، اس لیے کہ تحفہ کے نام پر اب یہ ایک تکلیف دہ رسم بن چکی ہے، اور بہت سے لوگ خوش دلی کے بجائے مجبوراً اور شرما حضوری میں تحائف لے کر آتے ہیں۔ اور بہت سی جگہوں پر ماشاءاللہ اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے کہ کسی سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن بعض شادیوں میں خواتین کی طرف باقاعدہ تحفہ وصول کرنے کا انتظام ہوتا ہے۔ یہ عمل شرعاً اور اخلاقاً غیرت کے خلاف ہے۔ لہٰذا ایسے ہلکے پن سے بچنا چاہیے۔ نیز مدعو حضرات کو بھی چاہیے کہ جس جگہ کے شادی کارڈ پر "تحفہ صرف دعاؤں کا" کا لکھا ہوتا ہے وہاں تحائف لے جانے کی زحمت نہ کیا کریں۔


عن عائشۃ ؓ قالت : قال رسول اللہ ﷺ : تہادوا تحابوا۔ (المعجم الأوسط للطبرانی، رقم : ۷۲۴۰)

و ھي التبرع بتملیک مال في حیاتہ، و ھي مستحبۃ ۔ ( الکافي : ۳/۵۹۳ ، باب الھبۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی 
26 جمادی الآخر 1446 

ہفتہ، 28 دسمبر، 2024

ظہر سے پہلے چار کے بجائے دو رکعت پڑھنا


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! ظہر سے پہلے کی جو چار رکعت سنت ہے، وقت کم ہونے کی وجہ سے یا ایسے ہی ہم اسے دو رکعت بھی پڑھ سکتے ہیں؟ مدلل جواب کی درخواست ہے۔ امید ہے کہ رہنمائی فرمائیں گے۔
(المستفتی : محمد عمیر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ظہر سے پہلے چار رکعت نماز سنت مؤکدہ ہے۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی ہمیشہ پابندی فرمائی ہے، لہٰذا ان کی پابندی ضروری ہے، بغیر کسی عذر کے ان سنتوں کو چھوڑنا  گناہ کی بات ہے۔ متعدد احادیث میں ان کی تاکید اور فضائل وارد ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

صحیح بخاری میں ہے :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں فجر سے پہلے کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ 

سنن ترمذی میں ہے :
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا : جو بارہ رکعات سنت پر مداومت کرے گا، اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔ 

سنن نسائی میں ہے :
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے جو شخص نماز ظہر سے قبل چار رکعت پڑھے اور چار رکعت نماز ظہر کے بعد پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ پر حرام فرما دے گا۔ 

سنن ابوداؤد میں ہے : 
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں پڑھی جائیں جن میں درمیان میں سلام نہ ہو تو اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے : 
ظہر سے پہلے ایک سلام سے چار رکعت پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، اگر کوئی شخص ان کو دو دو کرکے پڑھتا ہے تو سنت ادا نہ ہوگی، دو رکعت پڑھنے کی صورت میں وہ نفل شمار ہوں گی۔ (رقم الفتوی : 170447)

فتاوی محمودیہ میں ہے :
سوال:- فریضۂ ظہر سے پہلے چارسنتیں ہیں۔ کیا دوبھی پڑھی جاسکتی ہیں؟
الجواب حامداً ومصلیاً!
فر یضۂ ظہر سے پہلے دونہیں بلکہ چارسنت مؤکدہ ہیں، لماروی عن عائشۃؓ انہا قالت کان النبی ﷺ یصلی قبل الظہر اربعاً وبعدہ رکعتین وبعد المغرب ثنتین و بعد العشاء رکعتین وقبل الفجر رکعتین۔ رواہ مسلم وابوداؤدتبیین الحقائق۱؂ ص۱۷۱ج۱۔ فقط واللہ تعالیٰ ا علم
حررہٗ العبد محمود غفرلہٗ دارالعلوم دیوبند۔ (١١/١٩٩)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ اگر  کوئی وقت کم ہونے کی وجہ سے یا وقت ہونے کے باوجود ظہر سے پہلے چار رکعت سنت کے بجائے صرف دو رکعت ہی پڑھ لے تو یہ چار سنتوں کے قائم مقام نہیں ہوں گی اور نہ ہی سنت ادا ہوگی، بلکہ یہ دو رکعت نفل شمار ہوں گے۔ ظہر کی چار رکعت سنت مؤکدہ الگ سے پڑھنا ضروری ہوگا۔


عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٨٢)

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ؛ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٤١٤)

عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ : مَنْ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعًا بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى النَّارِ۔ (سنن النسائی، رقم : ١٨١٤)

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّهْرِ لَيْسَ فِيهِنَّ تَسْلِيمٌ تُفْتَحُ لَهُنَّ أَبْوَابُ السَّمَاءِ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٢٧٠)

(وَسُنَّ) مُؤَكَّدًا (أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّهْرِ وَ) أَرْبَعٌ قَبْلَ (الْجُمُعَةِ وَ) أَرْبَعٌ (بَعْدَهَا بِتَسْلِيمَةٍ) فَلَوْ بِتَسْلِيمَتَيْنِ لَمْ تَنُبْ عَنْ السُّنَّةِ.

(قَوْلُهَُ: وَسُنَّ مُؤَكَّدًا) أَيْ اسْتِنَانًا مُؤَكَّدًا؛ بِمَعْنَى أَنَّهُ طُلِبَ طَلَبًا مُؤَكَّدًا زِيَادَةً عَلَى بَقِيَّةِ النَّوَافِلِ، وَلِهَذَا كَانَتْ السُّنَّةُ الْمُؤَكَّدَةُ قَرِيبَةً مِنْ الْوَاجِبِ فِي لُحُوقِ الْإِثْمِ كَمَا فِي الْبَحْرِ، وَيَسْتَوْجِبُ تَارِكُهَا التَّضْلِيلَ وَاللَّوْمَ كَمَا فِي التَّحْرِيرِ: أَيْ عَلَى سَبِيلِ الْإِصْرَارِ بِلَا عُذْرٍ كَمَا فِي شَرْحِهِ وَقَدَّمْنَا بَقِيَّةَ الْكَلَامِ عَلَى ذَلِكَ فِي سُنَنِ الْوُضُوءِ.

(قَوْلُهُ: بِتَسْلِيمَةٍ) لِمَا عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ ثِنْتَيْنِ، وَبَعْدَ الْعِشَاءِ رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَ الْفَجْرِ رَكْعَتَيْنِ» رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُد وَابْنُ حَنْبَلٍ. وَعَنْ أَبِي أَيُّوبَ «كَانَ يُصَلِّي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  بَعْدَ الزَّوَالِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَقُلْت: مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ الَّتِي تُدَاوِمُ عَلَيْهَا؟ فَقَالَ: هَذِهِ سَاعَةٌ تُفْتَحُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ فِيهَا، فَأُحِبُّ أَنْ يَصْعَدَ لِي فِيهَا عَمَلٌ صَالِحٌ، فَقُلْت: أَفِي كُلِّهِنَّ قِرَاءَةٌ؟ قَالَ نَعَمْ، فَقُلْت: بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ أَمْ بِتَسْلِيمَتَيْنِ؟ فَقَالَ بِتَسْلِيمَةٍ وَاحِدَةٍ» رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَأَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ مِنْ غَيْرِ فَصْلٍ بَيْنَ الْجُمُعَةِ وَالظُّهْرِ، فَيَكُونُ سُنَّةُ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهَا أَرْبَعًا۔ (شامی : ٢/١٢)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
25 جمادی الآخر 1446



جمعہ، 27 دسمبر، 2024

غیرمسلم کی موت پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کسی غیرمسلم کے انتقال پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنا کیسا ہے؟ مکمل اور مدلل رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : نعیم الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : کسی مصیبت اور رنج وغم کے وقت "انا للہ و انا الیہ راجعون" پڑھنے کا حکم قرآن مجید میں آیا ہے، اور کسی کافر و مشرک کے مرنے پر یہ کلمات پڑھنے میں تامل اور تردد ہوتا ہے، اس لیے کہ اس کے مرنے پر زمین اس کے کفر وشرک اور باطل عقائد سے پاک ہوگئی۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ غیرمسلم کی موت پر "انا للہ و انا الیہ راجعون" نہ پڑھے، بلکہ خاموش رہے اور اپنی موت اور آخرت کو یاد کرے۔ 


قال اللہ تعالیٰ : الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ (سورۃ البقرہ، آیت : ١٥٦)

وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ على ما جرى عليهم من النكال والإهلاك فإن إهلاك الكفار والعصاة من حيث إنه تخليص لأهل الأرض من شؤم عقائدهم الفاسدة وأعمالهم الخبيثة نعمة جليلة يحق أن يحمد عليها فهذا منه تعالى تعليم للعباد أن يحمدوه على مثل ذلك، واختار الطبرسي أنه حمد منه عز اسمه لنفسه على ذلك الفعل۔ (تفسیر روح المعانی : ٤/١٤٤)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
24 جمادی الآخر 1446 

جمعرات، 26 دسمبر، 2024

غرارے اور میکسی پہننے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب ! عورتوں کے لئے لمبے غرارے اور میکسی پہننےکا کیا حکم ہے؟ آج کل اس کا بہت رواج ہوگیا ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خواتین کے لباس سے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ ایسا ڈھیلا ڈھالا لباس ہو جس سے جسم کی بناوٹ ظاہر نہ ہو، اور نہ ہی ستر کا کوئی حصہ کھلا ہو، نیز ایسا لباس بھی نہ ہو جو کسی غیر قوم کی علامت اور شعار ہو، البتہ وہ مباح امور جو عرفاً رائج ہوں ان پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس اعتبار سے چونکہ غرارہ یا میکسی پہننا عورتوں کے لیے رائج ہے اس میں غیروں کی مشابہت نہیں رہی، نیز غرارہ میں دو پائینچے ہوتے ہیں، اور کپڑا بہت زیادہ ہوتا ہے، اُس میں ستر کھلنے کا بظاہر احتمال نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان دونوں کے پہننے کی گنجائش ہے۔


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا ؛ قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ، مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢١٢٨)

وَقِيلَ مَعْنَاهُ تَسْتُرُ بَعْضَ بَدَنِهَا وَتَكْشِفُ بَعْضَهُ إِظْهَارًا بِحَالِهَا وَنَحْوِهِ وَقِيلَ مَعْنَاهُ تَلْبَسُ ثَوْبًا رَقِيقًا يَصِفُ لَوْنَ بَدَنِهَا۔ (شرح النووي علی مسلم : ١٤/١١٠)

والرابع ستر عورتہ للحرۃ جمیع بدنہا خلا الوجہ والکفین والقدمین علی المعتمد۔ (درمختار : ٢/٦٩)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
23 جمادی الآخر 1446



بدھ، 25 دسمبر، 2024

مسواک کب تک استعمال کرسکتے ہیں؟


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! مسواک استعمال کرنے کے کچھ آداب یا سنت ہیں؟ جیسا کہ جب مسواک کو استعمال کرنا شروع کریں تو اس دن اتنا استعمال کریں۔ اگلے دن اتنا حصہ کاٹ کر پھر اگلا شروع کریں حتی کے سات دن میں مسواک بدلی کر لو۔ ایسا کچھ ہے؟ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : رضوان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسواک ایک اہم سنت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس کی بڑی پابندی فرماتے تھے۔ مسواک سے منہ اور دانت تو صاف ہوتے ہی ہیں، اللہ تعالی کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے : مسواک منہ کی صفائی اور رضائے الہی کا سبب ہے۔

 البتہ ایسا کچھ حدیث شریف یا فقہ میں نہیں ملتا کہ مسواک کس دن سے استعمال کرنا شروع کریں؟ اور نہ ہی مسواک روزآنہ کاٹنے کا حکم ہے۔ نیز ساتویں دن تبدیل کرنے کا بھی کوئی حکم احادیث اور فقہی عبارتوں میں نہیں ملتا۔

مسواک میں مستحب یہ ہے کہ اس کی لمبائی ایک بالشت، اور چوڑائی چھوٹی انگلی کی موٹائی کے برابر ہو، پھر جس قدر چھوٹی ہوکر استعمال کے قابل ہو، اسے استعمال کرسکتے ہیں۔ مسواک کے بارے میں احادیث یا فقہ میں اس قسم کی کوئی پابندی ثابت نہیں کہ اتنے دنوں تک ایک مسواک کو استعمال کرنا چاہیے۔


عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ۔ (مسند احمد، رقم : ٧)

وَاسْتُحِبَّ أَنْ يَكُونَ لَيِّنًا مِنْ غَيْرِ عُقَدٍ فِي غِلَظِ الْأُصْبُعِ، وَطُولَ شِبْرٍ مِنْ الْأَشْجَارِ الْمُرَّةِ الْمَعْرُوفَةِ۔ (البحرالرائق : ١/٢١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 جمادی الآخر 1446

منگل، 24 دسمبر، 2024

نشہ کی حالت میں طلاق کا حکم


سوال :

مفتی صاحب حالات نشہ میں شوہر اگر بیوی کو طلاق دے تو طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مسیب خان، جنتور)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شراب پینا سخت گناہ ہے، حدیث شریف میں اسے گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے، اور شراب بنانے والے، بنوانے والے، خریدنے والے، بیچنے والے، پینے والے، پلانے والے، اسے منتقل کرنے والے، حوالے کرنے والے ، الغرض شراب سے متعلق دس طرح کے لوگوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت بھیجی ہے، اس لیے اس ام الخبائث سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
احناف کے نزدیک حرام چیزکے مثلاً شراب کے نشے میں زجرًا وتوبیخاً طلاق ہے تاکہ آئندہ وہ شراب کی عادت ترک کردے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو جائز وحلال چیز کے کھانے پینے سے نشہ آگیا اور اس حالت میں طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، اور چونکہ نشہ کی حالت میں عقل باقی رہتی اور وہ شریعت کے احکام کا مکلف ہوتا ہے اس لیے نشہ کی حالت میں اس کا نکاح کو قبول کرنا صحیح ہوگا، یعنی نشے کی حالت میں نکاح بھی صحیح ہوجاتا ہے۔ چنانچہ فتاوی قاضی خاں میں لکھا ہے، في باب الخلع، خلع السکران جائز وکذلک سائر تصرفاتہ إلا الردة والإقرار بالحدود والإشہاد علی شہادة نفسہ (خانیة مع الہندیة: ۱/۵۳۶) اور الاشباہ میں ہے : وقدمنا في الفوائد أنہ من محرم کالصاحي إلا في ثلث الردة والإقرار بالحدود الخالصة والإشہاد علی شہادة نفسہ (الأشباہ: ج۳/۳۷/رقم الفتوی : 46090)

معلوم ہوا کہ مفتی بہ قول کے مطابق سزا کے طور پر طلاق سکران یعنی نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔


حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ : نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، يَقُولُ: «إِنَّ رَجُلًا مِنْ آلِ الْبَخْتَرِيِّ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهُوَ سَكْرَانُ فَضَرَبَهُ عُمَرُ الْحَدَّ وَأَجَازَ عَلَيْهِ طَلَاقَهُ»۔ (سنن سعید بن منصور، رقم : ۱۱۰۶)

وَطَلَاقُ السَّكْرَانِ وَاقِعٌ إذَا سَكِرَ مِنْ الْخَمْرِ أَوْ النَّبِيذِ. وَهُوَ مَذْهَبُ أَصْحَابِنَا رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٥٣)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
21 جمادی الآخر 1446 

پیر، 23 دسمبر، 2024

بیوی کے طلاق کے مطالبہ پر OK کہا تو طلاق کا حکم


سوال :

حضرت مفتی صاحب ! میاں وبیوی میں چند دنوں سے نااتفاقی چل رہی ہے بیوی نے واٹساپ پر شوہر سے کہا میں اب تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی مجھے طلاق چاہیے شوہر نے واٹس اپ پر او کے لکھ دیا۔ کیا شوہر کے واٹس اپ پر او کے لکھ دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی؟ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : عبدالخالق، ناگپور)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں بیوی نے واٹس اپ پر شوہر سے کہا "میں اب تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی مجھے طلاق چاہیے" تو شوہر نے واٹس اپ پر "او کے" لکھ دیا۔ تو اس لفظ سے اگر  شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی بلکہ یہ نیت تھی کہ ٹھیک ہے مستقبل میں یعنی بعد طلاق دے دوں گا۔ تو اس صورت کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ لیکن اگر اس لفظ سے شوہر کی نیت طلاق دینے کی تھی کہ "او کے" یعنی ٹھیک ہے میں نے طلاق دے دی، تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی۔

ایک طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں میں کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں، یا تنہائی میں میاں بیوی والا عمل کرلے تو رجوع ہوجائے گا اور دونوں بدستور میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔

نوٹ : صورتِ مسئولہ میں شوہر سے اس کی نیت معلوم کرکے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔


امْرَأَةٌ قَالَتْ لِزَوْجِهَا تُرِيدُ أَنْ أُطَلِّقَ نَفْسِي فَقَالَ الزَّوْجُ نَعَمْ فَقَالَتْ الْمَرْأَةُ طَلَّقْت إنْ كَانَ الزَّوْجُ نَوَى تَفْوِيضَ الطَّلَاقِ إلَيْهَا تَطْلُقُ وَاحِدَةً وَإِنْ عَنَى بِذَلِكَ طَلِّقِي نَفْسَك إنْ اسْتَطَعْت لَا تَطْلُقُ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٤٠٢)

وإذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ رجعیۃ أو تطلیقتین فلہ أن یراجعہا في عدتہا رضیت بذلک أولم ترض۔ (ہدایہ : ٢/۳۹۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الآخر 1446

گھروں کے آس پاس بلیوں کا رونا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! میں نے سنا ہے کہ اگر گھر میں بلی روتی ہے تو یہ کسی نقصان یا بری چیز کے ہونے کی نشانی یا اندیشہ ہوتا ہے۔ کیا اسلام میں اس بات کی کوئی حقیقت ہے یا یہ صرف ایک توہم پرستی ہے؟ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیراً
(المستفتی : محمد اسماعیل، مالیگاؤں )
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : گھروں میں یا اس کے آس پاس بلیوں کے رونے کے بعد کبھی کوئی مصیبت پیش آجائے یا کسی کا انتقال ہوجائے تو یہ صرف اتفاق کی بات ہے۔ اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ بلیوں کا رونا نحوست، مصیبت یا کسی کی موت کے آنے کی علامت اور نشانی ہے۔ 

بخاری شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : چھوت لگنا، بد شگونی لینا، الو کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فر یا : کسی سے کو ئی مرض خود بخود نہیں چمٹتا، نہ بد فالی کی کو ئی حقیقت ہے نہ صفر کی نحوست کی اور نہ کھوپڑی سے الو نکلنے کی۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
یہ تمام چیزیں واہیات ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے، مسلمانوں کو ایسا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے اور اسلام ایسی تمام چیزوں کی مخالفت کرتا ہے۔ (رقم الفتوی : 3129)

بلیوں کا رونا اپنے طبعی اور فطری تقاضے کے تحت ہوتا ہے، لہٰذا اس کے رونے کو منحوس سمجھنا توہم پرستی، بدعقیدگی اور گناہ کی بات ہے، جس سے بچنا اللہ کی ذات پر ایمان و توکل اور اعتقاد کا تقاضا ہے۔


قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)

سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٧٠٧)

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ»۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٢٢٠)

وکان القفّال یقول : فإن الأمور کلہا بید اللّٰہ، یقضي فیہا ما یشاء، ویحکم ما یرید، لا مؤخر لما قدّم ولا مقدّم لما أخّر۔ (۱۹/۲۰۳ ، خطبۃ ، خامسًا، الخُطبۃ قبل الخِطبۃ، الموسوعۃ الفھیۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الآخر 1446

اتوار، 22 دسمبر، 2024

ایک اسلامی اسکول میں ناچ گانے کا پروگرام


         چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا ماند مسلمانی؟

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
                  (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! ایک ویڈیو فی الحال سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ایک انگلش میڈیم وتھ اسلامک اسٹڈیز اسکول میں گیدرنگ جاری ہے جس میں اسٹیج پر چند بچیاں باقاعدہ میوزک اور گانے پر ناچ رہی ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ یہ اسکول ایک مذہبی تنظیم کے زیر اہتمام چلتا ہے اور اس کے روح رواں ایک مقرر ہیں جو اپنی دھواں دھار لیکن بے سر وپیر کی تقریروں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مشہور ہیں۔

شہر کے فکرمند مسلمان اپنے نونہالوں کو اسکولی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم اور تربیت کے لیے زیادہ سے زیادہ فیس والے اسلامی اسکول میں داخل کراتے ہیں، اور اس بات کا گمان رکھتے ہیں کہ ان کے بچوں کی دین و دنیا دونوں سنور رہی ہے۔ لیکن جب ایسی اسکولوں میں بھی ناچ گانے جیسا سنگین گناہ سکھایا جانے لگے اور قریب البلوغ بچیوں کو سینکڑوں لوگوں کے سامنے اسٹیج پر موسیقی اور گانے کے ساتھ رقص کروایا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا ماند مسلمانی؟ یعنی جب کعبہ ہی سے کفر اٹھنے لگے تو مسلمانی کہاں جائے؟ 

لہٰذا ہم ایسی اسکول اور ان کے ذمہ داران کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اور شہر کی دیندار اور سنجیدہ عوام سے عاجزانہ، مخلصانہ اور دردمندانہ درخواست کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیں جو دین کے نام پر بے دینی پھیلانے اور غیروں کا کلچر عام کرنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں سے سر عام معافی منگوائیں اور آئندہ اس طرح کی قبیح حرکت نہ ہو اس کی ضمانت لیں، ورنہ ایسے نام نہاد اسلامی اسکول سے اپنے بچوں کو نکلوالیں۔
  
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت اور سنت کی پابندی کرنے، ہر ناجائز کام سے بچنے اور بقدر استطاعت اس کو روکنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

جمعہ، 20 دسمبر، 2024

کتے کے نجس ہونے کا مطلب؟


سوال :

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و شرعی متین اس عمومی مسئلہ یا سوچ کے بارے میں کہ شریعت میں کتے کو انتہائی نجس کیوں قرار دیا گیا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبدالواجد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کتا نجس العین نہیں ہے۔ یعنی کتے کا بدن ناپاک نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے بدن سے کسی کا کپڑا یا بدن چھو جائے تو کپڑا یا بدن ناپاک نہ ہوگا، البتہ اس کا لعاب ناپاک ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
خشک کتا جسم یا کپڑوں سے لگ جائے تو اس کی وجہ سے جسم یا کپڑا ناپاک نہیں ہوتا جب ناپاک ہونے کا حکم نہیں تو نہ ایک مرتبہ دھونا واجب ہے نہ سات وفعہ؛ البتہ اگر اس پر نجاست لگی ہو یا اس کا لعاب لگ جائے تو جسم یا کپڑا تین دفعہ دھولیں گے تو پاک ہو جائے گا اگر کپڑے پر لعاب کتے کا لگ جائے تو لعاب والے حصہ کو تین دفعہ دھوکر دوسرے کپڑوں میں ملا کر دھونا چاہئے۔ (رقم الفتوی : 172588)

علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
کتا باعتبار اوصافِ مذمومہ کے شیطان ہوتا ہے، چناں چہ اس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان فرمایا ہے۔ وہ اوصافِ ذمیمہ یہ ہیں کہ جتنا کتا خبیث ترین وذلیل ترین وخسیس ترین حیوانات سے ہے، اس کی محبت پیٹ سے آگے نہیں گزرتی، اس کی شدتِ حرص میں ایک بات یہ ہے کہ جب وہ چلتا ہے تو شدتِ حرص کی وجہ سے ناک زمین پر رکھ کر زمین سونگھتا جاتا ہے اور اپنے جسم کے سارے اعضاء چھوڑکر ہمیشہ اپنی دبر (پاخانہ کی جگہ) سونگھتا ہے، اور جب اس کی طرف پتھرپھینکو تو وہ فرطِ حرص وغصہ کی وجہ سے اس کو کاٹتا ہے، الغرض یہ جانور بڑا حریص وذلیل ودنی ہمت ہوتا ہے، گندے مردار کو بہ نسبت تازے گوشت کے زیادہ پسند کرتا اور نجاست بہ نسبت حلوا کے بڑی رغبت سے کھاتا ہے، اور جب کسی ایسے مردار پر پہنچے جو صدہا کتوں کے لیے کافی ہو تو شدتِ حرص وبخل کی وجہ سے اس مردار سے دوسرے کتے کو ذرہ برابر کھانے نہیں دیتا۔ پس جب کتے کے ایسے اوصافِ مذمومہ ہیں تو جو شخص اس کو کھاتا ہے وہ بھی ان ہی اوصاف سے متصل ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ جانور حرام ٹھہرایا گیا، اور چوں کہ کتا پالنے میں اس کے ساتھ زیادہ تلبس ہوتا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے؛ اس لیے بلاخاص ضرورت کی صورتوں میں اس کا پالنا بھی ممنوع قرار دیا گیا کہ ان کی صفاتِ خبیثہ اس شخص میں اثر کریں گی اور چوں کہ ان صفاتِ خبیثہ سے ملائکہ کو نفرت ہے تو اس شخص سے ملائکہ بُعد (دوری) اختیار کرتے ہیں، چناں چہ وہ ایسے گھر میں بھی نہیں آتے جہاں کتا ہوتا ہے، اور سیاست کے ملائکہ (انتظامِ عالم اسی طرح حفاظت اور عذاب وسزا والے فرشتے) اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (احکامِ اسلام عقل کی نظر میں : ۲۸۵، ۲۸۶)

معلوم ہوا کہ کتا انتہائی نجس بلکہ نجس بھی نہیں ہے۔ البتہ اس کا لعاب نجس اور ناپاک ہے۔ اور اس کے اندر موجود درج بالا خرابیوں اور بری عادتوں کی بناء پر اس کو گھر میں رکھنے اور اس کے اختلاط سے منع کیا گیا ہے۔
 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو ، أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ الْأَشَجِّ حَدَّثَهُ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، وَمَعَ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عُبَيْدُ اللَّهِ الْخَوْلَانِيُّ الَّذِي كَانَ فِي حَجْرِ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَهُمَا زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ ، حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٣٢٢٦)

عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ حَفْصٌ : قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ ". وَقَالَا  عَنْ سُلَيْمَانَ : قَالَ أَبُو ذَرٍّ : " يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ قِيدُ آخِرَةِ الرَّحْلِ : الْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ وَالْمَرْأَةُ ". فَقُلْتُ : مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَحْمَرِ مِنَ الْأَصْفَرِ مِنَ الْأَبْيَضِ ؟ فَقَالَ : يَا ابْنَ أَخِي، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ : " الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ "۔(سنن ابی داؤد، رقم : ٧٠٢)

وَسُؤْرُ الْكَلْبِ وَالْخِنْزِيرِ وَسِبَاعِ الْبَهَائِمِ نَجَسٌ. كَذَا فِي الْكَنْزِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 جمادی الآخر 1446

جمعرات، 19 دسمبر، 2024

تبلیغی جماعت کی مجالس کی فضیلت؟


سوال :

محترم مفتی صاحب ! تبلیغی جماعت کے احباب اپنی مجلس میں بیان کرتے ہیں کہ ایسی مجلس کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان میں موجود لوگوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ براہ کرم اس کی تحقیق فرمادیں۔
(المستفتی : سعود احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل دو احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شہادت دیتے ہوئے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا : جب بھی کچھ لوگ بیٹھ کر کہیں اللہ عزوجل کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور رحمت ِالہی ان کو ڈھانپ لیتی ہے، اور ان پر سکینت اور اطمینان نازل ہوتا ہے اور اللہ ان کا اپنے ہاں کے لوگوں (فرشتوں) میں ذکر کرتا ہے۔ (١)

بخاری شریف میں ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرنے والوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ پھر جب وہ ایسے لوگوں کو پالیتے ہیں جو ذکر اللہ میں مصروف ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مقصد حاصل ہوگیا۔پھر وہ  آسمان دنیا تک اپنے پروں سے انہیں(ذاكرين) كو ڈھانپ لیتے ہیں۔پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے، حالاں کہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں : وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی بیان کررہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں : کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ (حضور  صلي اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا : وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں : نہیں، واللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا اگر وہ مجھے دیکھ لیتے؟ وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کرلیتے تو تیری عبادت اور بھی زیادہ کرتے، تیری بڑائی اور زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح اور زیادہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ دریافت کرتے ہیں، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ واللہ! انہوں نے تیری جنت کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ دریافت کرتے ہیں ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انھوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ حریص، خواہشمند اور سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ سوال کرتے ہیں کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں، واللہ! انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وہ (فرشتے) جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کردی۔ (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ : اس پر ان (فرشتوں) میں سے ایک فرشتہ نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ : یہ(ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔ (٢)

ذکر کردہ احادیث میں مجالس سے مراد ہر وہ مجلس ہے جس کا انعقاد دین کی آبیاری اور اس کے مفاد کے لیے ہو، خواہ وہ درس وتدریس کے حلقے ہوں یا ذکر کی مجالس، یا پھر دعوت وتبلیغ کے حلقے۔ یہ تمام مجالس اور حلقے مجالس ِذکر میں شامل ہوں گی جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں لکھا ہے۔ (٣)

خلاصہ یہ کہ حدیث شریف میں مذکور فضائل تمام دینی مجالس کے لیے ہیں جن میں تبلیغی جماعت کے حلقے بھی شامل ہیں، لیکن ان فضائل کو صرف تبلیغی جماعت کے حلقوں اور اس کی مجالس کے لیے خاص سمجھنا درست نہیں۔


١) حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقُ يُحَدِّثُ عَنِ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ ، أَنَّهُ قَالَ : أَشْهَدُ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ : " لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٧٠٠)

٢) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ، يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ، تَنَادَوْا : هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ ". قَالَ : " فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا ". قَالَ : " فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ - وَهُوَ أَعْلَمُ مِنْهُمْ - مَا يَقُولُ عِبَادِي ؟ قَالُوا : يَقُولُونَ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ ". قَالَ : " فَيَقُولُ : هَلْ رَأَوْنِي ؟ ". قَالَ : " فَيَقُولُونَ : لَا وَاللَّهِ، مَا رَأَوْكَ ". قَالَ : " فَيَقُولُ : وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا ". قَالَ : " يَقُولُ : فَمَا يَسْأَلُونِي ؟ ". قَالَ : " يَسْأَلُونَكَ الْجَنَّةَ ". قَالَ : " يَقُولُ : وَهَلْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَا وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا ". قَالَ : " يَقُولُ : فَكَيْفَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً ". قَالَ : " فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : مِنَ النَّارِ ". قَالَ : " يَقُولُ : وَهَلْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَا وَاللَّهِ مَا رَأَوْهَا ". قَالَ : " يَقُولُ : فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا ؟ ". قَالَ : " يَقُولُونَ : لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً ". قَالَ : " فَيَقُولُ : فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ ". قَالَ : " يَقُولُ مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ : فِيهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُمْ، إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ. قَالَ : هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٤٠٨)

٣) الْمُرَادُ بِمَجَالِسِ الذِّكْرِ وَأَنَّهَا الَّتِي تَشْتَمِلُ عَلَى ذِكْرِ اللَّهِ بِأَنْوَاعِ الذِّكْرِ الْوَارِدَةِ مِنْ تَسْبِيحٍ وَتَكْبِيرٍ وَغَيْرِهِمَا وَعَلَى تِلَاوَةِ كِتَابِ اللَّهِ ﷾ وَعَلَى الدُّعَاءِ بِخَيْرَيِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَفِي دُخُولِ قِرَاءَةِ الْحَدِيثِ النَّبَوِيِّ وَمُدَارَسَةِ الْعِلْمِ الشَّرْعِيِّ وَمُذَاكَرَتِهِ وَالِاجْتِمَاعِ عَلَى صَلَاةِ النَّافِلَةِ فِي هَذِهِ الْمَجَالِسِ نَظَرٌ وَالْأَشْبَهُ اخْتِصَاصُ ذَلِكَ بِمَجَالِسِ التَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَنَحْوِهِمَا وَالتِّلَاوَةِ حَسْبُ وَإِنْ كَانَتْ قِرَاءَةُ الْحَدِيثِ وَمُدَارَسَةُ الْعِلْمِ وَالْمُنَاظَرَةُ فِيهِ مِنْ جُمْلَةِ مَا يَدْخُلُ تَحْتَ مُسَمَّى ذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى۔ (فتح الباری : ١١/١١٢)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 جمادی الآخر 1446

منگل، 17 دسمبر، 2024

عشاء کی رکعتوں کی تعداد اور ان کا ثبوت ؟


سوال :

مفتی صاحب ! نماز عشاء میں فرض، واجب اور سنن ونوافل کی رکعتوں کی تعداد کتنی ہے؟ کیا اس میں کوئی رکعت بے بنیاد ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : عشاء کی چار رکعت فرض سے پہلے چار رکعت سنت غیرمؤکدہ کا ثبوت درج ذیل حدیث شریف سے ملتا ہے۔ 

بخاری شریف میں ہے :
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریمﷺنے تین مرتبہ یہ اِرشاد فرمایا : ہر دو اذانوں یعنی اذان و اِقامت کے درمیان نماز ہے، جو پڑھنا چاہے۔ (١)

قیام اللیل للمروزی میں ہے : 
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : پہلے بزرگ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ عشاء کی نماز سے قبل چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔ (٢)

اعلاء السنن میں ہے :
اور رہی عشاء سے پہلے کی چار رکعت تو اس کے بارے میں کوئی خصوصی حدیث تو ذکر نہیں کی گئی لیکن اس کی دلیل کے طور پر حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے اور تین دفعہ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو پڑھنا چاہے اس کے لئے ہے یعنی یہ نماز اختیاری ہے اور چونکہ اس وقت میں نفل کی نماز سے کوئی مانع بھی نہیں ہے لہٰذا یہ نماز مستحب ہوئی اور اسکا چار رکعت والی ہونا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک رات کے نوافل میں چار رکعت  کا ہونا افضل ہے اس لئے ان کے مذہب کے مطابق یہاں بھی مطلق نماز سے چار رکعت والی نماز مراد ہے۔ (٣)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ عشاء کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت سنت غیرمؤکدہ اور مستحب ہے، جس کا پڑھنا ثواب ہے، اور اگر چھوٹ جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ 

عشاء کی چار رکعت فرض کے بعد دو رکعت سنتِ مؤکدہ ہیں، جن کا بلاعذر چھوڑنا درست نہیں ہے۔ اس کی تاکید "سنن ترمذی" میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا : جو بارہ رکعات سنت پر مداومت کرے گا، اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔ (٤)

اس کے بعد چار رکعت نفل دو سلام سے پڑھنے کا ثبوت درج ذیل احادیث سے ملتا ہے۔

بخاری شریف میں ہے :
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک شب اپنی خالہ میمونہ بنت حارث ؓ زوجہ نبی ﷺ کے گھر میں سویا اور نبی ﷺ (اس دن) ان کی شب میں انہی کے ہاں تھے نبی ﷺ نے عشاء کی نماز (مسجد میں) پڑھی پھر اپنے گھر میں آئے اور چار رکعتیں پڑھ کر سو گئے۔ (٥)

سنن ابوداؤد میں ہے :
حضرت زرارہ بن اوفی ؓ سے روایت ہے کہ کسی نے حضرت عائشہ ؓ سے حضور ﷺ کی رات کی نماز کا حال دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھتے تھے پھر گھر آکر چار رکعتیں پڑھتے تھے اس کے بعد اپنے بستر پر جا کر سو جاتے تھے۔ (٦)

نیز یہ بات بے بنیاد ہےکہ وتر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔ کیوں کہ متعدد روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بعد نماز پڑھنا ثابت ہے، جیسا کہ سنن ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (٧)

عشاء کی نماز میں سات رکعات لازمی ہیں، چار فرض اور تین وتر، اگر یہ چھوٹ جائیں تو ان کی قضاء ضروری ہے۔ فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ہے، جس کا پڑھنا بھی ضروری ہے، لیکن اگر چھوٹ جائے تو اس کی قضا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بقیہ سنن غیرمؤکدہ اور نوافل ہیں،جس میں چار رکعت سنت غیرمؤکدہ فرض سے پہلے، دو نفل وتر سے پہلے اور دو نفل وتر کے بعد ہے، ان کا پڑھنا ثواب ہے، اگر چھوٹ جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس طرح یہ مجموعی طور پر سترہ رکعتیں ہوئیں جو سب کے سب احادیث سے ثابت ہیں، کوئی بھی رکعت بے بنیاد، من گھڑت اور بدعت نہیں ہے۔


١) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ المُزَنِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ، ثَلاَثًا لِمَنْ شَاءَ۔ (صحیح البخاری: رقم ۶۲۴/وکذا فی صحیح المسلم: ۱/ ۲۷۸)

٢) عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ :«كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ»۔ (قیام اللیل لمحمد نصر المروزي : ١/٨٨)

٣) واما الاربع قبلها اى قبل صلاه العشاء  فلم يذكر في خصوصها حديث لکن یستدل له بعموم ما رواہ الجماعة من حدیث عبدالله بن مغفل رضی الله عنه فهذا مع عدم المانع من التنفل قبلها یفید الاستحباب لکن کونها اربعا یتمشی علی قول ابی حنیفة رحمه الله لانها الافضل عندہ فیحمل علیها حملا للمطلق علی الکامل ذاتا ووصفا۔ (اعلاء السنن : ٧/٢٠)

٤) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ؛ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٤١٤)

٥) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٧)

٦) حَدَّثَنَا زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سُئِلَتْ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقَالَتْ : كَانَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ فَيَرْكَعُ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٣٤٦)

٧) عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٤٧١)

(وَسُنَّ) مُؤَكَّدًا (أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّهْرِ وَ) ....  (وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الصُّبْحِ وَبَعْدَ الظُّهْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ) شُرِعَتْ الْبَعْدِيَّةُ لِجَبْرِ النُّقْصَانِ، وَالْقَبْلِيَّةُ لِقَطْعِ طَمَعِ الشَّيْطَانِ (وَيُسْتَحَبُّ أَرْبَعٌ قَبْلَ الْعَصْرِ، وَقَبْلَ الْعِشَاءِ وَبَعْدَهَا بِتَسْلِيمَةٍ) وَإِنْ شَاءَ رَكْعَتَيْنِ۔

(قَوْلُهُ وَإِنْ شَاءَ رَكْعَتَيْنِ) كَذَا عَبَّرَ فِي مُنْيَةِ الْمُصَلِّي. وَفِي الْإِمْدَادِ عَنْ الِاخْتِيَارِ: يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ اهـ. وَالظَّاهِرُ أَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ الْمَذْكُورَتَيْنِ غَيْرُ الْمُؤَكَّدَتَيْنِ۔ (شامی : ٢/١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 جمادی الآخر 1446

پیر، 16 دسمبر، 2024

ٹڈی کھانے کا شرعی حکم


سوال :

مفتی صاحب ! ٹڈی کیا ہے؟ کیا پتنگے کو ٹڈی کہتے ہیں؟ اور اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ کیا اس سلسلے میں کوئی حدیث ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا کھانا ثابت ہے یا نہیں؟ اگر یہ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد سلمان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے یہاں جس ہیلی کاپٹر نما کیڑے کو ٹڈی کہا جاتا ہے، وہ ٹڈی نہیں ہے، بلکہ جسے پتنگا کہا جاتا ہے وہ ٹڈی ہے۔ جس کو عربی میں "جراد" اور انگریزی میں "Locust" کہتے ہیں، اس کا کھانا شرعاً جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہمارے لیے دو میتہ (مچھلی اور ٹڈی) اور دو خون (کلیجی اورتلی) حلال کردیئے گئے۔ (١)

ابوداؤد شریف میں ہے :
حضرت سلمان ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے ٹڈی کے ( کھانے اور اس کی حقیقت کے) بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ٹڈیاں اللہ تعالیٰ کا (پرندوں میں) سب سے بڑا لشکر ہیں، نہ تو میں اس کو کھاتا ہوں ( کیونکہ طبعا مجھے کراہت محسوس ہوتی ہے) اور نہ (دوسروں پر) شرعاً اس کو حرام قرار دیتا ہوں (کیوں کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال کیا گیا ہے۔

معلوم ہوا کہ طبعاً کراہت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹڈی تناول نہیں فرمائی۔ لہٰذا اگر ہمیں اور آپ کو اس سے کراہت ہورہی ہوتو اس میں شرعاً کوئی قباحت کی بات نہیں ہے۔ 


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أُحِلَّتْ لَكُمْ مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ، فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ : فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ، وَأَمَّا الدَّمَانِ : فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ۔ (ابن ماجہ، رقم : ٣٣١٤)

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ :سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَرَادِ فَقَالَ : أَكْثَرُ جُنُودِ اللَّهِ، لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٣٨١٣)

(وَحَلَّ الْجَرَادُ) وَإِنْ مَاتَ حَتْفَ أَنْفِهِ، بِخِلَافِ السَّمَكِ (وَأَنْوَاعُ السَّمَكِ بِلَا ذَكَاةٍ) لِحَدِيثِ «أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ: السَّمَكُ وَالْجَرَادُ، وَدَمَانِ: الْكَبِدُ وَالطِّحَالُ» بِكَسْرِ الطَّاءِ۔ (شامی : ٦/٣٠٧)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 جمادی الآخر 1446

بدھ، 11 دسمبر، 2024

مجھے تمہارے ترکہ کی ضرورت نہیں کہنے والے کے حصے کا مسئلہ


سوال :

مفتی صاحب کسی شخص کا اپنے والد یا سرپرستوں کو یہ کہہ دینا کہ رکھ لو اپنی جائیداد اپنے پاس یا نہیں ہونا تمہاری وراثت میں سے حصہ یا یہ کہہ دینا کہ مجھے تمہاری وراثت کے حصے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ سب جملہ خواہ غصے میں کہا جائے یا سنجیدگی سے یا ہنسی مذاق میں تو کیا کہنے والا شخص شرعی اعتبار سے ہمیشہ کےلئے وراثت کے حصے سے دستبردار ہوجائے گا یا جب بھی حصہ ترکہ ہوگا تو اس شخص کوبھی حصہ میں شامل کیا جائے گا۔ برائےکرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مغیرہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی شخص کا اپنے والد یا سرپرستوں کو اس طرح کہنا کہ "رکھ لو اپنی جائیداد اپنے پاس یا نہیں ہونا تمہاری وراثت میں سے حصہ یا یہ کہہ دینا کہ مجھے تمہاری وراثت کے حصے کی ضرورت نہیں ہے" تو اس کی وجہ سے اسے مستقبل میں ملنے والا حصہ ختم نہیں ہوجائے گا، بلکہ بدستور اس کا حصہ باقی رہے گا اور حسبِ شرع اسے اس کا حصہ ملے گا۔ اس لیے کہ ہبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیز آپ کی ملکیت میں ہو اور آپ اسے سامنے والے کو پورے اختیار اور قبضہ کے ساتھ دے دیں، جبکہ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جملے کہنے والے کی ملکیت میں ابھی یہ جائداد آئی ہی نہیں ہے، لہٰذا جب اس کی ملکیت ہی میں نہیں ہے تو اس کا کسی اور کو دے دینا بھی درست نہیں ہے۔ البتہ اس طرح کی ڈینگ مارنا یا والدین اور سرپرستوں کے ساتھ بے ادبی کا معاملہ کرنا گناہ کی بات ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔



لَا يَثْبُتُ الْمِلْكُ لِلْمَوْهُوبِ لَهُ إلَّا بِالْقَبْضِ هُوَ الْمُخْتَارُ، هَكَذَا فِي الْفُصُولِ الْعِمَادِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٤/٣٧٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 جمادی الآخر 1446

منگل، 10 دسمبر، 2024

ایک بڑھیا کا حضور کے اخلاق سے متاثر ہوکر ایمان لانا


سوال : 

محترم مفتی صاحب ! ایک واقعہ سنایا جاتا ہے کہ مکہ میں ایک بڑھیا رہتی تھی اور وہ حضور کے ڈر سے مکہ چھوڑ کر جارہی تھی کہ راستے میں اسے ایک نوجوان ملتا ہے جو اس کی خدمت کرتا ہے جس سے بڑھیا بہت مثاثر ہوتی ہے، نام پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضور ہی ہیں۔ تو وہ مسلمان ہوجاتی ہے۔ اس واقعہ کا حوالہ ارسال فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبدالغفار، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : آپ نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ درج ذیل تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔

 مکہ مکرمہ میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی اس نے سنا کہ بنی ہاشم کے گھر میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے، اور وہ ایسا جادوگر ہے کہ لوگوں کو ان کے آباءو اجداد کے دین سے پھیر دیتا ہے، اس نے جب یہ چرچا بہت زیادہ سنا تو ایک دن سوچا کہ میں مکہ سےکہیں دور جا کر رہائش اختیار کرلوں، تا کہ کہیں میں بھی اپنے آباء کے دین سے نہ پھر جاؤں، اس نے اپنا سامان باندھا اور گھر سے نکل پڑی، سامان وزنی تھا اسے اٹھانے میں مشکل ہورہی تھی، آپﷺ اس راستے سے گذر رہے تھے، آپﷺ نے جب ایک بوڑھی کو سامان اٹھاتے دیکھا تو آگے بڑھے اور اس کا سامان اٹھا لیا اور اس سے پوچھا کہ کہاں جانا ہے؟ اس نے کہا : جنگل میں لے چلو، وہاں جا کر اس نے ایک جگہ اپنا سامان رکھوایا،آپﷺ نے اس پوچھا کہ وہ اس جنگل میں کیا کرنے آئی ہے؟ اس نے ساری با ت بتا دی،آپ ﷺ نے اس کہا کہ وہ نبی میں ہی ہوں، بوڑھی عورت آپ ﷺ کے اخلاق دیکھ کر حیران ہوئی اور سوچنے لگی کہ اتنے عمدہ اخلاق والا شخص جادو گر کیسے ہوسکتا ہے؟ اور وہ مسلمان ہوگئی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی واقعہ کسی حدیث کی کتاب میں موجود نہیں ہے، یہ موضوع اور من گھڑت واقعہ ہے۔ لہٰذا اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 جمادی الآخر 1446

ہفتہ، 7 دسمبر، 2024

پتنگ کی تجارت کا شرعی حکم


سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک مسئلے میں رہنمائی درکار ہے، کہ پتنگ کی خرید و فروخت اور اس کا کاروبار شریعت کی روشنی میں کیسا ہے؟ براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔
جزاکم اللہ خیراً۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پتنگ آلہ لہو ولعب میں سے ہے، اس کے اڑانے میں نہ دین کا فائدہ ہے نہ دنیا کا۔ بلکہ عموماً اس کے اڑانے میں متعدد ناجائز کاموں کا ارتکاب ہوتا ہے، لہٰذا اس کی تجارت مکروہ ہے جس سے بچنا چاہیے۔ تاہم اس کی کمائی پر حرام کا حکم نہیں ہے۔


(فَإِنْ كَانَ يُطَيِّرُهَا فَوْقَ السَّطْحِ مُطَّلِعًا عَلَى عَوْرَاتِ الْمُسْلِمِينَ وَيَكْسِرُ زُجَاجَاتِ النَّاسِ بِرَمْيِهِ تِلْكَ الْحَمَامَاتِ عُزِّرَ وَمُنِعَ أَشَدَّ الْمَنْعِ فَإِنْ لَمْ يَمْتَنِعْ بِذَلِكَ ذَبَحَهَا)۔ (شامی :٦/٤٠١) 

مَا قَامَتْ الْمَعْصِيَةُ بِعَيْنِهِ يُكْرَهُ بَيْعُهُ تَحْرِيمًا وَإِلَّا فَتَنْزِيهًا۔ (شامی : ٦/٣٩١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الآخر 1446

پیر، 2 دسمبر، 2024

فرض نماز میں بالترتيب مکمل قرآن مجید پڑھنا


سوال :

محترم مفتی صاحب ! عرض یہ ہے کہ ایک مسجد کے بورڈ پر لکھا گیا۔
اس مسجد میں روزانہ فجر کی نماز میں ترتیب سے قرآن پڑھا جارہا ہے۔گزشتہ سترہ مہینوں سے فجر میں پڑھے جانے والے قرآن کی کل  یکم ستمبر بروز پیر کی فجر میں تکمیل ہوگی۔ ظاہر ہے بورڈ پر لکھنے کا مقصد لوگوں کو "فجر کی نماز میں تکمیل قرآن" کی برکتوں سے مستفیذ ہونے کیلئے مدعو کرنا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ قرآن کی تکمیل ہوئی لیکن کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی۔
از راہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیجئے کہ کیا فجرکی نماز میں ایک طویل مدت میں پورا قرآن پڑھنا اور اس طرح قرآن کی تکمیل کے دن لوگوں کو مدعو کرنا مستحب اور مستحسن ہے یا بدعت؟ مزید یہ بھی بیان فرمایئے کہ یہ قابل تقلید ہے یا اسے روکنا ضروری ہے؟ اس بات  کا قوی اندیشہ ہے کہ مساجد میں مقابلہ آرائی شروع ہو جائے گی اور لوگوں کو وہاٹس ایپ پر دعوت نامے موصول ہونا شروع ہو جائیں گے کہ "فلاں مسجد میں یکم شوال سے فجر کی نماز میں قرآن  بالترتیب پڑھا جا رہا ہے۔گیارہ مہینوں میں یعنی 29 شعبان کی فجر میں قرآن کی تکمیل ہوگی۔ فلاں  صاحب رقت آمیز  دعا فرمائیں گے اور "فجر کی نماز میں تکمیل قرآن " کے فضائل بیان فرمائیں گے۔ عوام سے شرکت کی گزارش ہے۔"
(المستفتی : ڈاکٹر سعید احمد انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تمام باتیں اور اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں، ہم نے خود اس کا مشاہدہ بھی کرلیا ہے کہ فرض نمازوں بالخصوص فجر کی نماز میں بالترتيب قرآن مکمل کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ جن ائمہ کا قرآن پختہ نہیں ہے وہ بھی زور آزمائی کررہے ہیں اور نتیجتاً قرأت میں تغیر فاحش ہورہا ہے اور نماز دوہرانے کی نوبت آرہی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہورہا ہے کہ اسے بڑی فضیلت والا عمل سمجھا جارہا ہے، لہٰذا ہم یہاں عالم اسلام کے دو انتہائی مؤقر اور معتبر اداروں کے فتاوی نقل کررہے ہیں تاکہ یہ مسئلہ سب کے سامنے واضح ہوجائے۔

دارالعلوم کراچی کا فتوی ہے :
واضح رہے کہ عام حالات میں ہر نماز میں مسنون ترتیب کے مطابق تلاوت کرنا چاہیئے اور وہ فجر و ظہر کی نماز میں طوال مفصل (یعنی سورہ حجرات سے سورہ بروج تک) میں سے پڑھا جائے جہاں سے آسان ہو اور جو حصہ زیادہ یاد ہو، نماز عصر و عشاء میں اوساط مفصل (سورہ بروج تا سورہ بینہ) میں سے پڑھا جائے، مغرب کی نماز میں قصار مفصل (یعنی سورہ بینہ تا سورۃ الناس) میں سے پڑھا جائے، یہی مسنون ترتیب ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اکثری معمول رہی ہے۔ لہٰذا اس کے مطابق قرأت کرنا افضل ہے اور اس میں زیادہ ثواب ہے، اور کبھی اسکے علاوہ دوسری جگہ سے پڑھ لینا بھی درست ہے، تاہم مذکورہ صورت میں قرآن ختم کرنے کا معمول جائز تو ہے مگر بہتر نہیں، کیونکہ اس میں مسنون ترتیب کو مستقل چھوڑنا ہے جو مکروہ تنزیہی ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے، نیز اس طرح نماز فجر اور نماز عشاء کے فرضوں میں قرآن مجید مکمل ختم کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ (ماخذ تبویب ۱۱/۷۶۸) 

واضح رہے کہ قرأت کی بعض غلطیاں ایسی ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ، اس لیے فجر اور عشاء کی نمازوں میں قرآن ختم کرنے کی وجہ سے اگر امام صاحب بکثرت غلطیاں کرتے ہوں تو قرآن ختم کرنے کے اس معمول کو ترک کرنا لازم ہے، نیز اسکے باوجود اگر امام صاحب اس سے باز نہیں آتے اور قرأت کی شدید غلطیاں کرتے ہیں، تو ایسے شخص کو امام بنانا درست نہیں، انتظامیہ امام کو تنبیہ کرے، ورنہ امام تبدیل کر سکتی ہے۔ (رقم الفتوی : ٥٧/٢٠١٦)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
نماز تو اس طرح قرآنِ کریم بالترتیب پڑھنے میں بھی صحیح ہوجاتی ہے مگر امام کو فرض نمازوں میں قرأتِ مسنونہ کے پڑھنے کو اختیار کرنا چاہیے، البتہ امام صاحب اپنی سنت ونوافل میں علی الترتیب پڑھتے رہیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ (رقم الفتوی : 149216)

معلوم ہوا کہ فرض نمازوں میں بالترتيب قرآن مجید پڑھ کر مکمل کرنا کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے، بلکہ اس عمل کو خلافِ اولی یعنی بہتر نہیں لکھا گیا ہے۔ اور جب یہ عمل شرعاً پسندیدہ نہیں ہے تو پھر اس کو اہمیت دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا، اس کی تفصیلات عوام میں بیان کرنا یہاں تک کہ ختم قرآن پر اعلان لگاکر لوگوں کو جمع کرنا یہ سارا عمل شریعت کے مزاج کے خلاف ہے، لہٰذا فرض نمازوں میں بالترتيب پورا پڑھنے سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔


وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الصُّبْحِ بِالوَاقِعَةِ، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الفَجْرِ مِنْ سِتِّينَ آيَةً إِلَى مِائَة، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ " قَرَأَ: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔ (سنن الترمذي، رقم : ٣٠٦)

وَاسْتَحْسَنُوا فِي الْحَضَرِ طِوَالَ الْمُفَصَّلِ فِي الْفَجْرِ وَالظُّهْرِ وَأَوْسَاطَهُ فِي الْعَصْرِ وَالْعِشَاءِ وَقِصَارَهُ فِي الْمَغْرِبِ. كَذَا فِي الْوِقَايَةِ.
وَطِوَالُ الْمُفَصَّلِ مِنْ الْحُجُرَاتِ إلَى الْبُرُوجِ وَالْأَوْسَاطُ مِنْ سُورَةِ الْبُرُوجِ إلَى لَمْ يَكُنْ وَالْقِصَارُ مِنْ سُورَةِ لَمْ يَكُنْ إلَى الْآخِرِ. هَكَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٧٧)

ويقرأ في الحضر في الفجر في الركعتين بأربعين آية أو خمسين آية سوى فاتحة الكتاب ". ويروى من أربعين إلى ستين ومن ستين إلى مائة وبكل ذلك ورد الأثر ووجه التوفيق أنه يقرأ بالراغبين مائة وبالكسالى أربعين وبالأوساط ما بين خمسين إلى ستين۔(ھدایہ : ١/٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الاول 1446

ہفتہ، 30 نومبر، 2024

ذوالقرنین نبی تھے یاولی؟


سوال :

مفتی صاحب : سورہ کہف میں حضرت ذو القرنين کا ذکر آیا ہے۔ کیا وہ نبی تھے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ڈاکٹر شہباز، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کی سورہ کہف میں حضرت  ذوالقرنین رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق صرف اتنا ذکر ملتا ہے کہ وہ ایک نیک صالح عادل بادشاہ تھے، جنہوں نے مشرق و مغرب کے ممالک فتح کیے اور ان میں عدل و انصاف قائم کیا۔ اور ایک علاقے والوں کے لیے یاجوج ماجوج سے بچنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تعمیر کرائی۔ 

حضرت ذوالقرنین کے نبی ہونے میں اگرچہ علماء کا اختلاف ہے، مگر مؤمن صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے، حافظ ابن کثیر کے ہاں ان کا نبی ہونا راجح ہے، جب کہ جمہور کا قول یہ ہے کہ وہ نہ نبی تھے نہ فرشتہ، بلکہ ایک نیک صالح مسلمان تھے۔


ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى ذَا الْقَرْنَيْنِ هَذَا، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِالْعَدْلِ، وَأَنَّهُ بَلَغَ الْمَشَارِقَ وَالْمَغَارِبَ، وَمَلَكَ الْأَقَالِيمَ وَقَهَرَ أَهْلَهَا، وَسَارَ فِيهِمْ بِالْمَعْدَلَةِ التَّامَّةِ، وَالسُّلْطَانِالْمُؤَيَّدِ الْمُظَفَّرِ الْمَنْصُورِ الْقَاهِرِ الْمُقْسِطِ. وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ كَانَ مَلِكًا مِنَ الْمُلُوكِ الْعَادِلِينَ، وَقِيلَ: كَانَ نَبِيًّا. وَقِيلَ: كَانَ رَسُولًا. وَأَغْرَبَ مَنْ قَالَ: مَلَكًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ. وَقَدْ حُكِيَ هَذَا عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَإِنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ لِآخَرَ: يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ، فَقَالَ: مَهْ، مَا كَفَاكُمْ أَنْ تَتَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ حَتَّى تَسَمَّيْتُمْ بِأَسْمَاءِ الْمَلَائِكَةِ. ذَكَرَهُ السُّهَيْلِيُّ.
وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ نَبِيًّا. وَرَوَى الْحَافِظُ ابْنُ عَسَاكِرَ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَمَّادٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «لَا أَدْرِي أَتُبَّعٌ كَانَ لَعِينًا أَمْ لَا، وَلَا أَدْرِي الْحُدُودُ كَفَّارَاتٌ لِأَهْلِهَا أَمْ لَا، وَلَا أَدْرِي ذُو الْقَرْنَيْنِ كَانَ نَبِيًّا أَمْ لَا» وَهَذَا غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَالَ إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ السَّاجِ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:  كَانَ ذُو الْقَرْنَيْنِ مَلِكًا صَالِحًا، رَضِيَ اللَّهُ عَمَلَهُ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي كِتَابِهِ، وَكَانَ مَنْصُورًا، وَكَانَ الْخَضِرُ وَزِيرَهُ۔ (البدایہ النہایہ : ٢/٥٣٦)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
27 جمادی الاول 1446

جمعہ، 29 نومبر، 2024

ایک آدمی کا دو مسجد میں اذان دینا


سوال :

مفتی صاحب ! کسی مؤذن کے لئے ایسا درست ہے کہ وہ ایک ہی وقت کی اذان کئی مسجدوں میں دے؟ مثلاً : 1بجے کی ظہر کی اذان دے، پھر کہیں 1.30 کی اذان دے، ایسا کرنا کسی ایسے شہر یا گاؤں میں ہو جہاں دوسرا کوئی اذان نہ دے سکتا ہو، یا وہ اپنی آمدنی میں اضافے کے پیش نظر کرے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک مسجد میں اذان دینے اور وہاں نماز پڑھ لینے کے بعد دوسری مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ اس لیے کہ دوسری مسجد میں اس کا اَذان دینا اس کے حق میں نفل ہوگا، جب کہ نفل اَذان مشروع نہیں ہے، نیز اَذان کا مقصد فرض نماز کی طرف بلانا ہے، اس صورت میں یہ شخص دوسروں کو تو فرض نماز کی طرف بلانے والا ہوگا اور خود ان کے ساتھ فریضے کی ادائیگی میں شامل نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایک مرتبہ فرض نماز ادا کرچکا ہے۔

اگر دوسری مسجد میں کوئی اذان دینے والا نہ ہو تو یہ شخص وہاں اذان دے سکتا ہے، لیکن ایسی صورت میں مسجد ثانی ہی میں نماز پڑھے، اس لیے کہ مسجد اول میں نماز پڑھنے کے بعد مسجد ثانی میں اسی مؤذن کا اذان دینا مکروہ ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔


إذَا صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ الْأَوَّلِ يَكُونُ مُتَنَفِّلًا بِالْأَذَانِ فِي الْمَسْجِدِ الثَّانِي وَالتَّنَفُّلُ بِالْأَذَانِ غَيْرُ مَشْرُوعٍ؛ وَلِأَنَّ الْأَذَانَ لِلْمَكْتُوبَةِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ الثَّانِي يُصَلِّي النَّافِلَةَ، فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يَدْعُوَ النَّاسَ إلَى الْمَكْتُوبَةِ وَهُوَ لَا يُسَاعِدُهُمْ فِيهَا. اهـ۔ (شامی : ١/٤٠٠)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
26 جمادی الاول 1446

جمعرات، 28 نومبر، 2024

جو جیتا وہ ہمارا اور ہم اُس کے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
     (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! پیشِ نظر مضمون کا عنوان کوئی مذاق یا طنز نہیں ہے اور نہ ہی یہ جملہ کوئی مطلبی یا مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ بلکہ یہ جملہ حقیقت ہے اور قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً یہ جملہ درست ہے۔ 

اسمبلی الیکشن 2024 میں مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار مفتی محمد اسمعیل صاحب قاسمی کو 162 ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی ہے۔ اب اس جیت کے بعد وہ پورے حلقہ اسمبلی 114 یعنی مالیگاؤں سینٹرل میں رہنے والے ہر چھوٹے بڑے مرد وعورت، ہر مذہب، ہر مسلک اور ہر برادری کے لوگوں کے نمائندے بن چُکے ہیں۔

اگرچہ حقیقت یہی ہے کہ اس مرتبہ شہر کی اکثریت نے مفتی اسمعیل صاحب کو ووٹ نہیں دی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً یہ ذمہ داری ہے کہ بغیر کسی تفریق کے وہ اپنے حلقہ انتخاب میں رہنے والے تمام لوگوں کا کام کریں۔

حالانکہ مفتی اسمعیل صاحب جیسے عالم دین کو یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن عوام کا ایک بڑا طبقہ ان سب باتوں سے لاعلم رہتا ہے، اور اس لاعلمی کی وجہ سے غلط فہمیاں بھی پھیلتی ہیں، اور اس میں شرعی نکتہ بھی ہے، جس کی وضاحت کے لیے یہ مضمون لکھنا پڑا۔

اسی طرح جن لوگوں نے مفتی اسمعیل صاحب کو ووٹ نہیں دی ہے وہ بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب آپ لوگوں کے ایم ایل اے اور نمائندے مفتی اسمعیل صاحب ہی ہیں، اس لیے ہر کوئی بغیر کسی تردد اور جھجک کے بوقتِ ضرورت موجودہ ایم ایل اے مفتی اسمعیل صاحب سے ہر وہ کام کروانے کے لیے جاسکتا ہے جو ایک رُکن اسمبلی کی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔ کیونکہ یہ حق آپ کو قانون اور شریعت دونوں نے دیا ہے۔ لہٰذا اس میں کسی قسم کی شرم یا عار بالکل محسوس نہ کریں۔ اور خدانخواستہ کام نہ ہونے کی صورت میں آپ کو قانوناً اور شرعاً یہ مکمل اختیار ہے کہ آپ ایم ایل اے صاحب پر صحت مند تنقید کریں۔

نوٹ : اس مضمون کے ذریعے ہم اس شعبہ کے ماہر حضرات سے درخواست کریں گے کہ وہ اردو زبان میں عام فہم انداز میں ایک ایسا مضمون ترتیب دیں جس میں ایک رُکن اسمبلی کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں؟ اسے واضح کریں اور اسے عام کریں تاکہ اس سلسلے میں جو غلط فہمیاں عوام میں پھیل جاتی ہیں وہ ختم ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر کام ترتیب اور قاعدہ سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بے قاعدگی اور بدنظمی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

بدھ، 27 نومبر، 2024

الیکشنی ہار جیت میں اپنی آخرت برباد نہ کریں



✍ محمد عامر عثمانی ملی
   (امام و خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! اسمبلی الیکشن 2024 کا نتیجہ ظاہر ہوئے کئی دن ہوچکے ہے۔ جس کے مقدر میں فتح لکھی ہوئی تھی وہ کامیاب ہوا اور جس کے نصیب میں ہار کا فیصلہ تھا وہ شکست سے دو چار ہوا۔ لیکن مشاہدہ میں یہ آرہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک سنگین گناہ کا ارتکاب دونوں جماعتوں کے بعض افراد کی طرف سے دھڑلے سے اور مسلسل ہورہا ہے، اس گناہ سے ہماری مراد ایک دوسرے کا تمسخر، استہزاء اور مذاق اُڑانا ہے۔

جیتنے والی جماعت کے افراد "باقی کیسا ہرائے" باقی کیسا ترسائے" ہمارے یہاں اطمینان بخش طریقے پر ہرایا جاتا ہے" تو دوسری طرف کے لوگ "جھامو دوبارہ بن گیا ایم ایل اے" ۔ جیسے متعدد دل آزار جملوں کا استعمال مستقل کررہے ہیں۔ دن بھر سوشل میڈیا پر اسی عنوان سے لطیفے اور اسٹیکر بنا بناکر پھیلائے جارہے ہیں۔ عجیب وغریب حماقت یہ بھی ہے جب کسی لیڈر سے اچانک کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجائے جو غیراختیاری ہوتو اسے ڈر کا نام دے کر اس کی ویڈیو وائرل کی جاتی ہے اور اس پر دل آزار تبصرے کیے جاتے ہیں، اور کسی کی زبان پھسل جانے پر کئی دنوں تک اس پر لطیفے چلتے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور دیندار کہے جانے والے افراد بھی اس میں برابر کے شریک ہیں گویا اسے گناہ ہی نہیں سمجھا جارہا ہے۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ طوفانِ بدتمیزی ابھی تھمنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں پر اس گناہ کی سنگینی کو واضح کردیا جائے تاکہ ماننے والوں کو رہنمائی مل جائے اور وہ اس سے باز رہیں۔

محترم قارئین ! ایک دوسرے کا تمسخر، استہزاء اور مذاق اڑانا اسلام میں ایک بڑا جرم اور گناہ کبیرہ ہے جس کی ممانعت میں قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ۔ (سورہ حجرات، جزء آیت 11)
ترجمہ : اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔

اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قرطبی نے فرمایا کہ تمسخر یہ ہے کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں اس کو سُخْرِیہ، تمسخر، استہزاء  کہا جاتا ہے۔ اور جیسے یہ زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھوں پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا اسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنص قرآن حرام ہیں۔

تمسخر کی ممانعت کا قرآن کریم نے اتنا اہتمام فرمایا کہ اس میں مردوں کو الگ مخاطب فرمایا عورتوں کو الگ، مردوں کو لفظ قوم سے تعبیر فرمایا کیونکہ اصل میں یہ لفظ مردوں ہی کے لئے وضع کیا گیا ہے اگرچہ مجازاً و توسعاً عورتوں کو اکثر شامل ہوجاتا ہے اور قرآن کریم نے عموماً لفظ قوم مردوں عورتوں دونوں ہی کے لئے استعمال کیا ہے مگر یہاں لفظ قوم خاص مردوں کے لئے استعمال فرمایا اس کے بالمقابل عورتوں کا ذکر لفظ نساء سے فرمایا اور دونوں میں یہ ہدایت فرمائی کہ جو مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ استہزاء و تمسخر کرتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ شاید وہ اللہ کے نزدیک استہزاء کرنے والے سے بہتر ہو، اسی طرح جو عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ استہزاء و تمسخر کا معاملہ کرتی ہے اس کو کیا خبر ہے شاید وہی اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔

حاصل آیت کا یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بدن یا صورت یا قد و قامت وغیرہ میں کوئی عیب نظر آئے تو کسی کو اس پر ہنسنے یا استہزاء کرنے کی جرأت نہ کرنا چاہئے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید وہ اپنے صدق و اخلاص وغیرہ کے سبب اللہ کے نزدیک اس سے بہتر اور افضل ہو۔ اس آیت کو سن کر سلف صالحین کا حال یہ ہوگیا تھا کہ عمرو بن شرجیل نے فرمایا کہ میں اگر کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتے دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہوجاؤں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ میں اگر کسی کُتے کے ساتھ بھی استہزاء کروں تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں خود کتا نہ بنادیا جاؤں۔ (قرطبی/ بحوالہ معارف القرآن)

لہٰذا ہماری دونوں جماعتوں کے کارکنان سے عاجزانہ اور دردمندانہ التجاء ہے کہ وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے اور اپنے لیڈر کو بدنام کرنے والے اس قبیح سلسلے کو بند کردیں، اس گناہ پر شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کریں۔ اگر آپ کو اپنے لیڈر سے سچی محبت اور عقیدت ہے تو اس کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ مثبت کام کریں۔ ناجائز لطیفے بنانے اور ذاتیات پر  مبنی چٹکلوں پر جو دماغ اور وقت لگارہے ہیں اس کا استعمال اپنے لیڈر کو اچھے مشورے دینے اور قوم و ملت کی ترقی کے لئے لگائیں جو یقیناً آپ کے لیے، آپ کے لیڈر کے لیے اور پوری قوم کے لئے نفع بخش ثابت ہوگا۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو قوم و ملت کے حق میں نافع بنائے، انتشار افتراق سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

جمعرات، 14 نومبر، 2024

بوگس ووٹ دینے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کچھ لوگ ووٹر آئی ڈی کارڈ کے نام یا ایڈریس وغیرہ میں تبدیلی کرواتے ہیں تو ان کا دو کارڈ بن جاتا ہے اور کبھی تین بھی بن جاتا ہے، اور کچھ لوگ جان بوجھ کر یہ کام کرتے ہیں اور اپنا کئی کئی کارڈ بنوا لیتے ہیں جس سے ان کی ووٹ بھی ایک سے زائد آتی ہے۔ ایسی صورت میں ایک سے زائد ووٹ دینا جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد حذیفہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہندوستانی قانون کے مطابق کسی بھی الیکشن میں ایک شخص کو صرف ایک ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے۔ لہٰذا قصداً ایک سے زائد ووٹر آئی ڈی بنانا تاکہ زائد ووٹ دی جائے تو یہ عمل بلاشبہ دھوکہ ہے جو شرعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔ اور اگر کبھی غلطی سے کسی کا ووٹر آئی ڈی ایک سے زائد بن جائے اور اس کی ووٹ ایک سے زائد آنے لگے تب بھی اس کے لیے ایک سے زائد ووٹ دینا شرعاً جائز نہیں ہے، یہ دھوکہ اور بے ایمانی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : من غش فلیس منا، انتہی الحدیث، قال الترمذي : والعمل علی ہٰذا عند أہل العلم کرہوا الغش، وقالوا : الغش حرام۔ (سنن الترمذي : ۱؍۲۴۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الاول 1446

منگل، 12 نومبر، 2024

مفتی اسمعیل صاحب کی بیماری اور دیگر لیڈران کا سلوک


✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں اپنی متعدد خوبیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کے رہنے والے ایک دوسرے سے محبت کرتے اور آپس میں مِل کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک رہتے ہیں۔ البتہ اسمبلی اور کارپوریشن الیکشن کے ایام میں یہاں ماحول کچھ خراب ہوجاتا ہے۔ اس وقت ایک بڑی تعداد اپنے آپ کو بہت بڑا مفکر اور دانشور سمجھنے لگتی ہے۔ اور جس لیڈر اور امیدوار کو وہ پسند کرتے ہیں اس کو اچھا، سچا اور سب سے زیادہ با صلاحیت اور مخالفت پارٹی کے امیدوار کو جھوٹا، نا اہل، اور بے ایمان ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ اپنے لیڈر کی ہر برائی کی تاویل اور مخالف لیڈر کی ہر اچھائی انہیں مکاری اور عیاری نظر آتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے یہ رویہ نہ تو شرعاً درست ہے اور نہ ہی اخلاقاً۔ اسی رویے کی وجہ سے تمام پارٹیوں کے ورکر دن ورات سوشل میڈیا پر آپس میں ایک دوسرے سے بحث وتکرار کرتے رہتے ہیں، اور بات قلبی بغض وعداوت سے ہوتی ہوئی گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ شہر میں یہی سب کچھ چل رہا تھا کہ کل بروز پیر دوپہر میں یہ انتہائی تکلیف دہ خبر پڑھنے کو ملی کہ رکن اسمبلی مفتی محمد اسمعیل صاحب قاسمی کو دل کا عارضہ لاحق ہوا ہے اور انہیں ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ یہ اطلاع جیسے ہی دیگر لیڈران کو ملی سب نے اپنی ترتیب بناکر ان سے ملاقات کرکے ان کی عیادت کی اور اپنا انسانی اور دینی وملی فریضہ ادا کیا۔ سب سے پہلے مفتی صاحب کے اصل مقابل شیخ آصف ہسپتال پہنچے اور ان کے بعد بالترتيب شان ہند صاحبہ، مستقیم ڈگنٹی اور اعجاز بیگ صاحب ہسپتال پہنچے اور اپنی فکرمندی کے اظہار کے ساتھ دعائیں بھی دی اور شہریان سے دعا کی درخواست بھی کی۔
 
مفتی صاحب کے پرانے ساتھی (جو فی الحال سماج وادی پارٹی میں ہیں) اطہر حسین اشرفی صاحب نے پُر نم آنکھوں سے مفتی صاحب سے اپنی ذاتی تعلق کا اظہار کیا اور کہا کہ میرا ان سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے۔ 

فی الحال اطلاع یہ ہے کہ مفتی محمد اسمعیل صاحب کو بغرض علاج بمبئی لے جایا گیا ہے، جہاں ان کا آپریشن بھی ہوسکتا ہے۔ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں شفائے کاملہ عاجلہ دائمہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

شہر کے سیاسی لیڈران کا یہ حسنِ سلوک بڑی خوش آئند بات ہے اور تمام پارٹیوں کے ورکروں کے لیے اس میں بڑا سبق اور سیکھ ہے کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ اور انسانیت، دینی وملی فریضہ اپنی جگہ۔ اس لیے سیاسی اختلافات میں اس حد تک نہ جائیں کہ بعد میں ملاقات کرنے میں جھجھک محسوس ہو۔ اپنا مدعا مدلل اور اچھے انداز میں رکھ دیں اور خاموش ہوجائیں، ہر بات کا جواب دینا اور ہر واقعہ پر تنقید کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ ایسے موقع کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان عالیشان ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ : اپنے دوست کے ساتھ میانہ روی کا معاملہ رکھو۔ شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن بن جائے اور دشمن کے ساتھ دشمنی میں بھی میانہ روی ہی رکھو، کیونکہ ممکن ہے کہ کل وہی تمہارا دوست بن جائے۔ (ترمذی)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اختلاف کے حدود وقیود کی رعایت کرنے اور ہم سب کو اختلاف کے باوجود آپس میں مل کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

پیر، 11 نومبر، 2024

گردوارہ سے ملنے والا کھانا کھانا


سوال :

مفتی صاحب ! کسی "گرودوارہ" میں جہاں خدمت و چیریٹی کے نام پر سکھ احباب کھانا پکاکر کھلاتے ہیں مفت میں۔ وہاں پر احمد نے بھوک کے چلتے کھانا کھالیا، تو کھانا حلال ہوا؟ کیونکہ ان میں  اللّٰہ کا نام نہیں لیا جاتا ہے۔
(المستفتی : سیف الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : ایسے مقامات جہاں غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہے، چونکہ یہ مقامات شرک ومعصیت کے اڈے اور شیطان کی آماج گاہ ہوتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے لیے ایسی جگہوں مثلاً مندر، چرچ اور گردواروں میں جانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ البتہ گردواروں میں جو کھانا ملتا ہے وہ چڑھاوے کا نہیں ہوتا، چنانچہ اگر گوشت کے علاوہ ہوتو یہ کھانا حرام نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے یہ کھانا کھالیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، تاہم آئندہ گردوارے میں جانے سے ہی بچنا چاہیے۔

 
(قَوْلُهُ: وَلَايَحْلِفُونَ فِي بُيُوتِ عِبَادَتِهِمْ)؛ لِأَنَّ الْقَاضِيَ لَايَحْضُرُهَا بَلْ هُوَ مَمْنُوعٌ عَنْ ذَلِكَ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ، وَلَوْ قَالَ: الْمُسْلِمُ لَايَحْضُرُهَا لَكَانَ أَوْلَى؛ لِمَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة: يُكْرَهُ لِلْمُسْلِمِ الدُّخُولُ فِي الْبِيعَةِ وَالْكَنِيسَةِ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ حَيْثُ إنَّهُ مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ، لَا مِنْ حَيْثُ إنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا تَحْرِيمِيَّةٌ؛ لِأَنَّهَا الْمُرَادَةُ عِنْدَ إطْلَاقِهِمْ، وَقَدْ أَفْتَيْت بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ۔ (البحرالرائق : ٧ / ٢١٤)

(وَلَا يَحْلِفُونَ) أَيْ الْكُفَّارُ (فِي مَعَابِدِهِمْ) ؛ لِأَنَّ فِيهِ تَعْظِيمًا لَهَا وَالْقَاضِي مَمْنُوعٌ عَنْ أَنْ يَحْضُرَهَا وَكَذَا أَمِينُهُ؛ لِأَنَّهَا مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ لَا أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ. وَفِي الْبَحْرِ وَقَدْ أَفْتَيْتُ بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى۔ (مجمع الانہر : ٢ / ٢٦٠)

قال اللہ تعالیٰ : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ۔ (سورۃ المائدۃ : ۳)

الاصل فی الاشیاء الاباحۃ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱؍۲۲۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
08 جمادی الاول 1446

جمعہ، 8 نومبر، 2024

ایک وقت میں دودھ اور مچھلی کھانا


سوال :

مچھلی اور دودھ کا کیا تعلق ہے؟ ایسا سنا ہے کہ مچھلی کھانے کے بعد دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی چیزوں سے بچنا چاہیے۔ کیا قرآن و حدیث میں اس تعلق سے کوئی رہنمائی موجود ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عازم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن وحدیث میں مچھلی اور دودھ یا دودھ سے بنی ہوئی اشیاء ایک وقت میں کھانے کی کوئی ممانعت نہیں آئی ہے۔ 

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، مچھلی کھانے کے بعد دودھ پی سکتے ہیں۔ اطباء اس سے منع کرتے ہیں۔ اس سے سفید داغ ہونے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 5033)

البتہ جدید طبی تحقیقات اس بات کا انکار کرتی ہیں کہ ایک وقت میں مچھلی اور دودھ یا دودھ سے بنی ہوئی اشیاء کھائی یا پی جائے تو برص یعنی سفید داغ کی بیماری ہوتی ہے اور نہ ہی اور کوئی بڑی بیماری ہوتی ہے، تاہم اگر کوئی احتیاط کرے تو شرعاً کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ لیکن اسے قرآنی حکم یا حدیث شریف کہہ کر منع کرنا جائز نہیں ہے۔


قال اللہ تعالیٰ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ۔ (سورۃ البقرہ : ۱۷۲)

الأصل في الأشیاء الإباحۃ۔ (قواعد الفقہ اشرفي : ۵۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الاول 1446

جمعرات، 7 نومبر، 2024

عورتوں کا الیکشن میں کھڑے ہونا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ عورتوں کا الیکشن میں کھڑا ہونا کیسا ہے؟ ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ وہ قوم گمراہ ہوجاتی ہے جو عورت کی حکمرانی میں ہو، اس کی وضاحت بھی فرما دیں۔
(المستفتی : محمد صادق، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس حدیث شریف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ حدیث کی متعدد کتابوں میں مذکور ہے اور مکمل درج ذیل ہے :

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو سلطنت کی حکمرانی دے دی ہے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو۔

لیکن فقہاء نے لکھا ہے کہ یہاں حکمرانی سے مراد امارة مطلقہ اور سیادة عظمیٰ ہے جو کسی کے تابع نہ ہو یعنی عورت کی ایسی سربراہی جس میں عورت واقعی خود مختار اور مطلق العنان ہو کسی کے تابع نہ ہو، درست نہیں ہے۔ البتہ اگر حکمرانی خود مختار مطلق العنان نہ ہو بلکہ کسی کے تابع اور وقتی ہوتو اس کی گنجائش ہے۔   حکیم الامت علامہ اشرف تھانوی رحمہ اللہ نے بھی اپنے مجموعہ فتاوی "امداد الفتاوی "میں  مسئلہ ھذا کی مفصل بحث کے بعد تقریباً یہی بات خلاصہ کے طور پر لکھی ہے۔

مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری لکھتے ہیں :
ہر مسلمان عورت پر پردہ کی پابندی ضروری ہے، اِسی طرح اَجنبی مردوں سے اجتناب بھی لازم ہے، اگر اِن شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے کوئی عورت پنچایت وغیرہ کی ممبر بنتی ہے، تو اُس کی شرعاً گنجائش ہے اور اگر اِن شرعی حدود کی رعایت نہ رکھی جائے تو ظاہر ہے کہ گناہ ہوگا؛ اِس لئے کسی بھی باپردہ مسلم خاتون کو اِس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہئے؛ البتہ جو خواتین پہلے ہی سے عام زندگی میں شریعت کے احکامات کا خیال نہیں رکھتیں اور بلا حجاب بے تکلف گھر سے باہر آمد ورفت کرتی رہتی ہیں، وہ اگر اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے آگے آئیں تو بہتر ہوگا؛ لیکن وہ ترکِ حجاب کی وجہ سے گنہگار بہر حال رہیں گی۔ (کتاب النوازل : ١٧/٧٣)

معلوم ہوا کہ ہندوستان جو ایک جمہوری ملک ہے، یہاں حکومت خود مختار اور مطلق العنان نہیں ہوتی بلکہ پارلیمانی طرز کی ہوتی ہے، لہٰذا یہاں عورتوں کا الیکشن میں کھڑے ہونا شرعاً جائز ہے، البتہ عورتوں کے لیے پردہ ہر وقت ضروری ہے، اگر یہ خاتون اس کی رعایت نہیں کرے گی تو گناہ گار ہوگی۔

 
قال اللّٰہ تعالیٰ : قُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ۔ (النور، جزء آیت : ۳۱)

قال النووي: وسببہ الصیانۃ والإحتراز من مقارنۃ النساء للرجال من غیر حاجۃ۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۱؍۲۹۰)

قال اللّٰہ تعالیٰ : وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلیٰ۔ (الاحزاب، جزء آیت : ۳۳)

عن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال: المرأۃ عورۃ فإذا خرجت استشرفہا الشیطان۔ (سنن الترمذي آخر أبواب النکاح ۱؍۲۲۲ رقم : ۱۱۷۳)

وزاد فیہ: وأقرب ما تکون من ربہا وہيفي قعر بیتہا۔ (صحیح ابن خزیمۃ ۲؍۸۱۴ رقم : ۱۹۸۶)

المرأۃ إذا جعلت قاضیا فقضاء ہا جائز في ما تجوز شہادتہا فیہ۔ (شرح آداب القاضي للخصاف : ۳۱۷)

المرأۃ فیما تصلح شاہدۃ تصلح قاضیۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۱؍۳۳ رقم: ۱۵۳۹۴ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 جمادی الاول 1446

منگل، 5 نومبر، 2024

خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت سے متعلق اہم سوالات


سوال : 

محترم مفتی صاحب! آج کل ایسا لگتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو دنیا کے سامنے نیک، صالح، دیندار بتانے کے لیے کوئی بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں کچھ سوالات کے جوابات حدیث کی روشنی میں مطلوب ہیں جن سے یہ پتہ تو چلے کہ حقیقتاً کیا ممکن ہے؟

١) کسی کے بھی خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہو سکتی ہے؟

٢) جن کے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوتا ہے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کس شباہت میں نظر آئے ہیں؟

٣) اپنے خواب میں حضور اکرم کا دیدار ہونے کی جھوٹی، من گھڑت کہانی بنانے پر کیا گناہ ہو سکتا ہے؟

٤) کہیں حدیث وغیرہ میں اپنے خواب میں حضور کا دیدار کرنے کا کوئی طریقہ بتلایا گیا ہے؟

٥) کیا یہ بات سچ ہے کہ جسے اپنے خواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار ہوا، وہ صحابہ کرام کے درجے میں شمار ہو گا؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خواب کے معاملے میں عوام کے ساتھ بعض خواص بھی غلط فہمی کا شکار ہیں، اور اسے بڑی اہمیت دیتے ہیں، یہاں تک کہ بعض معاملات میں خوابوں کو بنیاد بناکر حق اور باطل مقبولیت اور مردودیت کے فیصلے بھی کردیئے جاتے ہیں، لہٰذا ایسے حالات میں آپ کا سوال اہمیت کا حامل ہے کہ خواب کی شرعی حیثیت کو سمجھا اور سمجھایا جائے، تاکہ لوگ گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔

١) خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ممکن اور برحق ہے، اس سلسلے میں احادیث وارد ہوئی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے درحقیقت مجھ کو ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت نہیں بن سکتا۔ (بخاری ومسلم)

٢) جن لوگوں کو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوئی ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اصلی شکل اور حلیہ مبارک میں ہوئی ہے۔ 

حضرت مولانا مفتی یوسف صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ فتاوی "آپ کے مسائل اور ان کا حل" سے خواب سے متعلق کچھ تفصیلات من وعن نقل کی جاتی ہیں، امید ہے کہ مسئلہ ھذا میں تسلی وتشفی کا باعث ہوں گی۔

خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت تو برحق ہے، لیکن اس خواب سے کسی حکمِ شرعی کو ثابت کرنا صحیح نہیں، کیونکہ خواب میں آدمی کے حواس معطل ہوتے ہیں، اس حالت میں اس کے ضبط پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے صحیح طور پر ضبط کیا ہے یا نہیں؟ علاوہ ازیں شریعت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے سے پہلے مکمل ہوچکی تھی، اب اس میں کمی بیشی اور ترمیم و تنسیخ کی گنجائش نہیں، چنانچہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ خواب حجتِ شرعی نہیں، اگر خواب میں کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد سنا تو میزانِ شریعت میں تولا جائے گا، اگر قواعدِ شرعیہ کے موافق ہو تو دیکھنے والے کی سلامتی و استقامت کی دلیل ہے، ورنہ اس کے نقص و غلطی کی علامت ہے۔

خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بڑی برکت و سعادت کی بات ہے، لیکن یہ دیکھنے والے کی عنداللہ مقبولیت و محبوبیت کی دلیل نہیں۔ بلکہ اس کا مدار بیداری میں اتباعِ سنت پر ہے۔ بالفرض ایک شخص کو روزآنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہو، لیکن وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تارک ہو اور وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو تو ایسا شخص مردود ہے۔ اور ایک شخص نہایت نیک اور صالح متبعِ سنت ہے، مگر اسے کبھی زیارت نہیں ہوئی، وہ عنداللہ مقبول ہے۔ خواب تو خواب ہے، بیداری میں جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی دولت سے محروم رہے وہ مردود ہوئے، اور اس زمانے میں بھی جن حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں ہوئی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہوئی وہ مقبول ہوئے۔ (آپ کے مسائل اور انکا حل : ١/١١٩، مکتبہ جبریل)

معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کا دعویٰ کرتا ہو، لیکن فرائض و واجبات اور سنتوں کا چھوڑنے والا ہو۔ جھوٹ، بہتان، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور ناجائز طریقوں سے روزی کمانے جیسے کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہوتو ایسا شخص عنداللہ مقبول نہیں، بلکہ مردود ہے بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کا جھوٹا دعویٰ کررہا ہے۔

٣) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا جھوٹا دعویٰ کرنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء ہے، اور یہ کسی شخص کی شقاوت و بدبختی کے لئے کافی ہے، اگر کسی کو واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تب بھی بلاضرورت اس کا اظہار مناسب نہیں۔ (آپ کے مسائل اور انکا حل : ١/١١٩، مکتبہ جبریل)

٤) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب میں اپنی زیارت کے لیے کوئی عمل نہیں بتایا ہے۔ لہٰذا کسی بھی عمل کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خواب میں زیارت کے لیے یقینی نہیں کہا جاسکتا۔ اور خواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہو یا نہ ہو اصل زندگی میں بندہ کو عاشق رسول اور متبع سنت وشریعت ہونا چاہیے کہ یہی حقیقی کامیابی ہے۔

٥) جی نہیں۔ خواب میں اگر کسی کو واقعتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوتی ہے تب بھی اسے صحابہ کے درجہ میں نہیں مانا جائے گا۔ اس لیے کہ صحابی اُس شخصیت کو کہا جاتا ہے کہ جس نے ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ کی زیارت کی ہو اور ایمان ہی کی حالت میں ہی اس کی وفات ہوئی ہو۔ 


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي ؛ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ صُورَتِي۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦١٩٧)

وَاسْتَشْكَلَ إثْبَاتَهُ بِالرُّؤْيَا بِأَنَّ رُؤْيَا غَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ لَا يَنْبَنِي عَلَيْهَا حُكْمٌ شَرْعِيٌّ۔ (شامی : ١/٣٨٣)

من لقي النبي صلی اللہ علیہ وسلم موٴمنا بہ ومات علی الإیمان۔ (قواعد الفقہ : ۳۴۶)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 جمادی الاول 1446

پیر، 4 نومبر، 2024

نماز کے درود میں سیدنا کا اضافہ کرنا


سوال :

مفتی صاحب نماز کے قعدہ میں جو درود شریف پڑھتے ہیں اس میں لفظ *سیدنا*  کا اضافہ کرنا کیسا ہے؟ ایک مولوی صاحب نے بیان میں ایسے پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔
(المستفتی : مجاہد اقبال، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کے درود یعنی درود ابراہیم میں لفظِ محمد اور لفظِ ابراھیم دونوں سے پہلے لفظ "سیدنا" کا اضافہ کرنا درست ہے، اور بعض فقہاء نے اسے افضل بھی لکھا ہے، لہٰذا "سیدنا" کے اضافہ کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔


قال فی الدر وَنُدِبَ السِّيَادَةُ لِأَنَّ زِيَادَةَ الْإِخْبَارِ بِالْوَاقِعِ عَيْنُ سُلُوكِ الْأَدَبِ فَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ تَرْكِهِ، ذَكَرَهُ الرَّمْلِيُّ الشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُ؛ وقال المحشی (قَوْلُهُ ذَكَرَهُ الرَّمْلِيُّ الشَّافِعِيُّ) أَيْ فِي شَرْحِهِ عَلَى مِنْهَاجِ النَّوَوِيِّ. وَنَصُّهُ: وَالْأَفْضَلُ الْإِتْيَانُ بِلَفْظِ السِّيَادَةِ كَمَا قَالَهُ ابْنُ ظَهِيرِيَّةٍ، وَصَرَّحَ بِهِ جَمْعٌ، وَبِهِ أَفْتَى الشَّارِحُ لِأَنَّ فِيهِ الْإِتْيَانَ بِمَا أُمِرْنَا بِهِ، وَزِيَادَةُ الْإِخْبَارِ بِالْوَاقِعِ الَّذِي هُوَ أَدَبٌ، فَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ تَرْكِهِ (الی قولہ) وَأَنَّهُ يَأْتِي بِهَا مَعَ إبْرَاهِيمَ - عَلَيْهِ السَّلَامُ۔ (شامی : ١/٥١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 جمادی الاول 1446

جمعرات، 31 اکتوبر، 2024

امیدوار سے فرضی ورکر کی اجرت وصولنا


سوال :

شہری سیاست میں انتخابات کے دوران مختلف پارٹیوں کے امیدوار اپنی انتخابی تشہیر کیلئے ورکروں کو محنتانہ (معاوضہ) ادا کرتے ہیں، اسی مناسبت سے ہر علاقہ میں مختلف اداروں اور گروپوں کیجانب سے علاقے کے ذمہ داران کے پاس ورکروں کے نام سے پرچیاں جمع کرائی جاتی ہے۔ اور انہیں پرچیوں کے ساتھ علاقہ وار ذمہ دار اپنی جانب سے فرضی پرچیاں بھی جمع کرتے ہیں اور امیدواروں کیجانب سے معاوضے کی ادائیگی کے وقت کسی کے علم میں لائے بغیر فرضی پرچیوں کی رقم اپنے پاس رکھ لیتے ہیں، ذمہ داران کا یہ عمل کیسا ہے اور ان کیلئے اس رقم کے تعلق سے کیا حکم ہے؟
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : الیکشن کے موقع پر امیدوار حضرات ووٹ حاصل کرنے کے لئے ووٹروں میں اپنی تشہیر کے لئے کلبوں اور نوجوانوں کو تیار کرتے ہیں، اور وہ اس کام کو انجام دینے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور وقت خرچ کرتے ہیں، لہٰذا اس محنت اور وقت دینے پر ملنے والی اجرت شرعاً جائز اور درست ہے۔ البتہ اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جان بوجھ کر ایسے امیدوار کی تشہیر نہ کی جائے جو نا اہل ہو جس کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہو کیونکہ ایسے امیدوار کی تشہیری مہم میں حصہ لینا تعاون علی المعصیت میں شمار ہوگا۔

معلوم ہوا کہ جب با صلاحیت اور اہل امیدوار کی ورکری کرنا جائز اور اس پر ملنے والی اجرت بھی حلال ہے اور اس اجرت کا حقدار وہی ہے جو باقاعدہ کام کرے گا۔ لہٰذا اداروں اور کلبوں کے ذمہ داران کا فرضی نام دے کر امیدوار سے ان کی اجرت وصول کرنا ناجائز اور حرام ہے، اس رقم کا امیدوار کو واپس کرنا ضروری ہے۔


الأجرۃ إنما تکون في مقابلۃ العمل۔ (شامي، زکریا ۴/ ۳۰۷)

وشرطہا کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین؛ لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ۔ (الدرالمختار مع الشامي، زکریا ۹/ ۷-٨)

ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان یعنی لاتعاونوا علی ارتکاب المنہیات۔ (تفسیرمظہری :٤٨/٣)

عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، رقم: ۲۷۶۲)

لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)

ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
27 ربیع الآخر 1446

بدھ، 30 اکتوبر، 2024

مسلمان بچوں کی آتش بازی عروج پر

              نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
         (امام وخطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! برادران وطن کا سب سے بڑا تہوار دیوالی چل رہا ہے۔ اس تہوار پر آتش بازی بڑے پیمانے کی جاتی ہے، لیکن گذشتہ چند سالوں سے ان لوگوں میں یہ تحریک چل رہی ہے کہ آتش بازی اور پٹاخے بازی بند کردی جائے، اس لیے کہ اس میں صوتی آلودگی اور ماحول کی آلودگی کے ساتھ بلاوجہ پیسوں کا ضائع کرنا بھی پایا جاتا ہے، اگر یہی پیسے کسی غریب کو دے دئیے جائیں تو اس کے گھر میں بھی خوشیاں آسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب آپ ان کے یہاں آتش بازی میں پہلے کی بہ نسبت واضح طور پر کمی دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن برادران وطن نے ایک اچھی پہل کی تو خیر امت کہے جانے والے مسلمانوں اور ان کے بچوں نے اس تکلیف دہ اور ناجائز اور حرام کام کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔

چھوٹے چھوٹے بچوں کا بندوق میں ٹکلیاں ڈال کر مسلسل پھوڑنا، لہسن پٹاخہ جسے جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اسے پٹخ دیا جائے تو وہ پھوٹ جاتا ہے جس میں اچھی خاصی آواز آتی ہے، بیڑی پٹاخہ، اس کو بھی باقاعدہ کہیں رکھ کر جلانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ماچس کی طرح اسے باکس پر رگڑ کر پھینک دیا جاتا ہے جو اپنے آپ میں کافی دھماکہ دار آواز رکھتا ہے۔ پھلجھڑیاں اور اس قسم کی متعدد بارودی اشیاء کا استعمال مسلمانوں کے یہاں بلاتکلف اور بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے۔

اور یہ آتش باز اور پٹاخے باز بچے آپ کو ہماری ہر مسلم بستی میں ملیں گے جو کسی کا بھی لحاظ نہ کرتے ہوئے یہاں تک کہ مسجد اور جماعت کے تقدس کا بھی خیال نہ کرتے ہوئے اپنی آتش بازی اور پٹاخے بازی میں مگن ملیں گے۔

اگر یہی کام کوئی غیرمسلم ہماری بستی اور ہماری مسجد کے پاس آکر کردے تو ہماری غیرت اور حمیت کا کیا حال ہوگا؟ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

افسوس اس بات کا بھی ہوتا ہے کہ پہلے اس طرح کی برائیوں پر لوگ روک ٹوک کیا کرتے تھے، لیکن ایسا لگتا ہے اب لوگ اسے برا بھی نہیں سمجھتے یا پھر انہیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ان بچوں کی شرارت کا شکار نہ ہوجائیں، کیونکہ ایسے بچے عموماً روکنے ٹوکنے والے بڑی عمر کے افراد کو ہی نشانہ بنانے لگتے ہیں۔ دونوں وجوہات ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ ہیں۔

آج شہری حالات کیا چل رہے ہیں؟ ہم سب کو معلوم ہے۔ پاور لوم صنعت مندی کا شکار ہے۔ ملکی حالات مسلمانوں پر دن بدن سخت ہوتے جارہے ہیں، ایسے حالات میں ہمیں بچوں سمیت رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے تو یہاں ایک ایسا عجیب اور انتہائی سنگین گناہ کا ارتکاب ہورہا ہے جسے دیکھ کر یہی کہا جائے کہ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں کو بھی ہری ہری سوجھ رہی ہے، اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں کہ ہم نے ان کو پٹاخوں اور آتش بازی کی برائی اور قباحت سمجھائی ہی نہیں ہے، جبکہ پٹاخے  پھوڑنا اور آتش بازی کرنا درج ذیل متعدد وجوہات کی بناء پر اسلام میں ناجائز اور حرام ہے۔

اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۔(سورہ بقرہ، آیت : 195)
ترجمہ : اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔  (سورہ بقرہ، آیت : 195)

آتش بازی میں اکثر جان کی ہلاکت و زخمی ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں ۔

فضول خرچی، اور وقت کا ضیاع ۔
دوسری جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت : 27)
ترجمہ : بلاشبہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ 

اسی طرح آتش بازی میں غیروں سے مشابَہت، اور دوسروں کو تکلیف دینا بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی احادیث میں ممانعت اور سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

اگر بچے نابالغ ہیں اور بلاشبہ ایسا ہی ہے تو ان کا گناہ ان کے والدین پر ہورہا ہے، اور اس میں برابر کے گناہ گار وہ دوکاندار بھی ہیں جو ایسی چیزیں لاکر فروخت کرتے ہیں، اگر وہ فروخت ہی نہ کریں تو کوئی کیونکر خریدے گا؟ ویسے بھی آتش بازی کے سامان اور پٹاخوں کی تجارت شرعاً ناجائز اور سخت گناہ ہے، اس لیے کہ اس میں درج بالا متعدد کبیرہ گناہوں میں تعاون پایا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلم دوکانداروں کو فوراً اس ناجائز اور حرام چیز کی تجارت سے باز آجانا چاہیے۔

امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے والے تمام افراد فوری طور پر اس کا ایکشن لیں گے، خود اپنے گھر کے بچوں پر نظر رکھنے کے ساتھ حکمت اور نرمی کے ذریعے دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور حالات کی سنگینی کو سمجھ کر اپنے اعمال کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

منگل، 29 اکتوبر، 2024

ایک امیدوار سے پیسہ لینا اور دوسرے کو ووٹ دینا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ پیسہ کسی امیدوار سے لینا اور ووٹ کسی دوسرے امیدوار کو دینا جائز ہے؟ شریعت کی روشنی میں مکمل ومدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ووٹ شہادت ہے جس کے لیے مال کا لین دین کرنا شرعاً رشوت کہلاتا ہے، کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں رشوت وہ مال ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لیے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے، جسے یہ چاہتا ہے، جس کا لینا اور دینا دونوں شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس کے لین دین پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔ (1)

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے۔ (2)

ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (3)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ رشوت کی حرمت پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں، کیونکہ لعنت یعنی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کسی عظیم گناہ کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رشوت گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔

معلوم ہوا کہ ووٹ کے نام پر کسی امیدوار سے پیسے لے لینا سرے سے ناجائز اور حرام ہے تو پھر پیسے لے کر کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ دے دینا کیسے جائز ہوگا؟ بلاشبہ اس صورت میں بھی یہ رقم ووٹر کے لیے حلال نہیں ہے، بلکہ جس امیدوار سے رقم لی گئی ہے اسے یہ رقم واپس کرنا ضروری ہے، ورنہ قیامت کے دن اس مال کو لے کر سخت گرفت ہوگی۔ اور ووٹ بہرحال اہل اور قابل امیدوار کو ہی دی جائے گی۔ (4)


1) قال العلامۃ ابن عابدین :  الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید۔ (ردالمحتار، ۴:۳۳۷،۳۳۸ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)

2) عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم،)

3) عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبیﷺ: الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/۵۵۰، رقم:۲۰۲۶،)

4) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الآخر 1446

اتوار، 27 اکتوبر، 2024

نکاح میں تین مرتبہ ایجاب وقبول کروانا


سوال :

مفتی صاحب ! نکاح کے وقت تین مرتبہ ایجاب و قبول کرنا ضروری ہے؟ یا پھر ایک مرتبہ میں نکاح منعقد ہوجاتا ہے زیادہ تر علماء کرام تین مرتبہ ایجاب و قبول کرواتے ہیں۔رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایجاب و قبول ایک مرتبہ کرنے پر ہی نکاح منعقد ہوجاتا ہے، لہٰذا بات میں پختگی کے خیال سے ضروری نہ سمجھتے ہوئے دو یا تین مرتبہ اگر کروا لیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ البتہ اگر کوئی تین مرتبہ ایجاب وقبول کو ضروری سمجھے تو یہ بدعت ہے۔


(وَأَمَّا رُكْنُهُ) فَالْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ، كَذَا فِي الْكَافِي وَالْإِيجَابُ مَا يُتَلَفَّظُ بِهِ أَوَّلًا مِنْ أَيِّ جَانِبٍ كَانَ وَالْقَبُولُ جَوَابُهُ هَكَذَا فِي الْعِنَايَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٦٧)

وینعقد النکاح بلفظ واحد ویکون اللفظ الواحد إیجاباً وقبولاً۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ : ۲؍۵۸۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الآخر 1446

ہفتہ، 26 اکتوبر، 2024

کیا علماء کو برا بھلا بولنے والے کی نسلوں میں علماء پیدا نہیں ہوتے؟


سوال :

مفتی صاحب ! ایک سوال یہ تھا کہ میں کہیں پڑھا ہوں کہ کسی مفتی عالم حافظ کو کم زیادہ بولنا، یا گالی دینے سے انکی نسلوں میں کوئی حافظ عالم پیدا نہیں ہوتا، کیا یہ بات صحیح ہے؟
(المستفتی : ملک انجم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں علماء کرام کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا گیا ہے، اور ان کی شان میں گستاخی اور ان سے دشمنی و عداوت رکھنے کو ہلاکت کا باعث بتایا گیا ہے۔

ایک حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ (بخاری)

ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے بچوں پر رحم نہ کرے، اور جو ہمارے عالِم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت میں سے نہیں ہے ۔ (الترغیب والترہیب)

ایک جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : عالم بنو یا طالب علم بنو یا بات کو غور سے سننے والے بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو، پانچویں شخص نہ بننا ورنہ تم ہلاکت کا شکار ہوجاؤ گے۔ (بیہقی)

حدیث شریف میں پانچویں قسم سے ہونے سے جو منع کیا گیا ہے تو وہ علماء دین سے بغض و عداوت رکھنے والے لوگوں کی قسم ہے۔

مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ علماء کرام کی عزت و احترام ہم سب پر لازم اور ضروری ہے، اور ان کی شان میں گستاخی دنیا وآخرت میں خسارے کا سبب ہے۔

لیکن ایسی کوئی حدیث نہیں ہے کہ علماء کو برا بھلا بولنے والے کی نسلوں میں علماء پیدا نہیں ہوتے۔ یہ بات سوشل میڈیا پر ماضی قریب کے ایک بڑے عالم دین وداعی حضرت مولانا عمر صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرکے چلائی جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قول مولانا عمر صاحب پالنپوری کا بھی نہیں ہے، ان کے فرزند حضرت مولانا یونس صاحب پالن پوری نے اس کی تردید بھی کی ہے۔ بلکہ یہ کسی اور کا گھڑا ہوا ہے اور یہ قول شرعاً بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کے جرم کی سزا کسی اور کو نہیں دیتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لہٰذا یہ بات نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرکے کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی اور کا قول کہہ کر بیان کی جاسکتی ہے۔


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
21 ربیع الآخر 1446

بدھ، 23 اکتوبر، 2024

کاسٹ CAST سرٹیفکیٹ بنوانے کا حکم


سوال :

مفتی صاحب ! کاسٹ سرٹیفکیٹ (جو حکومت کی جانب سے پسماندہ برادری کے افراد کو دیا جاتا ہے تاکہ اسکے ذریعہ اپنے ایجوکیشن کے اخراجات میں رعایت تخفیف کرسکے مزید تعلیمی وظیفے حاصل کرسکے اور سرکاری ملازمتوں میں مزید ترقی اسکے ذریعہ سےحاصل کی جائے۔ کیاکوئی صاحب حیثیت مسلمان اس کاسٹ سرٹیفیکٹ کے ذریعہ فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ کیونکہ سرکار مالدار ہونے نہ ہونے کے اعتبار سے یہ سرٹیفیکٹ نہیں دیتی بلکہ اس پسماندہ طبقہ میں سے ہونے کی شرط پر دیتی ہیں اسی وجہ سے مالدار قسم کے لوگ مسلم، غیرمسلم دونوں اس سے مستفیدہوتے ہیں، تو کیا شرعاً اسکا استعمال جائز ہے؟مدلل ومحقق جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محبوب علی، پونہ)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کے اختیارات میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کو آگے بڑھانے کے لیے فائدہ مند کام کریں، لہٰذا ان مخصوص طبقات کے لیے اگر حکومت کی طرف سے اس طرح کی کوئی اسکیم جاری ہوتی ہے تو ان مخصوص طبقات کے لیے اپنی کاسٹ کا سرٹیفکیٹ بنوانا اور ان اسکیموں کا فائدہ اٹھانا شرعاً جائز اور درست ہے، خواہ وہ غریب ہوں یا مالدار، اس لیے کہ اس میں مالدار یا غریب کی کوئی قید بھی نہیں ہے۔


قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَخْذِ الْجَائِزَةِ مِنْ السُّلْطَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ يُعْطِيهِ مِنْ حَرَامٍ قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ نَأْخُذُ مَا لَمْ نَعْرِفْ شَيْئًا حَرَامًا بِعَيْنِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَأَصْحَابِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ربیع الآخر 1446