منگل، 17 دسمبر، 2024

عشاء کی رکعتوں کی تعداد اور ان کا ثبوت ؟


سوال :

مفتی صاحب ! نماز عشاء میں فرض، واجب اور سنن ونوافل کی رکعتوں کی تعداد کتنی ہے؟ کیا اس میں کوئی رکعت بے بنیاد ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : عشاء کی چار رکعت فرض سے پہلے چار رکعت سنت غیرمؤکدہ کا ثبوت درج ذیل حدیث شریف سے ملتا ہے۔ 

بخاری شریف میں ہے :
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریمﷺنے تین مرتبہ یہ اِرشاد فرمایا : ہر دو اذانوں یعنی اذان و اِقامت کے درمیان نماز ہے، جو پڑھنا چاہے۔ (١)

قیام اللیل للمروزی میں ہے : 
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : پہلے بزرگ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ عشاء کی نماز سے قبل چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔ (٢)

اعلاء السنن میں ہے :
اور رہی عشاء سے پہلے کی چار رکعت تو اس کے بارے میں کوئی خصوصی حدیث تو ذکر نہیں کی گئی لیکن اس کی دلیل کے طور پر حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے اور تین دفعہ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو پڑھنا چاہے اس کے لئے ہے یعنی یہ نماز اختیاری ہے اور چونکہ اس وقت میں نفل کی نماز سے کوئی مانع بھی نہیں ہے لہٰذا یہ نماز مستحب ہوئی اور اسکا چار رکعت والی ہونا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک رات کے نوافل میں چار رکعت  کا ہونا افضل ہے اس لئے ان کے مذہب کے مطابق یہاں بھی مطلق نماز سے چار رکعت والی نماز مراد ہے۔ (٣)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ عشاء کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت سنت غیرمؤکدہ اور مستحب ہے، جس کا پڑھنا ثواب ہے، اور اگر چھوٹ جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ 

عشاء کی چار رکعت فرض کے بعد دو رکعت سنتِ مؤکدہ ہیں، جن کا بلاعذر چھوڑنا درست نہیں ہے۔ اس کی تاکید "سنن ترمذی" میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا : جو بارہ رکعات سنت پر مداومت کرے گا، اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔ (٤)

اس کے بعد چار رکعت نفل دو سلام سے پڑھنے کا ثبوت درج ذیل احادیث سے ملتا ہے۔

بخاری شریف میں ہے :
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک شب اپنی خالہ میمونہ بنت حارث ؓ زوجہ نبی ﷺ کے گھر میں سویا اور نبی ﷺ (اس دن) ان کی شب میں انہی کے ہاں تھے نبی ﷺ نے عشاء کی نماز (مسجد میں) پڑھی پھر اپنے گھر میں آئے اور چار رکعتیں پڑھ کر سو گئے۔ (٥)

سنن ابوداؤد میں ہے :
حضرت زرارہ بن اوفی ؓ سے روایت ہے کہ کسی نے حضرت عائشہ ؓ سے حضور ﷺ کی رات کی نماز کا حال دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھتے تھے پھر گھر آکر چار رکعتیں پڑھتے تھے اس کے بعد اپنے بستر پر جا کر سو جاتے تھے۔ (٦)

نیز یہ بات بے بنیاد ہےکہ وتر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔ کیوں کہ متعدد روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بعد نماز پڑھنا ثابت ہے، جیسا کہ سنن ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (٧)

عشاء کی نماز میں سات رکعات لازمی ہیں، چار فرض اور تین وتر، اگر یہ چھوٹ جائیں تو ان کی قضاء ضروری ہے۔ فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ہے، جس کا پڑھنا بھی ضروری ہے، لیکن اگر چھوٹ جائے تو اس کی قضا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بقیہ سنن غیرمؤکدہ اور نوافل ہیں،جس میں چار رکعت سنت غیرمؤکدہ فرض سے پہلے، دو نفل وتر سے پہلے اور دو نفل وتر کے بعد ہے، ان کا پڑھنا ثواب ہے، اگر چھوٹ جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس طرح یہ مجموعی طور پر سترہ رکعتیں ہوئیں جو سب کے سب احادیث سے ثابت ہیں، کوئی بھی رکعت بے بنیاد، من گھڑت اور بدعت نہیں ہے۔


١) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ المُزَنِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ، ثَلاَثًا لِمَنْ شَاءَ۔ (صحیح البخاری: رقم ۶۲۴/وکذا فی صحیح المسلم: ۱/ ۲۷۸)

٢) عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ :«كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ»۔ (قیام اللیل لمحمد نصر المروزي : ١/٨٨)

٣) واما الاربع قبلها اى قبل صلاه العشاء  فلم يذكر في خصوصها حديث لکن یستدل له بعموم ما رواہ الجماعة من حدیث عبدالله بن مغفل رضی الله عنه فهذا مع عدم المانع من التنفل قبلها یفید الاستحباب لکن کونها اربعا یتمشی علی قول ابی حنیفة رحمه الله لانها الافضل عندہ فیحمل علیها حملا للمطلق علی الکامل ذاتا ووصفا۔ (اعلاء السنن : ٧/٢٠)

٤) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنَ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ؛ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٤١٤)

٥) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١١٧)

٦) حَدَّثَنَا زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سُئِلَتْ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقَالَتْ : كَانَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ فَيَرْكَعُ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ١٣٤٦)

٧) عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٤٧١)

(وَسُنَّ) مُؤَكَّدًا (أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّهْرِ وَ) ....  (وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الصُّبْحِ وَبَعْدَ الظُّهْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ) شُرِعَتْ الْبَعْدِيَّةُ لِجَبْرِ النُّقْصَانِ، وَالْقَبْلِيَّةُ لِقَطْعِ طَمَعِ الشَّيْطَانِ (وَيُسْتَحَبُّ أَرْبَعٌ قَبْلَ الْعَصْرِ، وَقَبْلَ الْعِشَاءِ وَبَعْدَهَا بِتَسْلِيمَةٍ) وَإِنْ شَاءَ رَكْعَتَيْنِ۔

(قَوْلُهُ وَإِنْ شَاءَ رَكْعَتَيْنِ) كَذَا عَبَّرَ فِي مُنْيَةِ الْمُصَلِّي. وَفِي الْإِمْدَادِ عَنْ الِاخْتِيَارِ: يُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ الْعِشَاءِ أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا أَرْبَعًا وَقِيلَ رَكْعَتَيْنِ اهـ. وَالظَّاهِرُ أَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ الْمَذْكُورَتَيْنِ غَيْرُ الْمُؤَكَّدَتَيْنِ۔ (شامی : ٢/١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 جمادی الآخر 1446

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں