شہر میں نئی خرافات اور برائی کا اضافہ
شہریان سدباب کی کوشش کریں
قارئین کرام ! شہرِ عزیز میں جہاں بہت سارے نیک اعمال انجام دئیے جاتے ہیں وہیں آئے دن یہاں نئی نئی برائیوں کا اضافہ بھی ہورہا ہے۔ پیشِ نظر مضمون میں ہم ایسی ہی ایک نئی خرافات اور برائی کی طرف نشاندہی کرکے اس کی قباحت وشناعت بیان کریں گے، نیز اس بات کی کوشش بھی کریں گے کہ یہ برائی فوراً ختم ہوجائے۔ ان شاءاللہ
محترم قارئین ! معاملہ یہ ہے کہ شہر کی ایک نئی ہوٹل میں بڑے شہروں کی طرح باقاعدہ اسٹیج بناکر گانے باجے کا انتظام کیا گیا ہے۔ جہاں ہر سنڈے کو گانے باجے کا پروگرام رکھا جائے گا اور لوگ کھانا کھاتے ہوئے یا چائے پیتے ہوئے براہ راست سنگروں سے لطف اندوز ہوں گے، بلکہ غالباً ایسے پروگرام منعقد ہو بھی چکے ہیں۔
فی الحال ایک اشتہار بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ اس ہوٹل میں باقاعدہ تھرٹی فرسٹ کو سلیبریٹ کیا جائے گا۔ جس کے لوازمات میں یہ ہے کہ اس وقت یہاں ٩٠ کی دہائی کی ہندی فلموں کے گانے گائے اور بجائے جائیں گے اور آتش بازی کے ذریعے نئے سال کا ویلکم کیا جائے گا۔ اور بڑے فخر سے اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ مالیگاؤں میں پہلی بار۔ جبکہ اس ہوٹل کے مالکان (جو کہ مسلمان ہیں) کو معلوم ہونا چاہیے کہ خدانخواستہ خدانخواستہ خدانخواستہ اگر یہ برائی ہمارے شہر میں شروع ہوگئی اور شروع کرنے والوں نے توبہ و استغفار کرکے اسے بند نہیں کیا تو بعد میں شروع کرنے والوں کا گناہ بھی ان کے کھاتے میں بھی آئے گا۔ کیونکہ دوسروں کو برائی کی طرف رہنمائی کرنے کا کام انہیں نے کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ۔
ترجمہ : اور جو کلام میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ جبکہ وہ اس کتاب (یعنی تورات) کی تصدیق بھی کررہا ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ (سورہ بقرہ، آیت : ٤١)
(اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ) کافر ہونا خواہ سب سے پہلے ہو یا بعد میں بہرحال انتہائی ظلم اور جرم ہے مگر اس آیت میں یہ فرمایا کہ پہلے کافر نہ بنو اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جو شخص اول کفر اختیار کرے گا تو بعد میں اس کو دیکھ کر جو بھی کفر میں مبتلا ہوگا اس کا وبال جو اس شخص پر پڑے گا اس پہلے کافر پر بھی اس کا وبال آئے گا اس طرح یہ پہلا کافر اپنے کفر کے علاوہ بعد کے لوگوں کے کفر کا سبب بن کر ان سب کے وبال کفر کا بھی ذمہ دار ٹھہرے گا اور اس کا عذاب چند در چند ہوجائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دنیا میں دوسروں کے لئے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے مبتلائے گناہ ہوں گے ان سب کا گناہ ان لوگوں کو بھی ہوگا اور اس شخص کو بھی، اسی طرح جو شخص دوسروں کے لئے کسی نیکی کا سبب بن جائے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے نیک عمل کریں گے اس کا ثواب جیسا ان لوگوں کو ملے گا ایسا ہی اس شخص کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا قرآن مجید کی متعدد آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث میں یہ مضمون بار بار آیا ہے۔ (معارف القرآن)
لہٰذا ہماری ہوٹل مالکان سے مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ کے لیے یہ ظلم نہ کریں، پہلی فرصت میں یہ ناجائز اور حرام کام اپنی ہوٹل سے ختم کریں۔ شریعت کے اصولوں کے مطابق تجارت کریں، ان شاء اللہ بہت برکت ہوگی، شہر کے حالات ویسے ہی کافی خراب ہیں، نوجوانوں کی خرمستیاں عروج پر ہیں، انہیں مزید گناہ کے مواقع فراہم نہ کریں۔ اسی طرح اثر ورسوخ رکھنے والے شہریان سے بھی گذارش ہے کہ وہ ہوٹل مالکان کو سنجیدگی سے سمجھائیں، امید ہے کہ وہ اس سے باز آجائیں گے۔
اخیر میں نئے سال کا جشن منانے سے متعلق یہ بات بھی سمجھ لیں کہ یہ مسلمانوں کا طرز عمل نہیں ہے بلکہ غیرمسلموں کا طریقہ ہے جو ناجائز اور گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی حماقت کی بات ہے۔ اور اس بے وقوفی کو اس مثال کے ذریعے سمجھ لیا جائے کہ دنیا میں ہونے والے امتحانات کے درمیان اگر طلبہ کو تین دن کی تعطیل ملتی ہے تو عقلمند اور ہوشیار طلبہ اسے بڑی غنیمت جانتے ہیں اور اس پورے وقت کو امتحان کی تیاری میں صَرف کرتے ہیں، اب اگر کوئی طالب علم ان میں سے ایک ایک دن کے گزرنے پر جشن اور خوشی منائے تو بلاشبہ اسے احمق ہی کہا جائے گا۔ کیونکہ اپنے امتحان کو بہتر سے بہتر بنانے کا وقت گزر رہا ہے اور یہ بے وقوف خوشی منا رہا ہے۔ تو پھر ہمیشہ ہمیش کی آخرت بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو مقررہ وقت دیا ہے اس کے کم ہونے پر جشن منانا اعلی درجہ کی حماقت میں شمار ہوگا۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ Happy New year کی پارٹیوں کا انعقاد کرنے اور اس میں شرکت کرنے سے اجتناب کریں۔ نیز اس طرح کی پارٹیوں کو دور سے دیکھنے جانے کی بھی بے وقوفی نہ کریں کیونکہ یہ عمل بھی کسی نہ کسی درجہ میں ان کے لیے تقویت کا سبب بنے گا۔ بلکہ اپنے سابقہ اعمال کا جائزہ لے کر برے اعمال سے توبہ اور نیک اعمال میں اضافہ کی کوشش کریں۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو کہنے سننے اور لکھنے پڑھنے سے زیادہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین