*لقطہ (گری پڑی چیز) کا حکم*
سوال :
مفتی صاحب ! زید کو سات روز پہلے ایک ہاتھ گھڑی ملی ہے۔ بلیک بورڈ کے ذریعے سے جسکا اعلان بھی ہوا ہے۔ اور ابھی تک گھڑی کو لینے کے لیے کوئی آیا نہیں ہے۔ اب اُس ملی ہوئی گھڑی کو زید کیا کرے؟ رہنمائی فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ نعیم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں زید کو ملنے والی گھڑی لُقطہ کے حکم میں ہے، لہٰذا زید کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی تشہیر کرے، اگر اس کا مالک مل جائے تو اسے اس کی چیز لوٹادے، لیکن اگر مالک نہ مل سکے، اور زید کو غالب گمان ہوجائے کہ مالک نے اپنی گھڑی کو تلاش کرنا چھوڑ دیا ہوگا یا مالک کے ملنے کی توقع نہ رہے تو دو لوگوں کو گواہ بناکر اس گھڑی کو فروخت کردے اور اس کی قیمت یا گھڑی ہی اصل مالک کی طرف سے کسی غریب کو صدقہ کردے، اور اگر زید مستحق (غیر صاحب نصاب) ہوتو وہ خود بھی رکھ سکتا ہے، البتہ صدقہ کرنے کے بعد مالک واپس آجائے تو اسے اختیار ہے چاہے اپنی قیمت کا مطالبہ کرے یا صدقہ کا ثواب لے لے، قیمت کے مطالبہ پر اسے گھڑی کی قیمت واپس کی جائے گی، اس صورت میں صدقہ کا ثواب زید کو ملے گا جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے گری ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : گری ہوئی چیز کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے، جو شخص اس کو اٹھالیتا ہے وہ ایک سال تک اس کا اعلان کرے گا، اگر اس کا مالک آجاتا ہے، تو وہ اسے لوٹادے گا، اگر اس کا مالک نہیں آتا تو وہ اسے صدقہ کردے گا۔ اور اگر پھر اس کا مالک آجاتا ہے، تو وہ اسے اس کی چیز یا اس کی مانند دوسری چیز کے بارے میں اختیار دے گا۔
خوب یاد رکھنا چاہیے کہ لقطہ نعمتِ غیر مترقبہ نہیں ہوتا، کیونکہ بعض حضرات اسے اللہ تعالٰی کی طرف سے مدد اور اپنا حق سمجھ کر اٹھا لیتے ہیں اور خود اس کا استعمال کرلیتے ہیں، اگر اٹھانے والا صاحب نصاب ہے تو اس کے لئے اس چیز کا استعمال قطعاً جائز نہیں ہے۔
اسی طرح یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ لقطہ صدقہ واجبہ میں سے ہے، لہٰذا اس کا مصرف مساجد نہیں ہیں، بلکہ مستحقین زکوٰۃ مسلمان ہیں، بعض حضرات لاعلمی کی وجہ سے لقطہ کی رقم مسجد میں دے دیتے ہیں جو جائز نہیں ہے، لہٰذا اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ فَقَالَ لاَ تَحِلُّ اللُّقَطَةُ مَنِ الْتَقَطَ شَيْئًا فَلْيُعَرِّفْهُ سَنَةً فَإِنْ جَاءَهُ صَاحِبُهَا فَلْيَرُدَّهَا إِلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَأْتِ صَاحِبُهَا فَلْيَتَصَدَّقْ بِهَا وَإِنْ جَاءَ فَلْيُخَيِّرْهُ بَيْنَ الأَجْرِ وَبَيْنَ الَّذِى لَهُ۔ (سنن دارقطنی : رقم : ٤٣٠٩)
ثُمَّ بَعْدَ تَعْرِيفِ الْمُدَّةِ الْمَذْكُورَةِ الْمُلْتَقِطُ مُخَيَّرٌ بَيْنَ أَنْ يَحْفَظَهَا حِسْبَةً وَبَيْنَ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَمْضَى الصَّدَقَةَ يَكُونُ لَهُ ثَوَابُهَا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۲/٢٨٩)
وإن کان الملتقط غنیا لم یجز لہ أن ینتفع بہا … و إن کان الملتقط فقیرا فلا بأس بأن ینتفع بہا۔ (ہدایہ، کتاب اللقطۃ، اشرفی، ۲/۶۱۷)
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 جمادی الاول 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں