جمعرات، 30 جون، 2022

عشرہ ذی الحجہ اور عرفہ کے روزے کی فضیلت

سوال :

مفتی صاحب! ذی الحجہ کے روزوں کی کیا فضیلت ہے، اسی طرح صرف یوم العرفہ کے روزے کی کوئی خاص فضیلت ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر فراز، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ذوالحجہ کا پہلا عشرہ بڑی فضیلت کا حامل ہے۔ ان ایام میں نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان دنوں میں کی گئی ہر قسم کی عبادت کا اجر وثواب دیگر ایام کی بہ نسبت بڑھ جاتا ہے، خواہ یہ عبادات ذکر و اذکار کی صورت میں ہوں، یا نماز اور روزوں کی صورت میں ہوں۔ اس سلسلے میں جو احادیث ملتی ہیں انہیں ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گئے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کیے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! اگر ان دس دنوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! تب بھی اِن ہی اَیام کا عمل زیادہ محبوب ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان و مال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیا تو یہ افضل ہے)۔ (١)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔ (٢)

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے۔ (٣)

ذکر کردہ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ذوالحجہ کے پہلے آٹھ دنوں میں سے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اجر رکھتا ہے، اور یومِ عرفہ (9 ذوالحجہ) کے روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد یعنی دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

١) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَيْئٍ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٧٥٧)

٢) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَی اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ کُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْر۔ (سنن الترمذی، رقم : ٧٥٨)

٣) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَی اللَّهِ أَنْ يُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٧٤٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ذی القعدہ 1443

بدھ، 29 جون، 2022

چوہے اور گھونس کو کس طرح مارا جائے؟

سوال :

مفتی صاحب ! چوہا، گُھونس وغیرہ مارنا کیسا ہے؟ کچھ لوگ گرم پانی (کھولتا ہوا) ڈال کر مارتے ہیں تو کچھ لوگ پتھر سے مارتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں جسکی وجہ سے وہ دوبارہ گھروں میں آجاتے ہیں ایسا کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : محمد حاشر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : چوہے اور گھونس کے ضرر سے بچنے کی ان کو مارنے کے علاوہ اور کوئی صورت باقی نہ ہو مثلا ًجنگل وغیرہ میں لیجانے یا کسی جگہ چھوڑنے سے بھی ان کی ایذا سے بچنا ممکن نہ ہوتو انہیں اس طرح مارا جائے کہ ان کی جان فوراً نکل جائے، وہ تڑپ تڑپ کر نہ مریں، مثلاً انہیں گولی بھی مار دی جائے یا کسی نوکدار ہتھیار یا پتھر سے انہیں کم سے کم وار میں قتل کردیا جائے، اسی طرح انہیں تیز زہر وغیرہ بھی دیا جاسکتا ہے جس سے ان کی جان آسانی کے ساتھ نکل جائے اور جان نکلنے میں زیادہ تکلیف نہ ہو۔ ان پر گرم پانی ڈالنا چونکہ جلانے کی قبیل سے ہے، اور اس میں فوراً جان نہیں نکلے گی، لہٰذا اس طرح انہیں مارنے سے بچنا چاہیے۔

يَجُوزُ (فَصْدُ الْبَهَائِمِ وَكَيُّهَا وَكُلُّ عِلَاجٍ فِيهِ مَنْفَعَةٌ لَهَا وَجَازَ قَتْلُ مَا يَضُرُّ مِنْهَا كَكَلْبٍ عَقُورٍ وَهِرَّةٍ) تَضُرُّ (وَيَذْبَحُهَا) أَيْ الْهِرَّةَ (ذَبْحًا) وَلَا يَضُرُّ بِهَا لِأَنَّهُ لَا يُفِيدُ، وَلَا يُحْرِقُهَا۔ (الدر المختار، ٦/٧٥٢)

الْهِرَّةُ إذَا كَانَتْ مُؤْذِيَةً لَا تُضْرَبُ وَلَا تُعْرَكُ أُذُنُهَا بَلْ تُذْبَحُ بِسِكِّينٍ حَادٍّ كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ۔ (الفتاوى الهندية، ٥/٣٦١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ذی القعدہ 1443

پیر، 27 جون، 2022

جرسی جانور کی قربانی کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ جرسی جانور کا گوشت کھانا اور اس کی قربانی کرنا کیسا ہے؟ بہت سے لوگ منع کرتے ہیں، آپ شرعی دلائل کی روشنی میں مسئلہ واضح فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ حسان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جانوروں سے متعلق فقہاء کے یہاں ایک قاعدہ ہے کہ "الولد یتبع الام" یعنی بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے، جوحکم ماں کا ہوگا وہی بچہ کا بھی ہوگا، مثلاً بکری کے رحم میں کسی دوسرے جانور کا نطفہ بذریعہ انجکشن پہنچایا جاتا ہے اور اس سے بچے کی ولادت ہوتی ہے، تو اُسے بکری کا بچہ ہی کہا جائے گا، اور اسکا دودھ پینا اور گوشت کھانا حلال ہوگا۔

جرسی گائے میں چونکہ بیل کا نطفہ بذریعہ انجکشن گائے کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے اور اس سے بچے کی ولادت ہوتی ہے۔ لہٰذا اُسے گائے کا بچہ ہی کہا جائے گا، اور جب اسے گائے کا بچہ ہی کہا جائے گا تو اس کی قربانی بھی درست ہوگی۔ البتہ قربانی چونکہ ایک عظیم عبادت ہے۔ اور اس کے لیے جب غیر مشتبہ جانور بآسانی دستیاب ہوسکتے ہوں، تو اس قسم کے مشتبہ جانور کی قربانی سے بچنا بہتر ہوگا۔

لِأَنَّ الْمُعْتَبَرَ فِي الْحِلِّ وَالْحُرْمَةِ الْأُمُّ فِيمَا تَوَلَّدَ مِنْ مَأْكُولٍ وَغَيْرِ مَأْكُولٍ۔ (شامی : ٣٠٥)

وَلَا يَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيّ شَيْءٌ مِنْ الْوَحْشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مُتَوَلَّدًا مِنْ الْوَحْشِيِّ وَالْإِنْسِيِّ فَالْعِبْرَةُ لِلْأُمِّ، فَإِنْ كَانَتْ أَهْلِيَّةً تَجُوزُ وَإِلَّا فَلَا، حَتَّى لَوْ كَانَتْ الْبَقَرَةُ وَحْشِيَّةً وَالثَّوْرُ أَهْلِيًّا لَمْ تَجُزْ، وَقِيلَ: إذَا نَزَا ظَبْيٌ عَلَى شَاةٍ أَهْلِيَّةٍ، فَإِنْ وَلَدَتْ شَاةً تَجُوزُ التَّضْحِيَةُ، وَإِنْ وَلَدَتْ ظَبْيًا لَا تَجُوزُ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٢٩٧)

لِيُعْلَمَ أَنَّ حُكْمَ الْوَلَدِ حُكْمُ أُمِّهِ فِي الْحِلِّ وَالْحُرْمَةِ دُونَ الْفَحْلِ.. فَلَوْ كَانَتْ أُمُّهُ حَلَالًا لَكَانَ هُوَ حَلَالًا أَيْضًا؛ لِأَنَّ حُكْمَ الْوَلَدِ حُكْمُ أُمِّهِ؛ لِأَنَّهُ مِنْهَا وَهُوَ كَبَعْضِهَا۔ (بدائع الصنائع : ٥/٣٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی القعدہ 1443

ہفتہ، 25 جون، 2022

اتی کرمن مخالف کارروائی

متاثرین اور انتظامیہ سے چند گذارشات


✍️ مفتی محمد عامرعثمانی ملی

   (امام و خطیب مسجد کوہ نور)


قارئین کرام! ہر سال کی طرح امسال شہر میں اتی کرمن ہٹاؤ مہم شدت کے ساتھ جاری کردی گئی ہے۔ چنانچہ اسے دیکھتے ہوئے کچھ سنجیدہ، فکرانگیز اور مفید باتیں اتی کرمن کرنے والوں اور انتظامیہ سے اس مضمون کے توسط سے کرنا چاہتے ہیں، اور دعا کرتے ہیں کہ شاید کسی دل میں اتر جائے ہماری بات۔


محترم قارئین! متاثرین یعنی جن لوگوں نے سڑکوں پر اتی کرمن کر رکھا ہے ان تمام افراد سے مؤدبانہ مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرلیں کہ اتی کرمن اور سڑکوں پر قبضہ کرلینا شرعاً ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔ اور اگر اس سے راستہ چلنے والوں کو تکلیف ہورہی ہے تو اس پر دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا گناہ الگ ہوگا۔ یعنی یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس عمل پر احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔


حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذاء) سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے کہ جس سے لوگ اپنے جان و مال کا اطمینان رکھیں۔ (سنن نسائی)


ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : اے لوگو! جو محض زبان سے ایمان لائے اور یہ ایمان دل تک نہیں پہنچا، مسلمانوں کو تکلیف مت دو ،جو اپنے بھائی کی عزت کے درپے ہوگا تو اللہ اس کے درپے ہوگا اور اسے ذلیل کردے گا، خواہ وہ محفوظ جگہ چھپا ہوا ہو۔ (جامع المسانید والمراسیل، رقم: ۶۹۳۷۲)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو لعنت کرنے والوں (یعنی اپنے لیے لعنت کا سبب بننے والے دوکاموں) سے بچو، صحابہ نے دریافت کیا یہ دونوں کام کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو راستہ یا وہاں موجود سایہ میں ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔ (مسلم)


حضرت سہل بن معاذ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو لوگوں نے خیمے لگانے میں راستہ کی جگہ تنگ کردی، اور عام گذر گاہ کو بھی نہ چھوڑا، اللہ کے رسول کو اس صورتحال کا پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستہ میں خیمہ لگائے تو اس کا جہاد (قبول) نہیں ہے۔ (ابوداؤد)


ان احادیث کو ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس عمل کی سنگینی کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ دوسروں کو تکلیف دے کر اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے جو روزی کمائی جائے گی اس میں برکت کہاں سے ہوگی؟ اور یہ بات قسم کھا کر کہی جاسکتی ہے کہ جتنا آپ حضرات اتی کرمن کرکے کماتے ہیں اگر اتی کرمن نہ کرتے ہوئے صرف اپنی اصل اور خاصگی جگہ پر تجارت اور کاروبار کریں تب بھی آپ کو ان شاءاللہ اتنی روزی مل کر رہے گی اور اگر خدانخواستہ شروعات میں منجانب اللہ آزمائش کی وجہ سے کچھ کمی بھی ہوئی تو ان شاء اللہ اس میں ضرور ایسی برکت ہوگی کہ آپ کی ضروریات پوری ہوجائیں گی، بس اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور توکل رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سال پھر اتی کرمن مخالف دستہ کی طرف سے آپ کی محنت کی کمائی سے غلط جگہ یعنی اتی کرمن پر بنائے ہوئے اوٹے، کھوکھے، زینے، آگے نکالے ہوئے پترے توڑے جائیں گے، آپ کا مال بڑی مقدار میں ضائع ہوگا۔ چنانچہ اس پر ہماری آپ سے عاجزانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توبہ اور تلافی کا ایک اور موقع دیا ہے۔ لہٰذا اب اللہ کے لیے باز آجائیں اتی کرمن کرکے دوسروں کو تکلیف دے کر اپنی آخرت برباد کرنے کے ساتھ ساتھ خود اپنی حلال روزی کو بے برکت کرنے کا سبب نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔


انتظامیہ سے یہ درخواست ہے کہ وہ صرف توڑ پھوڑ میں دلچسپی نہ لے۔ بلکہ مستقبل میں اس طرح کا اتی کرمن نہ ہو اس کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔ اس مہم کے بعد بھی مستقل ناجائز قبضہ جات پر نظر رکھی جائے۔ جن سڑکوں پر گٹریں نہیں ہیں وہاں فوری طور پر گٹریں بنوائی جائیں، گٹریں نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں بہت جلد خراب ہوجاتی ہیں، سڑکوں کو مکمل تعمیر کیا جائے، سڑکوں کی دونوں جانب تین تا پانچ فٹ چھوڑ کر سڑکیں تعمیر کی جاتی ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ سڑک یہیں تک ہے۔ لہٰذا بقیہ جگہ اتی کرمن کی نذر ہوجاتی ہے۔ سڑکیں چوڑی ہوں تو بجلی کے کھمبوں کو سڑک کے بالکل درمیان میں لگایا جائے یا پھر بالکل کنارے پر لگایا جائے، کھمبوں کو سڑک کے بالکل کنارے نہ لگاتے ہوئے کچھ آگے لگانے کی صورت میں یہ کھمبے بھی اتی کرمن میں معاون بنتے ہیں اور کھمبوں تک اتی کرمن کرنے کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا ان تمام باتوں پر توجہ دے کر اس پر عمل کیا جائے تب ہی اتی کرمن مخالف مہم کامیاب اور فائدہ مند ہوسکتی ہے، ورنہ ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ مہم چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ثابت ہوگی۔


اللہ تعالیٰ ہم سب کو دوسروں کو تکلیف پہنچانے والے عمل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو ایک دوسرے کے حق میں مفید بنائے اور ہمارے شہر کو اتی کرمن کی وبا سے پاک فرمائے۔ آمین



بدھ، 22 جون، 2022

دوسروں کی طرف سے عمرہ کرنے کا حکم اور اس کا طریقہ

سوال :

محترم مفتی صاحب! کیا دوسروں کی طرف سے عمرہ کرسکتے ہیں؟ اور اس کا طریقہ کیا ہے؟ آسان انداز میں رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد حامد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عمرہ دوسروں کی طرف سے کرنا درست ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ۔ اور اس کے دو طریقے بیان کیے گئے ہیں۔

پہلا طریقہ یہ ہے کہ جس کی طرف سے عمرہ کرنا ہو احرام باندھتے وقت اس کی طرف سے احرام باندھنے کی نیت کرے، اور تلبیہ بھی اس کی طرف سے پڑھے۔ اس کے بعد بقیہ اعمال معمول کے مطابق انجام دے۔

دوسرے یہ کہ عمرہ اپنی طرف سے ادا کرے اور اس کا ثواب دوسرے کو ہدیہ کردے، یعنی اس طرح نیت کرلے کہ اے اللہ میں نے یہ جو عمرہ کیا ہے یا کروں گا اس کا ثواب فلاں فلاں کو عطا فرما۔ اس صورت میں احرام وتلبیہ میں نیت اپنی ہی کرے گا۔

الْأَصْلُ أَنَّ كُلَّ مَنْ أَتَى بِعِبَادَةٍ مَا،لَهُ جَعْلُ ثَوَابِهَا لِغَيْرِهِ وَإِنْ نَوَاهَا عِنْد الْفِعْلِ لِنَفْسِهِ لِظَاهِرِ الْأَدِلَّةِ.... (قَوْلُهُ بِعِبَادَةٍ مَا) أَيْ سَوَاءٌ كَانَتْ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةً أَوْ ذِكْرًا أَوْ طَوَافًا أَوْ حَجًّا أَوْ عُمْرَةً، أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ زِيَارَةِ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وَالشُّهَدَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ وَالصَّالِحِينَ، وَتَكْفِينِ الْمَوْتَى، وَجَمِيعِ أَنْوَاعِ الْبِرِّ كَمَا فِي الْهِنْدِيَّةِ ط وَقَدَّمْنَا فِي الزَّكَاةِ عَنْ التَّتَارْخَانِيَّة عَنْ الْمُحِيطِ الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ..... (قَوْلُهُ لِغَيْرِهِ) أَيْ مِنْ الْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ بَحْرٌ عَنْ الْبَدَائِعِ. قُلْت: وَشَمَلَ إطْلَاقُ الْغَيْرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ أَرَ مَنْ صَرَّحَ بِذَلِكَ مِنْ أَئِمَّتِنَا، وَفِيهِ نِزَاعٌ طَوِيلٌ لِغَيْرِهِمْ۔ (شامی : ٢/٥٩٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی القعدہ 1443

منگل، 21 جون، 2022

تنہا نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! اگر کوئی شخص اپنی انفرادی فرض نماز پڑھ رہا ہو تو کیا اُسکے اُوپر ہاتھ کے اشارے سے بتا کر امام مان کر جماعت کی شکل دی جا سکتی ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عبدالرقيب، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہوتو اس کی اقتداء اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ بھی وہی نماز ادا کررہا ہو جو بعد میں آنے والے کو ادا کرنا ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بعد میں آنے والا اسے اشارہ کرکے اس کی اقتداء کرسکتا ہے۔ اور پہلے شخص نے اگر وہیں سے امامت کی نیت کرلی تو جہری نماز یعنی فجر، مغرب اور عشاء میں اس کے لیے جہراً قرأت کرنا ضروری ہوگا۔ اور اگر اس نے امامت کی نہیں تو پھر اس پر جہراً قرأت کرنا ضروری نہیں۔ نیز اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ یہ نماز مسجد کی شرعی حدود میں پہلی جماعت کی ادائیگی کے بعد نہ ہورہی ہو۔ کیونکہ مسجد کی شرعی حدود میں ایک سے زائد جماعت کرنا مکروہ ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے درج ذیل لنک سے جواب ملاحظہ فرمائیں۔

مسجد کے صحن میں جماعتِ ثانیہ کا حکم

ولا يَصِحُّ الِاقْتِداءُ بِإمامٍ إلّا بِنِيَّةٍ وتَصِحُّ الإمامَةُ بِدُونِ نِيَّتِها۔ (الأشباہ والنظائر : ١٨)

ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإقامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الانفراد فاقتدیٰ بہ یجوز۔ (حلبي کبیر : ۲۵۱)

ائْتَمَّ بِهِ بَعْدَ الْفَاتِحَةِ، يَجْهَرُ بِالسُّورَةِ إنْ قَصَدَ الْإِمَامَةَ وَإِلَّا فَلَا يَلْزَمُهُ الْجَهْرُ (فِي الْفَجْرِ وَأُولَى الْعِشَاءَيْنِ أَدَاءً وَقَضَاءً وَجُمُعَةٍ وَعِيدَيْنِ وَتَرَاوِيحَ وَوِتْرٍ بَعْدَهَا)  أَيْ فِي رَمَضَانَ فَقَطْ لِلتَّوَارُثِ۔ (شامی : ١/٥٣٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ذی القعدہ 1443

پیر، 20 جون، 2022

مسبوق کی اقتداء کرنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب ! بعد میں آنے والا شخص مکمل ہو چکی جماعت میں آخر کے کسی نمازی کو جو کہ اپنی باقی رکعتیں پوری کر رہا ہو، تو کیا اسے امام مان کر يا بنا کر جماعت کی شکل دی جا سکتی ہے؟
(المستفتی : عبدالرقيب، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے یہاں مسبوق یعنی جو پہلے کسی امام کی اقتداء میں اپنی کوئی رکعت ادا کرچکا ہو اور اپنی بقیہ رکعتیں ادا کررہا ہو اس کی اقتداء کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ خود سابق امام کا مقتدی ہے۔ لہٰذا حنفی مسلک کے مقلد کو چاہئے کہ یا تو خود امامت کرے یا دیکھ بھال کر ایسے شخص کی اقتداء کرے جو مسبوق نہ ہو، اور وہی نماز پڑھ رہا ہو جو اس حنفی شخص کو پڑھنی ہے۔


عن أبي ہریرۃ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن۔ (سنن أبي داؤد رقم : ۵۱۷)

الحنفیۃ قالوا : لا یصح الإقتداء بالمسبوق سواء أدرک مع إمامہ رکعۃ أو أقل منہا۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعۃ : ١/٣٧٥)

وَحَاصِلُهُ أَنَّ اتِّحَادَ الصَّلَاتَيْنِ شَرْطٌ لِصِحَّةِ الِاقْتِدَاءِ؛ لِأَنَّ الِاقْتِدَاءَ شَرِكَةٌ وَمُوَافَقَةٌ فَلَا يَكُونُ ذَلِكَ إلَّا بِالِاتِّحَادِ وَذَلِكَ بِأَنْ يُمْكِنَهُ الدُّخُولُ فِي صَلَاتِهِ بِنِيَّةِ صَلَاةِ الْإِمَامِ فَتَكُونُ صَلَاةُ الْإِمَامِ مُتَضَمِّنَةً لِصَلَاةِ الْمُقْتَدِي وَهُوَ الْمُرَادُ بِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - ضَامِنٌ أَيْ تَتَضَمَّنُ صَلَاتُهُ صَلَاةَ الْمُقْتَدِي۔ (تبیین الحقائق : ١/١٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ذی القعدہ 1443

سڑکوں پر نماز جنازہ پڑھنے کا حکم اور اس کا طریقہ

سوال :

نماز جنازہ، جنازہ ہال میں پڑھنا ضروری ہے یا کسی دوسری جگہ مثلاً سڑکوں پر بھی نماز جنازہ ادا کرسکتے ہیں؟ مکمل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز جنازہ، جنازہ ہال میں پڑھنا ضروری نہیں، بلکہ ہر پاک جگہ نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا گلی محلہ کی سڑکوں پر اگر بظاہر کوئی نجاست نظر نہ آرہی ہوتو یہاں بھی نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔

سڑکوں اور راستوں کی پاکی اور ناپاکی کے سلسلے میں یہ ضابطہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ان پر کوئی نجاست لگ جائے اور وہ خشک ہوجائے، نیز اس کا اثر یعنی اس کا رنگ و بو جاتا رہے تو زمین پاک سمجھی جائے گی اور اس پر نماز پڑھنا درست ہوگا۔

تاہم سڑکوں پر نماز جنازہ پڑھنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جوتا، چپل پیروں سے اتار کر جوتے، چپل کے اوپر کے حصہ پر پیر رکھ کر نماز جنازہ پڑھی جائے۔ ایسی صورت میں اگر زمین یا جوتے، چپل میں بھی ناپاکی لگی ہوئی ہوگی تب بھی نماز کے صحیح ہونے میں شکوک و شبہات باقی نہیں رہیں گے، اس لئے کہ ایسے جوتے، چپل پہن کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی جن کے نیچے ناپاکی لگی ہوتی ہے، لیکن اس طرح ناپاکی لگے ہوئے جوتے، چپل کو پیروں سے اتار کر پھر اس کے اوپر کا حصہ جو پاک ہے اس پر پیر رکھ کر نماز جنازہ پڑھنے سے نماز درست ہوجاتی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : كُنْتُ أَبِيتُ فِي الْمَسْجِدِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْتُ فَتًى شَابًّا عَزَبًا، وَكَانَتِ الْكِلَابُ تَبُولُ وَتُقْبِلُ وَتُدْبِرُ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَمْ يَكُونُوا يَرُشُّونَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٣٨٢)

وَلَوْ أَصَابَتْ النَّجَاسَةُ الْأَرْضَ فَجَفَّتْ وَذَهَبَ أَثَرُهَا تَجُوزُ الصَّلَاةُ عَلَيْهَا عِنْدَنَا۔ (بدائع الصنائع : ١/٨٥)

وَفِي الْفَيْضِ : طِينُ الشَّوَارِعِ عَفْوٌ وَإِنْ مَلَأَ الثَّوْبَ لِلضَّرُورَةِ وَلَوْ مُخْتَلِطًا بِالْعَذِرَاتِ وَتَجُوزُ الصَّلَاةُ مَعَهُ۔ (شامی : ١/٣٢٤)

وَلَوْ قَامَ عَلَى النَّجَاسَةِ وَفِي رِجْلَيْهِ نَعْلَانِ أَوْ جَوْرَبَانِ لَمْ تَجُزْ صَلَاتُهُ؛ لِأَنَّهُ قَامَ عَلَى مَكَان نَجِسٍ وَلَوْ افْتَرَشَ نَعْلَيْهِ وَقَامَ عَلَيْهِمَا جَازَتْ الصَّلَاةُ بِمَنْزِلَةِ مَا لَوْ بَسَطَ الثَّوْبَ الطَّاهِرَ عَلَى الْأَرْضِ النَّجِسَةِ وَصَلَّى عَلَيْهِ جَازَ۔ (البحر الرائق : ١/٢٨٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ذی القعدہ 1443

اتوار، 19 جون، 2022

اونٹ کا پیشاب بدن پر ملنے اور پینے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اونٹ کا پیشاب پینا یا ہاتھوں اور چہرے پر لگانا جائز ہے؟ اس سے ناپاکی نہیں ہوگی؟ ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے جس میں ایک قبیلے کے لوگوں کو پیشاب پینے کا حکم دیا گیا تھا، اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : جاوید احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا پیشاب ناپاک ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اونٹ کا پیشاب بھی ناپاک ہے جس کا چہرے پر لگانا اور اس کا پینا قطعاً جائز نہیں ہے۔

سوال نامہ میں جس حدیث شریف کا تذکرہ ہے وہ بخاری شریف سمیت متعدد کتب احادیث میں موجود ہے۔ یہ مکمل حدیث اور اس کی وضاحت ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا کلمہ پڑھا اور عرض کیا : اے اللہ کے نبی !ہم مویشیوں والے تھے، کاشت کاری کرنے والے نہیں تھے۔ اور مدینہ کی آب و ہوا ان لوگوں کو راس نہ آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لیے اونٹوں کا ایک گلہ اور چرواہا دیئے جانے کا حکم دیا کہ ان جانوروں کے ساتھ رہیں اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں، وہ لوگ روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب حرہ کے اطراف میں پہنچے، تو مرتد ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور اونٹوں کو لے بھاگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو ان کے پیچھے چند آدمی بھیجے (جب وہ لوگ پکڑ کر لائے گئے) تو آپ ﷺ نے ان کے متعلق سزا کاحکم دیا، تو ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور ان کے ہاتھ کاٹ دیے گئے اور حرہ کے علاقہ میں چھوڑ دیے گئے، یہاں تک کہ سب کے سب اسی حال میں مرگئے اور جہنم رسید ہوگئے۔ (بخاری)

مذکورہ بالا روایت جس میں اونٹ کے پیشاب پینے کا حکم دیا گیا ہے منسوخ  ہے، پہلے ماکول الحم (جس جانور کو کھایا جاتا ہے) کا پیشاب پاک تھا، بعد میں اس کو ناپاک قرار دے کر اس سے بچنے کا حکم دیا گیا، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ : تم پیشاب سے بچو، کیوں کہ قبر کا اکثر عذاب پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مورخین کی تصریح کے مطابق عرنیین کا واقعہ سن چھ ہجری میں پیش آیا تھا، جب کہ حدیث ’’استنزهوا من البول‘‘ کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سات ہجری میں اسلام قبول کیا ہے، اس لیے ان کی یہ روایت لازماً مذکورہ واقعہ کے بعد ہوگی، لہٰذا یہ روایت اُس واقعہ میں ثابت ہونے والے حکم کے لیے ناسخ ہوگی، نیز نسخ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اسی حدیث میں مذکور ہے کہ آپ نے عرنیین کے مثلہ (ہاتھ پیر کاٹنے) کا حکم دیا، حالاں کہ مثلہ بالاتفاق منسوخ ہے۔ اس لیے یہ حکم بھی منسوخ ہوگا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ پیشاب کا اصل حکم تو یہی ہے کہ وہ ناپاک ہے۔ البتہ کوئی حاذق اور ماہر طبیب یہ کہے کہ تمہاری بیماری کی شفا پیشاب کے پینے میں ہی ہے، تو اس کے کہنے پر پیشاب کا پینا جائز ہوگا، کیونکہ حرام چیز سے یقینی صحت و شفاء کے وقت علاج ومعالجہ جائز ہے۔ اس واقعہ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بہ ذریعہ وحی یہ بات بتلادی گئی تھی کہ اونٹوں کے پیشاب کو پئے بغیر ان کی شفا اور زندگی ممکن نہیں ہے، گویا کہ ان لوگوں پر اضطراری کیفیت طاری ہوگئی تھی، لہٰذا ایسے حالات میں ان کے لیے پیشاب کا پینا جائز تھا۔ اس جواب کو علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب شافی کہا ہے۔

درج بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک پیشاب ناپاک ہے، اور اس کا استعمال تب ہی جائز ہوگا جب مریض کے لئے شفا اسی میں منحصر ہو، عام حالات میں اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَدِمَ رَهْطٌ مِنْ عُكْلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانُوا فِي الصُّفَّةِ، فَاجْتَوَوُا الْمَدِينَةَ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْغِنَا رِسْلًا . فَقَالَ : " مَا أَجِدُ لَكُمْ إِلَّا أَنْ تَلْحَقُوا بِإِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ ". فَأَتَوْهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا حَتَّى صَحُّوا وَسَمِنُوا، وَقَتَلُوا الرَّاعِيَ، وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّرِيخُ، فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ، فَمَا تَرَجَّلَ النَّهَارُ حَتَّى أُتِيَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِمَسَامِيرَ فَأُحْمِيَتْ، فَكَحَلَهُمْ وَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَمَا حَسَمَهُمْ، ثُمَّ أُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ، فَمَا سُقُوا حَتَّى مَاتُوا. قَالَ أَبُو قِلَابَةَ : سَرَقُوا وَقَتَلُوا، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٨٠٤)

الأسئلۃ والأجوبۃ : الأول : لو کانت أبوال الإبل محرمۃ الشرب لما جاز التداوي بہا، لما روی أبو داؤد من حدیث أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا : إن اللّٰہ تعالیٰ لم یجعل شفاء أمتي فیما حرم علیہا؟ وأجیب: بأنہ محمول علی حالۃ الاختیار، وأما حالۃ الاضطرار فلا یکون حرامًا کالمیتۃ للمضطر کما ذکرنا۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ۳؍۱۵۵ تحت رقم : ۲۳۴)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی القعدہ 1443