منگل، 7 جون، 2022

محاورہ "اللہ تعالیٰ کے یہاں دیر ہے، اندھیر نہیں" کہنا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک جملہ کہا جاتا ہے کہ "اللہ تعالیٰ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں" اس کا کہنا کیسا ہے؟ ابھی سننے میں آرہا ہے کہ اس کا کہنا جائز نہیں ہے، بلکہ کفر تک کی بات بھی ہورہی ہے۔ لہٰذا آپ وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد حسان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مشہور محاورہ "اللہ تعالیٰ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں" عوام وخواص دونوں طبقوں میں مستعمل ہے، بلکہ علماء اور مفسرین نے بھی اس محاورے کو اپنی تحریروں میں استعمال کیا ہے۔ کیونکہ اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مہلت ہے بھول نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ مجرموں کو مہلت دیتے ہیں، معاذ اللہ بھول نہیں جاتے کہ ان کی گرفت ہی نہ ہو۔ اور اگر دنیا میں گرفت نہ ہوئی تو بروز حشر تو بہرحال ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ محاورہ اس وقت کہا جاتا جب کسی پر ظلم ہوا ہو۔ یا کسی کی دعائیں قبول نہ ہورہی ہو، یا کسی کو تسلی دینا مقصود ہو۔ لہٰذا شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

مہلت، تاخیر اور انتظار ان کے ہم معنی الفاظ متعدد جگہوں پر قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند دلائل ملاحظہ فرمائیں :

وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ۔
ترجمہ : اور میں ان کو مہلت دیے جاتا ہوں۔ میری تدبیر (بڑی) مضبوط ہے۔ (سورۃ القلم، آیت : ٤٥)

فَمَهِّلِ الْكَافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا۔
ترجمہ: پس کافروں کو تھوڑے دنوں کی مہلت دے دو۔ (سورۃ الطارق، آیت : ١٧)

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ۔
ترجمہ : تو ہرگز خیال نہ کر کہ اللہ ان کاموں سے بے خبر ہے جو ظالم کرتے ہیں انہیں صرف اس دن تک مہلت دے رکھی ہے جس میں نگاہیں پھٹی رہ جائیں گی۔ (سورة ابراہیم، آیت : ٤٢)

بخاری ومسلم میں ہے :
حضرت ابوموسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا " بلاشبہ اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (یعنی دنیا میں اس کی عمر دراز کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ظلم کا پیمانہ لبریز کرے اور آخرت میں سخت عذاب میں گرفتار ہو) یہاں تک کہ جب اس کو پکڑے گا تو چھوڑے گا نہیں (اور وہ ظالم اس کے عذاب سے بچ کر نکل نہیں پائے گا) اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھی۔ (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَا اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ اِنَّ اَخْذَه اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) 11۔ہود : 102)

مؤقر اور جید علماء کرام ومفتیان عظام کے ایک واٹس اپ گروپ میں جب اس محاورہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں سوال ہوا تو تقریباً تمام علماء ومفتیان کا یہی موقف رہا کہ یہ محاورہ کہنا درست ہے۔ شرعاً نہ تو اس میں کوئی قباحت ہے اور نہ ہی کفر والی کوئی بات ہے۔ لہٰذا تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ۔ (سورة النحل، آیت : ٦١)

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى۔ (سورة فاطر، آیت : ٤٥)

عن أبي موسى الأشعري، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال : (إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ )، قَالَ أبي موسى الأشعري : ( ثُمَّ قَرَأَ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ )۔ (متفق عليه - ٤٣٤٣ - ٤٦٨٦ - سورة هود ، رقم ١٠٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ذی القعدہ 1443

1 تبصرہ: