منگل، 7 جون، 2022

حیض ونفاس کی حالت میں طواف زیارت سے متعلق چند اہم سوالات

سوال :

10 ذی الحجہ کو تھکان کی وجہ سے طواف زیارت نہ کرسکے تو 11ذی الحجہ کو کر سکتے ہیں کیا؟ 10 ذوالحجۃ کو عورت حائضہ ہو جائے تو طواف زیارت کب کرے گی؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ حالت حیض میں احرام کی پابندی کی جائے گی یا نہیں؟ جزاک اللہ خیرا
(المستفتی : حافظ خلیل، ناسک)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طوافِ  زیارت  کا وقت دسویں ذو الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوتا ہے اور تاعمر رہتا ہے، البتہ اس کے واجب رہنے کا وقت بارہویں ذی الحجہ کے غروبِ آفتاب تک ہے، اس کے بعد اگر بلاعذر تاخیر ہوئی تو گو کہ فرض ادا ہوجائے گا، مگر ترکِ واجب کی وجہ سے  ایک دم جنایت لازم ہوگا۔ لہٰذا 11 ذو الحجہ طواف زیارت کرنا بلاکراہت درست ہے۔ اگر شرعی عذر (مثلاً حیض یا نفاس) کی وجہ سے طوافِ زیارت میں ایام نحر (بارہ ذو الحجہ کو غروب آفتاب) سے تاخیر ہوئی تو کوئی جنایت لازم نہ ہوگی۔

اگر عورت ایام نحر میں حیض میں مبتلا ہوجائے اور ناپاکی ہی کی حالت میں ایام نحر مکمل گذر جائیں، تو ایسی صورت میں طواف زیارت کو ایام نحر سے موٴخر کرنے کی وجہ سے عورت گنہگار نہ ہوگی، اور نہ ہی اس پر کوئی دم لازم ہوگا، البتہ پاک ہونے کے بعد طواف زیارت کرنا لازم ہے، اور اگر ایامِ نحر گذر جانے کے بعد بھی پاک نہیں ہوئی اور روانگی کا وقت آگیا، اور فلائٹ کا وقت بدلا نہیں جاسکتا تو ایسی مجبوری میں اُسی حالت میں طوافِ زیارت کرلے، اس سے طواف کا فریضہ ادا ہوجائے گا اور جرمانہ میں ایک اونٹ یا گائے یا بھینس کی قربانی واجب ہوگی، جس کی قربانی حدودِ حرم میں کرنا لازم ہوگا۔

احرام کی حالت میں اگر حیض یا نفاس کا عذر لاحق ہوجائے تب بھی احرام کی پابندیاں لاگو ہوں گی۔

واول وقتہ طلوع الفجر الثانی من یوم النحر فلا یصح قبلہ ویمتد وقت صحتہ الی اٰخر العمر لکن یجب فعلہ فی ایام النحر ولیالیہا المتخللۃ بینہما منہا، فلو اخرہ عنہا ولو الی الیوم الرابع الذی ہو اٰخر ایام التشریق ولیلتہ منہ کرہ تحریماً ولزمہ دم وہو الصحیح۔ (غنیۃ الناسک ۱۷۸، درمختار مع الشامی زکریا ۳؍۵۳۸، بدائع الصنائع زکریا ۲؍۳۱۴-۳۱۶)

ولو طاف للزیارة جنباً أو حائضاً أو نفساء کله أوکثره ویقع معتداً به في حق التحلل ویصیر عاصیاً فإن أعاده سقطت عنه البدنة۔ (غنیة الناسک ۲۷۲)

فلا شیء علی الحائض بتاخیرہ اذا لم تطہرالا بعد ایام النحر۔ (غنیۃ الناسک ۱۷۸، ومثلہ فی الولوالجیۃ ۱؍۲۹۱، مناسک علی قاری ۳۵۰، فتاویٰ سراجیۃ ۱۸۸)

(ولو طاف طواف الزیارۃ محدثا فعلیہ شاۃ) ؛ لأنہ أدخل النقص في الرکن فکان أفحش من الأول فیجبر بالدم (وإن کان جنبا فعلیہ بدنۃ) ۔۔۔ وکذا إذا طاف أکثرہ جنبا أو محدثا ؛ لأن أکثر الشيء لہ حکم کلہ۔ (بدائع الصنائع :۲/۳۰۷ ، الدر المختار مع الشامیۃ :۳/۴۱۵)
(نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے:ص/۴۶، حج وعمرہ کے مسائل، دسواں فقہی سمینار، تجویز نمبر:۱۰)
مستفاد : کتاب المسائل، المسائل المھمۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ذی القعدہ 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں