اتوار، 19 جون، 2022

اونٹ کا پیشاب بدن پر ملنے اور پینے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اونٹ کا پیشاب پینا یا ہاتھوں اور چہرے پر لگانا جائز ہے؟ اس سے ناپاکی نہیں ہوگی؟ ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے جس میں ایک قبیلے کے لوگوں کو پیشاب پینے کا حکم دیا گیا تھا، اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : جاوید احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کا پیشاب ناپاک ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اونٹ کا پیشاب بھی ناپاک ہے جس کا چہرے پر لگانا اور اس کا پینا قطعاً جائز نہیں ہے۔

سوال نامہ میں جس حدیث شریف کا تذکرہ ہے وہ بخاری شریف سمیت متعدد کتب احادیث میں موجود ہے۔ یہ مکمل حدیث اور اس کی وضاحت ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کا کلمہ پڑھا اور عرض کیا : اے اللہ کے نبی !ہم مویشیوں والے تھے، کاشت کاری کرنے والے نہیں تھے۔ اور مدینہ کی آب و ہوا ان لوگوں کو راس نہ آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لیے اونٹوں کا ایک گلہ اور چرواہا دیئے جانے کا حکم دیا کہ ان جانوروں کے ساتھ رہیں اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں، وہ لوگ روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب حرہ کے اطراف میں پہنچے، تو مرتد ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور اونٹوں کو لے بھاگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو ان کے پیچھے چند آدمی بھیجے (جب وہ لوگ پکڑ کر لائے گئے) تو آپ ﷺ نے ان کے متعلق سزا کاحکم دیا، تو ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور ان کے ہاتھ کاٹ دیے گئے اور حرہ کے علاقہ میں چھوڑ دیے گئے، یہاں تک کہ سب کے سب اسی حال میں مرگئے اور جہنم رسید ہوگئے۔ (بخاری)

مذکورہ بالا روایت جس میں اونٹ کے پیشاب پینے کا حکم دیا گیا ہے منسوخ  ہے، پہلے ماکول الحم (جس جانور کو کھایا جاتا ہے) کا پیشاب پاک تھا، بعد میں اس کو ناپاک قرار دے کر اس سے بچنے کا حکم دیا گیا، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ : تم پیشاب سے بچو، کیوں کہ قبر کا اکثر عذاب پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مورخین کی تصریح کے مطابق عرنیین کا واقعہ سن چھ ہجری میں پیش آیا تھا، جب کہ حدیث ’’استنزهوا من البول‘‘ کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سات ہجری میں اسلام قبول کیا ہے، اس لیے ان کی یہ روایت لازماً مذکورہ واقعہ کے بعد ہوگی، لہٰذا یہ روایت اُس واقعہ میں ثابت ہونے والے حکم کے لیے ناسخ ہوگی، نیز نسخ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اسی حدیث میں مذکور ہے کہ آپ نے عرنیین کے مثلہ (ہاتھ پیر کاٹنے) کا حکم دیا، حالاں کہ مثلہ بالاتفاق منسوخ ہے۔ اس لیے یہ حکم بھی منسوخ ہوگا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ پیشاب کا اصل حکم تو یہی ہے کہ وہ ناپاک ہے۔ البتہ کوئی حاذق اور ماہر طبیب یہ کہے کہ تمہاری بیماری کی شفا پیشاب کے پینے میں ہی ہے، تو اس کے کہنے پر پیشاب کا پینا جائز ہوگا، کیونکہ حرام چیز سے یقینی صحت و شفاء کے وقت علاج ومعالجہ جائز ہے۔ اس واقعہ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بہ ذریعہ وحی یہ بات بتلادی گئی تھی کہ اونٹوں کے پیشاب کو پئے بغیر ان کی شفا اور زندگی ممکن نہیں ہے، گویا کہ ان لوگوں پر اضطراری کیفیت طاری ہوگئی تھی، لہٰذا ایسے حالات میں ان کے لیے پیشاب کا پینا جائز تھا۔ اس جواب کو علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب شافی کہا ہے۔

درج بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک پیشاب ناپاک ہے، اور اس کا استعمال تب ہی جائز ہوگا جب مریض کے لئے شفا اسی میں منحصر ہو، عام حالات میں اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَدِمَ رَهْطٌ مِنْ عُكْلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانُوا فِي الصُّفَّةِ، فَاجْتَوَوُا الْمَدِينَةَ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْغِنَا رِسْلًا . فَقَالَ : " مَا أَجِدُ لَكُمْ إِلَّا أَنْ تَلْحَقُوا بِإِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ ". فَأَتَوْهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا حَتَّى صَحُّوا وَسَمِنُوا، وَقَتَلُوا الرَّاعِيَ، وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّرِيخُ، فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ، فَمَا تَرَجَّلَ النَّهَارُ حَتَّى أُتِيَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِمَسَامِيرَ فَأُحْمِيَتْ، فَكَحَلَهُمْ وَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَمَا حَسَمَهُمْ، ثُمَّ أُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ، فَمَا سُقُوا حَتَّى مَاتُوا. قَالَ أَبُو قِلَابَةَ : سَرَقُوا وَقَتَلُوا، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٨٠٤)

الأسئلۃ والأجوبۃ : الأول : لو کانت أبوال الإبل محرمۃ الشرب لما جاز التداوي بہا، لما روی أبو داؤد من حدیث أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا : إن اللّٰہ تعالیٰ لم یجعل شفاء أمتي فیما حرم علیہا؟ وأجیب: بأنہ محمول علی حالۃ الاختیار، وأما حالۃ الاضطرار فلا یکون حرامًا کالمیتۃ للمضطر کما ذکرنا۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ۳؍۱۵۵ تحت رقم : ۲۳۴)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی القعدہ 1443

2 تبصرے: