بدھ، 31 جولائی، 2024

کرسی پر کون نماز پڑھ سکتا ہے؟


سوال :

مفتی صاحب کرسی پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اور کس درجے کی تکلیف یا کنڈیشن پر نماز کرسی پر پڑھنے کی اجازت ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالواجد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے، لیکن وہ کرسی پر بیٹھنے کی قدرت رکھتا ہے، تو ایسی انتہائی مجبوری کی حالت میں کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، مثلاً کوئی بڑا آپریشن ہوا ہے، جس کی وجہ سے زمین پر بیٹھنے سے زخم کو نقصان ہونے کا خطرہ ہے یا کولہے میں ایسی تکلیف ہے کہ زمین پر کسی طرح بیٹھنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے تو ایسی انتہائی مجبوری کی حالت میں کرسی پر اشارہ کے ساتھ نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اور وہ کسی صف کے ایک کنارے پر نماز پڑھے، لیکن جس صف پر نماز پڑھ رہا ہے، اسی صف پر کرسی رکھے، پیچھے والی صف پر نہ رکھے، اس لئے کہ پیچھے والی صف کا وہ حصہ اس صف پر نماز پڑھنے والے کے سجدہ کی جگہ ہے۔

اگر کوئی شخص زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرسکتا ہے تو اسے تشہد ہی کی حالت پر بیٹھنا ضروری نہیں، بلکہ جس ہیئت پر بھی خواہ تورک (عورت کے تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ) کی حالت پر یا آلتی پالتی مارکر، یا پھر پیر پھیلا کر جس طرح آسان ہو اس ہیئت کو اختیار کرکے زمین ہی پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرے، کرسی پر نماز نہ پڑھے۔ کیوں کہ شریعت نے ایسے معذورین کو زمین پر بیٹھنے کے سلسلے میں مکمل رعایت دی ہے کہ جس ہیئت میں بھی ممکن ہو بیٹھ کر نماز ادا کریں، تو پھر بلاضرورت کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا درج ذیل وجوہات کی بناء پر مکروہ ہے جسے دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوی میں ذکر کیا گیا ہے۔

۱) زمین پر بیٹھ کر ادا کرنا مسنون طریقہ ہے، اسی پر صحابہٴ کرام اور بعد کے لوگوں کا عمل رہا ہے، نوے ۹۰کی دہائی سے قبل تک کرسیوں پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا رواج نہیں تھا، نہ ہی خیرالقرون سے اس طرح کی نظیر ملتی ہے۔

۲) کرسیوں کے بلاضرورت استعمال سے صفوں میں بہت خلل ہوتا ہے، حالانکہ اتصال صفوف کی حدیث میں بہت تاکید آئی ہے: ”قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: راصّوا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق فوالذی نفس محمد بیدہ إنی لأری الشیاطین تدخل من خلل الصف کأنہا الخذف“ (نسائی:۱/۱۳۱)

۳) بلا ضرورت کرسیوں کو مساجد میں لانے سے اغیار کی عبادت گاہوں سے مشابہت ہوتی ہے اور دینی امور میں ہم کو غیروں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔

۴) نماز، تواضع وانکساری سے عبارت ہے اور بلاضرورت کرسی پر بیٹھ کر ادا کرنے کے مقابلے میں زمین پر ادا کرنے میں یہ انکساری بدرجہٴ اتم پائی جاتی ہے۔

۵) نماز میں زمین سے قُرب ایک مطلوب چیز ہے جو کرسیوں پر ادا کرنے سے حاصل نہیں ہوگی۔ (رقم الفتوی : 61225)

درج بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اس سلسلے میں بڑی کوتاہی ہوتی ہے، زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی قدرت رکھنے والے بلاضرورت کرسی کا اہتمام کرتے ہیں جو بلاشبہ مکروہ عمل ہے، لہٰذا انہیں اپنی اس غلط روش کو ختم کرنا چاہیے۔

  
وإن عجز عن القیام وقدر علی القعود؛ فإنہ یصلی المکتوبة قاعدًا برکوع وسجود ولا یجزیہ غیر ذلک۔ (تاتارخانیہ زکریا : ۲/۶۶۷) 

من تعذر علیہ القیام لمرض ... أو خاف زیادتہ... أو وجد لقیامہ ألما شدیدا صلی قاعدا کیف شاء۔ (در مختار مع الشامی زکریا : ۲/۵۶۶)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 محرم الحرام 14446

جمعرات، 25 جولائی، 2024

خانہ کعبہ کی دیوار پر نام لکھنا


سوال :

مفتی صاحب ! ایک سوال عرض ہے کہ کعبہ شریف کی دیوار پر کسی شخص کا نام لکھنے سے کیا اس شخص کو اللہ پاک حج عمرہ کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں؟ اور کعبہ شریف کی دیوار پر نام لکھنا شریعت کے مطابق کیسا ہے؟
(المستفتی : عبداللہ انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور عمل قرآن و حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ عمل وظائف اور مجربات کی قبیل سے ہے۔ لہٰذا اسے قرآن وحدیث سے ثابت اور سنت نہ سمجھا جائے تو عمل کی گنجائش ہے۔ تاہم اس طرح کے اعمال سے بچنا ہی بہتر ہے، کیونکہ عوام اسی کو اصل اور قرآن وحدیث سے ثابت سمجھنے لگتے ہیں اور اس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے سے اس کی درخواست بھی کرتے ہیں یا وہاں سے آنے کے بعد بتاتے ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں کا نام لکھا ہے۔ لہٰذا سنت یہی ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں آپ چاہتے ہیں کہ وہ حج وعمرہ کے لیے آئیں ان کا نام لے کر قبولیت کے مقام پر دعا کریں کہ یہی سنت سے قریب اور بلاشبہ مؤثر ثابت ہوگا۔


یجوز في الأذکار المطلقۃ لإتیان لما ہوصحیح في نفسہ مما یتضمن الثناء علی اللّٰہ تعالیٰ، ولایستلزم نقصا بوجہ الوجوہ، وإن لم تکن تلک الصیغۃ ماثورۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۲۱/ ۲۳۸)

الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ۔ (سعایۃ : ۲؍۲۶۵، الدر المختار، باب سجدۃ الشکر / قبیل باب صلاۃ المسافر، ۲؍۵۹۸)

قال الطیبي : وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزمًا، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب من الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی أمر بدعۃ أو منکر۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۲؍۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
18 محرم الحرام 1446

منگل، 23 جولائی، 2024

کفن اور احرام کا سفید ہونا ؟


سوال :

مفتی صاحب ! مفتی طارق مسعود صاحب کی ایک کلپ نظر سے گزری۔ کسی نے سوال کیا کہ کیا کفن کا کپڑا سفید ہونا ضروری ہے، انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ احرام بھی سفید ہونا ضروری نہیں ہے۔ براہ کرم اس مسئلہ پر رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر فراز، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کفن یا احرام کے کپڑوں کا سفید ہونا شرعاً فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ مستحب اور افضل ہے۔ لہٰذا اگر رنگین کفن اور احرام استعمال کرلیا جائے تو اس میں شرعاً کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ کتب فقہ میں فقہاء کرام نے صراحتاً یہ مسئلہ لکھا ہے۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور مفتی صاحب کی بات درست ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔


وَلَمْ يُبَيِّنْ لَوْنَ الْأَكْفَانِ لِجَوَازِ كُلِّ لَوْنٍ لَكِنَّ أَحَبَّهَا الْبَيَاضُ۔ (البحر الرائق : ٢/١٨٩)

ابیضین ککفن الکفایۃ فی العدد والصفۃ غیر مخیطین۔ (غنیۃ الناسک : ۷۱)

وفی أسودین وکذا فی اخضرین وازرقین وفی مرقعۃ۔ (غنیۃ الناسک : ۷۱)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
16 محرم الحرام 1446

لڑائی لڑائی معاف کرو

مسجد میں جاکر نماز پڑھو

✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
      (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! معاشرہ میں جب لوگ ساتھ رہتے ہیں تو بعض مرتبہ لڑائی جھگڑے بھی ہوجاتے ہیں، اور لڑائی جھگڑوں کے اسباب میں عموماً تین چیزیں، زن، زر اور زمین ہوتی ہیں۔ انہیں اسباب کی ایک شاخ سیاسی دشمنی بھی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے آپسی جھگڑے کسی قیمت پر پسند نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ حتی الامکان آپس کی رنجشوں اور جھگڑوں کو، باہمی نفرتوں اور عداوتوں کو کسی بھی طرح ختم کیا جائے۔ اگر بالفرض کبھی جھگڑا ہوجائے تو دوسرے فریق کو معاف کرکے جھگڑا ختم کردینا چاہئے، کیونکہ آپس میں صلح کرنے اور جھگڑا ختم کرنے کی قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں بہت ترغیب دی گئی ہے۔ ذیل میں لڑائی جھگڑے کی مذمت سے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑا لو ہو۔ (صحیح بخاری)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر ، اور اس کے ساتھ نامناسب مذاق مت کر، اور اس کے ساتھ ایسا وعدہ نہ کر کہ (جس کو تو پورا نہ کرسکے اور) وعدہ خلافی کرے۔ (ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تجھ کو یہ گناہ کافی ہے کہ تو ہمیشہ جھگڑتا رہے۔ (ترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جھوٹ کو ترک کردے حالانکہ جھوٹ باطل چیز ہے تو اس کے لئے جنت کے کناروں میں گھر تیار کیا جائے گا، اور جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑدے اس کے لئے جنت کے بیچوں بیچ گھر بنایا جائے گا، اور جوشخص اپنے اخلاق اچھے کرے گا اس کے لئے جنت کے اوپر کے حصہ میں گھر بنایا جائے گا۔ (ابن ماجہ)

تشریح : یعنی جو شخص حق پر ہونے کے باوجود یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں حق کا زیادہ مطالبہ کروں گا تو جھگڑا کھڑا ہوجائے گا، اس لئے اس حق کو چھوڑتا ہوں تاکہ جھگڑا ختم ہوجائے تو اس کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے بیچوں بیچ گھر دلوانے کی ذمہ داری لی ہے ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ سرکارِ دو عالم صلی للہ علیہ وسلم کو جھگڑا ختم کرانے کی کتنی فکر تھی ۔ ہاں اگر کہیں معاملہ بہت آگے بڑھ جائے اور قابلِ برداشت نہ ہوتو ایسی صورت میں اس کی اجازت ہے کہ مظلوم ظالم کا مقابلہ کرے اور اس سے بدلہ لے لے، لیکن حتی الامکان کوشش یہ ہو کہ جھگڑا ختم ہوجائے۔

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا ناپسندیدہ ہے، اور اختلاف کے وقت صلح کرانا محمود اور مطلوب ہے، بلکہ درجِ ذیل حدیث شریف کی رُو سے نماز، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے۔

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابۂ کرام سے مخاطب ہوکر) فرمایا : کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاؤں جو نماز، روزے اور صدقہ سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کے درمیان صلح کرانا۔ اس لئے کہ آپس کے جھگڑے مونڈنے والے ہیں۔ یعنی یہ چیزیں انسان کے دین کو مونڈنے والی ہیں (انسان کے اندر جو دین کا جذبہ ہے وہ اس کے ذریعہ سے ختم ہوجاتا ہے)۔ (ترمذی)

ان احادیث کی روشنی میں ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ جھگڑوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہے، آج آپ کو موقع ملا تو آپ نے اپنے مخالف کو نقصان پہنچا لیا، کل اُسے موقع ملے گا تو وہ آپ کو نقصان پہنچائے گا، اور یہ سلسلہ زمانہ جاہلیت کے جھگڑوں کی طرح چلتا رہے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تو آپ نے زمانہ جاہلیت کے جھگڑوں کو ختم فرما دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن شیر وشکر ہوگئے، ایک دوسرے کی جان لینے والے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے والے بن گئے۔ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آپ کے جانی دشمن اور آپ کو ہر طرح سے تکلیف پہنچانے والے جب بے بس کھڑے تھے اور دس ہزار تلواریں آپ کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں کہ ان کی گردنیں ان کے سروں سے اتار دی جائیں تو ایسے وقت جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ پر پوری طرح قابو پاچکے تھے تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بغیر کسی شرط کے معاف کرکے معافی اور درگذر کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ انسانی میں ملنا مشکل ہے۔

 کیا یہ سارے واقعات صرف پڑھنے اور سننے کے لیے ہیں؟ کیا ہم ان پر عمل کرکے اپنی دنیا اور آخرت سنوار نہیں سکتے ؟ کیا ہم دوسروں کو معاف کرکے امن اور سکون والی زندگی نہیں گزار سکتے؟ کیا ہم دو لڑنے والوں کے درمیان صلح کروا کر اجر عظیم کے مستحق بننے کی کوشش نہیں کرسکتے؟ کیا ہم میں سے کوئی نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول، جنتی جوانوں کے سردار سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دو گروہوں میں صلح کروانے والی اس اہم سنت اور خوبی کو زندہ کرنے والا نہیں ہے؟ کیا ہم سب صرف تماشہ دیکھنے اور مزا لینے والے ہیں؟ یا پھر ذاتی مفاد کے لیے دو لڑنے والوں کو آپس میں مزید لڑانے والے بن رہے ہیں؟ جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الحجرات : ۱۰)
ترجمہ : حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان (اگر کوئی رنجش یا لڑائی ہوگئی ہو تو تمہیں چاہئے کہ ان کے درمیان صلح کراؤ اور) تعلقات اچھے بناؤ، اور (صلح کرانے میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔ (آسان ترجمہ قرآن : ۳/ ۱۵۸۳)

بچپن میں جب بچوں کی آپس میں لڑائی ہوا کرتی ہے تو فوراً ہی صلح بھی ہوجایا کرتی ہے، اور عموماً کوئی تیسرا صلح کروایا کرتا تھا اور صلح کروانے والا یہ جملہ کہتا تھا کہ لڑائی لڑائی معاف کرو، مسجد میں جاکر نماز پڑھو۔ آج ہم بھی ہر طرح کے جھگڑے کرنے والوں سے خواہ وہ ذاتی ہوں یا سیاسی، ان سے یہی کہیں گے کہ اللہ کے لیے لڑائی لڑائی معاف کرو، مسجد میں جاکر نماز پڑھو۔


اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو لڑائی جھگڑوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور بوقت ضرورت صلح کرنے اور کرانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

ہفتہ، 13 جولائی، 2024

آیت کریمہ "لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک الخ" کا ترجمہ وتفسیر


سوال :

محترم مفتی صاحب ! سورہ فتح کی دوسری آیت لیغفرلک اللہ ما تقدم الخ کا ترجمہ اس طرح کرنا کہ اللہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے۔ کیا اس طرح ترجمہ کرنا صحیح ہے؟ کیا گناہ اور خطاء کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا درست ہے؟ مکمل وضاحت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سورہ فتح کی یہ آیت صلح حدیبیہ سے واپسی کے وقت نازل ہوئی تھی، جس کے ترجمہ اور تفسیر میں تمام مفسرین نے یہی لکھا جو سوال نامہ میں مذکور ہے۔ ذیل میں ہم چند معتبر تفاسیر نقل کرتے ہیں جن کی طرف ہر مسلک کے علماء رجوع کرتے ہیں۔

تفسیر بغوی میں ہے : 
محمد بن جریر (رح) فرماتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قول ” اذا جاء نصر اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا، فسبح بحمد ربک واستغفرہ “ کی طرف لوٹ رہی ہے ۔” ماتقدم من ذنبک “ جاہلیت میں رسالت سے پہلے اور ” وما تاخر “ اس سورت کے نزول کے وقت تک اور کہا گیا ہے کہ ” وما تاخر “ ان میں سے جو آگے ہوں گے اور یہ ان لوگوں کے طریقہ پر جو انبیاء (علیہم السلام) سے صغائر کے صادر ہونے کو ممکن قرار دیتے ہیں اور سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں ” ماتقدم “ جو جاہلیت میں عمل کیے اور ” ماتاخر “ ہر وہ چیز جو ابھی عمل میں نہیں آئی اور اس کی مثل کلام تاکید کے لئے ذکر کی جاتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ” اعطی من راہ ولم یرہ “ کہ جس کو دیکھا اس کو بھی دیا اور جس کو نہیں دیکھا اس کو بھی دیا اور ” ضرب من لقیہ ومن لم یلقہ “ جس کو ملا اس کو بھی مار اور جس کو نہیں ملا اس کو بھی۔ عطاء خراسانی (رح) فرماتے ہیں ” ماتقدم بن ذنبک “ یعنی آپ کے والدین آدم وحوا (علیہما السلام) کی لغزش آپ (علیہ السلام) کی برکت سے ” وما تاخر “ آپ (علیہ السلام) کی امت کے گناہ آپ (علیہ السلام) کی دعا کے ذریعہ سے۔ (١)

تفسیر قرطبی میں ہے :
علماء نے تاخر کے معنی میں اختلاف کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : سے مراد کہ ان اعلان نبوت سے قبل جو آپ سے ایسے اعمال ہوئے جن کو آپ اپنی شان کے خلاف خیال کرتے ہیں اور سے مراد اعلان نبوت کے بعد جو اعمال ہوئے : یہ مجاہد کا قول ہے، اسی کی مثل طبری اور سفیان ثوری نے کہا : طبری نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (نصر) کی طرف راجع ہے یعنی اعلان نبوت سے پہلے اور اعلان نبوت کے بعد اس آیت کے نزول تک۔
سفیان ثوری نے کہا : سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو وحی کے نزول سے پہلے آپ نے دور جاہلیت میں کئے اور سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو بعد آپ نے نہ کیئے یہ واحدی کا قول ہے سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے کہ انبیاء سے گناہ صغیرہ صادر ہو سکتے ہیں : یہ ایک قول ہے۔
ایک قول یہ کیا گیا ہے : ماتقدم سے مراد فتح سے پہلے اور وماتاخر سے مراد جو اس کے بعد ہیں۔
عطا خراسانی نے کہا : سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حواء کی خطا ہے اور و ماتاخر سے مراد آپ کی امت کے گناہ ہیں، ایک قول یہ کیا گیا ہے : سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف اولی اعمال اور وماتاخر سے مرا دانبیاء کے خلاف اولی اعمال ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ماتقدم سے مراد غزوہ بدر کے دن کی خطا اور وماتاخر سے مراد غزوہ حنین کے موقع کی خطا ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر جو خطا ہوئی وہ یہ تھی کہ آپ نے یہ دعا کی : اے اللہ اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کردیا تو زمین میں کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ نے اس قول کو کئی دفعہ دہرایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی آپ کو کیسے علم ہوا کہ اگر میں نے اس جماعت کو ہلاک کردیا تو میری کبھی بھی عبادت نہیں کی جائے گی؟ تو یہ وہ پہلی خطا تھی۔ جہاں تک دوسری خطا کا تعلق ہے تو وہ غزوہ حنین کا موقع ہے جب لوگ شکست کھا گئے تو آپ نے اپنے چچا حضرت عباس اور چچازاد بھائی ابو سفیان سے کہا : مجھے وادی سے نگریزوں کی ایک مٹھی اٹھا کر ددو تو دونوں نے سنگریزے اٹھا کردیئے آپ نے انہیں ہاتھ میں لیا اور مشرکوں کے منہ پر مارا اور فرمایا : تو مشرک سارے کے سارے شکست کھا گئے کوئی آدمی نہ بچا مگر اس کی آنکھیں ریت اور سنگریزوں سے بھر گئیں پھر آپ نے اپنے ساتھوں کو ندا کی تو وہ پلٹ آئے جب وہ واپس لوٹے تو آپ نے انہیں فرمایا : اگر میں انہیں وہ مٹھی بھر سنگریزے نہ مارتا تو وہ شکست نہ کھاتے “ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى۔ ترجمہ : (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت تم نے (کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ (الانفال 17) یہ دوسری خطا تھی۔ ابو علی روز باری نے کہا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اگر آپ کی کوئی پرانی یا نئی خطا ہوگی تو ہم آپ کے لئے اسے بخش دیں گے۔ (٢)

ہم نے یہاں متعدد دلائل اس بات پر نقل کردئیے ہیں کہ آیت کریمہ لیغفرلک اللہ الخ کے ترجمہ میں گناہ، خطا، لغزش، فروگذاشت وغیرہ لکھنا اور بولنا اور اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا درست ہے۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ہمارے بنیادی عقائد میں ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ ان کی طرف قرآن میں جہاں کہیں ذنب یا عصیان وغیرہ کے الفاظ منسوب کئے گئے وہ ان کے مقام عالی کی مناسبت سے ایسے کاموں کے لئے استعمال کئے گئے جو خلاف اولیٰ تھے مگر نبوت کے مقام بلند کے اعتبار سے غیر افضل پر عمل کرنا بھی ایسی لغزش ہے، جس کو قرآن نے بطور تہدید کے ذنب و گناہ سے تعبیر کیا ہے اور ماتقدم سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو نبوت سے پہلے ہوئیں اور ماتأخر سے مراد وہ لغزشیں جو رسالت و نبوت کے بعد صادر ہوئیں جیسا کہ درج بالا تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے، اور یہی جمہور مفسرین کا مذہب ہے، اس سے الگ تفسیر بیان کرنا جیسا کہ عطاء خراسانی نے بیان کی ہے تو یہ تفسیری اصول وضوابط کے مطابق نہیں ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا درست نہیں ہے۔

حکیم الامت علامہ تھانوی رحمہ اللہ نے اسی بحث سے متعلق کیسی پیاری اور دل لگتی باتیں ارشاد فرمائی ہیں، ملاحظہ فرمائیں اور اپنے قلوب کو مزید مجلی ومصفی بنائیں :

فرمایا کہ کسی نے دریافت کیا کہ لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ سے گناہ سرزد ہوئے ہیں۔ فرمایا معاً قلب میں جواب میں یہ بات آئی کہ جب کوئی شخص نہایت خائف ہوتا ہے۔ تو وہ ڈر کر کہا کرتا ہے کہ مجھ سے جو قصور ہوگیا ہو معاف کردیجئے حالانکہ اس سے کوئی گناہ نہیں ہوا ہوتا۔ اس طرح دوسرا اس کی تسلی کے لئے کہہ دیتا ہے۔ کہ اچھا ہم نے تمہارا قصور سب معاف کیا اسی طرح چونکہ اس خیال سے آپ کو غم رہا کرتا تھا۔ حق تعالیٰ نے تسلی فرما دی۔

لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتاخر اس میں ایک تو یہ بحث ہے کہ ذنب کا اطلاق کیا گیا۔ صاحب نبوت کے حق میں جو کہ معصوم ہے یہ بحث جداگانہ ہے اس کو مسئلہ مذکورہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں پر مقصود اس کے ذکر سے یہ ہے کہ پہلے گناہوں کی معافی تو سمجھ میں آسکتی ہے لیکن پچھلے گناہوں کی معافی جو ابھی تک ہوئے ہی نہیں۔ کیا معنی۔ تو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چونکہ خوف و خشیت کا غلبہ تھا اگر آپ کو آئندہ گناہوں کی معافی دے کر تسلی نہ دی جاتی تو اندیشہ تھا کہ غلبہ خوف سے اسی فکر میں آپ پریشان رہتے کہ کہیں آئندہ امر خلاف مرضی نہ ہوجائے۔ اس لئے آپ کو آئندہ کے لئے بھی مطمئن کردیا گیا۔

یہاں ایک عاشقانہ نکتہ ہے وہ یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ذنب کا اطلاق کیا گیا۔ حالانکہ واقعہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید مجھ سے کچھ گناہ ہوگیا ہو۔ تو اس شبہ کو بھی رفع فرما دیا گیا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے عاشق اپنے محبوب سے رخصت ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میری خطا معاف کر دیجئے گا۔ حالانکہ عاشق سے خطا کا احتمال کہاں۔ خصوصاً ایسا عاشق جو عشق کے ساتھ عقل بھی کامل رکھتا ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو بڑی شان ہے۔ (اشرف التفاسیر : ٤/٥٢)

امیدِ قوی ہے کہ درج بالا تفصیلات سے آپ کے اشکالات دور ہوگئے ہوں گے اور آپ کو تسلی وتشفی ہوگئی ہوگی۔


١) لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ، وليدخل الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ الْآيَةَ.
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ: هُوَ رَاجِعٌ إِلَى قَوْلِهِ: إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (١) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْواجًا (٢) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ [النَّصْرُ: ١- ٣]، لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَبْلَ الرِّسَالَةِ، وَمَا تَأَخَّرَ إِلَى وَقْتِ نُزُولِ هذه السورة. وقيل: ما تَأَخَّرَ مِمَّا يَكُونُ، وَهَذَا عَلَى طَرِيقَةِ مَنْ يُجَوِّزُ الصَّغَائِرَ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ وَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: مَا تَقَدَّمَ مِمَّا عَمِلْتَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَمَا تَأَخَّرَ كُلُّ شَيْءٍ لَمْ تعمله، وبذكر مِثْلُ ذَلِكَ عَلَى طَرِيقِ التَّأْكِيدِ، كَمَا يُقَالَ: أَعْطَى مَنْ رَآهُ ولم يَرَهُ، وَضَرَبَ مَنْ لَقِيَهُ وَمَنْ لَمْ يَلْقَهُ. وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ: مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ: يَعْنِي ذَنْبَ أَبَوَيْكَ آدَمَ وَحَوَّاءَ بِبَرَكَتِكَ، وَمَا تَأَخَّرَ ذُنُوبُ أُمَّتِكَ بِدَعْوَتِكَ۔ (التفسیر البغوی : ٤/٢٢٣)

٢) وَاخْتَلَفَ أَهْلُ التَّأْوِيلِ فِي مَعْنَى«لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ» فَقِيلَ:«مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ» قَبْلَ الرِّسَالَةِ.«وَما تَأَخَّرَ» بَعْدَهَا، قَالَهُ مُجَاهِدٌ. وَنَحْوَهُ قَالَ الطَّبَرِيُّ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، قَالَ الطَّبَرِيُّ: هُوَ رَاجِعٌ إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى«إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ- إلى قوله- تَوَّابًا» «١» [النصر: ٣ - ١].«لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ» قَبْلَ الرِّسَالَةِ«وَما تَأَخَّرَ» إِلَى وَقْتِ نُزُولِ هَذِهِ الْآيَةِ وَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ:«لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ» مَا عَمِلْتَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُوحَى إِلَيْكَ.«وَما تَأَخَّرَ» كُلُّ شَيْءٍ لَمْ تَعْمَلْهُ، وَقَالَهُ الْوَاحِدِيُّ. وَقَدْ مَضَى الْكَلَامُ فِي جَرَيَانِ الصَّغَائِرِ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ فِي سُورَةِ«الْبَقَرَةِ» «٢»، فَهَذَا قَوْلٌ. وقيل:» مَا تَقَدَّمَ«قَبْلَ الْفَتْحِ.» وَما تَأَخَّرَ«بَعْدَ الْفَتْحِ. وَقِيلَ:» مَا تَقَدَّمَ«قَبْلَ نُزُولِ هَذِهِ الْآيَةِ.» وَما تَأَخَّرَ«بَعْدَهَا. وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ:» مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ«يَعْنِي مِنْ ذَنْبِ أَبَوَيْكَ آدَمَ وَحَوَّاءَ.» وَما تَأَخَّرَ«مِنْ ذُنُوبِ أُمَّتِكَ. وَقِيلَ: مِنْ ذَنْبِ أَبِيكَ إِبْرَاهِيمَ.» وَما تَأَخَّرَ«مِنْ ذُنُوبِ النَّبِيِّينَ. وَقِيلَ:» مَا تَقَدَّمَ«مِنْ ذَنْبِ يَوْمِ بَدْرٍ.» وَما تَأَخَّرَ«مِنْ ذَنْبِ يَوْمِ حُنَيْنٍ. وَذَلِكَ أَنَّ الذَّنْبَ الْمُتَقَدِّمَ يَوْمَ بَدْرٍ، أَنَّهُ جَعَلَ يَدْعُو وَيَقُولُ:» اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا«وَجَعَلَ يُرَدِّدُ هَذَا الْقَوْلَ دَفَعَاتٍ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ مِنْ أَيْنَ تَعْلَمُ أَنِّي لَوْ أَهْلَكْتُ هَذِهِ الْعِصَابَةَ لَا أُعْبَدُ أَبَدًا، فَكَانَ هَذَا الذَّنْبُ الْمُتَقَدِّمُ. وَأَمَّا الذَّنْبُ الْمُتَأَخِّرُ فَيَوْمَ حُنَيْنٍ، لَمَّا انْهَزَمَ النَّاسُ قَالَ لِعَمِّهِ الْعَبَّاسِ وَلِابْنِ عَمِّهِ أَبِي سُفْيَانِ:] نَاوِلَانِي كَفًّا مِنْ حَصْبَاءِ الْوَادِي [فَنَاوَلَاهُ فَأَخَذَهُ بِيَدِهِ وَرَمَى بِهِ فِي وُجُوهِ الْمُشْرِكِينَ وَقَالَ:] شَاهَتِ الْوُجُوهُ. حم. لَا يُنْصَرُونَ [فَانْهَزَمَ الْقَوْمُ عَنْ آخِرِهِمْ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ إِلَّا امْتَلَأَتْ عَيْنَاهُ رَمْلًا وَحَصْبَاءَ. ثُمَّ نَادَى فِي أَصْحَابِهِ فَرَجَعُوا فَقَالَ لَهُمْ عِنْدَ رُجُوعِهِمْ:] لَوْ لَمْ أَرْمِهِمْ لَمْ يَنْهَزِمُوا [فَأَنْزَلَ اللَّهُ ﷿» وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى ««١» [الأنفال: ١٧] فَكَانَ هَذَا هُوَ الذَّنْبُ الْمُتَأَخِّرُ. وَقَالَ أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ: يَقُولُ لَوْ كَانَ لَكَ ذَنْبٌ قَدِيمٌ أَوْ حَدِيثٌ لَغَفَرْنَاهُ لَكَ۔ (التفسیر القرطبی : ١٦/٢٦٢)افقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 محرم الحرام 1446

جمعرات، 11 جولائی، 2024

شداد کے واقعہ کی حقیقت


سوال :

مفتی صاحب میں نے کچھ دن پہلے مولانا سراج عمری قاسمی صاحب کا ایک بیان سنا تھا انہوں کہا کی شداد کی جنت اور شداد کا واقعہ یہ قصہ کہانی ہے، حقیقت میں نا شداد نام کا آدمی ملتا ہے اور نا اس کی جنت کا۔ یہ بات کہاں تک درست ہے؟ آپ صحیح وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : مولوی ندیم، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شداد اور اس کی جنت کا تذکرہ باقاعدہ قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے۔

مفتی فرید احمد صاحب لکھتے ہیں :
شداد کے جنت بنانے کا ثبوت قرآن اور حدیث سے نہیں ملتا۔ یہ ایک اسرا ئیلی بات ہے اور واضح رہے کہ جنت عربی زبان میں باغ کو کہا جاتا ہے۔ لہٰذا شداد کا جنت اورباغ بنانا عقل سے دور نہیں ہے۔ بے شک یہ ٹھیک نہیں ہے کہ اس میں وہ خاصیات ہوں جوکہ معروف جنت کے اشیاء میں موجود ہیں اور یہ بھی ٹھیک نہیں کہ یہ آٹھواں جنت ہوگا۔ اور مسلمان اس میں جزاء کے طور سے داخل ہونگے۔ یہ معقول اور منقول دونوں سے مخا لف ہے۔ (فتاوی فریدیہ : ١/١٥٣)

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتوی ہے :
شداد اور اس کی جنت کا واقعہ کتبِ تفاسیر میں سے تفسیر مظہری،تفسیر رازی اور روح المعانی میں سورہ فجر کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے، اول الذکر دو تفاسیر میں اسے ذکر کرکے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا جب کہ موخر الذکر تفسیر میں یہ قصہ ذکر کرکے صاحبِ تفسیر روح المعانی علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے :

"وخبر شداد المذكورأخوه في الضعف بل لم تصح روايته كما ذكره الحافظ ابن حجر فهو موضوع كخبر ابن قلابة".(روح المعانى:15 / 338)

یعنی شداد کا واقعہ من گھڑت ہے۔ نیز اول الذکر ہر دو تفاسیر میں بھی اس واقعہ کو کسی مستند روایت سے بیان نہیں کیا گیا۔ (رقم الفتوی : 144004200158)

خلاصہ یہ کہ شداد اور اس کی جنت کا واقعہ اسرائیلی روایات میں سے ہے۔ اور ان اسرائیلی روایات میں سے جن کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ اس واقعہ کو بیان نہ کیا جائے۔


أنه [شدادَ بنَ عادٍ] خرج في طلبِ إبلٍ له وأنه وقع في صحاري عدَنَ وأنه وقعَ على مدينةٍ في تلك الفلواتِ، فذكر عجائبَ ما رأى فيها، وأن معاويةَ لما بلغه خبرَه أحضره إلى دمشقَ وسأل كعبًا عن ذلك فأخبره بقصةِ المدينةِ ومَن بناها
الراوي: عبدالله بن قلابة • ابن حجر العسقلاني، فتح الباري لابن حجر (٨/٥٧٢) • فيه ألفاظ منكرة وراويه عبد الله بن قلابة لا يعرف ، وفي إسناده عبد الله بن لهيعة۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 محرم الحرام 1446

بدھ، 10 جولائی، 2024

کارپوریشن سے ٹھیکہ لینے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں 
زید مونسپل کارپوریشن میں ٹھیکیداری کرتا ہے کاپوریشن میں سسٹم یہ ہے کہ کچھ کام کاپوریشن کے ملازمین ضرورت کے حساب نکالتے ہیں اور کچھ کام عوامی نمائندے  نکالتے ہیں 
کارپوریشن کے سالانہ بجٹ میں عوامی نمائندوں کے لیے بجٹ مختص ہوتا ہے۔ اور کارپوریشن کے ملازمین جو نکالتے ہیں اس کا بجٹ الگ ہوتا ہے۔ جو بھی کام ہوتا ہے اس کی اپنی سرکاری ایک قیمت مقرر ہوتی ہے۔ اس کے مطابق ٹھیکے دار کو ٹینڈر بھرنا ہوتا ہے۔ جو ٹھیکے دار کم سے کم میں وہ کام کرنے کو تیار ہوتا ہے اس کو ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ ہر کام کے لیے کام کی لمبائی چوڑائی موٹائی اور کوالٹی لکھ کر دی جاتی ہے 
کہ اپ کو اس معیار کا اور اتنی مقدار میں کام کرنا ہے۔ کام ہونے کے بعد دوسرے سرکاری ادارے سے کچھ لوگ آتے ہیں اس کام کو چیک کرتے ہیں موج ماپ کرتے ہیں اچھی طریقے سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور اگر اس میں کچھ خامی اور مسٹیک نکلی تو اس کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کا اندازاً تخمینہ لگا کر وہ پیسہ کاٹ لیا جاتا ہے۔ 
کچھ ٹھیکے دار نمبر 1 ٹھیکے دار ایسے ہوتے ہیں جو ناقص اور غیر معیاری کام کر کے سیاسی اثر رسوخ اور رشوت کے بل بوتے پر اپنا بل پاس کروا لیتے ہیں۔ 
مگر کچھ ٹھیکے دار نمبر 2 ٹھیکے دار ایسے بھی ہیں جو مطلوبہ مقدار اور مطلوبہ کوالٹی میں کام کرتے ہیں بلکہ مقدار میں کچھ بڑھا کر کرتے ہیں۔ اور ان کو دوسرے سرکاری محکمے کے جو چیکنگ پر افسران آتے ہیں وہ لوگ کلیئر لکھ کر بھی دیتے ہیں کہ اپ کا کام برابر ہے مقدار میں بھی کوالٹی میں بھی جس کو کارپوریشن کی زبان میں تھرڈ پارٹی رپورٹ کہا جاتا ہے۔ کارپوریشن میں رشوت دونوں ٹھیکے داروں سے لی جاتی ہے جو اچھا کام کرتے ہیں ان سے بھی اور جو ناقص کام کرتے ہیں ان سے بھی فرق یہ ہے کہ جو اچھا کام کرتے ہیں افسران ان سے کم سے کم رشوت لیتے ہیں اور ان تمام ٹیبل کے اخراجات کو اور لاگت کو جوڑنے کے بعد سرکاری قیمت کے اعتبار سے جب بل بنتا ہے تو ٹھیکیدار کو اچھا خاصا پیسہ بچتا ہے
اور جو کام عوامی نمائندوں کے بجٹ سے ہوتا ہے اس کا ٹینڈر نکلنے کے بعد عوامی نمائندے کو اس کے محنتانے کے طور پر کچھ پیسہ دینا پڑتا ہے جو ٹھیکے دار اور عوامی نمائندے کے درمیان طے شدہ ہوتا ہے۔ بہت سارے احباب کا کہنا ہے کہ کارپوریشن کی ٹھیکیداری سرے سے جائز ہی نہیں ہے وہ پیسہ حلال ہی نہیں ہے جس میں رشوت دینا پڑتا ہے۔ جبکہ اچھا اور صحیح کام کرنے والے ٹھیکے داروں کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ بالکل حلال ہے، اگرچہ ہم کو بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ قران و سنت کی روشنی میں بتائیں گے کیا کارپوریشن میں ٹھیکے داری کرنا جائز ہے؟صحیح اور اچھا کام کرنے کے بعد بھی رشوت دینی پڑتی ہے اگرچہ خراب کام کرنے والوں کے مقابل میں رشوت کی رقم بہت کم ہو جاتی ہے مگر دینا پڑتا ہے۔ ٹھیکے دار نمبر 2 جو اوپر درج جو ہے اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی کام کے لیے رشوت کا لین دین شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ حدیث شریف میں رشوت دینے والے، لینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ لہٰذا ٹھیکہ لینے کے لیے بھی رشوت دینا جائز نہیں ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔ کہ قانونی طریقۂ کار کے مطابق ہی ٹھیکہ حاصل کرے ۔ البتہ اگر صورتِ حال ایسی ہو کہ زید قانونی طور پر ٹھیکہ لینے کا حق دار اور اہل ہو، اور کوئی دوسرا شخص اس سے زیادہ حق دار نہ ہو، نہ ہی مساوی درجے کے لوگوں یا کمپنیوں میں اپنے آپ کو آگے کرنا مقصد ہو، (یعنی ٹھیکہ لینے کے لیے قانوناً جو اصول، شرائط اور معیار طے ہوں ان میں زید سب سے فائق ہو) اور رشوت دئیے بغیر قانونی طریقۂ کار کے مطابق ٹھیکہ حاصل کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں رشوت دے کر ٹھیکہ حاصل کرنے کی گنجائش ہے اور زید کی کمائی بھی حلال ہوگی، اسے ناجائز اور حرام سمجھنا درست نہیں ہے۔ البتہ لینے والوں کے لیے (خواہ وہ کارپوریشن کے کرمچاری یا عوامی نمائندے ہوں) بہر صورت رشوت لینا سخت ناجائز اور حرام ہے۔

ہم نے اس سلسلے میں اصولی بات لکھ دی ہے، اگر زید اس کے مطابق ٹھیکہ لیتا ہے اور شرائط کے مطابق ایمانداری سے کام کرتا ہے تو اس کا ٹھیکہ لینا درست ہے اور اس کی کمائی بھی حلال ہے۔ 


وَالرِّشْوَةُ مَالٌ يُعْطِيهِ بِشَرْطِ أَنْ يُعِينَهُ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب ادب القاضی، ۳/٣٣٠)

عن أبي ہریرۃ رضي اﷲ عنہ لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم)

عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبی ﷺ :  الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، ۱/۵۵۰، رقم : ۲۰۲۶)

والإسلام یحرم الرشوۃ في أي صورۃ کانت وبأي اسم سمیت فسمیتہا باسم الہدیۃ لا یخرجہا عن دائرۃ الحرام إلی الحلال۔ (الحلال والحرام في الإسلام ۲۷۱، بحوالہ محمودیہ ڈابھیل۱۸/۴۶۳)

لَوْ اُضْطُرَّ إلَى دَفْعِ مَرْشُوَّةٍ لِإِحْيَاءِ حَقِّهِ جَازَ لَهُ الدَّفْعُ وَحَرُمَ عَلَى الْقَابِضِ۔ (شامی : ٥/٧٢)

فأما إذا أعطی لیتوصل بہ إلیٰ حق أو یدفع عن نفسہ ظلمًا؛ فأنہ غیر داخلٍ في ہٰذا الوعید۔ (بذل المجہود : ۱۱؍۲۰۶)

وأما إذا دفع الرشوۃ لیسوي أمرہ عند السلطان حل للدافع ولا یحل للآخذ۔ (إعلاء السنن : ۱۵؍۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 محرم الحرام 1446

پیر، 8 جولائی، 2024

علمِ جفر کی شرعی حیثیت


سوال :

محترم مفتی صاحب ! علم جفر کیا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ایک آدمی کہتا ہے کہ اس نے اس علم کے ذریعے اپنی موت کا وقت معلوم کرلیا ہے، تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : لغات میں ملتا ہے کہ علم جَفَر ایک ایسا علم ہے جس میں حروف کے اسرار سے بحث کی جاتی ہے جس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی مدد سے آئندہ حالات و واقعات کا پتہ لگا لیتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے : 
علم جفر میں ستاروں کو انسانی قسمت پر اثر انداز سمجھا جاتا ہے اور ان چیزوں کو مؤثر حقیقی سمجھنا کفر ہے، علاوہ ازیں ان علوم کے ذریعہ حاصل علم کوبالعموم قطعی ویقینی سمجھا جاتا ہے اور اس کو قطعی ویقینی سمجھنا بھی غلط ہے؛ اس لیے یہ علوم اسلام میں جائز نہیں، مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے جس شخص نے کسی "عَرَّاف" (غیب کی باتیں بتلانے والے) کے پاس جاکر کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ (رقم الفتوی : 174573)

معلوم ہوا کہ علم جفر کے ذریعے مستقبل کے حالات معلوم کیے جاتے ہیں، چنانچہ اس علم کا سیکھنا، سکھانا حرام ہے، اور اس کے مدعی کے پاس کوئی بات پوچھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے، اور اس کے نتائج کو یقینی سمجھنا کفر ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس شخص کا یہ کہنا کہ اس نے اس کی موت کا وقت معلوم کرلیا ہے تو اس کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اور ایسی بات کہنے والا سخت گناہ کا مرتکب ہے، اسے توبہ و استغفار کرکے اس طرح کی باتوں سے مکمل طور پر دور ہوجانا چاہیے۔


عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ ؛ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً۔ (صحیح مسلم، رقم : ٢٢٣٠)

تَعَلُّمُ الْعِلْمِ يَكُونُ فَرْضَ عَيْنٍ، وَهُوَ بِقَدْرِ مَا يَحْتَاجُ إلَيْهِ لِدِينِهِ.
وَفَرْضَ كِفَايَةٍ، وَهُوَ مَا زَادَ عَلَيْهِ لِنَفْعِ غَيْرِهِ.
وَمَنْدُوبًا، وَهُوَ التَّبَحُّرُ فِي الْفِقْهِ وَعِلْمِ الْقَلْبِ.
وَحَرَامًا، وَهُوَ عِلْمُ الْفَلْسَفَةِ وَالشَّعْبَذَةِ وَالتَّنْجِيمِ وَالرَّمْلِ وَعِلْمُ الطَّبِيعِيِّينَ وَالسِّحْرِ۔ (الأشباہ والنظائر لابن نجیم : ٣٢٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 محرم الحرام 1446

بدھ، 3 جولائی، 2024

لاڈلی بہن اسکیم کی شرعی حیثیت


سوال : 

مفتی صاحب! ریاستی حکومت نے اسمبلی چناؤ کے پیش نظر لاڈلی بہن یوجنا اسکیم سامنے لائے ہے جس میں شادی شدہ ماں بہنوں کو جن کی عمر 21 سے 60 سال کے درمیان ہے 1500 روپے ماہانہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ کیا اس اسکیم سے ملنے والے پیسے کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں؟ 
(المستفتی : افضال احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد خواہ الیکشن کے پیشِ نظر کیوں نہ ہو، اس کا قبول کرنا شرعاً جائز ہے کیونکہ یہ حکومت کی طرف سے تبرع اور احسان ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مہاراشٹر حکومت کی جانب سے جاری کی گئی "میری لاڈلی بہن" اسکیم کا جائزہ لیا گیا، اس میں کوئی سود، جُوا یا پھر رشوت والی کوئی بات نہیں ہے۔ لہٰذا جن لوگوں میں مقررہ شرائط پائی جاتی ہوں ان کے لیے اس اسکیم کا فائدہ اٹھانا شرعاً درست ہے اور جب یہ مال ان کی ملکیت میں آجائے تو اس کا اپنے استعمال میں لانا یا کہیں اور لگا دینا سب درست ہے۔ نیز جب الیکشن کا موقع آئے تو ووٹ بہرحال انہیں امیدواروں کو دی جائے جو اس عہدہ کے اہل اور ایماندار ہوں۔


قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَخْذِ الْجَائِزَةِ مِنْ السُّلْطَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ يُعْطِيهِ مِنْ حَرَامٍ قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ نَأْخُذُ مَا لَمْ نَعْرِفْ شَيْئًا حَرَامًا بِعَيْنِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَأَصْحَابِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی الحجہ 1445

پیر، 1 جولائی، 2024

مرحومین کو خواب میں دیکھنے کا عمل؟


سوال :

مفتی صاحب ! ایک مقرر صاحب نے کہا کہ ہم اپنے رشتہ دار مرحومین کی خواب میں زیارت کر سکتے ہیں اور اس کا گارنٹیڈ عمل بھی بتایا ہے کہ چار رکعت نفل نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ تکاثر پڑھنا ہے۔ کچھ دنوں تک یہ عمل کرنا ہے ان شاءاللہ مرحومین کی زیارت کے ساتھ یہ بھی پتہ چلے گا کہ ان کی قبر جنت میں ہے یا جہنم میں؟ آپ سے اس سلسلے میں رہنمائی کی درخواست ہے۔
(المستفتی : حافظ جنید، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : مرحومین کو خواب میں دیکھنے کے لیے کوئی عمل یا وظیفہ قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اور نہ ہی  کسی کو خواب میں دیکھنا یہ انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں خواب میں کسی کی زیارت کرا دیتے ہیں۔ لہٰذا خواب میں مرحومین کو دیکھنے کے لیے کسی وظیفہ اور عمل کو گارنٹیڈ کہنا بھی درست نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
کسی مرحوم کو خواب میں دیکھنے کا مجھے کوئی قطعی ویقینی عمل معلوم نہیں، نیز اس کی ضرورت بھی نہیں؛ البتہ آپ مرحوم کے لیے بہ کثرت استغفار اور ایصال ثواب کریں، اگر اللہ نے چاہا تو خواب میں مرحوم کی زیارت ہوجائے گی، نہیں تو کثرتِ استغفار اور ایصال ثواب سے مرحوم کو فائدہ پہنچنے میں کچھ شبہ نہیں۔ (رقم الفتوی : 173448)

سوال نامہ میں مذکور عمل کو اگر مجربات میں سے سمجھ کر عمل کرلیا گیا اور مرحومین کی زیارت ہوگئی تب بھی ان کی حالت سے متعلق کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی، کیونکہ امتی کا خواب شرعاً حجت نہیں ہے۔ اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے اپنے خیالات اور تفکرات ہی خواب بن کر سامنے آتے ہیں۔ لہٰذا اپنے کسی مرحوم کو خواب میں دیکھنے کے لیے کوئی وظیفہ پڑھنے یا کوئی عمل کرنے کی بجائے ان کے لیے زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام ہو یہی ان کے حق میں زیادہ بہتر اور شرعاً مطلوب ہے۔


واستشکل اثباتہ بأن رؤیا غیر الأنبیاء لا یبنی علیھا حکم شرعي۔ (رد المحتار : ۱/۲۵۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ذی الحجہ 1445