سوال :
مفتی صاحب میں نے کچھ دن پہلے مولانا سراج عمری قاسمی صاحب کا ایک بیان سنا تھا انہوں کہا کی شداد کی جنت اور شداد کا واقعہ یہ قصہ کہانی ہے، حقیقت میں نا شداد نام کا آدمی ملتا ہے اور نا اس کی جنت کا۔ یہ بات کہاں تک درست ہے؟ آپ صحیح وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : مولوی ندیم، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شداد اور اس کی جنت کا تذکرہ باقاعدہ قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے۔
مفتی فرید احمد صاحب لکھتے ہیں :
شداد کے جنت بنانے کا ثبوت قرآن اور حدیث سے نہیں ملتا۔ یہ ایک اسرا ئیلی بات ہے اور واضح رہے کہ جنت عربی زبان میں باغ کو کہا جاتا ہے۔ لہٰذا شداد کا جنت اورباغ بنانا عقل سے دور نہیں ہے۔ بے شک یہ ٹھیک نہیں ہے کہ اس میں وہ خاصیات ہوں جوکہ معروف جنت کے اشیاء میں موجود ہیں اور یہ بھی ٹھیک نہیں کہ یہ آٹھواں جنت ہوگا۔ اور مسلمان اس میں جزاء کے طور سے داخل ہونگے۔ یہ معقول اور منقول دونوں سے مخا لف ہے۔ (فتاوی فریدیہ : ١/١٥٣)
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتوی ہے :
شداد اور اس کی جنت کا واقعہ کتبِ تفاسیر میں سے تفسیر مظہری،تفسیر رازی اور روح المعانی میں سورہ فجر کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے، اول الذکر دو تفاسیر میں اسے ذکر کرکے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا جب کہ موخر الذکر تفسیر میں یہ قصہ ذکر کرکے صاحبِ تفسیر روح المعانی علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے :
"وخبر شداد المذكورأخوه في الضعف بل لم تصح روايته كما ذكره الحافظ ابن حجر فهو موضوع كخبر ابن قلابة".(روح المعانى:15 / 338)
یعنی شداد کا واقعہ من گھڑت ہے۔ نیز اول الذکر ہر دو تفاسیر میں بھی اس واقعہ کو کسی مستند روایت سے بیان نہیں کیا گیا۔ (رقم الفتوی : 144004200158)
خلاصہ یہ کہ شداد اور اس کی جنت کا واقعہ اسرائیلی روایات میں سے ہے۔ اور ان اسرائیلی روایات میں سے جن کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ اس واقعہ کو بیان نہ کیا جائے۔
أنه [شدادَ بنَ عادٍ] خرج في طلبِ إبلٍ له وأنه وقع في صحاري عدَنَ وأنه وقعَ على مدينةٍ في تلك الفلواتِ، فذكر عجائبَ ما رأى فيها، وأن معاويةَ لما بلغه خبرَه أحضره إلى دمشقَ وسأل كعبًا عن ذلك فأخبره بقصةِ المدينةِ ومَن بناها
الراوي: عبدالله بن قلابة • ابن حجر العسقلاني، فتح الباري لابن حجر (٨/٥٧٢) • فيه ألفاظ منكرة وراويه عبد الله بن قلابة لا يعرف ، وفي إسناده عبد الله بن لهيعة۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 محرم الحرام 1446
جزاک اللہ خیر اکثر مقررین بے دھڑک اپنی تقریروں میں بیان کرتے چلے آ رہے ہیں
جواب دیںحذف کریں