بدھ، 30 ستمبر، 2020

زنا کے مرتکب شخص سے توڑی بازی کرنا

سوال :

مفتی صاحب زنا کرتے ہوئے لڑکا لڑکی پکڑے جائیں تو انکے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟ آج کل معاملہ یہ ہے  کہ اگر کہیں پر لڑکا لڑکی پکڑے جاتے ہیں تو انکی تصویر یا ویڈیو بنالیتے ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کے نام پر پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپیہ مانگتے ہیں۔ اور لڑکا اتنا پیسہ نہیں دیتا ہے تو انکی ویڈیو اور فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہیں۔ پوچھنا یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا پیسہ لینا (عام زبان میں توڑی بازی کرنا) کیسا ہے؟ اس تعلق سے اصلاح فرمائیں۔
(المستفتی : مزمل حسین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : زنا ایک ایسا سنگین اور کبیرہ گناہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اگر ندامت وشرمندگی کے ساتھ سچی پکی توبہ و استغفار نہ کرے تو وہ اس کا وبال دنیا میں بھی دیکھے گا، اور بروزِ حشر تو ایسے شخص کا انجام انتہائی دردناک ہوگا۔

معراج کی شب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زناکاروں کو ہورہا عذاب دکھایا گیا کہ ایک جگہ تنور کی طرح ایک گڑھا ہے جس کا منہ تنگ ہے اور اندر سے کشادہ ہے برہنہ مرد و عورت اس میں موجود ہیں اور آگ بھی اس میں جل رہی ہے جب آگ تنور کے کناروں کے قریب آجاتی ہے تو وہ لوگ اوپر اٹھ آتے ہیں اور باہر نکلنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور جب آگ نیچے ہوجاتی ہے تو سب لوگ اندر ہوجاتے ہیں۔

اسلامی حکومت میں اگر غیرشادی شدہ لڑکی یا لڑکا زنا کرے تو اسے سو کوڑے سزا کے طور پر مارے جائیں گے، اور اگر شادی شدہ مرد و عورت یہ قبیح اور غلیظ عمل کریں تو انہیں سنگسار یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔ ہندوستان میں چونکہ اسلامی حکومت نہیں ہے، اس لیے یہاں اس طرح کی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ البتہ اگر یہ دونوں شادی شدہ نہ ہوں تو ان کا آپس میں نکاح کروایا جاسکتا ہے، نیز ان کے سرپرستوں کو مطلع کرکے اور اگر یہ بڑی عمر کے افراد ہوں تو محلہ کے سرکردہ اور دینی شعور رکھنے والے افراد کے ذریعے ایسے لوگوں کو سخت تنبیہ کی جاسکتی ہے۔ لیکن ان کے گناہ کو لوگوں میں بیان کرنا اور سوشل میڈیا پر نام بنام ان تشہیر کرنا یا ان کی تصویر اور ویڈیوز وائرل کرنا سخت گناہ کی بات ہے، یہ ایسا گناہ ہے کہ ایسی تصویر اور ویڈیوز دیکھنے والوں کا گناہ سب سے پہلے وائرل کرنے والے کو بھی ملے گا۔ شریعتِ کاملہ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے عیوب پر نظر رکھے، اور اس کے عیوب اور غلطیوں کو جان لینے کے بعد لوگوں کے سامنے بیان کرکے اُسے ذلیل و رسوا کرے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد ہے کہ جو شخص مسلمان کی عیب پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی عیب پوشی کریں گے، اور جو شخص مسلمان کی پردہ دری یعنی اس کے عیوب کو لوگوں میں بیان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پردہ دری کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے گھر میں (چھپ کر) کوئی عیب کرتا ہے تب بھی اس کو فضیحت کرتے ہیں۔

اس طرح کے معاملات میں مردوعورت دونوں اپنی مرضی سے منہ کالا کرتے ہیں، لیکن بطور سزا توڑی عموماً صرف مرد سے کی جاتی ہے، اور لاکھوں روپے اس زانی مرد سے لیے جاتے ہیں، اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ توڑی کرنے والے لوگ یہ روپے خود رکھ لیتے ہیں، اور بعض مرتبہ اپنی مرضی سے اس گناہ میں شریک ہونے والی عورت یا لڑکی کو یہ رقم دی جاتی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا وغیرہ پر تشہیر کی دھمکی دے کر ان سے رقم کا مطالبہ کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ یہ رقم ان سب کے لیے حلال نہیں ہے۔ اس رقم کا واپس کردینا ضروری ہے۔

قال اللہ تعالٰی : الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ۔ (سورۃ النور : جزء آیت۲)

أخرج البیہقي عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما حدیثا فیہ … قال: کان الرجل إذا زنی أو أذی في التعبیر وضرب النعال فأنزل اللّٰہ عزوجل بعد ہٰذا: الزانیۃ والزاني فاجلدوا کل رجما في سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہٰذا سبیلہما الذي الذي جعل اللّٰہ لہما۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الحدود، باب ما یستدل بہ الخ، رقم : ۱۷۳۸۸)

قال اللہ تعالی : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (سورہٴ زمر، آیت : ۵۳)

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔ رواہ ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من ستر عورۃ أخیہ المسلم ستر اللّٰہ عورتہ یوم القیامۃ، ومن کشف عورۃ أخیہ المسلم کشف اللّٰہ عورتہ حتی یَفضحَہ بہا في بیتہ۔ (سنن ابن ماجۃ، کتاب الحدود / باب الستر علی المؤمن ودفع الحدود بالشبہات ۱؍۱۸۳ رقم: ۲۵۴۶)
فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 صفر المظفر 1442

منگل، 29 ستمبر، 2020

جانور کو جفتی کرانے کی اجرت لینا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ بھینس کو گابھن کرنے کے لیے اس پر بھینسہ چڑھایا جاتا ہے، بھینسے کا مالک اس کی اجرت لیتا ہے تو کیا اس کی اجرت لین دین جائز ہے؟
(المستفتی : قاری شارق، باغپت)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی جانور کو گابھن کرنے کے لیے اس کی نر جانور سے جو جفتی کرائی جاتی ہے اس کے لیے اجرت کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے، اس لئے کہ رسول کریم ﷺ نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت وصول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ البتہ اگر بھینس کے مالک کو مجبوراً اجرت دینا پڑے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن عسب الفحل۔ (صحیح البخاري، کتاب الإجارۃ / باب عسب الفحل، رقم : ۲۲۸۴)

ولا یجوز اخذ اجرۃ عسب التیس وھو ان یواجر فحلاً لینزو علی اناث لقولہ علیہ السلام ان من السحت عسب التیس والمراد اخذ الا جرۃ علیہ۔ (ہدایہ اخیرین، باب الا جارۃ الفاسد۔ ۲۸۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 صفر المظفر 1442

پیر، 28 ستمبر، 2020

غیرمسلم کی دعوت قبول کرنا

سوال :

١) زید ایک ایسی جگہ کام کرتا ہے جہاں روز زید غیر مسلم لوگوں سے ملتا ہے اکثر غیر مسلم لوگ چائے پینے کے لئے کہتے ہیں لیکن زید نہیں پیتا مگر گذشتہ روز بہت اصرار کرنے پر زید نے چائے پی لی۔
اب زید کو یقین ہے کے جس نے چائے پیش کی وہ سودی کاروبار میں مبتلہ ہے ایسی صورت میں زید کیا کرے؟
٢) زید جس آفس میں اپنےcustomers کے کام کے لٸے جاتا وہاں بھی چائے وغیرہ پیش کی جاتی ہے اور زید کو معلوم ہے وہ آفسر رشوت لیتے ہیں وہ سب غیر مسلم ہیں تو ایسی صورتوں میں زید کیا کرے؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حاجی عطاء الصمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غیرمسلم  کے ہدایہ اور اس کی دعوت  قبول کرنے کی اُصولاً گنجائش ہے،  اگرچہ اس کی کمائی حرام ہو، اس لئے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہودیوں کی دعوت قبول کرنا ثابت ہے، نیز غیر مسلم مالی معاملات میں شریعت کے احکامات کا مکلف بھی نہیں ہے۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے ان کی دعوت قبول کرنے سے احتیاط کیا جائے بالخصوص علماء ومقتدیٰ حضرات کو اس کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔

امید ہے ذکر کردہ تفصیل میں آپ اپنے سوال کا جواب پا گئے ہوں گے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ: {لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہُ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ} [اٰل عمران: ۲۸]

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ يَهُودِيًّا دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ فَأَجَابَهُ. (مسند احمد)

لإنا أمرنا بترکہم وما یدینون، قال الشامي: فلا نمنعہم عن شرب الخمر وأکل الخنزیر وبیعہما۔ (الدر المختار مع الشامي ۴؍۳۱۲ زکریا)

روی محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في السیر الکبیر أخبارًا متعارضۃً، في بعضہا: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل ہدایا المشرک۔ وفي بعضہا: أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یقبل۔ فلا بد من التوفیق۔ واختلفت عبارۃ المشایخ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ في وجہ التوفیق … ومن المشایخ من وفق من وجہٍ آخر، فقال: لم یقبل من شخص علم أنہ لو قبل منہ یقلّ صلابتہ وعزتہ في حقہ ویلین لہ بسبب قبول الہدیۃ، وقبل من شخص علم أنہ لا یقلّ صلابتہ وعزتہ في حقہ ولا یلین بسبب قبول الہدیۃ، کذا في المحیط۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / الباب الرابع عشر في أہل الذمۃ ۵؍۳۴۷-۳۴۸ زکریا، وکذا في المحیط البرہاني / الفصل السادس عشر في معاملۃ أہل الذمۃ ۶؍۱۰۴ المکتبۃ الغفاریۃ کوئٹہ)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 صفر المظفر 1442

والدین کے بلانے پر نماز توڑنے کا حکم

سوال :

ایک روایت بہت زیادہ بیان کی جاتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں نماز کی حالت میں ہوں اور میری والدہ مجھے آواز دے تو میں نماز توڑ کر اس کی حکم کی تعمیل کروں
کیونکہ بعض لوگ جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو والدین کچھ کام کیلئے حکم کرتے ہیں تو بچے کہتے ہیں کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے بچے کے نہ ماننے پر اس روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلے یہ جان لیں کہ سوال نامہ میں مذکور روایت "اگر میں اپنے والدین، یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پاتا، جب کہ میں عشاء  کی نمازشروع کرکے سورہ فاتحہ پڑھ چکا ہوتا، اور وہ مجھے پکارتے : اے محمد، تو میں جواب میں لبیک  (میں حاضر ہوں) کہتا "۔
اگرچہ عوام بلکہ خواص کے ایک طبقہ میں بھی مشہور ہے، اور یہ روایت "کنز العمال" اور"شعب الایمان" میں مذکور ہے، لیکن محدثین نے اس روایت کی سند کے بعض راویوں پر سخت کلام کیا ہے، اور علامہ ابن جوزی نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے بھی اس روایت سے استدلال نہیں کیا ہے، اور والدین کے بلانے پر نماز توڑنے سے متعلق درج ذیل موقف بیان فرمایا ہے۔

اگر والدین یا کوئی اورکسی اچانک آفت یا ناقابلِ برداشت تکلیف کی وجہ سے مدد کے لیے پکاریں تو اس صورت میں نماز توڑ دینا ضروری ہے، خواہ نماز نفل ہو یا فرض۔

البتہ اگر ایسی سنگین صورتِ حال درپیش نہ ہو اور والدین کونفل نماز میں مشغول ہونے کا علم بھی ہو تو اس صورت میں اگر پکاریں تو نماز نہیں توڑی جائے گی۔ اور اگر انہیں نماز میں مشغول ہونے  کا علم نہ ہوتو نفل نماز توڑکر ان کی آواز کا جواب دے سکتے ہیں، اور فرض نماز اس صورت میں بھی نہیں توڑی جائے گی۔

پہلے پیرا گراف میں مذکور تفصیلات سے معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں بیان کی گئی روایت معتبر نہیں ہے، لہٰذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور بطور حوالہ اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ رہی بات نماز کے وقت والدین کا حکم بجا لانے کی تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ کام نماز کے بعد ہوسکتا ہوتو پھر والدین کو بھی چاہیے کہ نماز کے وقت کوئی کام نہ کہیں، اگر خدانخواستہ والدین میں دینداری نہ ہوتو بچوں کو چاہیے کہ اچھے انداز میں کہہ دیں کہ نماز کے بعد کام کردوں گا۔ اور نماز کے بعد وہ کام کردیں۔

عن طلق بن علي، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلاةِ الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ يُنَادِينِي: يَا مُحَمَّدُ؛ لأَجْبُتُه لَبَّيْكَ . شعب الإيمان (10/ 284) ، مصنفات أبي جعفر ابن البختري (ص: 210) ، الموضوعات لابن الجوزي (3/ 85)

وفي الدر: ولو دعا أحد أبویہ فی الفرض، لایجیبہ إلا أن یستغیث بہ، وفی النفل إن علم أنہ في الصلاۃ فدعاہ لایجیبہ، وإلا أجابہ، وقال الشامي: قولہ: لایجیبہ عبارۃ التجنیس عن الطحاوی: لابأس أن لایجیبہ، قال ح : وہي تقتضی أن الإجابۃ أفضل، تأمل۔ (درمختار مع الشامي ۲؍ ۵۰۴-۵۰۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 صفر المظفر 1442

اتوار، 27 ستمبر، 2020

ٹیلروں کا بچے ہوئے کپڑے اور دیگر کاریگروں کا مشین وغیرہ کی درستگی کے وقت نکلنے والے سامان رکھ لینا

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے وہ یہ کہ ہمارے یہاں اکثر ٹیلر لوگ کپڑا کٹنگ کرنے کے بعد جو کپڑے کا ٹکڑا بچ جاتا ہے اسکو واپس نہیں کرتے اسی طرح الیکٹریشن لوگ موٹر وائنڈنگ کرتے ہیں  اس میں جو تانبے کا تار اور جونا کینسل سامان نکلتا ہے اسکو بھی واپس نہیں کرتے، اور انکا یہ عمل عرفًا لوگوں پر گراں بھی نہیں گذرتا اور لوگ اس کے متعلق پوچھ گچھ بھی نہیں کرتے، اسی طرح مختلف طبقات کے تاجر وکاریگر (ورکشاپ کے ویلڈر، ٹووھیلر، فوروھیلر کے میکانک وغیرہ) کیا انکا یہ عمل درست ہے؟ اگر نہیں ہے تو جواز کی شکل وصورت کیا ہوگی؟
(المستفتی : حافظ معین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ٹیلر حضرات کے یہاں چھوڑے ہوئے کپڑے عموماً اتنے معمولی ہوتے ہیں جس سے کوئی چیز نہیں بن سکتی ہے، جسے چھوڑتے ہوئے گراہک کو بار بھی محسوس نہ ہوتا، ایسے کپڑوں کو ہمارے یہاں کترن اور چِندی کہتے ہیں، لہٰذا انہیں رکھ لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر کپڑے اتنے بڑے ہوں جس سے کوئی لباس بن سکتا ہو اور عُرف میں گراہک اسے چھوڑتے نہیں ہیں ایسے کپڑوں کا واپس کردینا ضروری ہے۔ ہاں اگر گراہک اپنی خوشی سے ایسے کپڑے بھی واپس کردیں تو پھر ایسے کپڑوں کا رکھ لینا بھی جائز ہے۔

موٹر وائنڈنگ کے تار، الیکٹرانک اشیاء نیز ٹوویلر اور فور وہیلر کی درستگی کے وقت نکلنے والے سامان بھی عموماً ناکارہ ہوتے ہیں، جو قیمت میں بھی بہت کم ہوتے ہیں، جن کے چھوڑنے میں گراہک پر بھی کوئی بار نہیں ہوتا، لہٰذا ایسے سامان کا کاریگروں کا رکھ لینا جائز ہے، لیکن اگر گراہک ان چیزوں کا مطالبہ کرلیں تو ان کا واپس کرنا ضروری ہوگا، کیونکہ یہ اصل ان کی ہی چیز ہے۔ نیز ایسے سامان کا واپس کردینا یا ان کے رکھ لینے کی اجازت لینا ضروری ہے جو قیمتی ہوں۔ جن کی اہمیت کاریگر خود سمجھ سکتے ہیں۔

لایجوز التصرف في مال غیرہ  بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (شامي : ٦/۳۰۰)

لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي : ۶/۱۰۶)

العادة محكمة۔ (شرح المجلة : ٤٤/١)

المعروف بين التجار المشروط بينهم۔ التعيين بالمعروف كالتعيبن بالنص۔ (شرح المجلة : ٥٠/١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 صفر المظفر 1442

ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

مَردوں کے لیے سُرخ لباس پہننے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ لال رنگ کے کپڑے پہننا کیا مردوں کیلئے صحیح ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : مولوی عبدالقدیر، جلگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسا سرخ  لباس جو عام طور پر عورتیں استعمال کرتی ہیں، مردوں کے لیے ان کا استعمال مکروہِ تنزیہی ہے۔ البتہ جو کپڑا خالص سرخ  نہ ہو بلکہ اس میں سرخ  دھاریاں ہوں وہ بلاکراہت جائز ہے، ایسے  لباس  کا پہننا خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت براء ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ میانہ قد کے آدمی تھے آپ ﷺ کے دونوں شانوں کا درمیانی حصہ وسیع تھا آپ ﷺ گنجان بالوں والے تھے جو کہ کانوں کی لو تک آتے تھے، آپ پر ایک سرخ دھاری دار چادر تھی میں نے آپ ﷺ سے زیادہ حسین چیز کبھی نہیں دیکھی۔

وکرہ لبس المعصفر والمزعفر والأحمر․․․ مفادہ أن الکراہة تنزیہیة لکن صرح في التحفة بالحرمة فأفاد إنہا تحریمیة۔ (الدر مع الرد: ۹/ ۵۱۵)

قال القاري : وأما ما ورد في شمائلہ صلی اللہ علیہ وسلم حلة حمراء قال الحافظ العسقلاني: إن المراد بہ ثیاب ذات خطوط أي لا حمراء خالصةً وھو المتعارف في برود الیمن۔ (المرقاة : ٨/۲۵۷)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ يَقُولُا کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ عَظِيمَ الْجُمَّةِ إِلَی شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ عَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَائُ مَا رَأَيْتُ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (مسلم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 صفر المظفر 1442

کرکٹ کے مختلف ایپ کے ذریعے پیسے کمانا

سوال :

آج کل آئی پی ایل چل رہا ہے اور لوگ مختلف ایپ  جیسے، my eleven circle ,MPL, Dream11 وغیرہ پر لوگ اپنی ٹیم مختلف ممبران IPL ٹیم کے پلیئر میں سے منتخب کرکے بناتے ہیں، اور اصلی کرکٹ میچ میں پرفورمنس کے مطابق پوائنٹس ملتے ہیں زیادہ اسکور آنے پر پیسہ بھی ملتا ہے اور ہارنے پر پیسہ ڈوب جاتا ہے۔ لوگوں کو عادت ہو اس لیے پہلی مرتبہ ایپ ڈاون لوڈ کرنے پر بونس پیسہ ملتا ہے جس کے ختم پر پیسہ اکاؤنٹ سے لوڈ کرنا پڑتا ہے، ایک بہت بڑا طبقہ روز ایسا کرتا ہے، براہ کرم رہبری فرمائیں۔
(المستفتی : عبیدالرحمن سر، ایولہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جو صورت بیان کی گئی ہے، بلاشبہ وہ قمار اور جوئے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

قمار عربی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اس کا دوسرا نام ”میسر“ہے، اِسے اُردو میں ”جوا“ اور انگریزی میں ”Gambling “ کہتے ہیں۔

قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ معاملہ جس میں کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر کوئی رقم اس طرح داؤ پر لگائی گئی ہو کہ یا تو رقم لگانے والااپنی لگائی ہوئی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے یا اُسے اتنی ہی یا اس سے زیادہ رقم کسی معاوضہ کے بغیر مل جائے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہم نے ”قمار“ کی حقیقت درج ذیل الفاظ میں بیان کی ہے :

قمار ایک سے زائد فریقوں کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ہر فریق نے کسی غیریقینی واقعے کی بنیاد پر اپنا کوئی مال(یا تو فوری ادائیگی کرکے یا ادائیگی کا وعدہ کرکے) اس طرح داؤ پر لگایا ہو کہ وہ مال یا تو بلا معاوضہ دُوسرے فریق کے پاس چلا جائے گا یا دُوسرے فریق کا مال پہلے فریق کے پاس بلا معاوضہ آجائے گا۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل، 3/358)

قمارکے مفہوم کو علامہ شامیؒ نے اس طرح بیان کیا ہے :

الْقِمَارَ هُوَ الَّذِی یسْتَوِی فِیهِ الْجَانِبَانِ فِی احْتِمَالِ الْغَرَامَةِ
”قمار وہ معاملہ ہے جس میں دونوں فریقین کو نقصان پہنچنے کا احتمال برابر ہو۔“ (حاشیة ابن عابدین، 6/ 403)

اس کو مثال کے ذریعہ اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً ایک شخص دوسرے سے کہے کہ اگر ہندوستان میچ جیت گیا تو میں تمہیں ایک ہزار روپے دُوں گا، لیکن اگر ہندوستان میچ ہار گیا تو تم مجھے ایک ہزار روپے دوگے، یا دو افراد کوئی کھیل کھیلیں اور آپس میں یہ شرط لگادیں کہ جو شخص کھیل جیتے گا وہ دوسرے سے ایک متعین رقم وصول کرے گا، یہ قمار (جوا)ہے۔

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور صورتیں قمار اور جوئے پر مشتمل ہیں، کیونکہ اس میں ہار کی صورت میں لگائی ہوئی رقم ضبط ہوجاتی ہے۔

ملحوظ رہے کہ جوئے کی حُرمت خود قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ (المائدہ : آیت، 90)
ترجمہ : اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔

لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے شیطانی کام سے مکمل طور پر پرہیز کریں، اور بقدر استطاعت دوسروں کو بھی روکیں۔ اور جن لوگوں نے اس جوئے کے ذریعے کوئی رقم حاصل کرلی ہے ان کے لیے اس کا ذاتی استعمال جائز نہیں ہے، اس رقم کا بلانیت ثواب غریبوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔

ثم عرفوہ بأنہ تعلیق الملک علی الخطر والمال في الجانبین۔ (قواعد الفقہ : ۴۳۴)

قال اللّٰہ تعالیٰ : یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا۔ (البقرۃ، جزء آیت: ۲۱۹)

عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ حرّم علی أمتي الخمر والمیسر۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل ۲؍۳۵۱ رقم: ۶۵۱۱ دار إحیاء التراث، بیروت)
مستفاد : قمار کی حقیقت اور جدید صورتیں)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 صفر المظفر 1442

جمعہ، 25 ستمبر، 2020

غیرشادی شدہ کی امامت کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! میری عمر 23 سال ہے، ابھی میری عالمیت مکمل ہوئی ہے، میری مسجد میں دو تین لوگ میرے تعلق سے یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں کہ چونکہ آپ غیر شادی شدہ ہیں اس لئے آپ کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔کل ذمہ داران نے کہا کہ اگر آپ اس پر فتوی نکال لیں تو اچھا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد کا امام ایسا ہونا چاہئے جو اعلم بالسنہ یعنی مسائل کا زیادہ جانکار ہو، قرآنِ کریم صحیح پڑھنے والا اور متبعِ سنت ہو۔ شادی شدہ ہونا امامت کے لیے شرط نہیں ہے۔ غیر شادی شدہ امام اگر متقی، پرہیزگار ہوتو اس کی امامت بلاکراہت درست ہے۔

مسئولہ صورت میں فی الحال اگر آپ کی شادی نہیں ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آپ کو نکاح کرنا ہی نہیں ہے، عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ بیس بائیس سال کی عمر میں بحیثیت امام تقرر ہوتا ہے پھر دو تین سالوں میں امامت پر رہتے ہوئے نکاح ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ بغیر علم کے اس مسئلہ کو اُٹھا رہے ہیں انہیں اس سے باز آجانا چاہیے، ورنہ اس فتنہ انگیزی کی وجہ سے ان کا بروزِ حشر سخت مؤاخذہ ہوگا۔

والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوٰۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع۔ (تنویر الابصار مع الدر، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ۲/۲۹۴)

وأولٰی الناس بالإمامۃ أعلمہم بالسنۃ … ثم الأورع … ثم أحسن خلقاً۔ (البحر الرائق : ١/۳۴۷)

والأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصباً (مجمع الأنہر) الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃً وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ۔ (شامي : ۲/۲۹۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 صفر المظفر 1442