جمعہ، 18 ستمبر، 2020

سبسڈی والے سرکاری قرض لینے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! حکومت کی جانب سے معذور افراد کے لیے ایک اسکیم آئی ہے اس میں بینک سے لون لینا ہوگا اور اس کی ہر ماہ قسط ادا کرنی ہوگی اور تمام قسط ادا کرنے کے بعد حکومت کی طرف سے آدھی رقم واپس ملے گی، مثلاً 10000 کے لون کی کل ادائیگی 10500 ہوگی اور پوری رقم ادا ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے 5000 بینک میں آجائے گا۔ لون کی قسط کی ادائیگی میں سود کی رقم بھی شامل ہو رہی ہیں ایسے میں اس اسکیم کا استعمال کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟
(المستفتی : مقیت الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کی جانب سے ملنے والے ایسے قر‌ضے جن کا بعض یا کُل حصہ معاف ہوجائے یا جتنا لیا جائے اتنا ہی واپس کرنا ہوتو ان کا لینا شرعاً جائز اور درست ہے۔

قرض کا اصل حکم یہ ہے کہ جتنا  قرض لیا جائے، اتنا ادا کر دیا جائے، لیکن اگر  قرض دینے والا  اس میں سے کچھ یا کُل حصہ معاف کردے، تو یہ بھی جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں معذور افراد کو حکومت کی طرف سے دیئے گئے  قرض میں سے بطورِ امداد واعانت کے کچھ حصہ واپس کردیا جائے، تو اس طرح کا قرض لینا جائز ہے، خواہ پہلے اصل رقم سے کچھ زائد بھرنا پڑتا ہو، اسے سود نہیں کہا جائے گا، کیونکہ یہاں اصل رقم سے زائد کچھ نہیں بھرنا پڑ رہا ہے۔

وَالْقَرْضُ هُوَ أَنْ يَقْرِضَ الدَّرَاهِمَ وَالدَّنَانِيرَ أَوْ شَيْئًا مِثْلِيًّا يَأْخُذُ مِثْلَهُ فِي ثَانِي الْحَالِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۵/۳۶۶)

قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى  اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَخْذِ الْجَائِزَةِ مِنْ السُّلْطَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ يُعْطِيهِ مِنْ حَرَامٍ قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ نَأْخُذُ مَا لَمْ نَعْرِفْ شَيْئًا حَرَامًا بِعَيْنِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَأَصْحَابِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ، وَفِي شَرْحِ حِيَلِ الْخَصَّافِ لِشَمْسِ الْأَئِمَّة رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّ الشَّيْخَ أَبَا الْقَاسِمِ الْحَكِيمَ كَانَ يَأْخُذُ جَائِزَةَ السُّلْطَانِ وَكَانَ يَسْتَقْرِضُ لِجَمِيعِ حَوَائِجِهِ، وَمَا يَأْخُذُ مِنْ الْجَائِزَةِ يَقْضِي بِهَا دُيُونَهُ وَالْحِيلَةُ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ أَنْ يَشْتَرِيَ نَسِيئَةً، ثُمَّ يُنْقَدُ ثَمَنَهُ مِنْ أَيِّ مَالٍ شَاءَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 محرم الحرام 1442

4 تبصرے:

  1. یہاں پہ ٥٠٠ زیادہ کرکے دے رہا ہے تو یہ سود میں شامل نہیں سمجھا جائے گا؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جب دس ہزار پانچ سو میں سے پانچ ہزار واپس مل جائے گا تو پھر زائد رقم کہاں دینا پڑا؟ جب زائد نہیں دینا پڑا تو پھر سود بھی نہیں۔

      حذف کریں
  2. Sawal
    Bajaj finance se mobile liye jate hai jis ki raqam kist war ada karni hoti hai.kya ye jayez hai.

    جواب دیںحذف کریں
  3. کہیتی کے لئے اگر 200000روپئہ لوں اور واپس کتے 120000 روپئہ تو کیا ہہ دروست ہے

    جواب دیںحذف کریں