ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

آنکڑی ڈال کر مسجد میں بجلی استعمال کرنا

سوال :

مفتی صاحب! آنکڑی ڈال کر مسجد میں بجلی لینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
٢) اگر جائز نہیں تو مذہبی مقامات پر مفت بجلی والی بات پر یقین کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
٣) اگر یہ عمل ناجائز ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ تمام مصلیان، امام صاحب یا مسجد کے ذمہ داران؟
٤) ناجائز ہونے کے باوجود اس مسجد میں ادا کی گئی نماز، تلاوت اور دیگر عبادات کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے؟ وہ درست ہوں گی یا نہیں؟
ازراہ کرم مذکورہ بالا تمام سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
المستفتی : عبداللہ، جلگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آنکڑی ڈال کر یعنی بغیر میٹر کے بجلی استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنا بجلی چوری کرنے میں شمار ہوگا جو سنگین گناہ ہے۔

٢) جہاں تک ہماری معلومات ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ بجلی عموماً پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے مہیا کی جاتی ہے، اور پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے ایسی کوئی سہولت نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب تک وہاں بجلی مہیا کرنے والی کمپنی کی جانب سے کوئی تحریری اور یقینی ثبوت نہ مل جائے اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔

٣) ظاہر ہے آنکڑی ڈال کر بجلی چوری کرنے والی مسجد کی انتظامیہ اس کی ذمہ دار ہوگی، مصلیان اور امام صاحب کو اس میں کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا تو وہ کیونکر اس کے ذمہ دار ہوں گے؟

٤) جب تک بجلی کمپنی کو چوری شدہ بجلی کی تلافی نہیں کی جائے گی یعنی مسجد کی یا پھر ذاتی رقم سے اس کی قیمت ادا نہیں کی جائے گی، تب تک چوری کی بجلی کا استعمال کروانے والی انتظامیہ گناہ گار ہوگی۔ تاہم چوری کی بجلی کی روشنی میں پڑھی جانے والی نماز، تلاوت و دیگر عبادات پر اسکا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

قال اللہ تعالیٰ : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (سورۃ المائدۃ : ۳۸)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لعن اللّٰہ السارق یسرق البیضۃ فتقطع یدہ ویسرق الحبل فتقطع یدہ۔ (صحیح مسلم، کتاب الحدود / باب حد السرقۃ، رقم: ۱۶۸۷)

لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الغصب / مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر ۹؍۲۹۱ زکریا)
(مستفاد : امداد الفتاوی، آپ کے مسائل اور انکا حل، فتاوی قاسمیہ، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
01 صفر المظفر 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں