جمعہ، 25 ستمبر، 2020

غیرشادی شدہ کی امامت کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! میری عمر 23 سال ہے، ابھی میری عالمیت مکمل ہوئی ہے، میری مسجد میں دو تین لوگ میرے تعلق سے یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں کہ چونکہ آپ غیر شادی شدہ ہیں اس لئے آپ کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔کل ذمہ داران نے کہا کہ اگر آپ اس پر فتوی نکال لیں تو اچھا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد کا امام ایسا ہونا چاہئے جو اعلم بالسنہ یعنی مسائل کا زیادہ جانکار ہو، قرآنِ کریم صحیح پڑھنے والا اور متبعِ سنت ہو۔ شادی شدہ ہونا امامت کے لیے شرط نہیں ہے۔ غیر شادی شدہ امام اگر متقی، پرہیزگار ہوتو اس کی امامت بلاکراہت درست ہے۔

مسئولہ صورت میں فی الحال اگر آپ کی شادی نہیں ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آپ کو نکاح کرنا ہی نہیں ہے، عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ بیس بائیس سال کی عمر میں بحیثیت امام تقرر ہوتا ہے پھر دو تین سالوں میں امامت پر رہتے ہوئے نکاح ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ بغیر علم کے اس مسئلہ کو اُٹھا رہے ہیں انہیں اس سے باز آجانا چاہیے، ورنہ اس فتنہ انگیزی کی وجہ سے ان کا بروزِ حشر سخت مؤاخذہ ہوگا۔

والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوٰۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع۔ (تنویر الابصار مع الدر، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ۲/۲۹۴)

وأولٰی الناس بالإمامۃ أعلمہم بالسنۃ … ثم الأورع … ثم أحسن خلقاً۔ (البحر الرائق : ١/۳۴۷)

والأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصباً (مجمع الأنہر) الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃً وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ۔ (شامي : ۲/۲۹۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 صفر المظفر 1442

1 تبصرہ: