اتوار، 6 ستمبر، 2020

حج کرنے والے کا اپنے آپ کو حاجی کہنا اور لکھنا

سوال :

مفتی صاحب کچھ لوگ ایک مرتبہ حج کرکے اپنے نام کے ساتھ حاجی لگانے لگ جاتے ہیں لیکن روزآنہ پانچ وقت کی نماز پڑھنے کے باوجود نمازی نہیں لگاتے، اس سے ثابت ہوا کہ یہ حاجی محض تکبر اور ریاکاری کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
(المستفتی : ابو اسامہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ’’ حج ‘‘ اللہ رب العزت کی ایک بڑی نعمت ہے، ہر ایک کو نہیں ملتی، اگر کسی کو ملی ہے اور دوسرے لوگ عزت و اکرام کی وجہ سے حاجی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں، تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں جیسا کہ کسی عالم کو مولانا وغیرہ کہہ کر عزت دی جاتی ہے۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کی نیکیاں اور دوسرے کمالات ایسے تھے کہ ان کے لیے حج بڑے اہم کاموں میں شمار کیے جانے کے لائق نہیں تھا، لہٰذا انہیں حاجی کہہ کر بلانے کی ضرورت نہیں تھی، اسی طرح آج کل جن لوگوں کو حج کرنے میں کوئی قربانی دینی نہیں پڑتی، ان کو بھی ایسا لقب نہیں دیا جاتا، مثلاً : آج کل جو لوگ مکہ مکرمہ میں ہی رہتے ہیں، تو حج وطواف وغیرہ ان کے لیے ایسا ہی ہے، جیسا کہ نمازو روزہ کی عبادت، لیکن جو لوگ دور دراز ملک سے حج کرنے کے لیے جاتے ہیں، ان کی قربانی ہمہ جہت ہے کہ مال اور وقت قربانی کے ساتھ سفر کی تکلیف بھی برداشت کرنی پڑتی ہے، اس لیے انہیں حاجی کہہ کر پکارا جاتا ہے، ہاں خود اپنے آپ کو حاجی کہنے یا لکھنے سے احتیاط کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں ایک طرح سے نیکی کی تشہیر ہے، جس میں ریا کاری کا قوی اندیشہ ہے۔ البتہ اگر کوئی حاجی کے ساتھ ہی مشہور ہوجائے بغیر حاجی کے اس کا نام لکھنے یا کہنے سے اس کو پہچاننا مشکل ہوتو پھر اس کا خود حاجی لکھنے یا کہنے میں حرج نہیں۔ تاہم یہاں بھی اس کے دل کا ریاکاری کے جذبہ سے خالی ہونا ضروری ہے۔ ورنہ اللہ تعالٰی تو دلو‌ں کے حال کو خوب جاننے والے ہیں۔

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں کہی گئی بات بعض اوقات درست بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔ لہٰذا ہمیں مطلقاً ناجائز کا حکم لگانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

عن شداد بن أوس رضي اللّٰہ عنہ قال : سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول : ’’ من صلی یرائي فقد أشرک ومن صام یرائي فقد أشرک ومن تصدق یرائي فقد أشرک۔ (مسند احمد : ۱۳/۲۷۶ ، رقم : ۱۷۰۷۵)

اعلم أن إخلاص العبادۃ للّٰہ تعالی واجب، والریاء ۔۔۔ فیہا حرام بالإجماع للنصوص القطعیۃ ، وقد سمی علیہ الصلاۃ والسلام الریاء الشرک الأصغر وہذہ النیۃ لتحصیل الثواب لا لصحۃ العمل؛ لأن الصحۃ تتعلق بالشرائط والأرکان، والنیۃ ہي شرط لصحۃ الصلاۃ ۔۔۔ الریاء الکامل المحبط للثواب من أصلہ کما إذا صلی لأجل الناس ولولا ہم ما صلی۔ (شامی :۹/۵۲۲ ، کتاب الحظر والإباحۃ)
مستفاد : فتاوی فلاحیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 محرم الحرام 1442

2 تبصرے: