منگل، 22 ستمبر، 2020

نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے؟ اگر نہیں تو کوئی پڑھ لے تو اس کی نماز ہوجائے گی؟
(المستفتی : شیخ مزمل سر، بمبئی)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مالکیہ اور حنفیہ کے نزدیک قرأت کی نیت سے سورہ فاتحہ کا پڑھنا مکروہ ہے۔ البتہ احناف کے یہاں دعا اور ثناء کی نیت سے تکبیرِ اولی کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھنا جائز ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی جس روایت میں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کو سنت کہا گیا ہے، اس سے متعلق امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں "یہ سنت ہے" سے مراد یہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر تکبیر اولیٰ کے بعد سبحانک اللہم الخ کے بجائے سورت فاتحہ پڑھی جائے تو یہ سورت فاتحہ سنت (یعنی سبحانک اللہم الخ پڑھنے) کے قائم مقام ہو جاتی ہے۔

محقق امام ابن ہمام فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ کی قرأت نہ کی جائے ہاں بہ نیت ثنا سورت فاتحہ پڑھی جا سکتی ہے چنانچہ نماز جنازہ میں آنحضرت ﷺ سے سورت فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ نیز موطا میں منقول ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔ لہٰذا احناف کا مسلک یہی ہے نماز جنازہ میں بہ نیت قرأت سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے، پہلی تکبیر کے بعد اگر پڑھی گئی ہے تو ثناء کے قائم مقام کے طور پر پڑھی گئی ہے۔

قرأت کی نیت سے سورۂ فاتحہ کے نماز جنازہ میں مکروہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ نمازِ جنازہ قرأت کا محل نہیں ہے بلکہ یہ دعا کا موقع ہے۔ چنانچہ اسے رکوع سجدے والی نماز کی طرح سمجھ کر اس میں سورہ فاتحہ کو ضروری قرار دینا درست نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی قرأت کی نیت سے سورہ فاتحہ پڑھ لے تو اس کا عمل خلافِ سنت اور مکروہ تو ہوگا، لیکن نماز ادا ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔

وَعَيَّنَ الشَّافِعِيُّ الْفَاتِحَةَ فِي الْأُولَى. وَعِنْدَنَا تَجُوزُ بِنِيَّةِ الدُّعَاءِ، وَتُكْرَهُ بِنِيَّةِ الْقِرَاءَةِ لِعَدَمِ ثُبُوتِهَا فِيهَا عَنْهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وتحتہ فی الشامیۃ : وَبِهِ قَالَ أَحْمَدُ لِأَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فَجَهَرَ بِالْفَاتِحَةِ، وَقَالَ: عَمْدًا فَعَلْت لِيُعْلِمَ أَنَّهَا سُنَّةٌ. وَمَذْهَبُنَا قَوْلُ عُمَرَ وَابْنِهِ وَعَلِيٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَبِهِ قَالَ مَالِكٌ كَمَا فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ ۔ (قَوْلُهُ وَتُكْرَهُ بِنِيَّةِ الْقِرَاءَةِ) فِي الْبَحْرِ عَنْ التَّجْنِيسِ وَالْمُحِيطِ: لَا يَجُوزُ لِأَنَّهَا مَحَلُّ الدُّعَاءِ دُونَ الْقِرَاءَةِ اهـ وَمِثْلُهُ فِي الْوَلْوَالِجيَّةِ والتتارخانية. وَظَاهِرُهُ أَنَّ الْكَرَاهَةَ تَحْرِيمِيَّةٌ۔ (شامی، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ الجنازۃ : ٢/٢١٣)

وَلَا يَقْرَأُ فِيهَا الْقُرْآنَ وَلَوْ قَرَأَ الْفَاتِحَةَ بِنِيَّةِ الدُّعَاءِ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ قَرَأَهَا بِنِيَّةِ الْقِرَاءَةِ لَا يَجُوزُ؛ لِأَنَّهَا مَحَلُّ الدُّعَاءِ دُونَ الْقِرَاءَةِ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ :۱/۱۶۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 صفر المظفر 1442

1 تبصرہ: