بدھ، 31 اکتوبر، 2018

دوسرا نکاح کرنے کے لیے بیوی کی اجازت ضروری ہے؟

*دوسرا نکاح کرنے کے لیے بیوی کی اجازت ضروری ہے؟*

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ دوسرے نکاح کے لئے کیا پہلی بیوی سے اجازت ضروری ہے؟
(المستفتی : محمد ساجد، مالیگاؤں)
-----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر بیویوں کے درمیان عدل وانصاف اور ان کے نان و نفقہ و دیگر حقوق پر قدرت ہو تو ایک سے زائد نکاح کرنا جائز اور درست ہے، اس میں موجودہ بیوی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی اس کو اعتراض کا حق ہے ۔

فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآئِ مَثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً۔ [النساء: ۳] (فتاوی دارالعلوم ۷/ ۴۷)

إذا کان للرجل امرأتان حرتان، فعلیہ أن یعدل بینہما في القسم۔ (ہدایۃ، باب القسم، أشرفي دیوبند ۲/ ۳۴۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 شوال المکرم 1439

مسجد میں سونا اور مسجد کے حمام میں غسل کا حکم

*مسجد میں سونا اور مسجد کے حمام میں غسل کا حکم*

سوال :

مسجد میں آرام کی نیت سے سونا کیسا ہے؟
جماعت کے لوگوں کو سونے کی اجازت ہے کیوں کے وہ مسافر ہوتے ہیں ایسا کہا جاتا ہے ۔
مسجد کے غسل خانے میں ایک شخص ۵ روپیہ ڈال کر غسل کرسکتا ہے اس کی اجازت ہوتی ہے ایسا بورڈ لگا ہے ۔ با حوالہ جواب مطلوب ہے ۔
(المستفتی : اشفاق شبیر، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تبلیغی جماعت کے احباب مسافر ہوتے ہیں اس لیے ان کا مسجد میں سونا درست ہے، ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بغیر اعتکاف کی نیت کے مسجد میں سونا مکروہ ہے، تاہم جو لوگ بھی سوئیں مسجد کا احترام بھی ملحوظ رکھیں ۔

2) مسجد کی آمدنی کے لئے ایسا کرنا درست ہے ۔

وإذا أراد أن یفعل ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف، فیدخل فیہ، ویذکر اللہ تعالیٰ بقدر مانوی، أو یصلي، ثم یفعل ما شاء، ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح من المذہب۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد، ۵/ ۳۷۱)

مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ ۔ (شامی : ۶/۶۶۵، کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ والعرف یَصلُح مخصّصًا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شوال المکرم 1439

منگل، 30 اکتوبر، 2018

ایک مشت داڑھی رکھنے کا حکم

*ایک مشت داڑھی رکھنے کا حکم*

سوال :

فرض اور واجب میں کیا فرق ہے؟ داڑھی رکھنا سنت کے ساتھ ساتھ فرض ہے یا واجب؟ کیا ایک مشت سے ذرا سی بھی کم داڑھی رکھنے پر اجر وثواب ہے؟
(المستفتی : زیاد انظر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت مطہرہ کے جس حکم کا ثبوت نصِّ قطعی یعنی قرآن کریم سے ہو، وہ فرض کہلاتا ہے۔ اور جس حکم کا ثبوت حدیث سے ہوتا ہے وہ واجب کہلاتا ہے، دونوں پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے، مگر فرض کا انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے، اور واجب کا انکار کرنے والا کافر تو نہیں ہوتا، لیکن فاسق وفاجر ہوتا ہے۔ فرض کو فرضِ اعتقادی کہتے ہیں، اور واجب کو فرض عملی کہتے ہیں۔

فما ثبت بہ یسمیہ فرضاً عملیًّا لأنہ یعامل معاملة الفرض في وجوب العمل، ویسمّی واجبا نظراً إلی ظنّیة دلیلہ الواجب لا یلزم اعتقاد حقیقتہ لثبوتہ بدلیل ظني لکن یلزم العمل بموجبہ۔ (شامي : ١/٢٠٧،٢٠٨)

صحیح احادیث میں مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم وارد ہوا ہے۔

قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انہکوا الشوارب واعفوا اللحیٰ۔ (بخاري شریف : ۲/۸۷۵، رقم :۵۶۶۴)

مگربعض حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا معمول داڑھی ایک مشت سے بڑھ جانے پر کٹا دینے کا تھا، جیسے حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرھم۔

وکان ابن عمر إذا حج، أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ۔ (بخاري شریف، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار ۲/۸۷۵، رقم: ۵۶۶۳)

عن أبي ذرعۃکان أبو ہریرۃؓ یقبض علی لحیتہ، ثم یأخذ ما فضل عن القبضۃ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۲)

عن الحسن قال کانوا یرخصون فیما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ أن یؤخذ منہا۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۵)

اس لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، اور اس سے پہلے کٹانا ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے، چنانچہ ایسی داڑھی پر ثواب ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ ایک مشت سے زائد ہونے پر کاٹنے کی گنجائش ہے۔

وأما الأخذ منہا وہي دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلہا فعل الیہود ومجوس الأعاجم۔ (الدر المختار مع الشامي : ۳؍۳۹۸)

أو تطویل اللحیۃ إذا کانت بقدر المسنون وہو القبضۃ۔ (الدر المختار : ۲؍۴۱۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 صفر المظفر 1440

کھڑے ہوکر کھانے پینے اور پیشاب کرنے کا حکم

*کھڑے ہوکر کھانے پینے اور پیشاب کرنے کا حکم*

سوال :

کھڑے ہوکر کھانا کھانا، کھڑے ہو کر پانی پینا اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنا کیا یہ تین اعمال برے ہیں؟ یا صرف سمجھے جاتے ہیں؟ اور ان پر کیا وعیدیں ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : قدسی فیصل سعود، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تینوں اعمال کے احکام بالترتيب ملاحظہ فرمائیں :

▪کھڑے ہوکر کھانا انسانوں کا شیوہ نہیں ہے، بلکہ دیگر جانوروں کا طریقہ ہے، اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو جانوروں سے الگ اور امتیازی شان عطا فرمائی ہے، انسانوں کے کھانے اور پینے کی امتیازی شان یہ ہے کہ وہ بیٹھ کر کھائیں اس لئے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بغیر عذر کے کھڑے ہوکر کھانے پینے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا تو آپ سے پوچھا گیا کہ کھانے کا کیا حکم؟ تو آپ نے فرمایا وہ تو اس سے بھی زیادہ سخت ہے ۔

اسی طرح اگر غیرقوموں کی مشابہت میں کھڑے ہو کر کھانا کھایا جائے (جیسا کہ آج کل بڑے شہروں میں شادیوں اور دیگر تقریبات میں کھڑے ہوکر کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، اور لوگ برضا ورغبت کھاتے ہیں) تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے، حدیث شریف میں اس کی صراحت آئی ہے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، اس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا اور کھڑے ہو کر کھانے کا فیشن چونکہ مغربی یہود و نصاریٰ سے آیا ہے، اس لئے اس کا ترک ہر مسلمان پر ضروری ہے ۔

البتہ پان اور اس جیسی دیگر چیزیں مثلاً خشک میوہ جات وغیرہ کے متعلق یہ حکم نہیں ہے، کیونکہ اس میں اغیار کی مشابہت نہیں ہے اور نہ ہی عرف میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے، حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ پیغمبر علیہ السلام کے زمانہ میں چلتے ہوئے کھاتے پیتے تھے، تو اس کھانے پینے سے مراد ایسی ہی معمولی چیزوں کا کھانا پینا ہے جن کیلئے دستر خوان بچھانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، لہٰذا ایسی چیزوں کے کھڑے کھڑے یا چلتے پھرتے کھانے کی گنجائش ہے ۔

عن أنسؓ أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، نہی أن یشرب الرجل قائماً، فقیل الأکل قال ذاک أشد۔ (ترمذي شریف، باب ماجاء في النہی عن الشرب قائماً، النسخۃ الہندیۃ۲/۱۰، دار السلام رقم: ۱۸۷۹، مسند أبي داؤد الطیالسي، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/۴۸۲، رقم: ۲۱۲۹، مسند أحمد بن حنبل ۳/۱۳۱، رقم:۱۲۳۶۳)

عن ابن عمرؓ، قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، باب في لبس الشہرۃ، النسخۃ الہندیۃ۲/۵۵۹، دارالسلام رقم: ۴۰۳۱)

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کنا نأکل علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نمشي ونشرب ونحن قیام۔ (سنن الترمذي، أبواب الأشربۃ / باب ما جاء في الرخصۃ في الشرب قائمًا ۲؍۱۰ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)

کما قال الملا علي القاريؒ : والصواب فیہا أن النہي محمول علی کراہۃ النزیہیۃ، وأما شربہ قائمًا فبیان للجواز ۔ (مرقاۃ المفاتیح ۸؍۲۱۷ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)

▪ حدیث شریف کے عموم سے یہی پتہ چلتا ہے کہ پانی بیٹھ کر پیا جائے : جیسا کہ مسلم شریف میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔

البتہ اگر کبھی کھڑے ہوکر پینے کی ضرورت پڑجائے تو  کھڑے ہوکر پانی پی سکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے کھڑے  ہوکر جو پانی پینا ثابت ہے، وہ بیانِ جواز کے لیے یا آب زم زم اور وضو کے بچے ہوئے پانی کے ساتھ خاص ہے۔ علماء نے اس قسم کی متعارض احادیث میں اسی طرح تطبیق دی ہے، یعنی اصل عمل مسلم شریف میں موجود حدیث پر کرنا چاہیے، باقی بوقت ضرورت کھڑے ہوکر پینے کی گنجائش ہوگی۔ کھڑے ہوکر پانی پینے کے مسئلے میں بہت زیادہ سختی کا مظاہرہ کرنا اور کسی پر سختی سے نکیر کرنا درست نہیں ہے۔

عن قتادۃ ، عن أنس : ’’ ان النبي ﷺ زجر عن الشرب قائمًا ۔ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ ، باب في الشرب قائمًا ، قدیمی، ۲/۱۷۳)

قال الملا علي القاريؒ : والصواب فیہا أن النہي محمول علی کراہۃ النزیہیۃ، وأما شربہ قائمًا فبیان للجواز ۔ (مرقاۃ المفاتیح ۸؍۲۱۷ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)

والأحوط الاجتناب عن الشرب قائمًا سیما إذا لم یکن یشتد إلیہ حاجتہ کذا في شرح الشمائل لعصام (قوت المغتذي علی الترمذي: ۲/۱۰)

▪ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا شریعت مطہرہ کے مزاجِ نظافت و پاکیزگی کے خلاف ہے، حدیث شریف میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے : چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : جو شخص تم سے یہ بیان کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پیشاب کیا کرتے تھے، تو تم اُس کی اِس بات کو سچ نہ مانو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر ہی پیشاب کیا کرتے تھے۔
اسی لیے فقہاء نے بلا عذر کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو مکروہِ تنزیہی قرار دیا ہے۔

عن عائشۃ رضي اللہ عنہا قالت : ’’ من حدثکم أن النبي ﷺ کان یبول قائما فلا تصدّقوہ ، ما کان یبول إلا قاعدا ‘‘ ۔ رواہ أحمد والترمذي والنسائي ۔ (ص/۴۳ ، کتاب الطہارۃ ، باب آداب الخلاء ، الفصل الثالث ، الرقم :۳۶۵ ، قدیمي ، سنن النسائي :۱/۶، کتاب الطہارۃ ، باب النہي عن البول قائما ، جامع الترمذي :۱/۹، کتاب الطہارۃ ، باب النہي عن البول قائما)

وقال عامۃ العلماء : البول قائما مکروہ إلا لعذر وہيکراہۃ تنزیہ لا تحریم وہو مذہبنا الحنفیۃ ۔ (۱/۲۴۷ ، کتاب الطہارۃ ، باب البول قائما، بذل المجہود)

وکذا یکرہ ۔۔۔۔۔۔ وأن یبول قائما ۔ در مختار ۔ وفي الشامیۃ : قال العلماء : یکرہ إلا لعذر ، وہي کراہۃ تنزیہ لا تحریم ۔ (الدر المختار مع الشامی باب الأنجاس ، مطلب القول مرجح علی الفعل، ۱/۵۵۷)

ویکرہ أن یبول قائما أو مضطجعا أو متجردا عن ثوبہ من غیر عذر فإن کان بعذر فلا بأس بہ ۔ (۱/۵۰، کتاب الطہارۃ ، قبیل کتاب الصلاۃ، ہندیہ)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 صفر المظفر 1440

پیر، 29 اکتوبر، 2018

سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کی اہمیت و افادیت

*سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کی اہمیت و افادیت*

✍ محمد عامرعثمانی ملی

قارئین کرام ! موجودہ دور انتہائی سخت فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے، آج باطل اسلام اورمسلمانوں کو ہر طرف سے گھیرنے کی پوری کوشش و جدوجہد کررہا ہے، خواہ سیاست ہو یا دینیات، ہرجگہ وہ مسلمانوں کو نہ تو مادی ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی انھیں اپنے دین و شریعت پر آسانی سے عمل کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے، باطل کی ہر وقت یہی کوشش ہے کہ مسلمان نہ تو اپنے دین کا رہے اور نہ دنیا کا ۔اسی کی ایک کڑی حکومتِ وقت کی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہے، اسی طرح اور بھی دیگر تنظیمیں مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور ان کے دین و ایمان کو نیست و نابود کردینے کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔

ایسی سنگین صورتِ حال میں جبکہ ایک بڑا طبقہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے اپنے آپ کو مربوط رکھے ہوئے ہے، ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ باقاعدہ اپنے دینی مسائل کے حل کے لیے علماء کرام سے براہ راست ملاقات کرکے تشفی حاصل کریں، یا انہیں ایسے علماء میسر ہی نہیں ہیں جو ان کی کسی بھی وقت براہِ راست صحیح رہنمائی کرسکیں، اس لئے ایسے لوگوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے ہی دینی رہنمائی حاصل کرنا شروع کردی، (ملحوظ رہے کہ انٹرنیٹ پر اہلِ حق سے زیادہ باطل عقائد کی حامل جماعتوں کے مواد اور لٹریچر موجود ہیں) جس کی وجہ سے ایک صحیح العقیدہ عام مسلمان جب اس طرف بغیر کسی صحیح رہنمائی کے جاتا ہے تو بسا اوقات باطل عقائد کا حامل بن کر اپنا بیش قیمت ایمان لُٹا بیٹھتا ہے ۔ اسی طرح اوربھی بہت سی خرابیاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جو کہ عام طور پر دینی تعلیم سے آراستہ مسلمانوں کو بھی سمجھ میں نہیں آتیں، مثلاً موضوع (من گھڑت) روایات کی بھرمار، یہاں تک کہ موجودہ دور میں بھی باقاعدہ احادیث گھڑی جارہی ہیں، من گھڑت پُرکشش وظائف میں امت کو الجھا کر مستند اور منقول دعاؤں اور وظائف سے امت کو دور کیا جارہا ہے، چنانچہ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے علماء کرام نے اپنی ہزار مصروفیات کے باوجود یہ ایک ذمہ داری بھی سنبھال لی کہ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کے ذریعے عوام الناس کے ایمان و اعمال کی حفاظت کی جائے اور یہ خدمت بغیر کسی عوظ کے صرف اخلاص اور للہیت کی بنیاد پر کی جارہی ہے، آج آپ دیکھیں گے کہ واٹس ایپ، ٹیلی گرام، فیس بک پر ایسے سینکڑوں گروپس علماء حقہ کے موجود ہیں جو ہزاروں مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، جن میں ملکی سطح پر مشہور علماء مفتی شکیل منصور قاسمی، مفتی جنید پالنپوری، مفتی زبیر ندوی وغیرھم کے فتاوی اور حضرت مولانا شیخ طلحہ بلال منیار، مفتی عبدالباقی اخونزادہ کی احادیث سے متعلق تحقیقات سوشل میڈیا پر کافی مشہور و معروف ہیں ۔

لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ بات لکھی جارہی ہے کہ آج علماء کی صف کے بعض حضرات (جن کی تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے برابر ہے) یا تو لاعلمی میں یا کسی اور وجوہات کی بنا پر سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کو نا درست قرار دے رہے ہیں، اور اس پر پابندی کی باتیں کررہے ہیں، اور اس کی دلیل کے طور پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ سوشل میڈیا پر دئیے جانے والے فتاوی میں رد و بدل، تبدیلی اور تحریف کی جاسکتی ہے ۔ یہ بات سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے افراد ہی بتائیں گے کہ آج تک کتنے فتاوی میں رد و بدل اور تحریف کی گئی ہے؟ گنتی کے ایک دو ایسے نامبارک واقعات پیش آئے ہوں گے، جس کی تردید فوراً بیدار مغز عوام اور علماء کرام کی طرف سے ہو بھی جاتی ہے، یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ یہ چیز زیادہ چل ہی نہیں سکتی، جلد ہی اس کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، ہزاروں فتاوی سوشل میڈیا پر لکھے گئے ہیں ان میں سے اگر ایک آدھ کے ساتھ ایسا کچھ ہوجائے تو کیا یہ اہم کام ہی بند کردیا جائے؟ کیا اسے عقلمندی کہا جائے گا؟ کیا ایسا کرنا شریعت کے مزاج کے مطابق ہے؟ کیا تحریف کرنے والے ہر زمانہ میں نہیں رہے ہیں؟ اہم کتابوں اور خود قرآنِ کریم میں تحریف کی ناپاک کوشش نہیں کی گئی ہے؟ تو کیا کتابوں اور قرآن کریم کی چھپائی بند کردی گئی؟ نہیں نا! تو سوشل میڈیا کے متعلق یہ رویہ کیوں؟ کیا سوشل میڈیا کو باطل کے لئے چھوڑ دیا جائے؟ ان کی تردید نہ کی جائے؟ جی نہیں، بالکل نہیں، عجیب و غریب اعتراض اور اندیشوں کی وجہ سے یہ اہم کام قطعاً بند نہیں کیا جائے گا، بلکہ تحریف سے بچنے کی شکلیں اور صورتیں اختیار کی جائیں گی، ان میں سے یہ ہے کہ بعض اہم فتاوی کی پی ڈی ایف بھی بنالی جائے، اور اسے بلاگ، ٹیلی گرام چینل، فیس بک وغیرہ پر ڈال کر محفوظ کردیا جائے، اورکبھی کسی فتوے میں تحریف کی جائے تو اصل فتوے تک پہنچنا اور حقیقت جان لینا آسان ہو، ان تفصیلات کے بعد مذکورہ اعتراض بالکل بے حیثیت ہوجاتا ہے ۔

سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ جب ایک آدمی گروپ میں کسی مسئلہ سے متعلق سوال کرتا ہے تو دیگر افراد کو بھی اس کا علم ہوجاتا ہے، بعض مرتبہ کسی کو اشکال ہوتا ہے تو وہ مفتی صاحب سے دوبارہ سوال کرکے تشفی حاصل کرلیتا ہے ۔

اسی طرح سوشل میڈیا کے دارالافتاء میں ہر قسم کے سوالات کئے جاسکتے ہیں، احادیث کے متعلق تحقیق، زندگی کے ہرشعبہ سے متعلق سوالات کئے جاتے ہیں، جبکہ مقامی دارالافتاء میں عام طور پر طلاق اور میراث سے متعلق ہی سوالات کئے جاتے ہیں، عبادات اور دیگر شعبہ حیات سے متعلق سوال کرنے میں لوگ جھجکتے ہیں، اور بغیر سوال کئے ہی غلط اعمال میں مبتلا رہتے ہیں، جس کا مشاہدہ ہوا ہے اور اس پرسینکڑوں نوجوان ہمارے مؤید ہیں کہ ان کے بہت سے اعمال کی اصلاح ہوئی ہے، بوقت ضرورت ان حضرات کی تائید بھی ارسال کی جاسکتی ہے ۔

ایک بڑا فائدہ سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کا یہ بھی ہے کہ اس کے لیے امت کا سرمایہ خرچ نہیں ہوتا بلکہ مفتی صاحب کا اپنا ایک ذاتی موبائیل ہوتا ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے پی ڈی ایف، اور یونیکوڈ فائل میں کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہوتا ہے جس کے ذریعے سہولت اور فرصت کے اوقات میں فتوی نویسی کا کام ہوجاتا ہے، باقاعدہ دارالافتاء  کی جگہ خریدنے اور اس میں کتابوں کا ذخیرہ کرنے اور مفتی صاحب کی تنخواہ کا انتظام کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، جس پر امت کا لاکھوں روپیہ خرچ ہوسکتا تھا ۔

تحديث بالنعمت کے طور پر چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا کہ بندہ بھی ایک واٹس ایپ گروپ میں بحیثیت مجیب کے اپنی خدمات دو سال سے زائد عرصے سے انجام دے رہا ہے، اور تقریباً پانچ سو مدلل جوابات لکھ چکا ہے، اور الحمدللہ اس واٹس ایپ گروپ کو استاذِ مکرم حضرت مولانا جمال عارف صاحب ندوی، مشفق و مربی مفتی مسعود اختر قاسمی، مفتی رئیس صاحب، حضرت مولانا امتیاز اقبال صاحب، برادرِ مکرم مولانا عمران اسجد ندوی وغیرھم کی تائید حاصل ہے، (اگرچہ بعض مسائل میں انہیں اختلاف ہو) اسی طرح نواسہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری کی چند دنوں قبل مالیگاؤں آمد ہوئی تھی اس وقت حضرت کے شاگرد رشید مفتی مسعود اختر قاسمی صاحب نے حضرت سے بندے کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا تھا کہ موصوف واٹس ایپ پر دارالافتاء گروپ چلاتے ہیں، حضرت نے ماشاءاللہ کہا اور ایک دو باتیں اور ارشاد فرمائی، لیکن واٹس ایپ پر فتوی نویسی کی تردید نہیں فرمائی ۔ اور نہ ہی کسی اندیشے کا اظہار کیا تھا ۔ جزاھم اللہ احسن الجزاء

اخیر میں مستفتی حضرات سے بھی درخواست ہے کہ وہ فتوی اور فتوی نویسی کی اہمیت کو سمجھیں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، بلکہ یہ بہت اہمیت کا حامل عمل ہے، اور سوشل میڈیا  گروپ کو ایک نعمتِ غیر مترقبہ سمجھیں کہ آپ کو کہیں سے بھی انتہائی آسانی سے جلد از جلد باحوالہ اور مفصل جوابات مل جاتے ہیں تو جوابات کے سلسلے میں قطعاً عجلت نہ کریں اور اسے ہلکا نہ سمجھیں، ساتھ ہی ساتھ مفتیان کرام کی دین و دنیا کے خیر و بھلائی کے لیے دعاگو بھی رہیں ۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے دین کی خدمات کے لیے قبول فرمائے، اور باطل کا نوالہ بننے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

اتوار، 28 اکتوبر، 2018

تعلیق طلاق کا حکم

*تعلیق طلاق کا حکم*

سوال :

ایک دوست کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوگیا، جھگڑے کے دوران شوہر نے بیوی سے کہا کہ گھر سے تیرے ساتھ اب نہیں نکلوں گا اگر نکلوں تو تجھے طلاق ہو۔ کیا کہتے ہیں مفتی صاحب کے طلاق واقع ہوجائے گی اگر گھر سے باہر نکلے تو؟ اور اس سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ مزمل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ اگر تو نے فلاں کام کیا تو تجھے طلاق، شریعت کی اصطلاح میں اسے تعلیق طلاق کہتے ہیں، لہٰذا جب وہ شرط پائی تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ صورت مسئولہ میں اگر وہ شخص اپنی بیوی کے ساتھ باہر نکلے تو اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی۔

اور ایک طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں میں کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں، یا تنہائی میں میاں بیوی والا عمل کرلے۔ اور اگر عدت کے اندر (تین ماہواری گذرنے سے پہلے) رجوع نہیں کیا تو عدت کی مدت گذر جانے کے بعد وہ ایک طلاق بائن بن جائے گی۔

ایک طلاق بائن کی صورت میں بیوی اسکے شوہر نکاح سے نکل جائے گی، اب وہ عدت گزار کر کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو نئے مہر کے ساتھ اسی شوہر سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس شرط کو ختم کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

وتنحل الیمین بعد وجود الشرط مطلقا لکن إن وجد فی الملک طلقت۔ (الدر المختار : ۳/۳۵۵) 

وإن وجد الشرط فی الملک طلقت۔ (کنز الدقائق مکتبہ مجتبائی دہلی ص: ۱۲۷)

عن سماکؓ قال: سمعت عکرمۃؓ یقول: الطلاق مرتان: فإمساک بمعروف، أو تسریح بإحسان، قال: إذا طلق الرجل امرأتہ واحدۃ فإن شاء نکحہا، وإذا طلقہا ثنتین فإن شاء نکحہا، فإذا طلقہا ثلاثاً فلا تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، ما قالوا في الطلاق مرتان مؤسسۃ علوم القرآن بیروت۱۰/۱۹۷، رقم:۱۹۵۶۴)

أو تزوج ثانیاً في العدۃ۔ وفي الشامیۃ: فیما لو طلقہا بائناً بعد الدخول، ثم تزوجہا في العدۃ وجب کمال المہر الثانی بدون الخلوۃ والدخول۔ (در مختار مع الشامي، باب المہر، ۴/۲۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 شوال المکرم 1439

ٹائی لگانے کی شرعی حیثیت

*ٹائی لگانے کی شرعی حیثیت*

سوال :

مفتی صاحب! زید کو کالج کے کام سے پروگرام وغیرہ میں ٹائی لگانا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ٹائی کی ابتداء نصاریٰ کے مذہبی شعار کے طور پر ہوئی تھی، کیونکہ اِس کی ہیئت صلیب سے ملتی جلتی ہوتی ہے، لیکن بعد میں اُسے لباس کا ایک جزو قرار دے دیا گیا اور مذہبی شعار کی حیثیت ختم ہوگئی۔ اَب سارے عالم میں انگریزی لباس کے ساتھ اُسے مذہبی تصور کے بغیر پہنا جاتا ہے، لہٰذا اُس کو پہننے میں کراہت تو ضرور ہے مگر پہلے جیسی شدید ممانعت باقی نہیں رہی، بہرحال مسلمانوں کو ایسے مکروہ لباس سے احتراز کرنا چاہئے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں زید کبھی کبھار ضرورت کے وقت ٹائی کا استعمال کرلے تو شرعاً اس کی گنجائش ہوگی، اس کا معمول نہ بنائے۔

وعنہ (أي عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من تشبہ بقوم‘‘: أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار۔ ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم والخیر۔ قال الطیبي: ہٰذا عام في الخَلق والخُلق والشعار، ولما کان الشعار أظہر في الشبہ ذکر في ہٰذا الباب۔ قلت: بل الشعار ہو المراد بالتشبہ لا غیر، فإن الخلق الصوري لا یتصور فیہ التشبہ … وقد حکی حکایۃً غریبۃً ولطیفۃً عجیبۃً، وہي أنہ لما أغرق اللّٰہ سبحانہ فرعون واٰلہ لم یغرق مسخرتہ الذي کان یحاکي سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام في لبسہ وکلامہ ومقالاتہ، فیضحک فرعون وقومہ من حرکاتہ وسکناتہ، فتضرع موسیٰ إلی ربہ: ’’یا رب! ہٰذا کان یؤذیني أکثر من بقیۃ آل فرعون، فقال الرب تعالیٰ: ما أغرقناہ، فإنہ کان لابسًا مثلاً لباسک، والحبیب لا یعذب من کان علی صورۃ الحبیب‘‘۔ فانظر من کان متشبہًا بأہل الحق علی قصد الباطل حصل لہ نجاۃ صوریۃ، وربما أدت إلی النجاۃ المعنویۃ، فکیف بمن یتشبہ بأنبیائہ وأولیائہ علیہ قصد التشرف والتعظیم۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۸؍۱۵۵ رقم: ۴۳۴۷ رشیدیۃ)
(مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱۹؍۲۸۹ ڈابھیل، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
9 شوال المکرم 1439