اتوار، 28 اکتوبر، 2018

مسجد کے اندر اذان پنجگانہ اور خطبہ کی اذان کا حکم

سوال:

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مسجد کے اندر اذان دینا کیسا ہے؟ نیز جمعہ کی اذان ثانی کا کیا حکم ہے؟ مدلل جواب دیکر عند اللہ مأجور ہوں ۔
(المستفتی : مختار احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد کے اندر اذان پنجگانہ دینے کو فقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے، مسجد کے اندر اذان کی ممانعت کی علت اور سبب اذان کی آواز کا لوگوں تک نہ پہنچنا ہے اور  اذان  کا مقصد جو کہ اعلان غائبین ہے، اس میں فوت ہوجاتا ہے، لیکن مائک کے ذریعہ اذان دینے کی صورت میں آواز غائبین تک پہنچ جاتی ہے، اور اذان کا مقصد حاصل ہوجاتا ہے، لہٰذا مائک سے  مسجد کے اندر بھی اذان دینا مکروہ اور خلاف سنت نہیں ہے۔ البتہ اگر حدود مسجد کے باہر اذان دینے کے لیے مناسب جگہ ہو، یا اذان خانہ بنا ہوتو وہیں سے اذان دینا چاہیے، تاکہ لاؤڈ اسپیکر وغیرہ سے مسجد کی جگہ مشغول نہ ہو۔

والأذان إعلام الغائبین۔ (السعایۃ : ۲/ ۳۳)

الأذان ہو لغۃ الإعلام وشرعا إعلام مخصوص۔ (شامي، کتاب الصلوۃ، باب الأذان کراچی ۱/ ۳۸۴، زکریا ۲/ ۴۷) 

وینبغي أن یؤذن علی المئذنۃ، أو خارج المسجد، ولا یؤذن في المسجد، والسنۃ أن یؤذن في موضع عال یکون أسمع لجیرانہ، ویرفع صوتہ۔
(عالمگیری، باب الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان، زکریا قدیم ۱/ ۵۵، جدید ۱/ ۱۱۲،)

واعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجدمطلقا کما فہم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ۔ (إعلاء السنن، أبواب الجمعۃ، باب التأذنین عند الخطبۃ کراچی ۸/ ۶۹، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۸/ ۸۷)

2) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت عمر ؓ کے آخری زمانہ تک جمعہ کے لئے صرف ایک اذان ہوا کرتی تھی، اور یہ اذان امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد امام کے روبرو مسجد نبوی کے دروازہ پر دی جاتی تھی، جسے مسجد کے اندر کے لوگ بھی سنتے تھے اور باہر آبادی کے لوگ بھی سنتے تھے جیسا کہ حضرت سائب بن یزید ؓ کی روایت سے واضح ہوتا ہے۔

حضرت سائب ابن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر بیٹھ جاتے تو آپ کے سامنے اذان کہی جاتی۔

عن سائب بن یزید قال : کان یؤذن بین یدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وأبی بکر وعمر۔ (ابو داؤد شریف، کتاب الصلوۃ ، باب النداء یوم الجمعۃ، النسخۃ الہندیۃ۱/۱۵۵، دارالسلام رقم: ۱۰۸۸)

پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی، اور صرف خطبہ والی اذان سب لوگوں کے جمعہ میں شرکت کے لئے کافی نہ رہی، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اذان کا اضافہ فرمایا جو پہلی اذان کے نام سے مشہور ہے، اور اس اذان کا سلسلہ مسجد نبوی سے باہر مقام ’’زوراء‘‘ سے ہوا ہے، جہاں سے اذان کی آواز سب جگہ پہنچ جایا کرتی تھی، اور پھر خطبہ کی اذان امام کے سامنے منبر کے پاس دئیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ چنانچہ دور صحابہ سے لے کر ائمہ مجتہدین، سلف و خلف سے تواتر و توارث کے  ساتھ آج تک جاری ہے۔

صاحب فتاوی رحیمیہ اس مسئلہ کو مزید وضاحت کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں :

اذان دو مقصد کے لئے کہی جاتی ہے۔

1) عام اور غائبین لوگوں کے لئے۔
2) خاص حاضرین کے لئے۔
پہلی اذان عام اعلان ہے تاکہ غائبین مطلع ہوں یہ اذان مسجد میں کہنا مکروہ ہے، اور دوسری  اذان  جو خطیب کے سامنے کہی جاتی ہے اور اقامت جو نماز کے وقت کہی جاتی ہے، یہ دونوں خاص حاضرین کے لئے ہیں ان کا  مسجد میں کہنا ہرگز مکروہ نہیں۔

مراقی الفلاح میں ہے والاذان بین یدیہ جریٰ بہ التوارث(کالا قامۃ) بعد الخطبۃ (مراقی الفلاح ص ۱۰۳ باب الجمعۃ)

اس عبارت میں دوسری اذان کو جو بوقت خطبہ منبر کے  پاس خطیب کے سامنے دی جاتی ہے اس کو اقامت کے مانند قرار دیا ہے، جس طرح اقامت مسجد میں اور عموماً صف اول میں دی جاتی ہے اور اس کو کوئی مکروہ نہیں کہتا اسی طرح یہ اذان بھی مسجد میں خطیب کے سامنے کہی جاتی ہے اور سلف و خلف کا یہی معمول اور طریقہ چلا آرہا ہے جس کی طرف جریٰ بہ التوراث سے اشارہ کیا ہے) لہٰذا یہ اذان اور اقامت مسجد میں کہنا ہر گز مکروہ نہیں کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے یعنی حاضرین کو متوجہ اور مطلع کرنا، غائبین سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور بعض کتابوں میں عند المنبر (منبر کے پاس) کا لفظ آیا ہے، عینی شرح ہدایہ میں ہے :
فی الاصح لحصول الاعلام بہ (ای اذان المنارۃ) لانہ لو انتظر الاذان الثانی عند المنبر تفوتہ السنۃ وربما لا یدرک الجمعۃ لبعد محلہ وھو اختیار شمس الائمۃ (عینی شرح ہدایہ ص ۱۱۴ایضاً)

پس معلوم ہوا کہ خطبہ کی اذان منبر کے  قریب کہنا مسنون اور مستحب ہے، درج ذیل عبارت فقہاء اس پر دلالت کرتی ہیں، جو لوگ اسے مکروہ کہتے ہیں انھوں نے ان عبارات کا صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا یا پھر اسے سمجھتے ہی نہیں۔ تاہم اگر مسجد اتنی بڑی ہے کہ اندر اذان  دینے سے باہر صحن میں لوگوں کو سنائی نہیں دیتی ہے، تو امام کے روبرو ہوکر باہر اذان دینا بھی بلاکراہت درست ہے۔

وإذا صعد الإمام المنبر جلس وأذن المؤذنون بین یدی المنبر۔ (ہدایۃ، کتاب الصلوۃ، باب الصلوۃ الجمعۃ، أشرفي دیوبند ۱/ ۱۷۱)

فإذا جلس الإمام علی المنبر أذن بین یدیہ قائما۔ (ملتقی، کتاب الصلوۃ، باب الجمعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۵۳، الدرالمختار، کتاب الصلوۃ، باب الجمعۃ، کراچی ۲/ ۱۶۱، زکریا ۳/ ۳۸، مصري ۱/ ۶۰۷، عالمگیری، کتاب الصلوۃ، الباب السادس عشر في صلوۃ الجمعۃ، زکریا قدیم ۱/ ۱۴۹، جدید ۱/ ۲۱۰، صغیري قدیم، ص: ۲۸۱، کبیري، باب صلوۃ الجمعۃ، أشرفیہ دیوبند، ص: ۵۶۰) 
مستفاد : فتاوی قاسمیہ، فتاوی رحیمیہ) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
17 جمادی الآخر 1439

1 تبصرہ: