اتوار، 28 اکتوبر، 2018

فرض نماز اور سنن و نوافل کے بعد اجتماعی دعا کا حکم

*فرض نماز اور سنن و نوافل کے بعد اجتماعی دعا کا حکم*

سوال :

مفتی مکرم
فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا اور بریلوی مسلک سے سنن و نوافل کے بعد اجتماعی دعائے ثانی کے متعلق شریعت کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں..
اور اس ضمن میں حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا کیا طریقہ کار ہوا کرتا تھا؟
(المستفتی : مختار انصاری، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن مجید و حدیث شریف میں دعا کرنے کی بڑی تاکید و فضیلت آئی ہے ۔

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔ (سورہ بقرہ، آیت : 186)
ترجمہ : اور میرے بندے آپ سے میرے متعلق دریافت کریں پس بے شک میں قریب ہوں دعا کرنے والے کی دعا میں قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے ۔

اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ۔ (سورہ مؤمن، آیت : 60)
ترجمہ: مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت (دعا) سے سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب (مرتے ہی) ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے ۔

اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔ (سورہ اعراف، آیت : 55)
ترجمہ: تم اپنے رب سے عاجزانہ اور خفیہ دعاء کرو بے شک خدا تعالیٰ حد ادب سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

احادیث مبارکہ میں بھی دعا کی بہت فضیلت اور تاکید آئی ہے ۔

عن انس رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺ الدعاء مخ العبادۃ ۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۱۹۴ کتاب الدعوات)
ترجمہ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا دعاء عبادت کامغز ہے ۔

عن النعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺالدعاء ھو العبادۃ ثم قرأ وقال ربکم ادعونی استجب لکم رواہ احمد والترمذی وابوداؤد والنسائی وابن ماجہ (مشکوٰۃ شریف ص ۱۹۴ ایضاً)
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا دعا ہی عبادت ہے پھر رسول اﷲﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی وقال ربکم…اور فرمایا تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا ۔

عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺلیس شئی اکرم علی اﷲ من الدعاء ۔ (رواہ الترمذی) مشکوٰۃ شریف ص۱۹۴ کتاب الدعوات۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا ﷲ کے نزدیک دعاء سے بڑھ کر کوئی معزز اور مکرم چیز نہیں ہے ۔

عن سلمان رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ ﷺان ربکم حیی کریم یستحی من عبدہ اذا رفع یدیہ الیہ ان یردھما صفراً رواہ الترمذی (مشکوٰۃ شریف ایضاً ص۱۹۵)
ترجمہ:حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا تمہارا رب شرم والا اور کریم ہے اپنے بندے سے شرم کرتاہے، جب وہ اپنے ہاتھوں کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے ۔

ان آیات و احادیث کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو اچھی طرح سے دعا کی اہمیت اور فضیلت کا علم ہوجائے، اور علم کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے، لہٰذا ہمیں زیادہ سے زیادہ دعا کا اہتمام کرنا چاہیے، اور دعا کا کوئی موقع نہیں چھوڑنا چاہیے، اسی طرح قبولیت دعا کے موقع پر خاص طور پر اس کا اہتمام کرنا چاہیے ۔

اب آتے ہیں اصل مسئلہ کی طرف
حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ فرض نمازوں کے بعد جو دعا کی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے ۔
حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی ۔

قيل لِرسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم
أيُّ الدُّعاءِ أَسْمَعُ ؟ قَالَ :جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ ، وَدُبُرَ الصَّلَواتِ ۔ رواه الترمذي ،وقال (حديث حسن)

ایک حدیث شریف میں اس طرح آیا ہے :
حضرت سائب بن یزید ؓ اپنے والد (یزید بن سعید) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب دعا کرتے تھے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے اور دعا کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیر لیتے تھے ۔

عن السائب بن یزید عن أبیہ، أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم کان إذا دعا فرفع یدیہ، مسح وجہہ بیدیہ۔
(أبوداؤد، الصلاۃ، باب الدعاء، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۰۹، دارالسلام)

ایک روایت میں آپ کا یہ عمل ملتا ہے :
حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اﷲﷺصبح کی نماز پڑھ لیتے تو سلام پھیر کر یہ دعا کرتے اللھم انی اسئلک علماً نافعاً ورزقاًطیباً وعملاً متقبلاً
اس کو احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے نبیل الا وطار میں ہے کہ اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں ۔
عن ام سلمۃ رضی اﷲ عنہما ان النبی ﷺکان یقول اذا صلی الصبح حین یسلم اللھم انی اسئلک علماً نافعاً ورزقاً طیباً وعملاً متقبلا رواہ احمد و ابن ماجہ قال فی النیل ورجالہ ثقات۔ (اعلاء السنن ص ۲۰۲،ص۲۰۳ حصہ سوم)

ایک حدیث شریف میں یہ ملتا ہے :
جو شخص کسی قوم کا امام ہو تو اسے اپنے لئے ہی دعا نہیں کرنی چاہئے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے قوم کی خیانت کی ۔
وَلَا يَؤُمَّ قَوْمًا فَيَخُصَّ نَفْسَهُ بِدَعْوَةٍ دُونَهُمْ فَإِنْ فَعَلَ فَقَدْ خَانَهُمْ ،
(مسنداحمد، ابوداود، ترمذی)

ملحوظ رہے کہ ذکر کردہ تمام روایات معتبر ہیں اور ثبوت استحباب کے لئے کافی وافی ہیں ۔

ان احادیث اور اسی طرح دیگر احادیث سے ثابت ہوتا کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز اور مستحب ہے، اسے خلافِ سنّت یا بدعت قرار دینا بالکل غلط ہے ۔
اس لئے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرض نماز کے بعد دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، اور عملاً فرض نماز کے بعد دعا فرمائی بھی ہے، تو مقتدی حضرات یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیسے دعا نہیں کرتے ہوں گے؟
مزید یہ کہ جب نماز انفرادی ہوگی تو دعا بھی انفرادی ہوگی اور جب فرض نماز باجماعت ادا کی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کے بعد دعا صورۃً اجتماعی ہی ہوجائے گی،
کیوں کہ اصل میں نمازی حضرات نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں نہ کہ دعا کے لیے، اس موقع پر اجتماعیت تو خود بخود ضمناً ہوجاتی ہے۔
بہرحال نماز کے بعد امام و مقتدی سب کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مستحب ہے، اور اس کا اعتراف خود غیرمقلدین کے صف اول کے علماء عبدالرحمن مبارکپوری، نذیر حسین دہلوی، نواب صدیق حسن خان وغیرہ نے بھی کیا ہے، اور جس طرح ہمارے یہاں فرض نماز کے بعد دعا کی جاتی ہے اسی طرح ان کے یہاں بھی بعض مساجد میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے، بندہ نے مجلہ "اہل حدیث" کے کسی شمارہ میں کافی پہلے یہ بات پڑھی تھی، اور اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ جن مساجد میں نماز کے بعد دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ بند نہ کریں، اور جہاں نہیں ہوتی وہ لوگ شروع نہ کریں، فی الحال مجلہ میرے پاس محفوظ نہیں ہے، ورنہ بطور حوالہ اس کا شمارہ نمبر ضرور درج کرتا، بہرحال یہ بات بندہ کے ذہن میں بالکل اچھی طرح سے پیوست ہے، جس کے غلط ہونے کا امکان نہ کے برابر ہے ۔
درج بالا تفصیلات سے امید ہے کہ یہ بات واضح ہوگئی ہو کہ فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا جائز اور مستحب ہے، اور اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا کیا عمل ہوا کرتا تھا ۔

البتہ فرض نمازوں کے بعد دعا کرنے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔

جن نمازوں کے بعد سنن ونوافل ہوں تو ان نمازوں کے بعد مختصر دعا کرنا چاہئے، بقیہ نمازوں میں طویل دعا کرنے کی گنجائش ہے ۔ دعا آہستہ کرنا افضل ہے، اور اگر دوسرے نمازیوں کو خلل نہ ہو تو جہراً دعا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
(مستفاد: فتاوی محمودیہ، قدیم ۲/ ۱۷۳، جدید ڈابھیل ۵/ ۶۹۲، فتاوی رحیمیہ قدیم ۱/ ۱۸۳، جدید زکریا ۶/ ۵۵)

اسی طرح اس وقت دعا کو ضروری سمجھنا بھی صحیح نہیں ہے، اور نہ ہی مصلیان دعا میں امام صاحب کی اقتداء کے پابند ہیں، امام صاحب سے پہلے دعا شروع کرسکتے ہیں اور پہلے ختم بھی کرسکتے ہیں، اور بعد میں شروع کرکے بعد میں بھی ختم کرسکتے ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ نمازوں کے سلام پھیرنے کے بعد دعا سے پہلے چلے جانے والوں پر نکیر کرنا بھی درست نہیں، اس لئے کہ دعا نماز کا جزو نہیں ہے، لہٰذا مصلیان کو اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے ۔

قال الطیبي: وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزما، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في التشہد، إمدادیہ ملتان ۲/ ۳۵۳، شرح الطیبي، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في التشہد کراچی ۳/ ۳۷۴، رقم: ۹۴۲)

الإصرار علی أمر مندوب یبلغہ حد الکراہۃ۔ (سعایہ ۲/ ۲۶۵،)

٢) مسنون اور مستحب یہ ہے جیسا کہ اوپر گذرا کہ فرض نماز جماعت سے پڑھی ہے تو نماز کے بعد دعا بھی جماعت کے ساتھ کی جائے یعنی امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگیں اور سنتیں اور نفلیں الگ الگ پڑھی ہیں تو دعا بھی الگ الگ مانگیں، سنن اور نوافل کے بعد فاتحہ اور دعاء ثانی کا طریقہ خلاف سنت ہے، بے اصل، منگھڑت اور بلا دلیل ہے، الگ الگ سنتیں اور نفل پڑھنے کے بعد سب کا اکٹھا ہونا اور اکٹھے ہو کر دعا مانگنا نہ آنحضرت ﷺ کی کسی عمل اور فرمان سے نہ صحابہ و تابعین ،تبع تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی کے قول و عمل سے ثابت ہے۔
احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ سنن گھر جا کر پڑھتے تھے اور صحابہ ؓ کو بھی یہی ہدایت فرماتے، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے مسجد بنی اشہل میں نماز مغرب ادا فرمائی، نماز کے بعد دیکھا کہ جماعت میں شریک ہونے والے مسجد میں سنتیں اور نفلین پڑھ رہے ہیں ، فرمایا یہ نمازیں تو گھر میں پڑھنے کی ہیں ۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی ) (مشکوٰۃ شریف ص ۱۰۵ باب سنن وفضائلھا)

بہرحال جب یہ ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ ٔ کرام اکثر وبیشتر سنتیں گھر جا کر ادا فرماتے تھے تو امام و مقتدی کامل کر باجماعت دعاء مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیا سنتیں گھر میں پڑھ کر دوبارہ مسجد میں جمع ہوتے تھے؟ اور جماعت کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے؟ دعا مانگنے کے لئے گھر سے مسجد میں آنا تو در کنار واقعہ یہ ہے کہ کبھی کسی مصلحت یا ضرورت کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کو مسجد میں سنتیں پڑھنے کا اتفاق ہوا تب بھی آپ ﷺ نے مقتدیوں کے ساتھ مل کر دعا نہیں فرمائی، بلکہ آنحضرت ﷺ سنتوں میں مشغول رہتے اور مقتدی اپنی اپنی نمازوں سے فارغ ہوکر آنحضرت ﷺ کی فراغت کا انتظار کئے بغیر ایک ایک کرکے چلے جاتے، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ بعد نماز مغرب سنتوں میں اتنی طویل قراء ت فرماتے تھے کہ مصلی مسجد سے چلے جاتے تھے(ابوداؤد شریف ص ۱۹۱ج۱ باب رکعتی المغرب این تصلیان)
کان رسول اﷲ ﷺیطیل القراء ۃ فی الرکعتین بعد المغرب حتی یتفرق اھل المسجد۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ایک شب میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر رہا آپ ﷺ نے عشاء کی نماز پڑھی پھر نماز میں مشغول ہوگئے، یہاں تک کہ مسجد میں سوائے آپ ﷺ کے کوئی باقی نہ رہا۔ (شرح معانی الآثار ص ۲۰۱ج۱ باب التطع فی المساجد)
اس سے بھی ثابت ہوا کہ سنن ونوافل کے بعد امام ومقتدی کے مل کر دعا مانگنے کا دستور تھا ہی نہیں، لہذا یہ دستور اور طریقہ خلاف سنت ہے اس کو ترک کرنا لازم ہے. (بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ اردو جلد اول ص ۲۱۵، ص۲۱۶،ص۲۱۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الاول 1439

7 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ اللہ
    جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب

    اس مسئلہ میں مفتی طارق مسعود صاحب کا ایک بیان سنا تھا جس میں وہ فرض نماز کے بعد دعا کے قائل نہیں ہیں ایسا بیان دیا ہے ۔

    نیچے لنک شئیر کررہا ہوں

    https://www.facebook.com/100047957839766/videos/4806867472761102/



    جواب دیںحذف کریں
  2. مفتی طارق مسعود صاحب نے بھی بالکل ایسی ہی بات کہی تھی کہ لازمی نا قرار دیا جائے باقی استحباب کے درجے کہ وہ بھی قائل ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. جزاک اللہ خیراً کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
  4. حنفی مسلک کے نزدیک فرض نماز کے بعد اجتماعی دُعا کرنا ہیں کیا ؟

    جواب دیںحذف کریں
  5. آپ کے جواب کا طالب ہو؟

    جواب دیںحذف کریں