جمعرات، 18 اکتوبر، 2018

آٹھویں ذی الحجہ کو منی میں قیام کا حکم

*آٹھویں ذی الحجہ کو منی میں قیام کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اس سال ویٹنگ والے عازمینِ حج سے یہ لکھ کر لیا جارہا ہے کہ ان کو منی سے باہر قیام مل سکتا ہے، تو اگر ایسا ہوا تو حج کا کیا حکم ہوگا؟
کچھ تفصیل سے رہنمائی فرمائیں.

(المستفتی : طارق نعیم، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عام حالات میں
آٹھویں ذی الحجہ کو حجاج کے لئے تین باتیں مسنون ہیں: (۱) مکہ معظمہ سے منیٰ جانا (۲) منیٰ میں پانچ نمازیں : ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور نویں ذی الحجہ کی فجر اداکرنا (۳) رات کا اکثر حصہ منیٰ میں گذارنا.
اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اس سنت کو ترک کردے، یعنی منی میں ٹھہرنے کا انتظام ہونے کے باوجود وہاں نہ ٹھہرے، تو وہ کراہتِ تحریمی کا مرتکب ہوکر گنہگار ہوگا، دم وغیرہ کچھ بھی واجب نہیں ہوگا، لیکن اگر منی میں قیام کا انتظام نہ ہوسکے، جیسا کہ صورت مسئولہ میں ویٹنگ والے حجاج کا حکومتی پابندی اور قانون کی وجہ سے حدودِ منی کا قیام چھوٹ سکتا ہے، تو اس ترکِ سنت کی وجہ سے نہ تو ان پر کوئی دم واجب نہ ہوگا، اور نہ ہی حج میں کوئی خرابی آئے گی، اور چونکہ قصداً یہ سنت ترک نہیں کی ہے، اس لئے امید ہے کہ گنہگار بھی نہ ہوں گے.

فکل من الخروج یوم الترویۃ الی منیٰ واداء الصلاۃ الخمس بہا، والمبیت بہا اکثر اللیلۃ سنۃ۔ (غنیۃ الناسک ۱۴۶، ومثلہ فی الدر المختار مع الشامی زکریا ۳؍۵۱۷، تاتارخانیۃ زکریا ۳؍۵۰۵، مناسک ملا علی قاری ۵۸۷)

ویسن أن یبیت بمنی لیالي أیام الرمي، فلو بات بغیرہا متعمداً کرہ، ولا شيء علیہ عندنا۔ (غنیۃالناسک / باب طواف الزیارۃ ۱۷۹ ادارۃ القرآن کراچی، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۵۳۴ زکریا، أوجز المسالک / البیوتۃ بمکۃ لیالی منی ۳؍۶۴۵ یحیوی سہارنفور، أنوار مناسک ۴۹۷)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: أفاض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من آخر یومہ حین صلی الظہر، ثم رجع إلی منی، فمکث بہا لیالي أیام التشریق، یرمي الجمرۃ إذا زالت الشمس، کل جمرۃ بسبع حصیات، یکبر مع کل حصاۃ، و یقف عند الأولی والثانیۃ، فیطیل القیام، و یتضرع، ویرمي الثالثۃ ولا یقف عندہا۔ (سنن أبي داؤد، المناسک / باب في رمي الجمار ۱؍۲۷۱ رقم: ۱۹۷۳)

ولو بات بمکۃ وصلی بہا الفجر یوم عرفۃ ثم توجہ إلی عرفات ومر بمنی أجزأہ؛ ولکن أساء بترک الاقتداء برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۴۶۷، کذا في الہدایۃ مع فتح القدیر ۲؍۴۶۷ دار الفکر بیروت)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شوال المکرم 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں