پیر، 29 اکتوبر، 2018

سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کی اہمیت و افادیت

*سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کی اہمیت و افادیت*

✍ محمد عامرعثمانی ملی

قارئین کرام ! موجودہ دور انتہائی سخت فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے، آج باطل اسلام اورمسلمانوں کو ہر طرف سے گھیرنے کی پوری کوشش و جدوجہد کررہا ہے، خواہ سیاست ہو یا دینیات، ہرجگہ وہ مسلمانوں کو نہ تو مادی ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی انھیں اپنے دین و شریعت پر آسانی سے عمل کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے، باطل کی ہر وقت یہی کوشش ہے کہ مسلمان نہ تو اپنے دین کا رہے اور نہ دنیا کا ۔اسی کی ایک کڑی حکومتِ وقت کی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہے، اسی طرح اور بھی دیگر تنظیمیں مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور ان کے دین و ایمان کو نیست و نابود کردینے کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔

ایسی سنگین صورتِ حال میں جبکہ ایک بڑا طبقہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے اپنے آپ کو مربوط رکھے ہوئے ہے، ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ باقاعدہ اپنے دینی مسائل کے حل کے لیے علماء کرام سے براہ راست ملاقات کرکے تشفی حاصل کریں، یا انہیں ایسے علماء میسر ہی نہیں ہیں جو ان کی کسی بھی وقت براہِ راست صحیح رہنمائی کرسکیں، اس لئے ایسے لوگوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے ہی دینی رہنمائی حاصل کرنا شروع کردی، (ملحوظ رہے کہ انٹرنیٹ پر اہلِ حق سے زیادہ باطل عقائد کی حامل جماعتوں کے مواد اور لٹریچر موجود ہیں) جس کی وجہ سے ایک صحیح العقیدہ عام مسلمان جب اس طرف بغیر کسی صحیح رہنمائی کے جاتا ہے تو بسا اوقات باطل عقائد کا حامل بن کر اپنا بیش قیمت ایمان لُٹا بیٹھتا ہے ۔ اسی طرح اوربھی بہت سی خرابیاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جو کہ عام طور پر دینی تعلیم سے آراستہ مسلمانوں کو بھی سمجھ میں نہیں آتیں، مثلاً موضوع (من گھڑت) روایات کی بھرمار، یہاں تک کہ موجودہ دور میں بھی باقاعدہ احادیث گھڑی جارہی ہیں، من گھڑت پُرکشش وظائف میں امت کو الجھا کر مستند اور منقول دعاؤں اور وظائف سے امت کو دور کیا جارہا ہے، چنانچہ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے علماء کرام نے اپنی ہزار مصروفیات کے باوجود یہ ایک ذمہ داری بھی سنبھال لی کہ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا کے ذریعے عوام الناس کے ایمان و اعمال کی حفاظت کی جائے اور یہ خدمت بغیر کسی عوظ کے صرف اخلاص اور للہیت کی بنیاد پر کی جارہی ہے، آج آپ دیکھیں گے کہ واٹس ایپ، ٹیلی گرام، فیس بک پر ایسے سینکڑوں گروپس علماء حقہ کے موجود ہیں جو ہزاروں مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، جن میں ملکی سطح پر مشہور علماء مفتی شکیل منصور قاسمی، مفتی جنید پالنپوری، مفتی زبیر ندوی وغیرھم کے فتاوی اور حضرت مولانا شیخ طلحہ بلال منیار، مفتی عبدالباقی اخونزادہ کی احادیث سے متعلق تحقیقات سوشل میڈیا پر کافی مشہور و معروف ہیں ۔

لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ بات لکھی جارہی ہے کہ آج علماء کی صف کے بعض حضرات (جن کی تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے برابر ہے) یا تو لاعلمی میں یا کسی اور وجوہات کی بنا پر سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کو نا درست قرار دے رہے ہیں، اور اس پر پابندی کی باتیں کررہے ہیں، اور اس کی دلیل کے طور پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ سوشل میڈیا پر دئیے جانے والے فتاوی میں رد و بدل، تبدیلی اور تحریف کی جاسکتی ہے ۔ یہ بات سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے افراد ہی بتائیں گے کہ آج تک کتنے فتاوی میں رد و بدل اور تحریف کی گئی ہے؟ گنتی کے ایک دو ایسے نامبارک واقعات پیش آئے ہوں گے، جس کی تردید فوراً بیدار مغز عوام اور علماء کرام کی طرف سے ہو بھی جاتی ہے، یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ یہ چیز زیادہ چل ہی نہیں سکتی، جلد ہی اس کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، ہزاروں فتاوی سوشل میڈیا پر لکھے گئے ہیں ان میں سے اگر ایک آدھ کے ساتھ ایسا کچھ ہوجائے تو کیا یہ اہم کام ہی بند کردیا جائے؟ کیا اسے عقلمندی کہا جائے گا؟ کیا ایسا کرنا شریعت کے مزاج کے مطابق ہے؟ کیا تحریف کرنے والے ہر زمانہ میں نہیں رہے ہیں؟ اہم کتابوں اور خود قرآنِ کریم میں تحریف کی ناپاک کوشش نہیں کی گئی ہے؟ تو کیا کتابوں اور قرآن کریم کی چھپائی بند کردی گئی؟ نہیں نا! تو سوشل میڈیا کے متعلق یہ رویہ کیوں؟ کیا سوشل میڈیا کو باطل کے لئے چھوڑ دیا جائے؟ ان کی تردید نہ کی جائے؟ جی نہیں، بالکل نہیں، عجیب و غریب اعتراض اور اندیشوں کی وجہ سے یہ اہم کام قطعاً بند نہیں کیا جائے گا، بلکہ تحریف سے بچنے کی شکلیں اور صورتیں اختیار کی جائیں گی، ان میں سے یہ ہے کہ بعض اہم فتاوی کی پی ڈی ایف بھی بنالی جائے، اور اسے بلاگ، ٹیلی گرام چینل، فیس بک وغیرہ پر ڈال کر محفوظ کردیا جائے، اورکبھی کسی فتوے میں تحریف کی جائے تو اصل فتوے تک پہنچنا اور حقیقت جان لینا آسان ہو، ان تفصیلات کے بعد مذکورہ اعتراض بالکل بے حیثیت ہوجاتا ہے ۔

سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ جب ایک آدمی گروپ میں کسی مسئلہ سے متعلق سوال کرتا ہے تو دیگر افراد کو بھی اس کا علم ہوجاتا ہے، بعض مرتبہ کسی کو اشکال ہوتا ہے تو وہ مفتی صاحب سے دوبارہ سوال کرکے تشفی حاصل کرلیتا ہے ۔

اسی طرح سوشل میڈیا کے دارالافتاء میں ہر قسم کے سوالات کئے جاسکتے ہیں، احادیث کے متعلق تحقیق، زندگی کے ہرشعبہ سے متعلق سوالات کئے جاتے ہیں، جبکہ مقامی دارالافتاء میں عام طور پر طلاق اور میراث سے متعلق ہی سوالات کئے جاتے ہیں، عبادات اور دیگر شعبہ حیات سے متعلق سوال کرنے میں لوگ جھجکتے ہیں، اور بغیر سوال کئے ہی غلط اعمال میں مبتلا رہتے ہیں، جس کا مشاہدہ ہوا ہے اور اس پرسینکڑوں نوجوان ہمارے مؤید ہیں کہ ان کے بہت سے اعمال کی اصلاح ہوئی ہے، بوقت ضرورت ان حضرات کی تائید بھی ارسال کی جاسکتی ہے ۔

ایک بڑا فائدہ سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کا یہ بھی ہے کہ اس کے لیے امت کا سرمایہ خرچ نہیں ہوتا بلکہ مفتی صاحب کا اپنا ایک ذاتی موبائیل ہوتا ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے پی ڈی ایف، اور یونیکوڈ فائل میں کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہوتا ہے جس کے ذریعے سہولت اور فرصت کے اوقات میں فتوی نویسی کا کام ہوجاتا ہے، باقاعدہ دارالافتاء  کی جگہ خریدنے اور اس میں کتابوں کا ذخیرہ کرنے اور مفتی صاحب کی تنخواہ کا انتظام کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، جس پر امت کا لاکھوں روپیہ خرچ ہوسکتا تھا ۔

تحديث بالنعمت کے طور پر چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا کہ بندہ بھی ایک واٹس ایپ گروپ میں بحیثیت مجیب کے اپنی خدمات دو سال سے زائد عرصے سے انجام دے رہا ہے، اور تقریباً پانچ سو مدلل جوابات لکھ چکا ہے، اور الحمدللہ اس واٹس ایپ گروپ کو استاذِ مکرم حضرت مولانا جمال عارف صاحب ندوی، مشفق و مربی مفتی مسعود اختر قاسمی، مفتی رئیس صاحب، حضرت مولانا امتیاز اقبال صاحب، برادرِ مکرم مولانا عمران اسجد ندوی وغیرھم کی تائید حاصل ہے، (اگرچہ بعض مسائل میں انہیں اختلاف ہو) اسی طرح نواسہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری کی چند دنوں قبل مالیگاؤں آمد ہوئی تھی اس وقت حضرت کے شاگرد رشید مفتی مسعود اختر قاسمی صاحب نے حضرت سے بندے کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا تھا کہ موصوف واٹس ایپ پر دارالافتاء گروپ چلاتے ہیں، حضرت نے ماشاءاللہ کہا اور ایک دو باتیں اور ارشاد فرمائی، لیکن واٹس ایپ پر فتوی نویسی کی تردید نہیں فرمائی ۔ اور نہ ہی کسی اندیشے کا اظہار کیا تھا ۔ جزاھم اللہ احسن الجزاء

اخیر میں مستفتی حضرات سے بھی درخواست ہے کہ وہ فتوی اور فتوی نویسی کی اہمیت کو سمجھیں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، بلکہ یہ بہت اہمیت کا حامل عمل ہے، اور سوشل میڈیا  گروپ کو ایک نعمتِ غیر مترقبہ سمجھیں کہ آپ کو کہیں سے بھی انتہائی آسانی سے جلد از جلد باحوالہ اور مفصل جوابات مل جاتے ہیں تو جوابات کے سلسلے میں قطعاً عجلت نہ کریں اور اسے ہلکا نہ سمجھیں، ساتھ ہی ساتھ مفتیان کرام کی دین و دنیا کے خیر و بھلائی کے لیے دعاگو بھی رہیں ۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے دین کی خدمات کے لیے قبول فرمائے، اور باطل کا نوالہ بننے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

2 تبصرے: