بدھ، 17 اکتوبر، 2018

اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں ڈالنے اور حیعلتین پر دائیں بائیں گردن گھمانے کی مصلحت اور اس کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! اذان دیتے وقت کانوں میں انگلیاں رکھ کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح حی علی الفلاح اور حی علی الصلاح میں دائیں بائیں گردن گھمائی جاتی ہے۔ دونوں میں کیا مصلحتیں ہیں؟
2) اقامت میں حی الفلاح اور حی الصلاح میں گردن گھمانا چاہیے یا نہیں؟
(المستفتی : حافظ مبین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اذان دیتے وقت کانوں  میں  انگلیاں رکھنے اور حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح پر دائیں بائیں گردن گھمانے کی حکمت یہ ہے کہ اس سے  اذان  کی آواز میں تیزی اور بلندی پیدا ہو اور آواز دونوں سمت پہنچے، موجودہ  زمانے میں لاؤڈ اسپیکر پر  اذان  دینے سے اگرچہ یہ حکمت باقی نہ رہی، تب بھی یہ حکم مستحب باقی ہے، کیونکہ  اذان کے وقت  کانوں  میں انگلیاں ڈالنے اور حیعلتین پر دائیں بائیں گردن گھمانے کا عمل تواتر سے ثابت ہے، لہٰذا آج بھی اس پر عمل کیا جائے گا۔ (1)

2) مذکورہ مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، بعض اقامت میں بھی چہرہ پھیرنے کو مسنون کہتے ہیں، جیساکہ صاحب درمختار وغیرہ نے ترجیح دی ہے، اور اسی پر حضرت حکیم الامتؒ نے امداد الفتاویٰ میں فتویٰ دیا ہے، امداد الفتاویٰ میں حضرت کی عبارت درج ذیل ہے :
’’التفاتِ یمین ویسار جیسا اذان میں مسنون ہے، ویسا ہی اقامت میں‘‘ الخ۔ (امداد الفتاویٰ : ۱؍۱۶۶)
اور بعض عدم سنیت کے قائل ہیں، جسے ’’السراج الوہاج‘‘ اور ’’النہر الفائق‘‘ میں اختیار کیا گیا ہے۔
بہرحال اس سے اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ اقامت میں چہرہ پھیرنے کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی اذان میں ہے، اور اس مسئلہ میں سختی مناسب نہیں ہے، جو چہرہ پھیرتا ہو اسے منع نہ کیا جائے اور جو نہ پھیرے اس پر نکیر نہ کی جائے۔ (2)

1) عن سعد بن عمار بن سعد قال : إن رسول اللہ ﷺ أمر بلالاً أن یجعل أصبعیہ فی أذنیہ وقال : إنہ أرفع لصوتک۔ (السنن لإبن ماجۃ : ص؍۵۲، أبواب الأذان ، باب السنۃ فی الأذان)

قال الشامي تحت قولہ : (ویجعل اصبعیہ فی صماخ أذنیہ) لقولہ لبلال : ’’ اجعل اصبعیک فی أذنیک فإنہ أرفع لصوتک ‘‘ ۔ (۲/۴۹؍۵۰، کتاب الصلوٰۃ ، باب الأذان، شامی)

وإنما کان ذلک أبلغ فی الاعلام لأن الصوت یبدأ من مخارج النفس ، فإذا سد أذنیہ اجتمع النفس فی الفم فخرج الصوت عالیاً من غیرضرورۃ۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب الاذان، ۱/۴۵۳)

2) وأطلق في الالتفات، ولم یقیدہ بالأذان، و قدمنا عن القنیۃ: أنہ یحول في الإقامۃ أیضاً، وفي السراج الوہاج: لا یحول فیہا؛ لأنہا إعلام الحاضرین، بخلاف الأذان فإنہ إعلام للغائبین، وقیل: یحول إذا کان الموضع متسعاً۔ (البحر الرائق ۱؍۴۵۰ رشیدیۃ، کذا في النہر الفائق ۱؍۱۷۴ ملتان)

ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقًا یمینًا ویساراً … بصلاۃ وفلاح ولو وحدہ أو لمولود؛ لأنہ من سنۃ الأذان مطلقاً (درمختار) وقال في الشامي: قولہ: وکذا فیہا مطلقاً أي في الإقامۃ، سواء کان المحل متسعاً أو لا۔ (شامی ۱؍۳۸۷ کراچی، ۲؍۵۳ زکریا، مجمع الأنہر ۱؍۱۱۶ بیروت)
مستفاد : کتاب النوازل) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 ذی الحجہ 1439

4 تبصرے:

  1. محمد ساجد رضا
    انڈیا
    7081140846

    جواب دیںحذف کریں
  2. Diwali ki mubarakbad dena kaisa hai iske bare me bataye aaj kal social media me diwali ki mubarakbad ka silsila chal raha hai to aap iske bare me bataye kya ye sahi hai ya galat hai

    جواب دیںحذف کریں
  3. آپ واٹس اپ پر رابطہ فرمائیں اس کا جواب کل ہی لکھا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں