ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

حج یا عمرہ کے لیے جمع کی گئی رقم پر زکوٰۃ کا حکم

*حج یا عمرہ کے لیے جمع کی گئی رقم پر زکوٰۃ کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ حج یا عمرہ کی نیت سے رکھی گئی رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا نہیں؟
اسی طرح اگر جو رقم حج کمیٹی یا ٹور والوں کو ادا کردی اس پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟
اور جو رقم زرمبادلہ کی واپس ملے گی اس پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟
براہ کرم تمام سوالات کے مکمل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : شمس العارفين، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سالانہ زکوٰۃ ادا کرنے کا وقت آگیا ہوتو حج یا عمرہ کی نیت سے رکھے گئے پیسوں پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، اگرچہ حج یا عمرہ کے لیے منظوری آگئی ہو ۔

حج کمیٹی یا پرائیویٹ ٹور میں حج یا عمرہ اسی طرح دیگر تفریحی سفر کے لیے کچھ رقم جمع کردی ہے تو اس رقم پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، اس لئے کہ یہاں اگرچہ مال پر ملکیت باقی ہے لیکن قبضہ جو زکوٰۃ کے واجب ہونے کی شرط ہے نہ ہونے کی وجہ سے اس مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ۔

اسی طرح اگر مکمل رقم جمع کرنے کے بجائے ڈاؤن پیمنٹ کے طور پر کچھ رقم جمع کی ہے، اور بقیہ رقم بعد میں ادا کرنیکی نیت سے اپنے پاس رکھ رکھی ہے، اور وہ مال نصاب تک پہونچتا ہے اور اس پر سال بھی گذر گیا ہے، تو مابقیہ رقم پر زکوٰۃ واجب ہے ۔

لیکن اگر پرائیویٹ ٹور والوں کو نصف رقم دیدی ہے اور بقیہ نصف رقم دینی باقی ہے، اور پرائیویٹ ٹور والوں نے ان کے ٹکٹ اور ہوٹل بکنگ وغیرہ کروادیئے ہیں تو مابقیہ رقم حاجی یا سیاح پر قرض ہوگئی جس کا اسے پرائیویٹ ٹور والوں کو ادا کرنا لازم اور ضروری ہے، اس لئے اس بقیہ رقم پر زکاۃ واجب نہ ہوگی ۔

البتہ جو رقم زر مبادلہ کی بعد میں واپس ملے گی، اس پر دینِ قوی ہونے کے اعتبار سے زکوٰۃ واجب ہے. جتنی رقم واپس ملے گی اس وقت اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی ۔

إذا أمسکۃ لینفق منہ کل ما یحتاجہ فحال الحول وقد بقی معہ ٗ منہ نصاب فإنہ یزکی ذلک الباقی ، وإن کان قصدہٗ الإنفاق منہ أیضاً فی المستقبل لعدم استحقاق صرفہ إلیٰ حوائجہ الأصلیۃ وقت حولان الحول الخ۔(شامی ، کتاب الزکوٰۃ مطلب في زکوٰۃ ثمن المبیع وفائً زکریا۳/۱۷۹، کراچی ۲/۲۶۲)

عن السائب بن یزید ، قال: سمعت عثمان یخطب وہو یقول: إن ہذا شہر زکاتکم فمن کان علیہ دین فلیؤدہ ، ثم لیؤد زکاۃ مافضل۔ (مصنف عبد الرزاق ، الزکاۃ ، باب الزکاۃ إلا فی فضل ، المجلس العلمی۴/۹۲، رقم: ۷۰۸۶)

فارغ عن الدین والمراد دین لہ مطالب من جہۃ العباد سواء کان الدین لہم أو ﷲ تعالیٰ ۔ (مجمع الأنہر ، کتاب الزکاۃ ، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱/۲۸۶، مصری قدیم۱/۱۹۳، شامی، کتاب الزکاۃ ، مطلب الفرق بین السبب والشرط)

ومنہا الملک التام ہو ما اجتمع فیہ الملک والید وأما إذا وجد الملک دون الید کالصداق قبل القبض أو وجد الید دون الملک کملک المکاتب والمدیون لاتجب فیہ الزکوٰۃ الخ۔ (ہندیہ، کتاب الزکوٰۃ ، الباب الأول فی تفسیر ہا وصفتہا وشرائطہا۱/۱۷۲، جدید ۱/۲۳۳، ومثلہ فی الجوہرۃ النیرہ ، کتاب الزکوٰۃ ، دارالکتاب دیوبند۱/۱۳۹)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 شعبان المعظم 1439

3 تبصرے: